زبان ماضی کے ورثے کی اہمیت
سندھ میں ہر دور میں اعلیٰ پائے کے شاعر اور ادیب زبان کے فروغ میں مصروف رہے۔
سندھی دنیا کی قدیم ترین زبان ہے، زبان کی خوبصورتی اس کے لوک ادب کے مربوط حصے میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ سندھی زبان میں موجود لوک ادب کے ورثے کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا حصہ نثری ادب کا ہے جب کہ دوسرا حصہ شاعری پر مشتمل ہے۔ لوک ادب عام لوگوں کے جذبات واحساسات کی ترجمانی کرتا ہے جو زبان کے خالص پن و ثقافت کو زندہ رکھنے کا ذریعہ کہلاتا ہے۔
لسانیات کے ماہرین کے مطابق ''اس قدیم زبان نے سنسکرت، پراکرت، پالی، اپھرنش، شورسینی اور واچڈ سے علیحدہ ہوکر گیارہویں صدی میں موجودہ صورت اختیارکی ہے'' یہ حقیقت ہے کہ زبان سے کلہوڑہ دور، سندھی زبان کے فروغ کے حوالے سے اہم دور گردانا جاتا ہے۔ صوفی شاعری کا اہم حصہ سندھی زبان کا قیمتی اثاثہ ہے۔
سندھ میں ہر دور میں اعلیٰ پائے کے شاعر اور ادیب زبان کے فروغ میں مصروف رہے۔ جن میں شاہ عنایت صوفی، شاہ عبداللطیف بھٹائی، حضرت سچل سرمست، خواجہ محمد زمان لنواری والے ودیگر شعرا شامل ہیں۔ ہر دور میں نایاب قلمی نسخے، درسی کتب و تاریخی مواد عہد حاضر کے ادب کو بنیاد فراہم کرتے رہے۔ خاص طور پر شاہ عبداللطیف بھٹائی نے سندھی زبان کو نیا انداز لب و لہجہ عطا کیا۔ جس میں لوک ادب، تصوف اور فلسفے کی گہرائی پائی جاتی ہے۔ یہ سندھ کے فن و فکر کی گہرائی تھی جس نے بیرون دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔
سندھ قدیم زمانے میں فن و فکر، زراعت و تجارت کا مرکز رہی ہے۔ ہر دور میں سندھ میں سیاح آتے رہے جن میں یونانی، عرب، چینی، ترک، افغانی اور مغربی سیاح شامل ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ سکندر مقدونی کے بعد سب سے پہلے پورچوگیز سمندری ڈاکو سمندری راستے سے داخل ہوئے اور خوب لوٹ مار مچائی۔ جس کے بعد مغربی سیاح، مغل دور حکومت میں برصغیر میں داخل ہوئے۔ سندھ میں 1612ء میں انگریزوں نے سوات میں پہلی تجارتی کوٹھی قائم کی۔ انگریز بیوپاریوں نے کپڑے کی تجارت کو نقصان پہنچایا جس پر سندھی بیوپاریوں نے شدید احتجاج کیا۔
1612ء کی قحط سالی کے بعد انگریزوں نے واپسی کی راہ لی، سندھ کے کپڑے کی یورپ میں مانگ تھی لہٰذا رابرٹ سمیٹن نے اس وقت کے حاکم میاں غلام شاہ کلہوڑو کو باہمی تجارت کے لیے راضی کرلیا۔ کلہوڑو دور، فن و فکر اور سندھی زبان کی ترویج کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ اسی دور میں سندھ کے آبپاشی نظام میں بہتری آئی۔ خاص طور پر ٹھٹھہ علم، ادب اور فنون لطیفہ کا گہوارہ تھا۔ جس کے لیے سیاح لکھتے ہیں ''ٹھٹھہ شہر سیاست، لسانیات، دینیات، تعلیم و تدریس میں مشہور تھا۔ یہاں پر اس زمانے میں چار سو کالجز تھے۔''
1843ء میں انگریزوں نے سندھ کو فتح کیا لیکن جلد ہی سندھ کا الحاق بمبئی سے کردیا گیا۔ تعلیم کی ترقی کی خاطر 1845ء میں بمبئی بورڈ آف ایجوکیشن نے سندھ میں ایجوکیشنل ایجنسی قائم کرنے اور سندھی زبان کو سندھ صوبے کی سرکاری زبان بنانے کا ارادہ ظاہرکیا۔ 1851ء میں سندھ کے کمشنر سر بارٹل فریئر نے حکم نامہ جاری کیا۔ سندھی زبان کے رسم الخط ترتیب دینے کی غرض سے اسسٹنٹ کمشنر مسٹر ایلس کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو دو یورپی عالموں اور آٹھ مقامی عالموں پر مشتمل تھی۔ غوروفکر کے بعد سندھی زبان کے لیے عربی، سندھی، املا وضع کی۔ لہٰذا 1853ء میں سندھی زبان کے لیے سندھی رسم الخط مقررکیا گیا جس کے بعد سرکاری طور پر تحریری رابطے کے لیے سندھی زبان کے سفارش کی حتمی اور اسے تعلیم کا ذریعہ بنادیاگیا۔
