سی پیک ۔۔۔ گوادر ژوب اور خضدار میں نظر نہ آئے تو مایوسی بڑھتی ہے حافظ حسین احمد

 سینئر سیاست دان و مرکزی سیکریٹری اطلاعات جے یو آئی (ف) حافظ حسین احمد سے مکالمہ

آج صاحب اقتدار جنرل ضیاء کو سیاسی باپ نہ کہے تو اس مقام پر نہ ہوتے، تحریک انصاف میں آنیوالا ہر شخص صاف ہو جائے تو یہ کہاں کا انصاف ہے

اسلام وہ دین ہے، جس کے پیروکاروں کو اپنے پروردگار کی اطاعت اور عبادت کے لئے رہبانیت یا تنہائی پسندی سے منع کیا گیا ہے، یعنی اسلام دنیا سے قطع تعلق نہیں بلکہ اس میں رہ کر اپنے خالق کی عبادت و فرمانبرداری کے ساتھ مخلوق کے سدھار کی کوششوں میں شمولیت کا درس دیتا ہے، لیکن افسوس! اسلام کی ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونے والوں کی تعداد روز بروز کم ہو رہی ہے، کیوں کہ کوئی تو خدائے بزرگ و برتر کی محبت اور فرمانبرداری میں دنیا سے قطع تعلق ہوا بیٹھا ہے تو کسی پر صرف دنیاوی معاملات ہی غالب آ چکے ہیں، لیکن ایسے میں اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں، جنہوں نے وہ راستہ اختیار کیا کہ جس سے دین اور دنیا میں توازن کا اظہار ہوتا ہے۔

ایسے ہی بندوں میں شمار ہوتا ہے، اس ہستی کا جس کی بزلہ سنجی سے ایک طرف غیروں کے چہروں پر بھی مسکراہٹیں بکھر جاتی ہیں تو دوسری طرف ان کی اصول پسندی بعض اوقات اپنوں کو بھی نہیں بھاتی۔ ہم بات کر رہے ہیں سینئر سیاست دان اور مرکزی سیکرٹری اطلاعات جمعیت علماء اسلام (ف) حافظ حسین احمد کی۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی نے 1951ء میں کوئٹہ کے ایک مذہبی و سیاسی خاندان میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد مولانا عرض محمد قیام پاکستان سے قبل ریاست قلات کے دارالعوام (اسمبلی) کے رکن تھے، جہاں انہوں نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ ریاست میں اسلامی و شرعی قوانین کے نفاذ کا بل پیش کرکے اسے منظور کروایا۔ پاکستان بننے کے بعد جب جمعیت علماء اسلام کی بنیاد رکھی گئی تو مولانا عرض محمد اس کے بانی ارکان میں شامل تھے۔ مولانا عبداللہ درخواستی، مولانا احمد علی لاہوری اور مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ نے جمعیت کی بنیاد رکھی اور مولانا عرض محمد مولانا احمد علی لاہوری کے خلیفہ مجاز تھے۔

