پنجابی ادب میں مزاحمت

برصغیر میں ظلم و جبر اور آمریت کے خلاف مزاحمتی ادب تخلیق ہوا اور ترقی پسند تحریک کو بھی سہارا ملا۔


توقیر چغتائی April 12, 2018

صرف لکھنے اورکسی نظریے کے تحت لکھنے میں بہت فرق ہے۔ نظریاتی لکھاری جب اپنے خیالات کاغذ پر منتقل کرتے ہیں تو انھیں فکری مخالفت کے ساتھ ایسی حکومتوں کے عتاب کا نشانہ بھی بننا پڑتا ہے جو انسانی حقوق کی پامالی اور قانون شکنی کی مرتکب ہوتی ہیں۔ دنیا بھرکی طرح ہمارے ملک کی ادبی تاریخ میں جہاں مختلف نظریات کے زیر اثر ادبی تخلیقات سامنے آئیں وہاں ظلم و جبر اور آمریت کے خلاف لکھی گئی تحریروں کو بھی ایک خاص مقام حاصل رہا۔

پنجابی، سندھی، پشتو ، بلوچی اور دوسری زبانوں کی صوفیانہ شاعری میں مزاحمت کو جو مقام حاصل ہے اس سے ادب کے سنجیدہ قاری بخوبی واقف ہیں کہ اسی روایت کے زیر اثر برصغیر میں ظلم و جبر اور آمریت کے خلاف مزاحمتی ادب تخلیق ہوا اور ترقی پسند تحریک کو بھی سہارا ملا۔ مارشل لاء کے طویل ادوار میں قلم کے نظریاتی اور مزاحمتی محاذ پر جہاں ملک کی دوسری قومی زبانوں کے ادیبوں نے آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا وہاں پنجابی ادیب و شاعر بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اور نہ ہی انھوں نے ظلم و جبر کے سامنے اپنا سر جھکایا۔

جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکایا گیا اور تحریر و تقریر پر پابندی کے ساتھ صحافیوں کوکوڑوں کی سزائیں سنائی گئیں تو پاکستانی ادب میں مزاحمت کے ایک نئے دورکا آغاز ہوا۔ اس دورمیں بزرگ پنجابی لکھاریوں سے متاثر ہو کر جو نوجوان لکھنے کی طرف راغب ہوئے ان میں کچھ ادب برائے ادب پر یقین رکھتے تھے، کچھ ادب اور وحدت الوجود کی روایت کے امین تھے، کچھ ترقی پسند تحریک کے زیر اثر مصروف عمل تھے اور کچھ پنجابی زبان کی ترقی اور اسے اسکول اور کالج کی سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے کی تگ و دو میں مصروف نظر آئے۔ سب کے جذبے صادق تھے مگر ان جذبوں کی ترجمانی کے لیے نہ تو پنجابی کا کوئی بڑا اخبار موجود تھا، نہ ہی مناسب تعداد میں ادبی رسائل چھپ رہے تھے اور نہ ہی ریڈیو اور ٹی وی پر پنجابی زبان و ادب کو زیادہ وقت دیا جاتا تھا ۔

اس صورت حال میںمختلف الخیال لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لیے معروف ادیب وشاعر اور دانشور فخر زمان نے لاہور میں پہلی پنجابی عالمی کانفرنس کا انعقادکیا تو پنجابی ادب میں مزاحمتی اور ترقی پسندانہ سوچ کے ساتھ اس کی تاریخ و ثقافت کی تلاش کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ اس سے قبل حکومت نے فخر زمان کی چار کتابوں پر پابندی عائدکر رکھی تھی جن میں دو ناول بھی شامل تھے۔ بظاہر ان کی تحریروں پر فحاشی کا الزام عائد کیا گیا تھا مگر اس عتاب کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ ترقی پسند سوچ کے حامل ہونے کے ناتے اپنی تحریروں کے ذریعے اس طبقے کے لیے آواز بلند کرتے چلے آرہے تھے جو صدیوں سے جا گیر دارانہ نظام کی چکی میںپستے پستے یہ تک بھول چکا تھا کہ جس دھرتی پر چند جاگیرداروں اور وڈیروں نے قبضہ کیا ہوا ہے اس کے اصل وارث تو عوام ہیں۔

