آزادی کا سورج جلد طلوع ہوگا
کشمیریوں کی شہادتوں اور لازوال قربانیوں کا کوئی حساب نہیں ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ کسی قوم سے مستقل بنیادوں پر آزادی جیسی نعمت کو چھینا نہیں جاسکتا ہے، جو قوم اپنے خون سے آزادی کی تحریک کو سینچ رہی ہو اور اپنی آزادی کے لیے قربانیاں اور شہادتیں دے رہی ہو وہ قوم آزادی کی نعمت سے محروم نہیں رہ سکتی۔
قیام پاکستان کے ساتھ ہی ریاست جموں وکشمیر کو بھارت کے قبضے سے آزاد کرانے کی جدو جہد کا آغاز ہوگیا تھا مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں اور دونوں ممالک خود کو دفاعی طور پر مستحکم کرتے ہوئے ایٹمی طاقتیں بھی بن چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے کمیشن کی 19سے زائد قراردادوں پر عملدرآمد کے انحراف کے سبب دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں جب کہ مسئلے کے اصل فریق یعنی کشمیری بھارتی فوج کی بربریت اور انسانیت سوز مظالم کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد جانیں ضایع کیے جانے کے باوجود بھارت سے آزادی کے حصول تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔
کشمیریوں کی شہادتوں اور لازوال قربانیوں کا کوئی حساب نہیں ہے مگربرہان الدین وانی کی شہادت نے آزادی کے بھڑکتے ہوے الاؤ میں مزید شدت پیدا کردی ہے۔وادی کشمیر میں گونجتے ہوئے یہ نعرے۔ ہم کیا چاہتے ہیں آزادی... ہم لے کر رہیں گے آزادی... برہان کے صدقہ آزادی... میرے کفن پر لکھنا آزادی... خون کو گرما دینے والے نعرے، آزادی کی تحریک کو جلا بخش رہے ہیں یہ نعرے ایک جانب تحریک آزادی کوگرما رہے ہیں تو دوسری طرف جابر اور ظالم بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رہے ہیں۔
تحریک آزادی کو ختم کرنے کے لیے بھارتی افواج نے مظالم کی حد پار کر دی ہیں انسانی اقدارکا خیال نہیں رکھا جا رہا ۔دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں مقبوضہ کشمیر میں ہو رہی ہیں۔گزشتہ برسوں میں کشمیر میں انسانی حقوق کی اتنی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں اور اتنے مظالم ڈھائے گئے ہیں کہ اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتیں۔
1947ء میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر برصغیر جنوبی ایشیا کی تقسیم کا یہ فارمولا طے پایا تھا کہ مسلم اکثریت کے ملحقہ علاقے پاکستان میں شامل ہونگے اور غیر مسلم اکثریت کے ملحقہ علاقے بھارت میں اور یہی اصول برصغیر کی پانچ سو کے قریب ریاستوں کے لیے بھی طے پایا تھا، چنانچہ برصغیر کی تقسیم کے بعد جب بھارت اور پاکستان کے نام سے دو الگ الگ مملکتیں معرض وجود میں آئیں تو ان ریاستوں نے اس اصول کے مطابق بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیا، اگر ان میں سے کسی ریاست نے اپنے مستقبل کا فیصلہ ان اصولوں سے ہٹ کر کرنے کی کوشش کی تو اسے تسلیم نہیں کیا گیا ۔
مثلاً ریاست حیدرآباد جو ہندو اکثریت کی ریاست تھی جس کا حکمران نظام حیدرآباد مسلمان تھا اس نے اس ریاست کو خود مختار قرار دینے کا فیصلہ کیا لیکن بھارت نے اس فیصلے کو برصغیرکی تقسیم کے اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے ماننے سے انکارکردیا اور حیدرآباد پر زبردستی قبضہ کر لیا۔
اسی طرح ہندو اکثریت کی ریاست جوناگڑھ کے مسلمان حکمران نے جب اپنی ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنے کی کوشش کی تو بھارتی حکمرانوں نے اسے اس بنیاد پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ غالب ہندو اکثریت کی اس ریاست کا الحاق تقسیم برصغیر کے اصولوں کی رو سے بھارت کے ساتھ ہونا چاہیے نہ کہ پاکستان کے ساتھ اور اس کے ساتھ ہی اس نے ریاست جوناگڑھ کے خلاف فوجی کارروائی کرکے اسے اپنے ساتھ شامل کر لیا۔
