کیا امریکی فوجی اتاشی کو سزا ہوگی
ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے وقت بھی حکومت پاکستان نے عافیہ صدیقی کے معاملے کو نظر اندازکیا تھا۔
KARACHI:
جیسے جیسے عام انتخابات کا وقت نزدیک آتا جارہا ہے ویسے ویسے سیاسی درجہ حرارت بھی بڑھتا جارہا ہے۔ نگران سیٹ اپ کے لیے اپوزیشن اور حکومت کے درمیان مشاورت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جب کہ سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی تمام تر توجہ عام انتخابات کی تیاریوں پر مرکوز کرکھی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں امریکی فوجی اتاشی کی گاڑی کی ٹکر سے نوجوان کے جاں بحق ہونے پر تاحال کسی بھی بڑی سیاسی جماعت نے اپنے رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔
7 اپریل کو دارالحکومت میں امریکی ملٹری اتاشی کرنل جوزف کی گاڑی کی ٹکر سے موٹر سائیکل پر سوار 2 نوجوانوں میں سے ایک جاں بحق جب کہ دوسرا زخمی ہو گیا۔ اس واقعہ کی فوٹیج سے واضح پتہ چلتا ہے کہ غلطی مکمل طور پر سفارتکار کی تھی جو ٹریفک کا اشارہ سرخ ہونے کے باوجود رکا نہیں اور اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بائیں جانب سے آنے والے موٹر سائیکل سواروں کو ٹکر مار دی جس سے نوجوان عتیق چل بسا۔
واقعہ سے زیادہ افسوسناک صورتحال اس وقت دیکھنے میں آئی جب اسلام آباد پولیس نے غلامانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ضابطہ کی کارروائی کے بجائے امریکی ملٹری اتاشی کا پاسپورٹ دیکھ کر انھیں جانے کی اجازت دیدی۔
ملک بھر میں کروڑوں پاکستانی ٹی وی چینلوں پر اس واقعے کی رپورٹ دیکھ کر شدید صدمے اور حیرت سے دوچار ہوگئے کہ کرنل جوزف عمانویل کو کسی قانونی کارروائی کے بغیر چھوڑ دیا گیا اور جواز یہ پیش کیا کہ سفارت کاروں کو ملکی قوانین سے استثنیٰ حاصل ہوتا ہے جب کہ شواہد کے مطابق ملٹری اتاشی نے سگنل توڑ کر نوجوانوں کو کچلا تھا۔ ایسی غلطی کی صورت میں قوانین سے چھوٹ باقی نہیں رہتی یا پھر ایسے معاملات پھر سفارتی سطح پر طے کیے جاتے ہیں۔
پولیس نے متعلقہ حکام کو مطلع کیے بغیر امریکی اہلکار کو کیوں چھوڑا؟ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ یہ معاملہ شاید دب جاتا مگر بھلا ہو میڈیا کا کہ اس نے معاملے کو دبنے نہیں دیا۔ شروع میں تو حکومتی سطح پر اس واقعے کا نوٹس نہیں لیا، تاہم اگلے دن امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا جہاں سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے واقعہ پر احتجاج کیا، انھیں باور کرایا کہ نوجوان کی ہلاکت کے معاملے میں ملکی قوانین اور ویانا کنونشن کے مطابق مکمل انصاف کیا جائے گا۔
بعد ازاں وزارت داخلہ کی برہمی کے بعد ایس ایچ او کوہسار کو واقعہ میں ملوث ملزم کو سفارتی استثنیٰ کی آڑ میں چھوڑنے کے حوالے سے شوکاز نوٹس جاری کیا گیا۔ جس کے بعد اس سفارت کار کے خلاف اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں ایف آئی آر درج کی گئی۔
قانونی کارروائی کے مطابق پولیس نے کیس کو رجسٹرڈ کرنے کا عمل مکمل کرکے کیس پاکستان کے دفتر خارجہ میں جمع کرایا، یہی کیس اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کو ارسال کیا جائے گا، میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی سفارتخانہ نے تفتیش میں تعاون سے انکار کر دیا ہے اور سفارت خانے کا ملٹری اتاشی تک رسائی دینے سے بھی انکار سامنے آیا ہے۔
