
کشمیری بچی آصفہ بانو اور اترپردیش میں بی جے پی رہنما کی جانب سے ہندو لڑکی سے اجتماعی زیادتی جیسے واقعات کیخلاف انسانی حقوق کے کارکن سراپا احتجاج بن گئے ہیں۔ جسٹس فار آصفہ #JusticeforAsifa کے نام سے ہیش ٹیگ بھارت میں ٹوئٹر پر مقبول ٹرینڈ بھی بن گیا ہے جس پر سماجی کارکن اور عام شہری ملک میں جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات اور مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز جرائم کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔
لیکن جہاں ایک طرف بڑی تعداد میں لوگ اس واقعے کی مذمت کررہے ہیں وہیں بی جے پی اور ہندو انتہا پسند جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد اس شرمناک واقعے میں ملوث ملزمان کو بچانے کے لیے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کررہے ہیں۔
#Asifa another Nirbhaya: We need collective disobedience against rape in India - If these cases don’t shake the conscience of this nation what will? Is beti bachao just a slogan? When will we become intolerant to crimes against women? India has failed me.
— Shaili Chopra Gytree.com (@shailichopra) April 11, 2018
https://t.co/wmEtOzAREd pic.twitter.com/8uR6fwgK7I
کشمیر پولیس نے کٹھوعہ واقعے کی چارج شیٹ پیش کردی جس سے لرزہ خیز تفصیلات سامنے آئی ہیں جنہوں نے انسانیت کو شرما دیا ہے۔ پولیس کے مطابق جموں و کشمیر کے علاقے کٹھوعہ میں 10 جنوری کو مسلمان چرواہوں کے قبیلے 'بکروال' کی کم سن بچی آصفہ بانو کو اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اپنے گھوڑے اور بکریوں کو چَرانے میں مصروف تھی۔
https://twitter.com/GhaziSuhailKhan/status/983667508170420224
ملزمان نے اغوا کے بعد 8 سالہ آصفہ کو مندر کے تہہ خانے میں قید کردیا جس کا انتظام مرکزی ملزم سنجے رام کے ہاتھ میں تھا۔ پھر بچی کو بے ہوشی کرکے متعدد بار اس سے جنسی زیادتی کی گئی۔ سفاکی کی انتہا کرتے ہوئے ملزم سنجے رام کے بھتیجے نے اترپردیش کے شہر میرٹھ سے اپنے دوست کو فون کرکے بچی سے جنسی زیادتی کے لیے بلایا۔ 4 روز تک آصفہ کو مسلسل درندگی کا نشانہ بنانے کے بعد ان انسان نما بھیڑیوں نے پتھر سے اس کا سر کچل کر لاش کھائی میں پھینک دی۔
We did it in Dec 2012 - we'll do it again now! Fight for justice for Ashifa, justice for the Unnao rape survivor and against Governments and political forces creating communal, political shields of impunity for the accused. pic.twitter.com/xN0sY7xqEi
— Kavita Krishnan (@kavita_krishnan) April 12, 2018
اس بدکردار شخص نے اپنے بھتیجے کی مدد سے گھناؤنے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جب کہ سفاکانہ قتل میں پولیس کے بھی ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ پولیس نے مرکزی ملزم سنجے رام، اس کے بھتیجے، بیٹے اور 4 پولیس افسران سمیت 8 ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔ اہلکاروں پر رشوت کے عوض شواہد چھپانے اور ثبوت مٹانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
#Justice for #Asifa justice denied is justice denied pic.twitter.com/qf92wRgXxn
— Mr_Chaku (@Mrchaku) February 22, 2018
دوران تفتیش انکشاف ہوا کہ پولیس اہلکار تلک راج اور سب انسپکٹر آنند دتا مندر میں بچی کی موجودگی سے باخبر تھے اور انہوں نے ڈھائی لاکھ روپے لے کر قتل کے ثبوت مٹانے میں تعاون کیا۔ ملزم سنجے رام نے بتایا کہ اس مذموم اور گھناؤنی حرکت کا مقصد مسلمانوں کو اس علاقے سے خوفزدہ کرکے نکال دینا تھا۔ واقعے کے بعد جموں کشمیر میں ہندوؤں اور مسلم آبادی میں شدید کشیدگی پائی جاتی ہے جب کہ بی جے پی اور انتہا پسند ہندو جماعتوں کی جانب سے ملزم کو بچانے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔
An 8 year old child is drugged and held captive in a temple for 3 days. Brutally gang-raped to the extent her uterus is damaged. Then strangulated to death and body is thrown in a ditch.
— Preeti Gulati (@preetigulati28) April 9, 2018
Why is this child not India's daughter??#Kathua
دوسری طرف اترپردیش کے علاقے اناؤنا میں بی جے پی کے رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سنگار نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر 17 سالہ لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ گزشتہ دنوں لڑکی نے ملزم کی عدم گرفتاری کیخلاف خودسوزی کی بھی کوشش کی۔
مقامی پولیس نے بی جے پی رہنما کو گرفتار کرنے کی بجائے الٹا لڑکی کے والد سریندر کمار کو گرفتار کرکے اسے دوران حراست شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگیا۔ اسی واقعے کا شرمناک پہلو یہ سامنے آیا کہ جب پولیس کی خصوصی ٹیم ملزم رکن اسمبلی کو گرفتار کرنے کےلیے اس کے گاؤں پہنچی تو بڑی تعداد میں دیہات کے مکین گھروں سے نکل آئے اور شدید مزاحمت کرکے گرفتاری کو ناکام بنادیا۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