بروقت ایوان آمد صادق سنجرانی رضا ربانی کے نقش قدم پر
موجودہ چیئرمین سینیٹ کو ایوان میں کئی ممبران کی جانب سے وہ عزت و تکریم نہیں مل رہی جو میاں رضا ربانی کو مل رہی تھی۔
ISLAMABAD:
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اپنے پیش رو میاں رضا ربانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے معین وقت پر اجلاس کی کارروائی شروع کرنے کی روایت برقرار رکھی۔
صادق سنجرانی نے بدھ کو ٹھیک 3 بجے ایوان میں داخل ہوئے اور کارروائی کا آغاز کیا۔ سینیٹ کے حالیہ اجلاس کے دوران اس بات کو محسوس کیا گیا کہ موجودہ چیئرمین سینیٹ کو ایوان میں کئی سینئر ممبران کی جانب سے وہ عزت و تکریم نہیں مل رہی جو میاں رضا ربانی کو مل رہی تھی۔
اگرچہ سابق چیئرمین کے سخت رویے سے اکثر و بیشتر ممبران خفا بھی ہوتے تھے مگر جس انداز میں ایوان کی کارروائی کو چلانے کا ہنر وہ جانتے تھے اور جس طرح آئین، قوانین، سینیٹ کے رولز، قواعد و ضوابط پر انہیں دسترس اور عبور حاصل تھی، اس کا کوئی جواب ہی نہیں تھا۔ چونکہ صادق سنجرانی ان کی نسبت نا تجربہ کار ہیں اور ایوان کو سابق چیئرمین کی طرح چلانا ان کیلئے مشکل اور چیلنج سے کم نہیں۔
گزشتہ روز ایوان کے اندر کئی مواقع پر ایسا محسوس ہوا کہ چیئرمین قواعدو ضوابط سے مکمل آگاہی نہیں رکھتے، اس کا تازہ نظارہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب اپوزیشن لیڈر شیری رحمان نے نیو ایئرپورٹ منصوبہ میں بے ضابطگیوں اور بد عنوانیوں سے متعلق تحریک التوا پیش کی اور کہا کہ اس کو ایوان میں بحث کیلیے مقرر کیا جائے۔
چیئرمین سینٹ نے حکومتی ممبران سے پوچھا کہ کیا انہیں اس پر اعتراض تو نہیں، کہیں سے جواب نہ آنے پر چیئرمین نے تحریک بحث کیلیے مقرر کی۔ اس پر قائد ایوان راجہ ظفر الحق اور سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ آپ اس طرح بحث کیلئے تحریک کو مقرر نہیں کرسکتے، رولز کے مطابق آپ کو دیکھنا ہے کہ یہ قابل بحث ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ آپ نے کرکے تحریک کو ایوان میں پیش کرنا ہوتا ہے، پھر ایوان کی منظوری کے بعد اس کو بحث کیلئے مقرر کیا جاتا ہے اور اس کا فیصلہ چیئرمین سینیٹ نے کرنا ہے کہ کس دن اور کتنے گھنٹوں کیلیے کرنا ہے۔
سید مظفر حسین نے کہا کہ آپ نے تحریک کو ایوان میں پیش کئے بغیر کل کیلئے مقرر کیا جو غلط ہے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اپنے پیش رو میاں رضا ربانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے معین وقت پر اجلاس کی کارروائی شروع کرنے کی روایت برقرار رکھی۔
صادق سنجرانی نے بدھ کو ٹھیک 3 بجے ایوان میں داخل ہوئے اور کارروائی کا آغاز کیا۔ سینیٹ کے حالیہ اجلاس کے دوران اس بات کو محسوس کیا گیا کہ موجودہ چیئرمین سینیٹ کو ایوان میں کئی سینئر ممبران کی جانب سے وہ عزت و تکریم نہیں مل رہی جو میاں رضا ربانی کو مل رہی تھی۔
اگرچہ سابق چیئرمین کے سخت رویے سے اکثر و بیشتر ممبران خفا بھی ہوتے تھے مگر جس انداز میں ایوان کی کارروائی کو چلانے کا ہنر وہ جانتے تھے اور جس طرح آئین، قوانین، سینیٹ کے رولز، قواعد و ضوابط پر انہیں دسترس اور عبور حاصل تھی، اس کا کوئی جواب ہی نہیں تھا۔ چونکہ صادق سنجرانی ان کی نسبت نا تجربہ کار ہیں اور ایوان کو سابق چیئرمین کی طرح چلانا ان کیلئے مشکل اور چیلنج سے کم نہیں۔
گزشتہ روز ایوان کے اندر کئی مواقع پر ایسا محسوس ہوا کہ چیئرمین قواعدو ضوابط سے مکمل آگاہی نہیں رکھتے، اس کا تازہ نظارہ اس وقت دیکھنے کو ملا جب اپوزیشن لیڈر شیری رحمان نے نیو ایئرپورٹ منصوبہ میں بے ضابطگیوں اور بد عنوانیوں سے متعلق تحریک التوا پیش کی اور کہا کہ اس کو ایوان میں بحث کیلیے مقرر کیا جائے۔
چیئرمین سینٹ نے حکومتی ممبران سے پوچھا کہ کیا انہیں اس پر اعتراض تو نہیں، کہیں سے جواب نہ آنے پر چیئرمین نے تحریک بحث کیلیے مقرر کی۔ اس پر قائد ایوان راجہ ظفر الحق اور سید مظفر حسین شاہ نے کہا کہ آپ اس طرح بحث کیلئے تحریک کو مقرر نہیں کرسکتے، رولز کے مطابق آپ کو دیکھنا ہے کہ یہ قابل بحث ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ آپ نے کرکے تحریک کو ایوان میں پیش کرنا ہوتا ہے، پھر ایوان کی منظوری کے بعد اس کو بحث کیلئے مقرر کیا جاتا ہے اور اس کا فیصلہ چیئرمین سینیٹ نے کرنا ہے کہ کس دن اور کتنے گھنٹوں کیلیے کرنا ہے۔
سید مظفر حسین نے کہا کہ آپ نے تحریک کو ایوان میں پیش کئے بغیر کل کیلئے مقرر کیا جو غلط ہے۔