دور موجود کو کیا نام دوں
ساری سیاست ہی معاشرے کو آلودہ کرنے اور حصول اقتدار کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے پر تندہی سے مصروف ہے۔
قصورکی معصوم زینب کے واقعے پر جو شور ہوا اور پھر جس قدر پھرتی سے اس کے قاتل کو گرفتار کیا گیا، اس سے عوام کو امید ہوچلی تھی کہ اب شاید ایسے واقعات کی سنجیدگی سے روک تھام ممکن ہوگی، مگر اب اندازہ ہو رہا ہے کہ یہ پھرتی، یہ اعلیٰ کارکردگی شاید زیادہ شور مچ جانے اور ذرایع ابلاغ کے اس افسوسناک واقعے کو اجاگر کرنے کے باعث حکومت پنجاب نے اس بے رحمانہ قتل کو بھی 2018 کے انتخابات میں خود کو عوام دوست ثابت کرکے عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہی استعمال کیا۔
ایسے واقعات کا سدباب کرنا شاید ان کا مقصد تھا نہ ارادہ ۔ جیسا کہ کئی لکھنے والوں نے لکھا کہ زینب کا سانحہ نہ پہلا تھا اور نہ آخری۔ ملک کے طول و عرض میں ایسے واقعات زینب کے قاتلوں کو سزا دیے جانے کے بعد بھی خاصی تعداد میں رونما ہوئے ہیں، کراچی سے خیبر تک ایسے حادثات کا تانتا بندھا ہوا ہے، اندازاً پنجاب میں ان حادثات میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔
بن کھلی کلیوں کو پاؤں تلے روندھنے کے علاوہ نوجوان لڑکیوں، طالبات کو اغوا کرنے، بے حرمتی کے بعد قتل جیسے بھیانک جرائم کا سدباب لگتا ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والوں کے لیے ایک کھلا چیلنج بن چکا ہے۔
معاشرہ جس اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اس پر غور و فکر کرنے اور آنے والے تلخ و بھیانک دور کے لیے نئی منصوبہ بندی کرنے کا خیال بھی کسی کو نہیں ہے، فی الحال تو کیا سیاسی اور کیا مذہبی جماعتیں سب آیندہ انتخابات میں حصول اقتدار کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ جانے یہ سب کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس دوڑ میں وہی کامیاب ہوسکتا ہے جو عوام کے مسائل حل کرے، اقتدار حاصل کرنے کے بعد نہیں اس سے قبل، کیا بلااقتدار عوام کی خدمت کرنا کسی مذہب میں ممنوع ہے؟
کاروکاری، وٹہ سٹہ، ونی، غیرت کے نام پر، جرگہ کے فیصلے، جاگیردار اور وڈیرے و سرداروں کے حکم پر جو ظلم صنف نازک پر ہوتا رہا وہ تو ہمارے معاشرے کی پسماندگی کا عکاس ہے ہی۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی کے ووٹ کے حصول کے لیے تو ہر سیاسی جماعت سرگرم نظر آتی ہے، مگر ان ووٹرز (خواتین) کے حقوق و مسائل پر کوئی سنجیدہ ہونے کو تیار نہیں، ایئرکنڈیشن ہوٹلوں میں حقوق نسواں ، معاشرے میں عورت کا کردار پر تو بڑے بڑے سیمینار منعقد ہوتے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی بیگمات نئے جوڑے پہن کر بیوٹی پالرز سے میک اپ اور ہیئر اسٹائل بنوا کر ذرایع ابلاغ کے سامنے بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں۔
پارٹی کے کچھ سرکردہ حضرات بھی ان کی حمایت میں پرجوش بیانات داغتے ہیں مگر کیا عملی طور پر وہ معاشرے کی محنت کش خواتین کے لیے واقعی کچھ کرتے ہیں، ان سیمینار، تقاریر اور بیانات سے صرف ایک مخصوص طبقہ ہی آگاہ ہوپاتا ہے وہ بھی صرف ''آگاہ'' مسائل اپنی جگہ نہ صرف باقی رہتے ہیں بلکہ ان میں ہر آنے والے دن میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔
سیاسی جماعتوں نے تو اپنا مطمع نظر بلکہ لائحہ عمل اپنے مخالفین کو سرعام رسوا کرنا اور دنیا کا ہر عیب مخالفین کی ذات سے منسوب کرنا بنا لیا ہے۔ اب چاہے اس کے لیے انھیں گالیاں ہی دینی پڑیں، مخالف کے خاندان کے گڑھے مردے اکھاڑنے پڑیں یا ان کی بہو بیٹیوں پر بہتان تراشی کرنی پڑے اس حقیقت سے بے خبر کہ جواب میں اس سے زیادہ سخت ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
