نیا محاذ
وقت کے ساتھ ساتھ بیانیے کے بنیادوں پر رائے استوارکرنے والے پاکستان کو وسعت ملی ہے۔
چلو اس بار جنوبی پنجاب نے بھی اپنا موقف دے دیا۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ لودھراں نے نوید سنا دی ہے کہ اس دفعہ بیانیہ بنے گا محورکہ کس کو جتانا ہے اورکس کو ہرانا ہے۔ آٹھ ارکان اسمبلی نے مسلم لیگ (ن) کو خیر باد کہہ دیا۔کیا وہ بیوقوف لوگ تھے کہ گھاٹے کا سودا کیا ہوگا؟
مسلم لیگ (ن) کے بغیر اگر وہ جیت سکتے ہیں توکیوں نہیں چھوڑیں گے۔ بلوچستان میں BAP کے نام سے ایک نئی پارٹی بن رہی ہے اور اب جنوبی پنجاب میں علیحدہ صوبے کے نظریے پر بھی ایک نئی پارٹی ابھر رہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے پارٹیاں وہیں بنتی ہیں جہاں نظریے جنم لیتے ہیں اور نظریے وہاں جنم لیتے ہیں جہاں تضادات ہوتے ہیں ۔
اس موجودہ سرائیکی بیلٹ میں ابھرتے نئے گروپ کے لیڈرسابق نگراں وزیراعظم بلخ شیر مزاری ہیں ۔ آپ کے برادر شیربازمزاری کا تو نظریے کے ساتھ تعلق رہا ہے مگر آپ کا نہیں ۔ بلوچستان میں اس سے پہلے کئی پارٹیاں بنیں مگر سب نظریاتی تھیں، لیکن ساؤتھ پنجاب اور بلوچستان میں جو نئی پارٹیاں اس وقت ابھر رہی ہیں وہ نظریاتی نہیں بلکہ اقتدار کے زاویے سے جڑرہی ہیں یہ اور بات ہے کہ دونوں پارٹیوں کو شاید اس نظریے کا لبادہ اوڑھنا پڑے۔
یوں کہیے کہ جہاں جہاں معاشی پسماندگی کا راج ہے وہاں معاشرے میں بھی خاصی پسماندگی ہے۔ جیسے جیسے معاشی قدریں کمزور ہوں گی، وہیں معاشرتی قدریں بھی معذور ہوں گی۔ بنیادی طور پر پاکستان کے دو وجود ہیں ، ایک وہ پاکستان جو بیانیے کی بنیاد پر اپنی رائے بناتا ہے اور اس کو بیلٹ باکس کے ذریعے محفوظ کرتا ہے اور دوسرا پاکستان وہ ہے جو روایت پسندی کا شکار ہے ۔
روایتی اور برادری بنیادوں پر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بیانیے کے بنیادوں پر رائے استوارکرنے والے پاکستان کو وسعت ملی ہے اور روایتی بنیادوں پر رائے بنانے والے پاکستان کی وسعت میں کمی ہوئی ہے ۔ اربن سندھ ، سینٹرل پنجاب، بلوچستان کے پشتون اور ساؤتھ بلوچستان میں کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں ووٹ دینے کی بنیاد بیانیہ ہے، جب کہ دیہی سندھ ، فاٹا اور باقی ماندہ بلوچستان میں ووٹ دینے کی بنیاد روایتی اور قبائلی ہے جہاں ووٹ قبیلہ اور برادری کی بنیادوں پر دیا جاتا ہے اور یہ ابھرتی نئی پارٹیاں انھیں علاقوں سے بن رہی ہیں ۔ اب لازمی سی بات ہے کہ سوالیہ نشان تو آئے گا ۔
سردار بلخ شیر مزاری یا قدوس بزنجو یہ سب آگے جا کر پاکستان پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی سے جڑجائیں گے۔ کل تک PPP بیانیے کے حوالے سے پہچان رکھنے والی ایک Mixed پارٹی تھی یعنی آدھی نظریاتی اور آدھی روایتی اقدارکی ملی جلی پارٹی اور دیہی سندھ جو ہمیشہ سے معاشی اور سماجی اعتبار سے پسماندہ رہا لیکن وہاں ووٹ بیانیہ پر ہی دیا جاتا تھا، لیکن اب دیہی سندھ اپنے بیانیے کی اقدارکو چھوڑ کر روایتی اور برادری اقدارکو ووٹ دینے کی بنیاد بن چکا ہے۔ باوجود اس کے پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ سے کوئی نقصان نہیں پہنچا مگر پیپلز پارٹی سینٹرل پنجاب میں اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ کیونکہ سینٹرل پنجاب کا ووٹ بیانیہ کا ووٹ ہے۔
اس تناظر میں جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ میاں صاحب کے لیے اس بار نہ صرف الیکشن جیتنا آسان ہوگا بلکہ اگر PML(N) حکومت بنا بھی لیتی ہے تو میاں صاحب اس پر اپنا سکہ جما نہ سکیں گے کیونکہ میاں صاحب کے لیے نہ صرف پارٹی کے اندر بلکہ پارٹی سے باہر بھی بہت سے چیلجنز ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام حالات جمہوری عمل کے تحت پیدا ہو رہے ہیں یا پھر غیر جمہوری عمل کے تحت ؟ میرے حساب سے یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک جمہوری عمل ہے کیونکہ یہ ملک نہ کسی Judicial Martial Law کی طرف جا رہا ہے نہ Martial law کی طرف ۔ رہا سوال جمہوریت کا اگر وہ خود کمزور ہے تو کیا کیا جائے۔
یہی بات شہید سہر وردی اس طرح سے لکھتے ہیںکہ 1954ء میں جب ریاستی انتخابات پاکستان میں ہوئے تھے تو مسلم لیگ کو مشرقی پاکستان میں بری طرح شکست ہوئی اور مغربی پاکستان میں اس لیے جیتی کیونکہ یہاں ان کو روایتی ووٹ ملے۔ میںایک اور بات بھی بتاتا چلوں کہ کراچی کا بھی بیانیہ تو ہے مگر وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ پسند پارٹیوں کی طرف جھکا رہا اور سینٹرل پنجاب کے بیانیہ کا رجحان ضیاء الحق کے بعد ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ پسند پارٹیوں کی طرف ہی رہا اور اس وقت اس بیانیہ کے رہبر خود نواز شریف تھے۔
اس وقت جو واضح صورت سینٹرل پنجاب کی نظر آرہی ہے کہ وہ اس تمام ماجرے سے اب نکل چکا ہے اور اب وہ شکل نظر آرہی ہے کہ سینٹرل پنجاب اب وہ سیاست کر رہا ہے جوکہ بلوچستان میں باچا خان یا ولی خان کرتے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ بائیں بازوکی سیاست کرتے تھے اور یہ دائیں بازو کی سیاست کر تے کرتے اب ماڈریٹ دائیں بازو کی سیاست کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں سینٹرل پنجاب میں ہیں اگر ساؤتھ پنجاب کو علیحدہ کر بھی دیا جائے تو بھی۔ اسی طرح اگر ہزارہ ڈویژن کو بھی الگ کردیا جائے تو بھی میاں صاحب سادہ اکثریت لیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
اگر اس وقت کے مجموعی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ اب الیکشنز میں دھاندلی کرکے جیتنا ماضی کا حصہ ہے جیسا کہ 1990 ء کے الیکشن کو دھاندلی کے ذریعے جیتا گیا، لیکن ہارس ٹریڈنگ اب بھی موجود ہے۔ ہمیں ہارس ٹریڈنگ کا تاریخی پس منظر اب بھی معلوم نہیں کہ ہارس ٹریڈنگ کی جامع معنی کیا ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ جمہوری عمل کا حصہ ہے اور جہاں جہاں ہنگ پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے وہاں ہارس ٹریڈنگ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح برطانیہ کے سسٹم میں بھی ہوتا ہے اور یہاں پر بھی۔ اس بات کو اگر سمجھا جائے تو یہ جمہوریت کی کمزوری بھی نہیں، یہ بات مجموعی سماجی پسماندگی کی ہے جس کا عکس خود جمہوریت ہے۔
اب کم ازکم اتنا سفر طے توکرکے آچکے ہیں جہاں نہ جوڈیشل مارشل لاء آرہا ہے نہ مارشل لاء۔
میاں صاحب ماسوائے سینٹرل پنجاب کے، پاکستان کے حصے سے جڑے ہوئے نہیں ہیں اور یہ آج کے پاپولر لیڈرکا بڑا المیہ ہے۔ ایسا نہ ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ ہوا نہ بینظیرکے ساتھ جو میاں صاحب سے پہلے بھرپور پاپولر لیڈر تھے۔
اب بات یہ ہے کہ PML(N) کے خلاف جو مختلف گروپ، دھڑا بندی اور اتحاد بن رہے ہیں کیا وہ الیکشنز میں بھی اتحادی رہیں گے اور سینٹرل پنجاب میں اپنا امیدوار PML(N) کے مقابلے میں کھڑا کرسکیں یا یہ کہ الیکشنز کے بعد اسمبلی میں اتحاد بنا سکیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کے بغیر اگر وہ جیت سکتے ہیں توکیوں نہیں چھوڑیں گے۔ بلوچستان میں BAP کے نام سے ایک نئی پارٹی بن رہی ہے اور اب جنوبی پنجاب میں علیحدہ صوبے کے نظریے پر بھی ایک نئی پارٹی ابھر رہی ہے۔ تاریخی اعتبار سے پارٹیاں وہیں بنتی ہیں جہاں نظریے جنم لیتے ہیں اور نظریے وہاں جنم لیتے ہیں جہاں تضادات ہوتے ہیں ۔
اس موجودہ سرائیکی بیلٹ میں ابھرتے نئے گروپ کے لیڈرسابق نگراں وزیراعظم بلخ شیر مزاری ہیں ۔ آپ کے برادر شیربازمزاری کا تو نظریے کے ساتھ تعلق رہا ہے مگر آپ کا نہیں ۔ بلوچستان میں اس سے پہلے کئی پارٹیاں بنیں مگر سب نظریاتی تھیں، لیکن ساؤتھ پنجاب اور بلوچستان میں جو نئی پارٹیاں اس وقت ابھر رہی ہیں وہ نظریاتی نہیں بلکہ اقتدار کے زاویے سے جڑرہی ہیں یہ اور بات ہے کہ دونوں پارٹیوں کو شاید اس نظریے کا لبادہ اوڑھنا پڑے۔
یوں کہیے کہ جہاں جہاں معاشی پسماندگی کا راج ہے وہاں معاشرے میں بھی خاصی پسماندگی ہے۔ جیسے جیسے معاشی قدریں کمزور ہوں گی، وہیں معاشرتی قدریں بھی معذور ہوں گی۔ بنیادی طور پر پاکستان کے دو وجود ہیں ، ایک وہ پاکستان جو بیانیے کی بنیاد پر اپنی رائے بناتا ہے اور اس کو بیلٹ باکس کے ذریعے محفوظ کرتا ہے اور دوسرا پاکستان وہ ہے جو روایت پسندی کا شکار ہے ۔
روایتی اور برادری بنیادوں پر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ بیانیے کے بنیادوں پر رائے استوارکرنے والے پاکستان کو وسعت ملی ہے اور روایتی بنیادوں پر رائے بنانے والے پاکستان کی وسعت میں کمی ہوئی ہے ۔ اربن سندھ ، سینٹرل پنجاب، بلوچستان کے پشتون اور ساؤتھ بلوچستان میں کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں ووٹ دینے کی بنیاد بیانیہ ہے، جب کہ دیہی سندھ ، فاٹا اور باقی ماندہ بلوچستان میں ووٹ دینے کی بنیاد روایتی اور قبائلی ہے جہاں ووٹ قبیلہ اور برادری کی بنیادوں پر دیا جاتا ہے اور یہ ابھرتی نئی پارٹیاں انھیں علاقوں سے بن رہی ہیں ۔ اب لازمی سی بات ہے کہ سوالیہ نشان تو آئے گا ۔
سردار بلخ شیر مزاری یا قدوس بزنجو یہ سب آگے جا کر پاکستان پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی سے جڑجائیں گے۔ کل تک PPP بیانیے کے حوالے سے پہچان رکھنے والی ایک Mixed پارٹی تھی یعنی آدھی نظریاتی اور آدھی روایتی اقدارکی ملی جلی پارٹی اور دیہی سندھ جو ہمیشہ سے معاشی اور سماجی اعتبار سے پسماندہ رہا لیکن وہاں ووٹ بیانیہ پر ہی دیا جاتا تھا، لیکن اب دیہی سندھ اپنے بیانیے کی اقدارکو چھوڑ کر روایتی اور برادری اقدارکو ووٹ دینے کی بنیاد بن چکا ہے۔ باوجود اس کے پیپلز پارٹی کو دیہی سندھ سے کوئی نقصان نہیں پہنچا مگر پیپلز پارٹی سینٹرل پنجاب میں اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ کیونکہ سینٹرل پنجاب کا ووٹ بیانیہ کا ووٹ ہے۔
اس تناظر میں جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ میاں صاحب کے لیے اس بار نہ صرف الیکشن جیتنا آسان ہوگا بلکہ اگر PML(N) حکومت بنا بھی لیتی ہے تو میاں صاحب اس پر اپنا سکہ جما نہ سکیں گے کیونکہ میاں صاحب کے لیے نہ صرف پارٹی کے اندر بلکہ پارٹی سے باہر بھی بہت سے چیلجنز ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام حالات جمہوری عمل کے تحت پیدا ہو رہے ہیں یا پھر غیر جمہوری عمل کے تحت ؟ میرے حساب سے یہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک جمہوری عمل ہے کیونکہ یہ ملک نہ کسی Judicial Martial Law کی طرف جا رہا ہے نہ Martial law کی طرف ۔ رہا سوال جمہوریت کا اگر وہ خود کمزور ہے تو کیا کیا جائے۔
یہی بات شہید سہر وردی اس طرح سے لکھتے ہیںکہ 1954ء میں جب ریاستی انتخابات پاکستان میں ہوئے تھے تو مسلم لیگ کو مشرقی پاکستان میں بری طرح شکست ہوئی اور مغربی پاکستان میں اس لیے جیتی کیونکہ یہاں ان کو روایتی ووٹ ملے۔ میںایک اور بات بھی بتاتا چلوں کہ کراچی کا بھی بیانیہ تو ہے مگر وہ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ پسند پارٹیوں کی طرف جھکا رہا اور سینٹرل پنجاب کے بیانیہ کا رجحان ضیاء الحق کے بعد ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ پسند پارٹیوں کی طرف ہی رہا اور اس وقت اس بیانیہ کے رہبر خود نواز شریف تھے۔
اس وقت جو واضح صورت سینٹرل پنجاب کی نظر آرہی ہے کہ وہ اس تمام ماجرے سے اب نکل چکا ہے اور اب وہ شکل نظر آرہی ہے کہ سینٹرل پنجاب اب وہ سیاست کر رہا ہے جوکہ بلوچستان میں باچا خان یا ولی خان کرتے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہ بائیں بازوکی سیاست کرتے تھے اور یہ دائیں بازو کی سیاست کر تے کرتے اب ماڈریٹ دائیں بازو کی سیاست کر رہے ہیں۔ قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں سینٹرل پنجاب میں ہیں اگر ساؤتھ پنجاب کو علیحدہ کر بھی دیا جائے تو بھی۔ اسی طرح اگر ہزارہ ڈویژن کو بھی الگ کردیا جائے تو بھی میاں صاحب سادہ اکثریت لیتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
اگر اس وقت کے مجموعی حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہے کہ اب الیکشنز میں دھاندلی کرکے جیتنا ماضی کا حصہ ہے جیسا کہ 1990 ء کے الیکشن کو دھاندلی کے ذریعے جیتا گیا، لیکن ہارس ٹریڈنگ اب بھی موجود ہے۔ ہمیں ہارس ٹریڈنگ کا تاریخی پس منظر اب بھی معلوم نہیں کہ ہارس ٹریڈنگ کی جامع معنی کیا ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ جمہوری عمل کا حصہ ہے اور جہاں جہاں ہنگ پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے وہاں ہارس ٹریڈنگ کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح برطانیہ کے سسٹم میں بھی ہوتا ہے اور یہاں پر بھی۔ اس بات کو اگر سمجھا جائے تو یہ جمہوریت کی کمزوری بھی نہیں، یہ بات مجموعی سماجی پسماندگی کی ہے جس کا عکس خود جمہوریت ہے۔
اب کم ازکم اتنا سفر طے توکرکے آچکے ہیں جہاں نہ جوڈیشل مارشل لاء آرہا ہے نہ مارشل لاء۔
میاں صاحب ماسوائے سینٹرل پنجاب کے، پاکستان کے حصے سے جڑے ہوئے نہیں ہیں اور یہ آج کے پاپولر لیڈرکا بڑا المیہ ہے۔ ایسا نہ ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ ہوا نہ بینظیرکے ساتھ جو میاں صاحب سے پہلے بھرپور پاپولر لیڈر تھے۔
اب بات یہ ہے کہ PML(N) کے خلاف جو مختلف گروپ، دھڑا بندی اور اتحاد بن رہے ہیں کیا وہ الیکشنز میں بھی اتحادی رہیں گے اور سینٹرل پنجاب میں اپنا امیدوار PML(N) کے مقابلے میں کھڑا کرسکیں یا یہ کہ الیکشنز کے بعد اسمبلی میں اتحاد بنا سکیں گے۔