یوں سیاست ان کی گھٹی میں شامل تھی۔ زمانہ طالب علمی میں ہی حافظ حسین احمد جمعیت سے منسلک ہوئے تو اس کے ساتھ ہی قید و بند کی صعوبتوں کا بھی آغاز ہو گیا۔ 1988ء میں پہلی بار وہ جمعیت کے ٹکٹ پر کوئٹہ (چاغی) جیسے بڑے حلقہ سے یحی بختیار اور نواب بگٹی کے بھائی سمیت مضبوط مخالف امیدواروں کو ہرا کر قومی اسمبلی میں پہنچ گئے، تاہم یہ اسمبلی 20 ماہ بعد ہی توڑ دی گئی، بعدازاں وہ سینیٹر منتخب ہو گئے۔ وہ دو بار سینیٹ کے ممبر رہنے کے بعد 2002ء میں ایک بار پھر اپنے آبائی حلقہ کوئٹہ (چاغی) سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ تقریباً 20 سال پارلیمانی نظام کا حصہ رہنے والے سینئر سیاست دان و مرکزی سیکرٹری اطلاعات جمعیت علماء اسلام (ف) حافظ حسین احمد ملکی اور خطے کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ''ایکسپریس'' نے ان کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جو نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں روایتی سیاست پر عمل پیرا ہیں جبکہ پی ٹی آئی تبدیلی کی علمبردار ہونے کی دعوے دار ہے، آپ پی ٹی آئی کی طرز سیاست کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
حافظ حسین احمد: پاکستان میں کچھ ادوار ایسے آئے، جب تبدیلی کا نعرہ لگا اور تبدیلی محسوس بھی ہوئی، میں اختلافات سے ہٹ کر کھل کر بات کروں گا کہ بھٹو صاحب جب آئے تو انہوں نے تبدیلی کا ایک نعرہ لگایا، میں اعتراف کرتا ہوں کہ تبدیلی آئی اور تبدیلی یہ تھی کہ لوگ کہنے لگے کہ بھٹو صاحب اگر ایک کھمبے کو بھی کھڑا کر دیں تو وہ جیت جائے، اس کو کہتے ہیں تبدیلی، بھٹو نے منتخب ہونے والے لوگوں کے بجائے ورکرز کو پارٹی ٹکٹ دیئے، وہ لوگ نظریاتی تھے۔ لیکن پاکستان بننے سے پہلے جو یہاں طرز سیاست تھا، برٹش ایمپائر کے دور میں پنجاب کو چودھری، سندھ کو وڈیرے، بلوچستان کو سردار اور کے پی کے کو قوانین کے ذریعے کنٹرول کیا گیا۔

ان لوگوں کو برطانوی سامراج نے اپنے ہاتھ میں رکھ کر لوگوں کو اپنا غلام بنایا، پھر پاکستان بننے کے بعد بھی انہی مہروں کو استعمال کرکے قوم کو کنٹرول کیا جا رہا ہے، اگر آپ پوری تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ایوب خان کے دور میں جو لوگ تھے، وہ پیپلزپارٹی میں بھی پہنچ گئے، جس سے پھر بگاڑ پیدا ہو گیا۔ اب میں بیٹھا ہوں لاہور میں، یہ پاکستان کا دل ہے، جس کی شان بھی عجیب ہے، دل کب کس پر آتا ہے یا اکتا جاتا ہے، کچھ پتہ نہیں چلتا۔ بے نظیر کے دور میں غلام اسحاق خان نے اسمبلی توڑی، نواز شریف آئے تو وہ اسمبلی بھی تڑوا دی گئی، تو یہ سب کچھ ہمیں اچھی طرح معلوم ہے۔ پھر نواز شریف جب سادہ اکثریت سے وفاق اور تمام صوبے سنبھال کر بیٹھے تھے تو جنرل مشرف نے ٹیک اوور کیا، آپ دیکھیں! کہ اگلے چوبیس گھنٹے کے بعد پنجاب، پنجاب تھا، وہ لوگ جو کہتے تھے میاں جی! قدم بڑھائو ہم تمھارے ساتھ ہیں وہ کہنے لگے میاں جی! سے جان چھڑائو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔

اچھا آپ نے بات کی پی ٹی آئی کی تو اس ضمن میں کہنا چاہوں گا کہ تبدیلی اچھی بات ہے، لیکن جیسے میں نے شروع میں کہا کہ بھٹو کے دور میں لوگ نظریاتی تھے، لیکن وہ نظریاتی تھے یہ صرف ''نظر آتی'' ہیں۔ عمران بھائی نے بڑا اچھا نعرہ لگایا، جس نے لوگوں کو لبھایا بھی ہے، لیکن سوال عمل کا ہے،مسئلہ یہ ہے کہ اگر حسین احمد جے یو آئی میں ہے اور کرپٹ ہے اور اگر وہ ایک قدم بڑھا کر پی ٹی آئی میں چلا جاتا ہے تو پاک ہو جاتا ہے، یعنی یہ جو تحریک انصاف میں آنے والا صاف ہو جاتا ہے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ کیوں کہ منتخب ہونے والے لوگ وہی ہیں، آپ دیکھ لیں پی ٹی آئی میں شمولیت کرنے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پرسوں کس کے ساتھ تھے، آج کس کے ساتھ اور کل کس کے ساتھ ہوں گے؟ تو یہ تبدیلی صرف ان لوگوں کی ہے جو پارٹیاں تبدیل کر رہے ہیں، لیکن کیا تبدیلی کے نعرے والے نے بھی کوئی تبدیلی کی ہے، نہیں، اس نے وہی مال استعمال کیا ہے، جو پہلے ن میں تھا یا پیپلزپارٹی میں تھا۔ تبدیلی تب آتی ہے جب ایک عمارت کو مکمل طور پر گرا کر دوبارہ بنایا جائے لیکن اگر اس عمارت کی ایک دیوار گرا کو دوبار تعمیر کر دیا جائے یا پرانے گھر کی تزئین و آرائش کر دی جائے تو اسے تبدیلی قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ایکسپریس: ملک کی موجودہ سیاسی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ مستقبل کے حوالے سے کیا دیکھ رہے ہیں؟ کیا ہونے جا رہا ہے یا آپ کے خیال میں کیا ہو سکتا ہے، الیکشن ہوں گے، عبوری حکومت وقت مقررہ پر بننے کے بعد چلی جائے گی؟
حافظ حسین احمد: ایک بات تو واضح ہے کہ مستقبل اُس کا ہے جس کا ماضی ہو، جس کا ماضی نہیں اس کامستقبل نہیں۔ اصل میں ہم پل بھر میں تولا اور پل بھر میں ماشا بن جاتے ہیں۔ خوش فہمی ایسی ہے کہ معمولی بات پر ہم اتنے خوش ہو جاتے ہیں کہ جیسے ہمیں زمین و آسمان کے خزانے مل گئے اور تھوڑی سے تنگی میں ہم مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں چلے جاتے ہیں، یہ ہمارا المیہ ہے، اس لئے جب حالات بگڑ جاتے ہیں تو پھر ہمیں الیکشن دور دور تک نظر نہیں آتے۔ میں لاہور اکثر آتا رہتا ہوں، بدلتے موسم میں یہاں دھند پڑتی ہے تو موٹرویز ہونے کے باوجود چند فٹ پر کوئی چیز نظر نہیں آتی، اور جب ایسی صورت حال ہوتی ہے تو پھر حادثات کا بھی خطرہ ہوتا ہے، حالاں کہ سامنے سوائے دھند کے کچھ بھی نہیں ہوتا، لیکن کوئی بھی تیز رفتاری کی جرات نہیں کرتا۔ اب آپ پچھلے دنوں دیکھ لیں کہ اس طرح دھند تھی کہ ہمیں سینیٹ الیکشن بھی نظر نہیں آ رہے تھے، لیکن وہ ہو گئے۔

ایکسپریس: آج میاں نواز شریف سے لے کر ن لیگ کا ایم پی اے، کونسلر تک سازشوں کا رونا رو رہا ہے، لیکن یہ کوئی بتانے کو تیار نہیں کہ سازش کر کون رہا ہے؟ آپ کے خیال میں کیا واقعی ن لیگ کے خلاف کوئی سازش ہو رہی ہے؟
حافظ حسین احمد: اگر آپ ماضی دیکھیں تو ہمارے ہاں کچھ لوگ ایسے ہیںکہ جو سازشوں ہی کی پیداوار ہیں، اگر وہ سازش نہ کرتے تو یہاں نہ ہوتے، جنرل جیلانی کا ساتھ نہ دیتے تو وہ یہاں نہ ہوتے، تحریک استقلال سے مسلم لیگ میں نہ آتے، جنرل ضیاء الحق کو سیاسی باپ نہ کہتے تو وہ یہاں نہ ہوتے، جنرل حمید گل کے ہاتھوں آئی جی آئی نہ بنوائی جاتی تو وہ یہاں نہ ہوتے، یہ ایک لمبی فہرست ہے سازشوں کی۔ اگر وہ سازشیں تھیں تو وہ suitable تھیں اور اگر آج ان کے بقول سازشیں ہیں تو یہ suitable نہیں ہیں۔

