سب کو معلوم ہے کون جیتے گا
لگتا یوں ہے کہ پنجاب میں بڑی سیاسی جماعتیں شہروں میں ایک دوسرے کا گریبان کھینچیں گی۔
جن کے سر پر عشق کا بھوت سوار ہے وہ نکال کر پھینک دیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ سچ کی بنیاد پر منزلوں کو چھولیں گے وہ ہاتھ میں تسبیح لے کر تنہائی کو اپنا مستقل ساتھی بنا لیں۔ سیاست کا میدان ہو یا عوامی سیاست، یہاں سر آئینہ میرا عکس ہے اور پس آئینہ کوئی اور ہے۔ پرانے نعروں کو نئی بوتل میں بیچنے کا وقت آ چکا ہے۔ پرانے گانے ایک بار پھر ''ری مکس'' کر کے ناچ شروع کر دیے گئے ہیں۔ تماشہ لگ چکا ہے، مارکیٹنگ زور و شور سے جاری ہے۔ کئی گمنام اب بڑے بڑے نام کی شکل اختیارکرنے والے ہیں۔
نئی حلقہ بندیاں ہو چکی ہیں۔ لگتا یوں ہے کہ پنجاب میں بڑی سیاسی جماعتیں شہروں میں ایک دوسرے کا گریبان کھینچیں گی، جب کہ روایتی حلقے آزاد گروپس اور اتحادوں کی نذر ہو جائیں گے، مگرکراچی کا معرکہ دلچسپ صورت اختیارکرتا جا رہا ہے۔ متحدہ قومی مومنٹ کے بکھر جانے کے بعد یہاں کی سیاست میں سارے ہی شکاری کود پڑے ہیں۔ کراچی کا ووٹرکیا سوچ رہا ہے اور سیاسی جماعتیں کیا کر رہی ہیں۔ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہم نے کراچی کے تمام حلقوں میں عوامی ملاقاتیں کی ہیں۔ یہاں عوامی ملاقاتوں سے مراد سیاسی جلسے نہیں بلکہ یہاں کے چائے کے ہوٹل سے لے کر مختلف لسانی اور مذہبی اکائیوں سے ملاقات ہے۔
کراچی جس کی آبادی کی گنتی اور اندازوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ گنتی یعنی مردم شماری یہ بتاتی ہے کہ اس شہر کی آبادی 2 کروڑ سے بہت کم ہے، جب کہ تمام سیاسی جماعتوں سے لے کر عوامی سطح پر یہ ہی کہا جاتا ہے کہ اس کی آبادی ڈھائی کروڑ سے زیادہ ہے۔
حالیہ کہانی کو شروع کر تے ہیں۔ اس شہر کی سب سے بڑی اکائی، اردو بولنے والے۔ ہم لاکھ اختلاف کریں لیکن اس شہر میں لسانی اور مذہبی بنیادوں پر ہمیشہ ووٹ کاسٹ ہوا ہے۔ مہاجر قومی موومنٹ کے قیام کے بعد یہ شہر ہمیشہ اُس کے اثر میں رہا۔ 92ء کے آپریشن میں اس کی تقسیم ہوئی اور ایک حقیقی بنی، مگر آپریشن اور حقیقی بننے کے باوجود اس کا ووٹ کم نہیں ہوا۔ حقیقی نے مہاجر نعرے پر ہی سیاست کی لیکن عوام میں یہ تاثر رہا کہ ان کے پیچھے اعلیٰ اداروں کا ہاتھ ہے۔
شدید تصادم، علاقوں کی تقسیم کے باوجود ایم کیو ایم ان علاقوں سے سیٹ نکالنے میں کامیاب ہوجاتی۔ اردو بولنے والی اکثریت نے حقیقی کو مہاجر نعرہ استعمال کرنے کے باوجود بھاری تعداد میں کبھی کامیاب نہیں کرایا،اس بار صورتحال مختلف ہے۔ متحدہ کے بانی پر مکمل پابندی ہے اور سب سے پہلے پاک سر زمین پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔ ہمیشہ سے یہ بات کہی جاتی رہی ہے کہ ایم کیو ایم کی جیت کی سب سے بڑی وجہ اُس کا تنظیمی نظم وضبط ہے اور اُس کے ساتھ ساتھ کارکنان ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی کے قیام کے لیے مصطفی کمال تو تھے ہی لیکن کارکنان بھی چاہیے تھے اور اس کے لیے انیس قائمخانی ایک بہتر انتخاب تھا۔ متحدہ کارکنان کی ایک بڑی تعداد پاک سر زمین پارٹی میں شامل ہو رہی ہے۔
میں اس بحث میں نہیں حصہ نہیں لینا چاہتا کہ یہ کارکنان کس وجہ سے شامل ہورہے ہیں، مگر اب تک کے دو نکات کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ پہلے حقیقی نے ایم کیو ایم والا نعرہ یعنی مہاجر لفظ استعمال کیا مگر وہ اس طرح عوامی طور پر پنپ نہیں سکی۔ اب پاک سر زمین پارٹی میں متحدہ کی طاقت یعنی کارکنان کو شامل کیا گیا ہے، مگر نعرہ وہ نہیں جو حقیقی نے استعمال کیا تھا۔ایسی صورت میں کیا اردو بولنے والوں کی اکثریت یا پرانی متحدہ قومی موومنٹ کا ووٹر پاک سر زمین پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے تیار ہے؟