جس پر پولیس نے وزارت داخلہ کو خط لکھ دیا ہے اور امریکی سفارتخانے کو واقعہ کی رپورٹ اور سی سی ٹی وی فوٹیج کی کاپی بھی بھیج دی ہے۔ ملزم کا پاکستانی ڈرائیونگ لائسنس منسوخ کرکے نام ای سی ایل میں شامل کرلیا گیا ہے اور ملک بھر کے تمام ایئر پورٹس، سمندری اور زمینی راستوں پر تعینات امیگریشن حکام کو امریکی ملٹری اتاشی کا نام دیدیا گیا ہے تاکہ وہ فرار نہ ہونے پائے۔
یہ بھی اطلاعات ہیں ملزم نے بیرون ملک بھاگنے کی کوشش کی تھی جسے وفاقی پولیس نے ناکام بنا دیا، تاہم عتیق بیگ کے اہل خانہ پولیس کی کارروائی سے مطمئن نہیں لگتے اور وہ مزید قانونی کاروائی کے لیے عدالت سے رجوع کر رہے ہیں۔
امریکی سفارتکار کی گاڑی کی ٹکر سے جاں بحق ہونیوالے پاکستانی نوجوان کے ورثاء کو انصاف کیسے ملے گا؟ یہاں یہ سوال غور طلب ہے کہ کیا سفارتکار کو سزا ہو سکتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب ویانا کنونشن میں موجود ہے۔ ویانا کنونشن 1961ء میں منظور ہونے والا ایک بین الاقوامی قانون ہے جو ایک ملک کے سفارتکاروں کو میزبان ملک میں بلا خوف و خطر کام کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ اس وقت دنیا کے 191 ممالک اس قانون کو مانتے ہیں جو دوسرے لفظوں میں سفارتکاروں کو دوسرے ممالک میں سفارتی استثنیٰ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان نے اس قانون پر 1962ء میں دستخط کیے تھے۔
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستانی حکومت کے پاس اس سفارت کار کے خلاف کارروائی کرنے کے اختیارات محدود ہیں کیونکہ ویانا کنونشن کے قانون کا آرٹیکل 29 یہ کہتا ہے کہ سفارتکار کو میزبان ملک میں گرفتار یا نظربند نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی سفارتکار کو گرفتاری اور قید سے تو استثنیٰ حاصل ہے لیکن ٹرائل کے خلاف استثنیٰ حاصل نہیں ہے، امریکی سفارتکار کو پاکستان یا پھر امریکا میں ٹرائل کا سامنا کرنا ہوگا۔
سزا کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امریکا سفارتکار کو حاصل سفارتی استثنیٰ ختم کردے، پاکستان امریکا کو کہہ سکتا ہے کہ وہ سفارت کار کا استثنیٰ ختم کرے یا اس کے خلاف امریکی قوانین کے تحت کارروائی کرے کیونکہ وہاں بھی ٹریفک سگنل توڑنا اور حادثے میں ملوث ہونا جرم ہے۔
اگر امریکا اس میں سے کوئی بھی اقدام نہیں کرتا تو یہ سیاسی مسئلہ بن سکتا ہے، جس کے بعد پاکستان کے سیاسی عزم پر منحصر ہے کہ وہ اس معاملے کو کتنا آگے لے کر جانا چاہتا ہے کیونکہ جنوبی کوریا سمیت دنیا میںاس طرح کے واقعات پیش آ چکے ہیں جس میں امریکا کو سفارتی استثنیٰ ختم کرنا پڑا اور مقامی طور پر سزا دی گئی۔
ہونا تو یہی چاہیے کہ پاکستان امریکا سے باقاعدہ مطالبہ کرے کہ امریکی سفارتکار کا استثنیٰ ختم کیا جائے اور اس کو ملکی قوانین کے تحت قرار واقعی سزا دی جائے کیونکہ یہ حادثہ نہیں بلکہ اس نے سگنل توڑ کر ایک پاکستانی کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت پاکستانی قوانین کی بالادستی کو برقرار رکھتے ہوئے امریکی سفیر کو سزا دلوانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں؟