سر ہینری بارٹل فریئر نو سال سندھ میں رہا۔ اس نے سندھی زبان کے فروغ کے لیے خصوصی دلچسپی لی۔ 1857ء میں فریئر نے انتظامیہ کو پابند کیا کہ سندھی کے علاوہ کسی اور زبان میں درخواستیں لکھنے سے گریزکیا جائے۔ بارٹل فریئر نے اسکول قائم کیا۔ کچھ ہی عرصے میں دس اسکول اور ایک ٹریننگ کالج کا انعقاد کیا گیا۔ فریئر نے سندھ میں روڈ بنوانے کے ساتھ جدید پوسٹ کا نظام متعارف کروایا۔ سندھ میں ریلوے نظام، کراچی پورٹ کی تعمیر، آبپاشی نظام کی بہتری، تجارتی میلوں کے آغاز میں اہم کردار ادا کیا۔ جب کہ ایک عام تاثر یہ ہے کہ انگریزوں نے سندھ میں قیام کے دوران اپنی سہولت کے لیے ترقیاتی کام کروائے مگر یہ حقیقت ہے کہ سندھ کے ادب و شاعری کے تراجم کرنے والے غیر ملکی محقق تھے۔ جن میں ڈاکٹر ارینسٹ ٹرمپ، ڈاکٹر ایچ ٹی مورلے، سر رچرڈ، فرانسز برٹن، ایلسا قاضی، این میری شمل اور سرہینری بارٹل فریئر سر فہرست ہیں۔
سر ہینری بارٹل فریئر کی خدمات سندھی زبان کے فروغ کے حوالے سے تاریخ کے باب میں روشن حروف سے لکھی ہوئی ہیں۔ فریئر 29 مارچ 1815ء میں بریک ناک میں پیدا ہوئے۔ ہیلری کالج اور ایمپیریل سروس کالج سے تعلیم حاصل کی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازمت کے بعد ہندوستان میں تعینات کیے گئے۔ فریئر یونانی، لاطینی اور ہندوستانی زبانیں جانتے تھے۔ کراچی میں واقع فریئر ہال آج بھی ان کی یاد دلاتا ہے۔
فریئر ہال کی بلڈنگ 1865ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ یہ عمارت سازی کی بہترین یادگار ہے جو اس وقت سندھ کی علمی، ادبی، ثقافتی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ یہ سرگرمیاں پاکستان بننے تک جاری رہیں۔ برطانوی اقتدار کے خاتمے پر اس عمارت کو لائبریری میں تبدیل کردیاگیا۔ جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس کا شمار کراچی کے بڑے کتب خانوں میں ہوتا ہے جن میں نایاب قلمی نسخے بھی شامل ہیں۔
ہمارے ملک میں مطالعے کا رجحان دم توڑتا جا رہا ہے۔ کتاب سے محبت کرنے والی اقوام آج دنیا پر حکمرانی کررہی ہیں۔ ہماری سماجی زندگی میں موبائلز اور کمپیوٹرز کا دور دورہ ہے۔ حالانکہ کتاب پڑھنے سے نہ فقط یکسوئی بڑھتی ہے بلکہ تصوراتی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپ اس بات سے اندازہ لگاسکتے ہیں جس قوم کے کتب خانے اور باغات ویران اور مالز و ریسٹورنٹ آباد ہوں اس کی ذہنی حالت حالت کیا ہوگی۔ تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ اس تاریخی عمارت کو ایک این جی او کے حوالے کرنے کی خبریں گردش میں ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو فریئر ہال کا وسیع و عریض سرسبز باغ بچوں اور نوجوانوں کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔ قدیم درختوں میں گھری ہوئی عمارت، خوبصورت منظر پیش کرتی ہے۔ ہر اتوار کو کتابوں کی نمائش لگتی ہے جو کتاب پڑھنے والوں کو دور سے کھینچ لاتی ہے۔ ہم ماضی کے ورثے سنبھال کے رکھنے کے بجائے ان عمارتوں کو نئے ناموں سے پکارنے لگ جاتے ہیں۔ خالق ڈنو ہال، ہندو جیم خانہ، تھیوسو فیکل ہال،این جی وی و دیگر عمارتیں یا تو وفاقی اداروں کے حوالے کردی گئیں یا پھر انھیں تحویل میں لے لیا گیا۔
کراچی میں اس وقت بہت سی خستہ حال پرانی عمارتیں ہیں جو عمارت سازی کے حوالے سے انفرادیت کی حامل ہیں۔ جنھیں مرمت کے بعد کتب خانوں اور عجائب گھر میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ سری لنکا میں تفریحی مقامات، ریسٹورنٹ و مندروں کے قریب ایک چھوٹا سا عجائب گھر ضرور نظر آتا ہے جن میں پرانے دور کی گاڑیاں، نوادرات، مشہور شخصیات کی استعمال شدہ اشیا، زیورات، برتن ودیگر اشیا محفوظ کردی گئی ہیں۔ دنیا بھر میں کئی شہر ایسے ہیں جن کی اصلیت کو قائم رکھا گیا ہے۔ تاکہ نئی نسل کا رابطہ ماضی سے بحال رہے۔ ایک ہم ہیں کہ ماضی کی نشانیاں مٹانے پر تلے ہوئے ہیں۔