اس کے برعکس یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ مسلم اکثریت کی ریاست جموں وکشمیر کے معاملے میں بھارت کے یہ پیمانے بدل گئے اور اس نے ریاست کے ہندو حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے نام سے ایک جعلی دستاویز الحاق تیارکی اور اسے بنیاد بنا کر 27 اکتوبر 1947ء کو اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔ حالانکہ یہ بات اس کو معلوم تھی کہ ریاستی عوام کی غالب مسلم اکثریت کی واحد نمایندہ جماعت مسلم کانفرنس اس سے کئی ماہ پہلے 19 جولائی 1947 کوکشمیرکے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرچکی ہے۔
بھارت کے انگریزگورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ ہری سنگھ کے پیش کردہ الحاق کی جعلی درخواست کی منظوری دیتے ہوئے لکھا تھا۔''ہماری اس پالیسی کے پیش نظر کہ جس ریاست کا الحاق کا مسئلہ متنازعہ ہو ، اس کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے ،میری حکومت یہ چاہتی ہے کہ ریاست میں نظم ونسق کی بحالی اور ریاست کو حملہ آوروں سے خالی کرنے کے بعد الحاق کا مسئلہ عوام کی آرزو اور رائے کے مطابق طے کیا جائے۔''
اور پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیری عوام کی آزادی اور حق خود ارادیت کے بنیادی حق کو تسلیم کرتے ہوئے یہ تاریخی قرارداد منظورکی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ریاست جموں وکشمیر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کا اہتمام کرکے خود کشمیری عوام کی مرضی سے یہ طے کیاجائے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ یہ قرار داد تحریک آزادی کشمیر کو بین الاقوامی اعتبار سے ٹھوس آئینی اور قانونی بنیادیں مہیا کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام نے پہلے دن سے اس قرار داد کو ہمیشہ آزادی اور حق خودارادیت کے لیے اپنی جدوجہد اور تحریک کی بنیاد قرار دیا ہے۔ نیزاسی قراردادکی بنیاد پر پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک بنیادی فریق قرار پاتا ہے اور تحریک آزادی کشمیرکی تائید وحمایت کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت ہمیشہ ان قراردادوں کے نفاذ سے راہ ِ فرارکے لیے حیلے بہانے تلاش کرتا رہا ہے۔
بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی بجائے مغالطے اور غلط فہمیاں پیدا کرکے فکری انتشارکی ایک ایسی کیفیت کو پروان چڑھا رہا ہے جس کے نتیجے میں آزادی کشمیر کی تحریک جو اپنی منزل کے بہت قریب آچکی ہے اسے ایک بار پھر منزل سے بیگانہ کردیا جائے اور مسئلہ کشمیرکو اس قدر الجھا دیا جائے کہ عوامی سطح پر جیتی ہوئی جنگ کو ڈپلومیٹک محاذ پر شکست میں تبدیل کردیا جائے۔ اپنے ان مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے بھارت کی کوشش یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اس کی قانونی اور آئینی بنیادوں سے بیگانہ کردیا جائے۔
اس مقصد کے لیے ان حلقوں کی طرف سے کبھی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بجائے ثالثی کے ذریعے حل کرنے کی تجویز سامنے آتی ہے اور کبھی مذاکرات کی ، کبھی ''تھرڈ آپشن'' اور کبھی خودمختار کشمیر کا،کبھی تقسیم کشمیر کی بات کی جاتی ہے اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں تحریک آزادی کشمیرکی راہ میں رکاوٹ ہے اور کبھی یہ کہ یہ قراردادیں کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے خلاف ایک سازش ہیں، غرضیکہ مختلف حیلوں بہانوں سے کشمیری عوام کو مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کرکوئی ''دوسرا حل'' تسلیم کرنے پر تیار کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے بھارتی حکمران بھی اپنا پورا زور صرف کر رہے ہیں۔
آخرکب تک انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں چپ رہیں گے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیریوں کو اقوا م متحدہ کی قرارداد کے مطابق استصواب رائے کا حق دیا جائے۔ کشمیریوں کو ان کو اپنی مرضی کے مطابق زندہ رہنے کا موقع فراہم کیا جائے اور مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔کشمیری شہدا کا خون ضرور رنگ لائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا سورج جلد طلوع ہوگا۔ وہ وقت قریب آ گیا ہے کہ بھارت کے لیے کشمیریوں کو زیادہ دیر تک غلام بنا کر رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔
قیام پاکستان کے ساتھ ہی ریاست جموں وکشمیر کو بھارت کے قبضے سے آزاد کرانے کی جدو جہد کا آغاز ہوگیا تھا مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تین جنگیں ہوچکی ہیں اور دونوں ممالک خود کو دفاعی طور پر مستحکم کرتے ہوئے ایٹمی طاقتیں بھی بن چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے کمیشن کی 19سے زائد قراردادوں پر عملدرآمد کے انحراف کے سبب دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں جب کہ مسئلے کے اصل فریق یعنی کشمیری بھارتی فوج کی بربریت اور انسانیت سوز مظالم کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ سے زائد جانیں ضایع کیے جانے کے باوجود بھارت سے آزادی کے حصول تک جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔
کشمیریوں کی شہادتوں اور لازوال قربانیوں کا کوئی حساب نہیں ہے مگربرہان الدین وانی کی شہادت نے آزادی کے بھڑکتے ہوے الاؤ میں مزید شدت پیدا کردی ہے۔وادی کشمیر میں گونجتے ہوئے یہ نعرے۔ ہم کیا چاہتے ہیں آزادی... ہم لے کر رہیں گے آزادی... برہان کے صدقہ آزادی... میرے کفن پر لکھنا آزادی... خون کو گرما دینے والے نعرے، آزادی کی تحریک کو جلا بخش رہے ہیں یہ نعرے ایک جانب تحریک آزادی کوگرما رہے ہیں تو دوسری طرف جابر اور ظالم بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رہے ہیں۔
تحریک آزادی کو ختم کرنے کے لیے بھارتی افواج نے مظالم کی حد پار کر دی ہیں انسانی اقدارکا خیال نہیں رکھا جا رہا ۔دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں مقبوضہ کشمیر میں ہو رہی ہیں۔گزشتہ برسوں میں کشمیر میں انسانی حقوق کی اتنی خلاف ورزیاں ہوئی ہیں اور اتنے مظالم ڈھائے گئے ہیں کہ اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتیں۔
1947ء میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر برصغیر جنوبی ایشیا کی تقسیم کا یہ فارمولا طے پایا تھا کہ مسلم اکثریت کے ملحقہ علاقے پاکستان میں شامل ہونگے اور غیر مسلم اکثریت کے ملحقہ علاقے بھارت میں اور یہی اصول برصغیر کی پانچ سو کے قریب ریاستوں کے لیے بھی طے پایا تھا، چنانچہ برصغیر کی تقسیم کے بعد جب بھارت اور پاکستان کے نام سے دو الگ الگ مملکتیں معرض وجود میں آئیں تو ان ریاستوں نے اس اصول کے مطابق بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیا، اگر ان میں سے کسی ریاست نے اپنے مستقبل کا فیصلہ ان اصولوں سے ہٹ کر کرنے کی کوشش کی تو اسے تسلیم نہیں کیا گیا ۔
مثلاً ریاست حیدرآباد جو ہندو اکثریت کی ریاست تھی جس کا حکمران نظام حیدرآباد مسلمان تھا اس نے اس ریاست کو خود مختار قرار دینے کا فیصلہ کیا لیکن بھارت نے اس فیصلے کو برصغیرکی تقسیم کے اصولوں کے منافی قرار دیتے ہوئے ماننے سے انکارکردیا اور حیدرآباد پر زبردستی قبضہ کر لیا۔
اسی طرح ہندو اکثریت کی ریاست جوناگڑھ کے مسلمان حکمران نے جب اپنی ریاست کا الحاق پاکستان سے کرنے کی کوشش کی تو بھارتی حکمرانوں نے اسے اس بنیاد پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ غالب ہندو اکثریت کی اس ریاست کا الحاق تقسیم برصغیر کے اصولوں کی رو سے بھارت کے ساتھ ہونا چاہیے نہ کہ پاکستان کے ساتھ اور اس کے ساتھ ہی اس نے ریاست جوناگڑھ کے خلاف فوجی کارروائی کرکے اسے اپنے ساتھ شامل کر لیا۔
اس کے برعکس یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ مسلم اکثریت کی ریاست جموں وکشمیر کے معاملے میں بھارت کے یہ پیمانے بدل گئے اور اس نے ریاست کے ہندو حکمران مہاراجہ ہری سنگھ کے نام سے ایک جعلی دستاویز الحاق تیارکی اور اسے بنیاد بنا کر 27 اکتوبر 1947ء کو اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں۔ حالانکہ یہ بات اس کو معلوم تھی کہ ریاستی عوام کی غالب مسلم اکثریت کی واحد نمایندہ جماعت مسلم کانفرنس اس سے کئی ماہ پہلے 19 جولائی 1947 کوکشمیرکے پاکستان کے ساتھ الحاق کا مطالبہ کرچکی ہے۔
بھارت کے انگریزگورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ ہری سنگھ کے پیش کردہ الحاق کی جعلی درخواست کی منظوری دیتے ہوئے لکھا تھا۔''ہماری اس پالیسی کے پیش نظر کہ جس ریاست کا الحاق کا مسئلہ متنازعہ ہو ، اس کے الحاق کا فیصلہ وہاں کے عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے ،میری حکومت یہ چاہتی ہے کہ ریاست میں نظم ونسق کی بحالی اور ریاست کو حملہ آوروں سے خالی کرنے کے بعد الحاق کا مسئلہ عوام کی آرزو اور رائے کے مطابق طے کیا جائے۔''
اور پھر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیری عوام کی آزادی اور حق خود ارادیت کے بنیادی حق کو تسلیم کرتے ہوئے یہ تاریخی قرارداد منظورکی تھی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ریاست جموں وکشمیر میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کا اہتمام کرکے خود کشمیری عوام کی مرضی سے یہ طے کیاجائے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کس کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ یہ قرار داد تحریک آزادی کشمیر کو بین الاقوامی اعتبار سے ٹھوس آئینی اور قانونی بنیادیں مہیا کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کشمیری عوام نے پہلے دن سے اس قرار داد کو ہمیشہ آزادی اور حق خودارادیت کے لیے اپنی جدوجہد اور تحریک کی بنیاد قرار دیا ہے۔ نیزاسی قراردادکی بنیاد پر پاکستان مسئلہ کشمیر کا ایک بنیادی فریق قرار پاتا ہے اور تحریک آزادی کشمیرکی تائید وحمایت کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بھارت ہمیشہ ان قراردادوں کے نفاذ سے راہ ِ فرارکے لیے حیلے بہانے تلاش کرتا رہا ہے۔
بھارت مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی بجائے مغالطے اور غلط فہمیاں پیدا کرکے فکری انتشارکی ایک ایسی کیفیت کو پروان چڑھا رہا ہے جس کے نتیجے میں آزادی کشمیر کی تحریک جو اپنی منزل کے بہت قریب آچکی ہے اسے ایک بار پھر منزل سے بیگانہ کردیا جائے اور مسئلہ کشمیرکو اس قدر الجھا دیا جائے کہ عوامی سطح پر جیتی ہوئی جنگ کو ڈپلومیٹک محاذ پر شکست میں تبدیل کردیا جائے۔ اپنے ان مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے بھارت کی کوشش یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اس کی قانونی اور آئینی بنیادوں سے بیگانہ کردیا جائے۔
اس مقصد کے لیے ان حلقوں کی طرف سے کبھی مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بجائے ثالثی کے ذریعے حل کرنے کی تجویز سامنے آتی ہے اور کبھی مذاکرات کی ، کبھی ''تھرڈ آپشن'' اور کبھی خودمختار کشمیر کا،کبھی تقسیم کشمیر کی بات کی جاتی ہے اور کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادیں تحریک آزادی کشمیرکی راہ میں رکاوٹ ہے اور کبھی یہ کہ یہ قراردادیں کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے خلاف ایک سازش ہیں، غرضیکہ مختلف حیلوں بہانوں سے کشمیری عوام کو مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہٹ کرکوئی ''دوسرا حل'' تسلیم کرنے پر تیار کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے بھارتی حکمران بھی اپنا پورا زور صرف کر رہے ہیں۔
آخرکب تک انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں چپ رہیں گے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کشمیریوں کو اقوا م متحدہ کی قرارداد کے مطابق استصواب رائے کا حق دیا جائے۔ کشمیریوں کو ان کو اپنی مرضی کے مطابق زندہ رہنے کا موقع فراہم کیا جائے اور مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کیا جائے۔کشمیری شہدا کا خون ضرور رنگ لائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا سورج جلد طلوع ہوگا۔ وہ وقت قریب آ گیا ہے کہ بھارت کے لیے کشمیریوں کو زیادہ دیر تک غلام بنا کر رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