ساری سیاست ہی معاشرے کو آلودہ کرنے اور حصول اقتدار کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے پر تندہی سے مصروف ہے۔ اپنے مطالبات کے لیے مظاہرے، جلسے، جلوس اور روز مداریوں کا تماشا لگانا جس میں بعداز اقتدار وہ وہ دعوے کرنا کہ الامان الحفیظ، مگر کسی بھی سیاسی جماعت (حکمران جماعت سمیت) نے آئے دن زیادتی اور قتل کے ان واقعات پرکوئی احتجاج، کوئی ہڑتال ، کوئی واک یا مظاہرہ کرنے کی ضرورت محسوس کی؟
جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے (جو مذہب کے نام پر سر تاپا سیاست میں آلودہ ہیں) وہ خواتین کے لیے حدود و قیود پر تو ہر وقت کمربستہ رہتی ہیں مگر ان کے حقوق و احترام پر منہ پر تالے پڑ جاتے ہیں ۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ اسلام جیسے عالمگیر دین میں شاید خواتین کے حقوق ہی نہیں، انھیں صرف پالتو جانور تصور کیا جاتا ہے، جو دین اسلام کی کھلی توہین کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات ''انسان'' کو قرار دیا ہے صرف مردوں کو نہیں۔
آج ہمارا معاشرہ جس ''مذہبی حبس'' اور طبقاتی تقسیم کا شکار ہے اس میں غریب طبقہ جہاں اور سب معاشرتی محرومیوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، وہاں عزت و ناموس بھی اسی طبقے کی زیادہ تر خطرے میں رہتی ہے، ایک جانب مذہبی طور پر ان کا استحصال دوسری جانب طبقاتی اور پھر قبائلی رسم و رواج ہر جانب سے یہ طبقہ ہی ہر زیادتی کا شکار ہوتا ہے۔
ونی، کاروکاری، جرگہ کے علاوہ ہوس پرست جاگیردار اور ان کے مراعات یافتہ صاحبزادگان سے غریب اپنی بہو بیٹی کو کیسے بچا سکتے ہیں نہ ان کے پاس حفاظتی اسکواڈ ہوتا ہے نہ قانون کے محافظ وڈیرے سے ٹکر لے کر ان کی حفاظت کرنے پر آمادہ۔ غریبوں کے مردوں کے جرائم کی سزا بھی ان کی عورتوں (بیٹیوں، بہنوں) کو ملتی ہے آئے دن ایسے شرمناک جرگہ، پنچایت کے فیصلے ذرایع ابلاغ کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ بھائی کی غلطی کی سزا، اس کی بے گناہ بہن، باپ کے جرم کی سزا اس کی معصوم نو عمر بیٹی کو دی گئی۔
یہ سب کچھ معاشرے میں کھلم کھلا ہو رہا ہے۔ کیا کسی سیاسی، مذہبی رہنما نے اس پر احتجاج کیا، جلوس نکلا، دھرنا دیا؟ غریب تو یوں بھی اعلیٰ طبقے کا غلام، زرخرید ہوتا ہے تو بھلا اس کی عزت بھی کوئی عزت ہوتی ہے؟
ایسے واقعات کا سدباب کرنا شاید ان کا مقصد تھا نہ ارادہ ۔ جیسا کہ کئی لکھنے والوں نے لکھا کہ زینب کا سانحہ نہ پہلا تھا اور نہ آخری۔ ملک کے طول و عرض میں ایسے واقعات زینب کے قاتلوں کو سزا دیے جانے کے بعد بھی خاصی تعداد میں رونما ہوئے ہیں، کراچی سے خیبر تک ایسے حادثات کا تانتا بندھا ہوا ہے، اندازاً پنجاب میں ان حادثات میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔
بن کھلی کلیوں کو پاؤں تلے روندھنے کے علاوہ نوجوان لڑکیوں، طالبات کو اغوا کرنے، بے حرمتی کے بعد قتل جیسے بھیانک جرائم کا سدباب لگتا ہے کہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والوں کے لیے ایک کھلا چیلنج بن چکا ہے۔
معاشرہ جس اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اس پر غور و فکر کرنے اور آنے والے تلخ و بھیانک دور کے لیے نئی منصوبہ بندی کرنے کا خیال بھی کسی کو نہیں ہے، فی الحال تو کیا سیاسی اور کیا مذہبی جماعتیں سب آیندہ انتخابات میں حصول اقتدار کی دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ جانے یہ سب کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس دوڑ میں وہی کامیاب ہوسکتا ہے جو عوام کے مسائل حل کرے، اقتدار حاصل کرنے کے بعد نہیں اس سے قبل، کیا بلااقتدار عوام کی خدمت کرنا کسی مذہب میں ممنوع ہے؟
کاروکاری، وٹہ سٹہ، ونی، غیرت کے نام پر، جرگہ کے فیصلے، جاگیردار اور وڈیرے و سرداروں کے حکم پر جو ظلم صنف نازک پر ہوتا رہا وہ تو ہمارے معاشرے کی پسماندگی کا عکاس ہے ہی۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی کے ووٹ کے حصول کے لیے تو ہر سیاسی جماعت سرگرم نظر آتی ہے، مگر ان ووٹرز (خواتین) کے حقوق و مسائل پر کوئی سنجیدہ ہونے کو تیار نہیں، ایئرکنڈیشن ہوٹلوں میں حقوق نسواں ، معاشرے میں عورت کا کردار پر تو بڑے بڑے سیمینار منعقد ہوتے ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کی بیگمات نئے جوڑے پہن کر بیوٹی پالرز سے میک اپ اور ہیئر اسٹائل بنوا کر ذرایع ابلاغ کے سامنے بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں۔
پارٹی کے کچھ سرکردہ حضرات بھی ان کی حمایت میں پرجوش بیانات داغتے ہیں مگر کیا عملی طور پر وہ معاشرے کی محنت کش خواتین کے لیے واقعی کچھ کرتے ہیں، ان سیمینار، تقاریر اور بیانات سے صرف ایک مخصوص طبقہ ہی آگاہ ہوپاتا ہے وہ بھی صرف ''آگاہ'' مسائل اپنی جگہ نہ صرف باقی رہتے ہیں بلکہ ان میں ہر آنے والے دن میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے۔
سیاسی جماعتوں نے تو اپنا مطمع نظر بلکہ لائحہ عمل اپنے مخالفین کو سرعام رسوا کرنا اور دنیا کا ہر عیب مخالفین کی ذات سے منسوب کرنا بنا لیا ہے۔ اب چاہے اس کے لیے انھیں گالیاں ہی دینی پڑیں، مخالف کے خاندان کے گڑھے مردے اکھاڑنے پڑیں یا ان کی بہو بیٹیوں پر بہتان تراشی کرنی پڑے اس حقیقت سے بے خبر کہ جواب میں اس سے زیادہ سخت ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
ساری سیاست ہی معاشرے کو آلودہ کرنے اور حصول اقتدار کے لیے ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے پر تندہی سے مصروف ہے۔ اپنے مطالبات کے لیے مظاہرے، جلسے، جلوس اور روز مداریوں کا تماشا لگانا جس میں بعداز اقتدار وہ وہ دعوے کرنا کہ الامان الحفیظ، مگر کسی بھی سیاسی جماعت (حکمران جماعت سمیت) نے آئے دن زیادتی اور قتل کے ان واقعات پرکوئی احتجاج، کوئی ہڑتال ، کوئی واک یا مظاہرہ کرنے کی ضرورت محسوس کی؟
جہاں تک مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے (جو مذہب کے نام پر سر تاپا سیاست میں آلودہ ہیں) وہ خواتین کے لیے حدود و قیود پر تو ہر وقت کمربستہ رہتی ہیں مگر ان کے حقوق و احترام پر منہ پر تالے پڑ جاتے ہیں ۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ اسلام جیسے عالمگیر دین میں شاید خواتین کے حقوق ہی نہیں، انھیں صرف پالتو جانور تصور کیا جاتا ہے، جو دین اسلام کی کھلی توہین کے مترادف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات ''انسان'' کو قرار دیا ہے صرف مردوں کو نہیں۔
آج ہمارا معاشرہ جس ''مذہبی حبس'' اور طبقاتی تقسیم کا شکار ہے اس میں غریب طبقہ جہاں اور سب معاشرتی محرومیوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، وہاں عزت و ناموس بھی اسی طبقے کی زیادہ تر خطرے میں رہتی ہے، ایک جانب مذہبی طور پر ان کا استحصال دوسری جانب طبقاتی اور پھر قبائلی رسم و رواج ہر جانب سے یہ طبقہ ہی ہر زیادتی کا شکار ہوتا ہے۔
ونی، کاروکاری، جرگہ کے علاوہ ہوس پرست جاگیردار اور ان کے مراعات یافتہ صاحبزادگان سے غریب اپنی بہو بیٹی کو کیسے بچا سکتے ہیں نہ ان کے پاس حفاظتی اسکواڈ ہوتا ہے نہ قانون کے محافظ وڈیرے سے ٹکر لے کر ان کی حفاظت کرنے پر آمادہ۔ غریبوں کے مردوں کے جرائم کی سزا بھی ان کی عورتوں (بیٹیوں، بہنوں) کو ملتی ہے آئے دن ایسے شرمناک جرگہ، پنچایت کے فیصلے ذرایع ابلاغ کی زینت بنتے رہتے ہیں کہ بھائی کی غلطی کی سزا، اس کی بے گناہ بہن، باپ کے جرم کی سزا اس کی معصوم نو عمر بیٹی کو دی گئی۔
یہ سب کچھ معاشرے میں کھلم کھلا ہو رہا ہے۔ کیا کسی سیاسی، مذہبی رہنما نے اس پر احتجاج کیا، جلوس نکلا، دھرنا دیا؟ غریب تو یوں بھی اعلیٰ طبقے کا غلام، زرخرید ہوتا ہے تو بھلا اس کی عزت بھی کوئی عزت ہوتی ہے؟