ایکسپریس: پاکستان میں، اس کے قیام سے لے کر آج تک سول ملٹری تعلقات مثالی نہیں رہے، اس کی وجہ فوج کی اقتدار کی خواہش ہے یا ہمارے سیاست دانوں کی نااہلی؟ اور دوسرا ملکی مفاد کے لئے مستقبل میں سول ملٹری تعلقات کو کیسے متوازن بنایا جا سکتا ہے؟
حافظ حسین احمد: میرے خیال میں تو دونوں ہیں، اس کی مثال ''انڈہ پہلے ہے یا مرغی'' جیسی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ اپنے آپ کو اس صف میں لانا چاہتے ہیں، یعنی خود کو منتخب کروانا چاہتے ہیں، وہ خود کیا ہیں، جیسے بھٹو صاحب، لیکن آپ اگر دو قدم پیچھے دیکھیں تو بھٹو صاحب آپ کو کہاں کھڑے ملیں گے، وہ آپ کو ایوب خان کے پہلو میں نظر آئیں گے، تو اس سے آپ کا نظریاتی احساس چکنا چور ہو جاتا ہے کہ بھئی وہ تو وہاں پر تھے، ان کے والد سکندر مرزا کے پہلو میں کھڑے نظر آئیں گے، تو یوں بحیثیت سیاسی ورکر میں یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں کہ فوج اقتدار کی خواہش مند ہے یا اقتدار دے کر واپس لینے میں ماہر ہے۔ میں کھل کر بات کروں تو الطاف اور میاں نواز شریف وغیرہ کو جو لانے والے ہیں، یہ لانے والوں کے گلے پڑے ہیں۔

ایکسپریس: تحریک طالبان پاکستان اور افغانستان کے بارے میں آپ کیا موقف رکھتے ہیں؟ کون درست اور کون غلط ہے؟
حافظ حسین احمد: دیکھیں! ایک original چیز ہوتی ہے اور ایک اس کی کاپی، اور کاپی کی یہ تعریف ہی کافی ہے کہ وہ صرف ایک کاپی ہے۔ افغانستان میں جو تحریک ہے وہ حقیقی ہے، اس حوالہ سے کہ وہاں پر سوویت یونین نے مداخلت کی اور وہ اس کے سامنے کھڑے ہوئے، میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا ہے کہ ہمارا کیا کردار تھا یا ہونا چاہیے تھا۔ جنرل ضیاء الحق نے کیا کردار ادا کیا، امریکہ نے کیا کیا، مغرب نے کیا کردار ادا کیا۔

اصل بات یہ ہے کہ افغانوں پر افتاد پڑی تو انہوں نے اپنا دفاع کیا، کرنا جانتے ہیں، کر سکتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب سوویت یونین اپنے انجام کو پہنچ گیا تو اس کے بعد کسی نے افغانستان کا سوچا، کسی نے ان کے آنسو پونچھے، اس کی تعمیر و ترقی کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی۔ اچھا ہم ایک ایسے وقت میں بھی افغانستان میں گئے، جب وہاں ہر چوک میں الگ الگ حکومت تھی، ایک چوک میں ربانی کی حکومت تھی، اگلے چوک پر دوستم اور اس سے اگلے پر حکمت یار کی حکومت تھی۔ اُن (افغانستان) کے فیصلے دنیا یا پھر ہمسائے کرتے رہے ہیں۔ جیسے افغانستان میں سوویت یونین نے مداخلت کی ویسے ہی بعد میں امریکہ اور نیٹو نے مداخلت کی۔

اس سے مجھے یاد آیا کہ ایک بکری تھی، جس کے پیچھے بھیڑیا لگا ہوا تھا، وہاں پر ایک شکاری بھی موجود تھا، جس نے جب یہ منظر دیکھا تو اس نے بھیڑیے کو گولی مار دی، جس پر بکری اس کی بہت ممنون ہوئی، صدر ممنون نہیں(مسکراتے ہوئے)، ویسے ممنون ہوئی کہ اس نے میری جان بچا لی، شکاری نے بکری کو گاڑی میں ڈالا اور گھر لے آیا، جہاں شکاری نے چھری منگوا کر بکری کو ذبح کر ڈالا، اس دوران بکری نے سوچا اس سے تو بہتر تھا کہ اپنے جیسے چار ٹانگوں والے جانور کا ہی شکار بن جاتی، بعینہٖ یہی صورت حال رہی، اپنے عالمی مفادات کے لئے یہی سب کچھ افغانستان سے ہوا، سوویت یونین کے بعد افغانستان میں وہی کچھ امریکہ نے کر دیا، اب اس بکری کی طرح اسے بھیڑیا کھائے یا شکاری کی طرح گھر میں لا کر ذبح کیا جائے اس کی تو جان گئی۔

افغان ملت پر سوویت یونین نے حملہ کیا تو انہوں نے اپنا دفاع کیا اور اب جب امریکا وہی کام کرے گا تو پھر وہ کیا کریں گے، وہ وہی کریں گے، جو انہوں نے پہلے کیا۔ لیکن یہاں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے انصاف کے پیمانے مختلف ہیں، جب سوویت یونین وہاں حملہ کرے تو یہ عین اسلام کے مطابق اور جہاد ہے، لیکن جب امریکا ایسا کرے تو اس کو جواب دینا دہشت گردی کہلاتا ہے۔ ضیاء کے دور میں یہاں سے کن کو اور کن راستوں سے وہاں بھیجا گیا، قبائل کو کس طرح استعمال کیا گیا، غیر ملکی عناصر کو کہاں پر پناہ دلوائی گئی، وہی عمل جب امریکا اور نیٹو کے وقت جاری رہتا ہے تو یہ فطری بات ہے کہ تاریخ دوبارہ دہرائی جائے گی۔ میں اس وقت لاہور میں بیٹھا ہوں، جو اقبالؒ کا شہر ہے اور انہوں نے افغانستان کے بارے میں جو فارسی میں اشعار کہے، وہ نہایت جامع اور مکمل ہیں۔

آسیا یک پیکر آب و گل است
ملت افغان در آن پیکر دل است
از فساد او فساد آسیا
از گشاد او گشاد آسیا

(ایشیاء پانی اور مٹی کا ڈھانچہ ہے، جس میں ملت افغان کو انسانی جسم کے دل کی مانند اہمیت حاصل ہے، اگر اس میں فساد ہو گا تو پھر پورے ایشیاء میں فساد ہو گا، جب اس میں خوشحالی اور امن ہوتا ہے تو پھر پورے ایشیاء میں کشادگی ہوتی ہے)

اب اس میں اتنی سی ترمیم کی جا سکتی ہے کہ پہلے صرف ایشیاء کی بات کی گئی لیکن اب اس ایشیاء کو دنیا سے بدل دیا جائے۔

ایکسپریس: آج سے تقریباً 48 سال قبل سانحہ مشرقی پاکستان رونما ہوا تو کہا گیا کہ سیاسی ڈائیلاگ نہ ہونے اور فوجی آپریشن کے باعث یہ سانحہ رونما ہوا، آج بلوچستان میں بھی اندرونی و بیرونی سازشوںکے ذریعے علیحدگی کی تحریکیں چلائی جا رہی ہیں، ایسے میں ہماری سیاسی قیادت کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟
حافظ حسین احمد: قوموں کی تاریخ میں سانحات رونما ہوتے رہتے ہیں، لیکن کامیاب وہ ہے جو ہر سانحہ کے بعد سبق حاصل کرے اگلے مراحل سے بچنے کے لئے، کاش ہم بھی سانحات سے کوئی سبق حاصل کرتے، جو ہم نے حاصل نہیں کیا۔


ایکسپریس: بلوچستان میں حالیہ سیاسی تبدیلیوں یعنی صوبائی حکومت کی تبدیلی اور پھر صادق سنجرانی کا چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
حافظ حسین احمد: دیکھیں! کچھ حقیقی تبدیلیاں ہیں اور کچھ مصنوعی، اگر ہم حقیقی تبدیلی کی بات کریں تو یہ دو اور دو چار والی بات ہے۔ بلوچستان معدنیات سے مالا مال ہے، جہاں سونا ، تانبا، گیس، چاندی، کوئلہ، سنگ مرمر، کرومائیٹ سمیت بہت سے ذخائر ہیں۔ جغرافیائی محل وقوع ہے، گوادار کا ساحل ہے، ایران ہے ، افغانستان ہے، وسطی ایشیاء کا دروازہ ہے۔

میں یہاں دو باتیں عرض کروں گا کہ حقوق ہونے چاہیں، اس کا انکار نہیں۔ ایک لفظ ہے انکار جس کا مطلب ہے نفی کرنا جبکہ ایک فارسی کا لفظ ہے ''انکار'' جس کا مطلب ہے کام کرنا۔ انکار بھی کوئی نہیں کرتا اور یہ کام بھی کوئی نہیں کرتا۔ بلوچستان کے وہ نوجوان جو اس وقت عالمی حالات سے واقف ہیں، وہ ان ممالک کو دیکھتے ہیں جہاں ریت کے علاوہ کچھ نہیں تھا، وہاں سے تھوڑا تیل نکلا تو پھر وہ دبئی، شارجہ اور قطر بن گئے، لیکن پھر جب وہ اپنے وسائل کو دیکھتے ہیں کہ سینڈک سے سالانہ ایک ٹن سونا نکلتا ہے، ریکوڈک سے دو، تین گنا زیادہ نکلتا ہے۔ پھر پڑھا لکھا طبقہ آئین پاکستان کو بھی دیکھتا ہے، جس کا آرٹیکل 256,257 یہ کہتا ہے کہ جس علاقہ سے ذخائر نکلے، سب سے پہلا حق اس کا ہو گا، پھر وہ اپنے حالات کا موازنہ کرتا ہے، جس کے بعد وہ مایوسیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے، جس سے نکلنے کے لئے اسے پھر (ہنستے ہوئے) پہاڑ پر جانا پڑتا ہے، تو پھر صورت حال یہ بن جاتی ہے کہ کچھ نوجوان پہاڑوں پر ہی بسیرا کر لیتے ہیں۔