کراچی کے وہ تمام علاقے جو متحدہ کے مضبوط مرکز رہے ہیں وہاں ہم نے بات چیت کی۔ پہلی بات یہ سامنے آئی کہ پاک سر زمین پارٹی ہو یا اس وقت متحدہ کا کوئی بھی دھڑا۔ اُس کی عوام میں مقبولیت اُس قدر نہیں ہے جیسے پہلے جماعت کی تھی۔ اکثر لوگوں نے ہم سے یہ کہا کہ سب ''ڈمی'' ہیں۔ دوسری بات آجاتی ہے کارکنان کی۔ مجھے ایک جگہ بیٹھے کارکنان نے کہا کہ سب ''چائنا'' ہے ۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ سب چائنا سے کیا مراد ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ جوکوئی بھی ادھر اُدھر جارہا ہے سب چائنا کارکن ہے۔
میرے لیے یہ لفظ بہت زیادہ نیا تھا۔ بات یہ ہے کہ سابقہ متحدہ قومی موومنٹ کا ووٹر چارج یا متحرک نہیں ہے جوکچھ حد تک حالیہ ضمنی الیکشن تک نظر آرہا تھا۔ اب اس میں دیکھنا یہ ہے کہ چائنا کارکن کس حد تک کردار ادا کر تے ہیں، اگر یہ تینوں گروپس مل جاتے ہیں توکس حد تک دیگر سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچا سکیں گے، اگر یہ تینوں علیحدہ علیحدہ الیکشن لڑتے ہیں توکس کو فائدہ ہوگا؟ میں یہ بات نہیں کہہ رہا لیکن جب میں نے کئی لوگوں سے پوچھا کہ کون جیتے گا؟ تواکثریت نے کہا کہ پہلے تو متحدہ ہی جیتتی تھی لیکن اس بار وہ ہی جیتے گا جس کو ''خاص'' لوگ چاہیں گے، یہ تاثر اچھی بات نہیں ہے۔ تو پھرکراچی میں کس کا ووٹر اورکارکن متحرک ہیں؟ اور وہ کیا کمال کرسکتے ہیں ؟
اس حوالے سے مذہبی جماعتوں کارکن اور ووٹر سب سے زیادہ متحرک ہیں ۔ متحدہ مجلس عمل کیا 2002 میں ہونے والے الیکشن جیسے نتائج دینے میں کامیاب ہوجائے گی ،اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اہم پارٹی جماعت اسلامی ہے ۔ جماعت متحدہ کوکراچی سینٹرل میں خاص مشکل وقت دے گی اور اُس کے ساتھ JUI فضل الرحمان کا ملنا بھی اہم ہے ۔ JUI فضل الرحمان کا زیادہ تر ووٹر پشتون تھا لیکن حالیہ دنوں میں اُس نے ایک بہت بڑی تعداد میں بنگالی اورسرائیکی بولنے والوں کو جگہ دی ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں مزار قائد کے پاس ہونے والے JUI کے جلسے میں یہ قرارداد منظورکی گئی کہ کراچی میں رہنے والے بنگالیوں کو برابرکا شہری تسلیم کیا جائے ۔ یہ خاص طور پر ان جگہوں پر اثرانداز ہوں گے جہاں سے کبھی ANP کبھی MMA اورکبھی تحریک انصاف نے سیٹ نکالی۔ یہاں ان کا مقابلہ اس بار سابقہ سپاہ صحابہ سے بھی ہو گا۔گزشتہ انتخاب میں سپاہ نے دو نشستوں پر بہت سخت مقابلہ کیا تھا ، لیکن سپاہ کی آپس کی تقسیم نے اسے اب اتنا مضبوط نہیں رکھا ہے ۔
ایک اور اہم آمد تحریک لبیک یعنی خادم حسین رضوی کی جماعت کی ہے ۔کیا ان کی آمد بھی ''سنی تحریک'' والی ہوگی۔ جسکے پاس اسٹریٹ پاور تو بہت تھی ، لیکن وہ ووٹر نہیں نکال سکی۔ سنی تحریک کو سب سے زیادہ کھل کرکھیلنے کا موقع 2002 کے الیکشن میں ملا ، متحدہ آپریشن کی وجہ سے کمزور تھی ، لیکن وہ سیٹ نہیں نکال سکی ۔ جس کی سب سے بڑی وجہ ان کا الیکشن کے عمل کو نہ سمجھنا تھا ۔ الیکشن جیتنا ایک آرٹ ہے۔ سنی تحریک اب کمزور ہونے کے علاوہ دوحصوں میں تقسیم ہے ۔
شاہ احمد نورانی کے بعد کراچی میں کوئی بڑا نام زیادہ ووٹ حاصل نہیں کرسکا ۔اس بار تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی ممبرسازی کے لیے کیمپ لگائے ۔ کراچی کے گنجان آباد علاقوں نیوکراچی ، لیاقت آباد ،گارڈن ،کھاردار،کورنگی میں سب سے زیادہ کیمپ تحریک لبیک کے لگے ہوئے تھے ، لیکن لگ یہ رہا ہے کہ یہ سنی تحریک کی طرح ایک اسٹریٹ پاورتو ہوسکتی ہے ۔ مگر ابھی تک یہ الیکشن کے عمل اور ووٹر تک رسائی کے عمل میں وہ ہی غلطی کررہے ہیں جو سنی تحریک نے کی تھی ۔
پیپلزپارٹی اپنی مخصوص تین نشستیں نکالنے میں کامیاب نظر آرہی ہے ، لیکن وہ کوشش کر رہی ہے کہ کم سے کم 3 مزید حاصل کر لے ۔ تحریک انصاف پر میں تفصیل سے اگلے کالم میں بتاؤں گا کہ کیا ہو رہا ہے اورکیا اُس کا ووٹر 2013 کی طرح متحرک ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتاؤں گا کہ پشتون تحفظ تحریک جس میں نقیب کے قتل کے بعد جان آئی ہے وہ کس حد تک اُس شہر میں ووٹرکو تبدیل کرے گی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا میں پشتو بولنے والوں کا سب سے بڑا شہر ہے۔