لال بُخار پانچ سے پندرہ سال کے بچے زیادہ متاثر ہوتے ہیں

اسے لال بُخار اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں تیزبخار کے ساتھ ساتھ جسم پر سُرخ دانے نکل آتے ہیں۔


اسے لال بُخار اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں تیزبخار کے ساتھ ساتھ جسم پر سُرخ دانے نکل آتے ہیں۔ فوٹو : فائل

بُخار کی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ انھی میں سے ایک لال بُخار ہے۔

یہ دراصل انفیکشن کا نتیجہ ہے جو گلے کی خراش کا شکار افراد کو لاحق ہوسکتا ہے۔ اسے لال بُخار اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں تیزبخار کے ساتھ ساتھ جسم پر سُرخ دانے نکل آتے ہیں اور گلے میں درد ہوتا ہے۔ گلے کی خراش یا سوزش کا سبب بننے والا بیکٹیریا ہی لال بُخار کی وجہ بنتا ہے۔

یہ بُخار اکثراوقات پانچ سے پندرہ سال کی عمر تک کے بچوں کو لاحق ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں یہ مرض عام تھا مگر اب خاصا محدود ہوگیا ہے۔ اینٹی بایوٹک ادویات نے اس مرض کی سنگینی کم کردی ہے۔ لال بُخار کے کیسز کیوں کم ہوگئے ہیں اور گلے کی سوزش کے کیسز کیوں بڑھ گئے ہیں، محققین یہ جاننے سے قاصر ہیں۔

علامات

جلد پر سرخ ابھاروں کا نمودار ہونا بچوں اور بڑوں میں لال بُخار کی سب سے عام علامت ہے۔ اس کی وجہ سے جلد بہ ظاہر دھوپ کی وجہ سے جھلسی ہوئی نظر آتی ہے اور ہاتھ پھیرنے پر ریگ مال جیسا احساس ہوتا ہے۔ انھی سُرخ دانوں کی وجہ سے اس بُخار کو لال بخار کہا جاتا ہے۔

جلد پر ننھے ننھے سرخ دانے سب سے پہلے سینے اور پیٹ پر اُبھرنا شروع ہوتے ہیں اور پھر بہ تدریج باقی جسم پر پھیل جاتے ہیں۔ جوڑوں کی درمیانی جلد زیادہ سرخ ہوجاتی ہے۔ سرخ دانے دو سے سات دن تک برقرار رہتے ہیں۔ ان کے مندمل ہوجانے کے بعد متأثرہ جگہوں سے جلد سُوکھ کر جھڑ جاتی ہے، ایسے ہی جیسے ہاتھوں یا پاؤں کی انگلیوں کی پوروں سے جلد سفید ہوکر علیٰحدہ ہوجاتی ہے۔

لال بُخار کی دیگر علامات میں بغلوں، کہنیوں میں ، اور گھٹنوں پر سرخ لکیروں کا پڑجانا، زبان کا قرمزی ہوجانا، حلق کا سرخ ہوجانا شامل ہیں۔ اس میں بُخار 101 ڈگری فارن ہائٹ تک رہتا ہے۔ سر میں درد ہوتا ہے، ٹانسلز ہوجاتے ہیں، متلی اور قے ہوتی ہے، گردن کے پچھلی جانب غدود متورم ہوجاتے ہیں۔ ہونٹوں کے اطراف کی جلد زردی مائل ہوجاتی ہے۔

اسباب

لال بُخارStreptococcus bacteria کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ بیکٹیریا منھ اور سانس کی نالی میں موجود رہ سکتے ہیں۔ یہ جراثیم ایک زہریلا مادہ خارج کرتے ہیں جو جسم پر سرخ دانوں کی وجہ بنتا ہے ۔

لال بُخار متعدی ہے اور متأثرہ شخص کے چھینکنے یا کھانسی کے نتیجے میں منھ سے خارج ہونے والے لعاب کے ننھے ننھے قطرات کے ذریعے دوسروں تک پھیل سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر بچے کسی ایسی چیز کو چُھولیں جس پر متأثرہ شخص کے لعاب کے قطرات گرے ہوں اور پھر وہی ہاتھ منھ، ناک یا آنکھوں پر لگائیں تو یہ جراثیم ان کے جسم میں منتقل ہوسکتے ہیں۔

بیشتر کیسز میں لال بُخار کی علامات اور بخار دو ہفتوں میں ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو پھر یہ جوڑوں کے درد والے بخار، گردوں کے امراض، کانوں اور جلد کے انفیکشن، گلے کے امراض اور نمونیے کا سبب بن سکتا ہے۔

تشخیص

ڈاکٹر بچے کے جسم پر سب سے پہلے لال بُخار کی علامات تلاش کرتا ہے۔ اس دوران وہ زبان، گلے اور ٹانسلز کی جانچ کرتا ہے۔ لال بُخار کا شبہ ہونے کی صورت میں حلق میں روئی رکھ کر نمونہ لیا جاتا ہے اوراس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا جاتا ہے۔

علاج

لال بُخار کا علاج عام طور پر اینٹی بایوٹک ادویہ سے کیا جاتا ہے۔ یہ دوائیں بیکٹیریا کا خاتمہ کرتی ہیں اور ان کا مقابلے کرنے میں جسم کے مناعتی نظام کی معاون بنتی ہیں۔ اس بات کو یقینی بنائیے کہ بچے کو تجویز کردہ دواؤں کا کورس مکمل کروایا جائے۔

بُخار کے ساتھ ساتھ گلے کی تکلیف دور کرنے کے لیے بھی دوائیں تجویز کی جاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قلفی، آئس کریم اور گرم مشروبات استعمال کرنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ نمک ملے پانی سے غرارے کرنے سے گلے کی تکلیف میں راحت ملتی ہے۔ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھیں کہ بچہ پانی پیے تاکہ جسم میں پانی کی کمی واقع نہ ہو۔

اگر بچے نے کم از کم چوبیس گھنٹے تک اینٹی بایوٹکس کی مقررہ خوراکیں لے لی ہوں اور بخار اترگیا ہو تو اسے اسکول بھیجا جاسکتا ہے۔ فی الوقت لال بخار سے بچاؤ کے لیے کوئی ویکسین ایجاد نہیں ہوسکی، اگرچہ اس سلسلے میں تجربات جاری ہیں۔

بچاؤ

لال بُخار سے بچاؤ کے لیے بہترین احتیاط حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنا ہے۔ بچوں کو سمجھائیں کہ وہ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں، اور رفع حاجت کے بعد ہاتھ اچھی طرح دھوئیں۔ کھانستے یا چھینکتے ہوئے منھ پر ہاتھ رکھیں۔ اپنے استعمال کے برتن اور گلاس وغیرہ دوسروں کو نہ دیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں