اسٹوڈنٹس یونین طلبہ حقوق کی چیمپئن
صرف ایک ڈیمانڈ کہ طلبہ یونین سے پابندی ختم کی جائے اور یہی ملکی مسائل کا واحد جمہوری حل ہے۔
KARACHI:
اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ انسان کو اپنی تکلیف کا احساس ہر عمر میں ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کم عمری میں جب اس کو تکلیف کے اظہار کا طریقہ معلوم نہ ہو تو صرف رو روکر اظہارکرتا ہے۔ یہ وہ عمر ہے جب وہ چند ماہ کا ہوتا ہے تو والدین کو بھی نہیں معلوم ہوتا کہ اس کے بچے کی تکلیف کا مقام کیا ہے۔
یہ درد کان میں ہے، ناک میں یا پیٹ میں مگر جوں جوں عمر بڑھتی ہے، شعور اور آگہی میں اضافہ اس کا محافظ ہوجاتا ہے اور میٹرک یا (O) لیول تک آتے آتے اور بعد ازاں اس کو ہارمون کی دستک کے بعد تو تمام ضروریات کا احساس ہوتا جاتا ہے گوکہ اس میں پختگی نہیں ہوتی، اس لیے اس کے احباب اور ارد گرد کا ماحول اس کو مزید تعلیم دیتا ہے۔
شعور اور بلوغیت کی اس عمر تک آنے کے بعد تعلیمی دنیا میں تمام مہذب ملکوں میں اسٹوڈنٹس یونین کا اطلاق ہوتا ہے مگر تقریباً 40 برس ہوگئے ایک آمر نے پاکستان میں طلبہ یونین پر پابندی عاید کردی اور آج تک اس کے بنائے ہوئے آمرانہ دستور پر عمل جاری ہے اور جو بھی بعد میں آیا اس نے جمہور اور جمہوریت کے راگ الاپے مگر بینظیر بھٹو پر اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ انھوں نے کابینہ کی ایک میٹنگ میں اپنے ایک وزیر امیر حیدرکاظمی جو ایک زمانے میں این ایس ایف کے صدر تھے ان سے اس پابندی کو یکسر طور پر ختم کرنے کا وعدہ کر لیا تھا مگر اس میٹنگ کا موضوع کوئی اور تھا، خصوصی طور پر طلبہ یونین نہ تھا، مگر ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور بھٹو کی بیٹی کا یہ چراغ ظالموں نے بجھا دیا پھر کوئی عوامی جمہوری حکومت نہ آئی جو اسٹوڈنٹس یونین بحال کرتی۔
ہاں البتہ سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی اپنے بیانات میں آئے دن تسلیاں دیتے رہے کہ اسٹوڈنٹس یونین بحال کی جائیںگی۔ تین حکومتیں جمہوریت کے نام پر آئیں مگر ایسا نہ ہوا اور نہ ہوگا کیونکہ حکمرانوں کو معلوم ہے کہ عوام سے سیاسی پارٹیاں تو دغا کرسکتی ہیں مگر اسٹوڈنٹس یونین تو جو کام کرتی ہیں وہ کبھی جزا کی امید نہیں رکھتیں۔ جب کہ سیاسی پارٹیوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، جب کہ پاکستان کی سیاسی پارٹیاں توکوئی عوامی منشور نہیں رکھتی ہیں۔
ایک پارٹی عوامی منشور رکھتی ہے مگر ان کے لیڈران کرمِ کتابی بنے ہوئے ہیں۔ میدانِ عمل میں آکر حکمرانوں کو للکارتے ہی نہیں تاکہ عوامی جلسوں میں ان کا منشور طشت از بام ہو۔ جب کہ ایک رہنما جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں وہ رکن سازی کی مہم چلا رہے ہیں اور ان کا انداز عوامی ہے اور لوگ ان کے دام میں اسیر ہو رہے ہیں۔ بقول بلاول بھٹو کے وہ طالبان کے ایک قسم کے ترجمان ہیں۔ ان کا مینڈیٹ وہ نہیں جو قیام پاکستان پر 11 اگست 47ء کو قائد اعظم کا تھا۔
پاکستان کے عوام کو بھلا یہ کیا معلوم کہ فلاحی ریاست کیا ہوتی ہے اور تعلیم و صحت کا بوجھ کیسے اٹھایاجاتا ہے۔ انھوں نے کبھی بھی ایک لفظ اسٹوڈنٹس یونین کے لیے نہ ادا کیا خصوصاً کراچی کے لیے، مانا کہ اس وقت سندھ کے شہری علاقوں کی قیادت بے خبر ہے اور طلبہ کے لیے کوئی رحم کے جذبات نہیں رکھتی اور نہ ہی کوئی اسٹوڈنٹس پارٹی ہے جو ان کے لیے آنسو بہائے۔ جو لوگ شہری علاقوں کے بہی خواہ خود کو کہا کرتے تھے انھوں نے شہر کے پارکوں اور فلاحی پلاٹوں کو ہڑپ کرلیا۔
کراچی کے عوام کے لیے کوئی لیڈر نہیں اور جو لیڈری کے دعوے دار ہیں ان کی فریاد بھی مصنوعی ہے۔ اس لیے کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا انڈسٹریل سٹی ہے یہاں کوئی لیبر پارٹی مصروفِ کار نہیں اور نہ ہی پنجاب میں جس طرح طلبہ کے مسائل پر ہائی کورٹ نے سوموٹو لیا سندھ پر ایسے احکامات کا اطلاق نہ ہوا اور سندھ کے عوام سے دو ماہ کی اسکول فیسوں میں انتظامیہ نے بے رحمی کا خوب عمل کیا۔
ایسا نہیں کہ انھوں نے اساتذہ کو دو ماہ کی یکمشت فیسوں سے کچھ رحم اساتذہ کی تنخواہوں پر بھی کیا ہو۔ ملک میں تنخواہوں کا جو رواج چل رہا ہے وہ قابل افسوس ہے دیکھیے کوئی نہیں جو پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کا دورہ کرکے وہاں ملازمین کی حالت زار کو دیکھے اور طلبہ سے 7 لاکھ روپے سالانہ فیسوں کی کوئی روک تھام کرے اور ان پرائیویٹ کالجوں میں اساتذہ کی تنخواہوں اور وہاں کے کلرک حضرات کی سیلری کا جائزہ لے جن کو بظاہر 12،14 ہزار دیے جاتے ہیں مگر بڑے وثوق سے لکھ رہا ہوں کہ اسٹاف کو دس ہزار سے بھی کم دیے جاتے ہیں مگر وہ وہاں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
لہٰذا پڑھے لکھے یہ حضرات اپنی نسل کو جاہل رکھنے پر مجبور ہیں اور دوسری جانب نئے آرڈیننس کے مطابق ایک لاکھ تک کی رقم جو سیلری کی مد میں ہو اس پر ٹیکس کی چھوٹ ہے اور جن کی جائیداد کو کالا دھن قرار دیا گیا ہے ان پر سفید کرنے کے لیے 3 فی صد ٹیکس لاگو کیا گیا ہے جب کہ 4 فی صد ٹیکس لگاکر اس آمدنی کو کلرک اور کم آمدنی والے لوگوں کی مد میں یہ رقم استعمال کی جا سکتی تھی۔
بہر حال اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی معاشی اور اقتصادی صورتحال بڑی دگرگوں ہے کیونکہ روپیہ کی قدر میں مسلسل کمی اس ملک کے حاکموں کی اندھیر نگرقسم کی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے دنیا بھر کے ملکوں میں فیکٹری مالکان یا ہوائی سروسز کے مالکان کو وزیراعظم نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ اگر یہ روا رکھا جائے گا تو قومی ایئر لائن یا دیگر پرائیویٹ اداروں کو اقتصادی مسابقت میں انصاف کا عمل جاری رکھنا مشکل ہوگا۔
اسی لیے پاکستان کی انڈسٹریل پروڈکشن روبہ زوال ہے اور کاٹن ایکسپورٹ اور ملبوسات کی پیداوار میں وہ ممالک آگے نکل گئے جہاں کپاس پیدا نہیں ہوتی جیسے بنگلہ دیش، ظاہر ہے ایسی صورتحال میں ملک بحران در بحران سے گزرتا ہی رہے گا اور انجام کار کیا ہوگا؟
چیف جسٹس جو اقدامات خود اٹھا رہے ہیں وہ وقت کی ضرورت ہے۔ مگر اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ طلبہ تحریک نے 1968ء اور 70ء میں جو عوامی فوائد حاصل کیے تھے سب کے سب چھین لیے گئے ہیں۔ لہٰذا ان مراعات کو واپس لینے کے لیے اسٹوڈنٹس یونین کی واپسی بہت ضروری ہے اور حکمران اسٹوڈنٹس سے اپنے کام لینے کے لیے تنظیموں کی واپسی پر توخوش ہیں لیکن ان کی مثبت قوت کے اجتماع پر ہرگز تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ طلبہ یونین کے لیڈران نہ صرف اپنے ادارے کے طلبہ کی فیسوں میں غریب طلبہ کے لیے نصف یا معاف کروانے کے لیے 5 تا 10 فی صد طلبہ کی فیسوں کو معاف کرواتے تھے بلکہ فیسوں کی ادائیگی کے لیے اقساط طے کرتے تھے جہاں وہ سیاسی اور سماجی حقوق کے لیے ہی جد وجہد نہ کرتے تھے بلکہ بی اے، بی ایس سی اور بی کام دو سال کے بجائے تین سال کرنے کو ختم کرنے کی جدوجہد بھی کرتے تھے۔
طلبہ کے ریل، بس اور دیگر مراعات ختم ہوچکی ہیں پرائیویٹ اسکولوں کی فیس کی کوئی حد نہیں کم از کم 4 تا 5 ہزار ماہانہ ہیں ورنہ اے اور او لیول کی عام طور پر پندرہ بیس ہزار کیونکہ حکومت سندھ نے گورنمنٹ اسکولوں کو نظر انداز کردیا ہے لہٰذا با شعور طلبہ کو چاہیے کہ وہ نظریاتی اختلافات کو ختم کرکے ایک مرکز پر جمع ہوجائیں یعنی جمعیت طلبہ، ڈی ایس ایف، این ایس ایف، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن، مسلم اسٹوڈنٹس اور دیگر تنظیمیں یوم یکجہتی منائیں اور مرکزی حکومت کو چارٹر آف ڈیمانڈ دیں۔
صرف ایک ڈیمانڈ کہ طلبہ یونین سے پابندی ختم کی جائے اور یہی ملکی مسائل کا واحد جمہوری حل ہے۔ ورنہ چیف جسٹس کو حکومت کے ہر کام میں مداخلت کرنی پڑے گی اور اسمبلیاں جو قانون ساز ادارہ ہیں وہ نمائشی ادارہ بن کے رہ جائیں گی اور سینیٹ عضو معطل ہوجائے گی در اصل ورنہ ان مسائل پر توجہ دینے کے لیے کم از کم بجٹ کا ڈھائی فی صد تعلیم پر لگانا ہوگا تاکہ ملک ہنرمند اور خود کفیل ہو کیونکہ طلبہ مسائل پر طلبہ ہی طلبہ حقوق کے چیمپئن ہوسکتے ہیں۔