امریکی دفاعی اتاشی کی گاڑی کی ٹکر سے نوجوان کے جاں بحق ہونے کا واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بڑی حد تک کشیدگی پائی جاتی ہے، امریکا کے نو مور کے جواب میں پاکستان کے ڈو مور پر ڈٹے رہنے کے رد عمل میں امریکا نے پاکستان کی فوجی امداد بھی بند کررکھی ہے۔
قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ امریکی سفارتخانہ اس معاملہ کے جلدنمٹانے کا خواہاں ہے تاکہ اس حادثہ کے سیاسی و سفارتی مضمرات کو محدود رکھا جاسکے۔ یہ امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ ملٹری اتاشی کو حاصل استثنیٰ سے استفادہ کرتے ہوئے اسے امریکا واپس بھجوا دیا جائے گا۔
مرحوم کے لواحقین اور ایک زخمی کو معاوضہ کی پیشکش بھی کی جاسکتی ہے، ماضی میں 2011ء میں ریمنڈ ڈیوس کیس میں قوم دیت و خون بہا کی ادائیگی کے بعد ملزم کی رہائی کا منظر دیکھ چکی ہے۔ یہ بھی اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ امریکا کی جانب سے پاکستانی سفارتی عملے کی نقل و حرکت محدود کرتے ہوئے ان پر نئی پابندی لگانے پر بھی غور کیا جارہا ہے، اسے کہتے ہیں چوری اور پھر سینہ زوری۔
امریکا نے پاکستانی سفارت کاروں کی نقل و حرکت کے لیے نیاضابطہ اخلاق تیار کرلیا جس کے تحت پاکستانی سفارتی عملے کو 45 کلومیٹر کے علاقے تک محدود کردیا گیا ہے۔ پاکستانی سفارتکار یکم مئی سے نئے ہدایت نامے پر عملدرآمد کے پابند ہونگے، اس پابندی سے پاکستانی سفارتی عملے کو کام میں نئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اگر امریکا کسی بھی معاملے میں دوسروں کو قانون کی بالا دستی کا مشورہ دیتا ہے تو اسے بھی پاکستانی قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔ جب امریکا میں قانون کی پابندی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم بھی ایئرپورٹ پر جسمانی تلاشی کے عمل سے گزرتا اور اس کارروائی کو قانون کا تقاضا قرار دے کر خندہ پیشانی سے قبول کرتا ہے تو امریکی سفارتخانے کے ایک اہلکار کی غیرذمے داری سے پاکستانی شہری کی جان کے نقصان کا معاملہ کسی رعایت کا مستحق نہیں ہونا چاہیے۔
اگر بیرون ممالک جاتے ہوئے وہ لوگ اپنے قوانین پر عمل کراتے ہیں تو پاکستان کو بھی یہ حق پہنچتا ہے کہ یہاں پر رہنے والے غیر ملکی پاکستانی قوانین پر عمل کریں، اگر وہ عمل پیرا نہیں ہوتے تو اس پر انھیں عمل کرایا جائے تب ہی ہماری بیرونی دنیا میں عزت ہوگی۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے جائز موقف پر ڈٹے رہیں۔
اگر امریکا اپنے فوجی اتاشی کو معافی دلانا چاہتا ہے تو اس کے بدلے ہمیں معطل شدہ اقتصادی و فوجی امداد کی بحالی کے ساتھ ساتھ امریکا میں قید عافیہ صدیقی کی رہائی کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے تاکہ کچھ لو، کچھ دو کے اصول پر معاملہ طے ہوجائے، ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے وقت بھی حکومت پاکستان نے عافیہ صدیقی کے معاملے کو نظر اندازکیا تھا، لیکن اس بار پاکستان امریکی سفارتکار کے لیے کسی قسم کی رعایت کو عافیہ صدیقی کی رہائی سے مشروط کر دے تو یہ اس مسئلے کا ایک آبرومندانہ حل ہو گا۔