ادبی سرگرمیوں کے ساتھ فخر زمان اس وقت کی سب سے مقبول سیاسی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے سینیٹ کے رکن بھی رہ چکے تھے اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لے رہے تھے جو آمریت کے لیے نا قابل قبول عمل تھا۔ فخر زمان کی زندگی اور نظریات سے بہت سارے لوگ اختلاف تو کر سکتے ہیں مگر اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ مارشل لا کے انتہائی ظالمانہ دور میں ا نہوں نے پنجابی ادب کی صوفیانہ روایت کو ترقی پسندی اور مزاحمت کے ساتھ جوڑ کر جس طرح پنجابی عالمی کانفرنسوں کی بنیاد رکھی وہ ان کے علاوہ کسی اورکے بس کی بات نہیں تھی۔ لاہور میں منعقدہ پہلی پنجابی عالمی کانفرنس سے قبل پاکستان میں نہ تو اتنی بڑی سطح پر پنجابی کی کوئی کانفرنس منعقد ہوئی اور نہ ہی اتنے وسیع تناظر میں پنجاب کی ثقافت، ادب، لوک ورثے اور زبان کو موضوعِ بحث بنایا گیا۔

بعد میں اس پلیٹ فارم سے منعقدہ پنجابی کی کانفرنسوں کو ہم پاکستان کی قومی یک جہتی کا سنگ میل بھی قرار دے سکتے ہیں کہ ان میں شمولیت کے لیے نہ صرف چاروں صوبوں سے ملک کی مختلف زبانوں کے اہم لکھنے والے شامل ہوئے، بلکہ انھوںنے صوفی شعرا کی زندگی اور فن پر بھی روشنی ڈالی، تاریخ و ثقافت پر بھی بات کی اور اپنی زبانوں کی ترویج وترقی میں پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں بھی اپنی رائے کااظہار کیا۔ لاہور میں منعقدہ اگلی کانفرنسوں کا دائرہ نہ صرف عددی بلکہ فکری اور عملی لحاظ سے بھی وسیع ہوا بلکہ سرحد کی دونوں جانب بسنے والے ترقی پسند پنجابی ادیبوں کے ساتھ دنیا بھر میں بسنے والے پنجابی لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم پرجمع ہونے کا موقع بھی ملا۔

کچھ ناقدین کو یہ اعترض بھی رہا کہ پنجابی کی ان کانفرنسوں میں ترقی پسند تحریک یا بائیں بازو کی سیاست سے جڑے دانشوروں، سیاست دانوں اور لکھاریوں کی تعداد زیادہ ہوتی تھی لیکن ترقی پسند سوچ کے حامل فخر زمان کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ایسے افراد کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلتے جو ضیا الحق کے سامنے دو زانو ہو کر ظلم و جبر اور ناانصافی کے ہر فرمان کو جائز قرار دیتے رہے۔ پنجابی زبان کی ان کانفرنسوں میں شامل مندوبین پر جہاں لبرل، سیکیولر اور بائیں بازو کی سیاسی سوچ کا الزام عائد ہوتا رہا وہاں بھارتی پنجاب سے آنے والے ادیبوں کے وفود پر بھی اعتراض کیا گیا مگر یہ نہیں سوچا گیا کہ ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ مشرقی اور مغربی پنجاب سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعلیٰ ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوئے اور دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات بڑھانے پر اتفاق ہوا۔

پچھلے بیس برسوں کے دوران پنجابی ادب، زبان اور ثقافت کے شعبوں میں جو ترقی ہوئی وہ آزادی کے شروع کے پچاس برسوںسے کہیں زیادہ ہے۔ اب تو کوئی بھی ایسا دن نہیں گزرتا جب ہمیں پنجابی زبان کے کسی مشاعرے، سیمینار یا کانفرنس کی خبر نہ ملتی ہو جو انتہائی خوشی کا مقام ہے مگر ان پروگرواموں میں ملک کی دوسری زبانوں کے ادیبوں کی شرکت نہ ہونے کے برابر ہے اور ترقی پسند سوچ سے تعلق رکھنے والے بائیں بازو کے ادیب و دانشور بھی ان میں خال خال ہی نظر آتے ہیں ہاں سوشل میڈیا پر مزاحمتی ادب اور ترقی پسند سوچ سے جڑے پنجابی کے نوجوان ادیب و شاعر انتہائی بے باکی سے ملک کی سیاسی اور سماجی صورت حال پر اپنے خیالات کا اظہار ضرورکرتے ہیں کہ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی پلیٹ فارم ہی موجود نہیں۔

اس میں شک نہیں کہ پنجابی ادب، ثقافت، زبان اور تاریخ کی ترقی کے لیے پنجاب کے مختلف ادارے اور لکھاری انتہائی نیک نیتی سے کام کررہے ہیں، مگر جب تک وہ پنجابی ادب کی مزاحمتی اور ترقی پسند سوچ کو اپنی جدوجہد کا حصہ نہیں بناتے اس میں وہ شدت نہیں آ سکتی جس کی ضرورت آمریت اور مارشل لا کے نہ ہوتے ہوئے بھی محسوس کی جا رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں