عوام کہاں کریں فریاد
کیا بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عدلیہ کا نوٹس لینا غلطی ہے؟
اس بیان سے حکمرانوں کی بے بسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب عوام کی فریاد سننے اور مسائل حل کرانے کی ذمے دار حکومت کا سربراہ ہی کہے کہ ہاں میں فریادی ہوں اور ملک کی فریاد لے کرگیا تھا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار بھی کہہ چکے ہیں کہ ہمارے پاس کوئی بھی سائل فریاد لے کر آئے گا تو ہمیں اس کی فریاد اور شکایت ضرور سننی ہے۔
اعلیٰ عدلیہ اور عدالتی سربراہ ایک نہیں کئی بار بلکہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ جب حکومت اور سرکاری ادارے کام نہیں کریں گے یا من مانیاں، اقربا پروری اور غیر قانونی کام کریں گے انسانوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے تو عدالتوں کو آئین میں رہتے ہوئے مداخلت اور متاثرین کو ان کے قانونی حقوق دلانے کے احکامات دینے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ اگر انتظامیہ اپنا کام نہ کرے تو کیا عدلیہ کا نوٹس لینا مداخلت ہے۔ اپنی شکایات اور مسائل کے لیے روزانہ سائل آتے ہیں تو میں کسی کو روکتا نہیں کسی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ انھوں نے ایک سینئر وکیل کو کہا کہ آپ اور عوام چاہتے ہیں کہ میں کچھ کروں لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ کچھ نہ کرو۔ اب میں مظلوموں کی فریاد سنوں یا بعض لوگوں کی باتیں سن کر خاموش رہوں ۔
پنجاب کے علاقے حجرہ شاہ مقیم میں گندی گلی سے جنازہ نکالے جانے کی ایک تصویر پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس نے کہا کہ ایگزیکٹیو اپنا کام نہیں کرے گی توکیا عدلیہ کا نوٹس لینا مداخلت ہے۔ کیا بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عدلیہ کا نوٹس لینا غلطی ہے؟
چیف جسٹس پاکستان نے جو کچھ کہا وہ سو فیصد درست اور حکومت اور انتظامیہ سے مایوسی عوام کے دل کی آواز ہے جو خود ملک میں یہ سب کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں اور مجبوری میں خاموش ہیں کہ وہ فریادوں اور شور کے سوا کچھ کر نہیں سکتے۔ بس عام انتخابات میں آزمائے ہوئے پرانے سیاستدانوں پر ہی اعتماد کیے جاتے ہیں جنھوں نے کئی کئی باریاں لے کر اقتدار میں آکر دعوؤں اور جھوٹے وعدوں کے سوا کچھ نہیں کیا۔
عوام ایک صوبے میں حکمرانی کے پانچ سالوں میں کوئی قابل ذکر اور مثالی کارکردگی نہ دکھا کر وزیر اعظم بننے کے لیے بے چین سیاستدان سے بھی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں مگر ان کے قول و فعل میں نمایاں فرق دیکھ کر سوچتے ہیں کہ اب کس پر اعتبار کریں۔ پنجاب اور سندھ کے بعد چیف جسٹس نے حالات دیکھنے کے پی کے جانے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد نیا پاکستان بنانے کے دعویداروں کا جھوٹ اور سچ بھی سامنے آجائے گا۔
سندھ اور پنجاب میں چیف جسٹس نے اسپتالوں کے دوروں میں علاج فراہمی کی حکومتی سہولتیں دیکھ لیں اور سندھ میں چار ہزار اسکولوں میں صاف پانی اور ٹونٹیوں کا نہ ہونا بھی دیکھا اور سوٹ پہننے کے شوقین وزیر اعلیٰ سے بھی پوچھا تھا کہ کیا وہ میرے ساتھ ایک گلاس یہ آلودہ پانی پینا پسند کریں گے جو ان کے صوبے کے عوام پی رہے ہیں اور اپنے جسموں میں بیماریاں پال رہے ہیں۔
سندھ میں بدتر صورتحال پر اگر سپریم کورٹ نے واٹر کمیشن نہ بنایا ہوتا تو یہ تلخ حقائق اور کرپشن سامنے نہ آتی کہ سندھ کا محکمہ بلدیات اور عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے ادارے اور افسران دس سالوں سے کر رہے ہیں اور سندھ حکومت بڑی ڈھٹائی سے ترقی کے دعوے اور اشتہاری ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔
راولپنڈی اور لاہور میں زیر زمین پانی کس قدر آلودہ ہوچکا ہے وہ بھی عدلیہ اور میڈیا کے سامنے آچکا ہے۔ چلنے پھرنے کے قابل لوگ تو میٹرو بسوں، اورنج ٹرینوں اور گرین بسوں میں سفر کرلیں گے مگر حکومتی لاپرواہی سے بیماریوں میں مبتلا لاکھوں بیمارکیسے سفر کریں گے یہ کوئی بھی نہیں بتا سکتا۔
عدالتوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ وہ سیاسی و انتظامی معاملوں کی بجائے ان اٹھارہ لاکھ سے زائد زیر التوا مقدمات کیوں نہیں نمٹا رہیں جو سالوں سے زیر سماعت ہیں اور چیف جسٹس کے علم میں بھی ہیں مگر چیف جسٹس کو ان لاکھوں مقدمات کے ساتھ کروڑوں عوام کو درپیش بنیادی مسائل کو بھی دیکھنا پڑ رہا ہے کہ جن کی وجہ سے عوام عذاب میں مبتلا ہیں جن کی ذمے دار عدلیہ نہیں حکومتیں، سیاستدان اور متعلقہ ادارے ہیں جنھوں نے ووٹ لینے کے بعد عوام کے دکھوں کا احساس کرکے ان کے حل پر توجہ دی ہوتی تو چیف جسٹس کو مضر صحت پانی کی فراہمی، علاج کی سہولتوں کے فقدان، حکومتی بد انتظامیوں اور من مانیوں پر توجہ نہ دینا پڑتی ۔
سیاستدانوں نے سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں طے کرلیے ہوتے اور وہ خود سپریم کورٹ کو ان سیاسی معاملات میں ملوث نہ کرتے تو صورتحال مختلف ہوسکتی تھی مگر حصول اقتدار کے لیے عدلیہ کو سیاسی کیچڑ میں پھنسایا گیا تو دیگر معاملات بھی کھل کر سامنے آگئے۔
وزیر اعظم کو تو چیف جسٹس نے حکومتی فریاد سنانے کے لیے ملاقات اور دو گھنٹے دے دیے کیونکہ دونوں صاحب اقتدار ہیں مگر اقتدار کے لیے صرف ووٹ دینے والوں کے لیے وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، ارکان اسمبلی اور سرکاری افسروں کے پاس وقت نہیں ہے تو عوام اپنی فریاد لے کر کس کے پاس جائیں۔ حکمرانوں کی نام نہاد کھلی کچہریاں ختم ہوچکیں ۔ دہشت گردی سے خوفزدہ حکمران عوام سے دور جا چکے۔
عدالتوں سے انصاف حاصل کرنا کتنا مہنگا اور طویل ہے اس کا پتا تو نواز شریف کو نا اہل ہوکر چلا ہے۔ کراچی میں ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے والی کے الیکٹرک کو تو کوئی بھی نہیں پوچھ رہا کہ وہ وفاقی محتسب کے فیصلوں پر عمل کیوں نہیں کر رہی اور وفاقی حکومت کی اس بے بسی پر بھی عوام عدلیہ کا ازخود نوٹس چاہتے ہیں کہ جن سے اربوں روپے اضافی بلنگ کے ذریعے لوٹ لیے گئے ہیں۔