آپ دیکھیں لاہور، پشاور، کراچی، ملتان، راولپنڈی وغیرہ ہر جگہ گیس ہے، لیکن بلوچستان کے 32 میں سے 28 اضلاع میں گیس نہیں ہے، جس ضلع سے گیس نکل رہی ہے، اس میں بھی گیس نہیں ہے۔ وہ (بلوچی نوجوان) کہتا ہے کہ یہ جو آئین و قانون کا تمھارا لالی پوپ ہے، اگر اس سے کوئی افاقہ ہونا ہوتا تو 70 سال میں ہو جاتا۔ لیکن وہاں ایک طبقہ ایسا ہے، جس میں جے یو آئی، حاصل خان بزنجو کی پارٹی، اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی کی پارٹی ہے، جو یہ چاہتی ہیں کہ وہ آئین کے مطابق نظام کے اندر رہتے ہوئے بلوچستان کے لئے حقوق حاصل کریں۔ پھر اس کے لئے ہم نے اسمبلی میں لائوڈ سپیکر بن کر کام بھی کیا، لیکن حقوق نہ مل سکے۔ پرانی نسل چلی گئی، بچے بوڑھے ہوگئے اور اب تیسری نسل آن پہنچی ہے، لیکن 70 سال سے کوئی عملی نمونہ نظر نہ آیا۔ اچھا جو لوگ آئین و قانون اور جمہوریت کے ذریعے حقوق کی بات کرتے ہیں وہ اب دیوار سے لگائے ہی نہیں بلکہ دیوار میں چنوائے جا رہے ہیں۔ کیوں؟ میں نام نہیں لیتا، لیکن ہمارے قابل احترام لوگ جو منتخب ہوتے ہیں، وہ اب اپنے علاقوں میں جانے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے، اس لئے بجائے اس کے کہ ہم افراد بدلیں، ہم پالیسیاں بدلیں۔

ایکسپریس: بلوچستان کو سی پیک کے حوالے سے نہایت اہمیت حاصل ہے؟ آپ کے خیال میں سی پیک بلوچستان کے باسیوں کے لئے کس طرح اور کتنی بہتری لائے گا؟
حافظ حسین احمد: بہتری آئے گی، فائدہ ہو رہا ہے، لیکن وہ بلوچستان کا نہیں بلکہ یہاں کے باسیوں کا ہو رہا ہے، جہاں ہم بیٹھے ہیں۔ سی پیک، گوادر کی وجہ سے ہے، لیکن اس کا سارے کا سارا فائدہ لاہور کو ہو رہا ہے۔ کاش، کاش، کاش بلوچستان والوں کو بھی فائدہ ہوتا تو بڑی بات تھی، میں دوٹوک بات کرتے ہوئے یہ کہنا چاہوں گا کہ سی پیک کو لاہور میں پیک کر دیا گیا ہے۔ گوادر میں کوئی موٹروے بن رہی ہے نہ سڑک ہے، پینے کا پانی تک باسیوں کے لئے نہیں ہے۔ اس لئے خدارا! میں ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ اگر سی پیک کا عملی نمونہ گواردار، ژوب، خضدار میں نظر نہیں آتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محرومیوں کے احساس کو مزید تقویت دی جا رہی ہے۔

میں اس وقت لاہور بیٹھا ہوں، میں تعصب کی بات نہیں کرتا، مجھے بتائیں میٹرو بس یہاں چلی، بڑی اچھی بات ہے، لیکن اس کا فنڈ کہاں سے آیا، چین نے دیا تو چین کا معاہدہ لاہور، شہباز شریف یا صوبوں کے ساتھ ہے یا وفاق کے ساتھ، اگر وفاق کے ساتھ ہے تو پھر وفاق نفاق کا ذریعہ کیوں بنتا ہے، پھر اگر یہ بات کی جائے تو اسے تعصب قرار دیا جاتا ہے، کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ وزیراعظم چین جاتے ہوئے اس صوبے کے وزیراعلی کو ساتھ لے جاتے، جس میں گوادر ہے، جس صوبے کی وجہ سے سی پیک بنایا گیا۔ لیکن سی پیک کے فنڈز یہاں میٹرو اور لاہور کی تزئین و آرائش پر لگائے جاتے ہیں تو خدارا! بتائیں کہ جے یو آئی اور دیگر سیاسی جماعتیں جو پارلیمنٹ کے ذریعے حقوق کی بات کرتی ہیں، یہ اقدام انہیں دیوار میں چننے کا باعث نہیں بنے گا؟ اس اقدام سے بلوچستان کی محرومی میں کتنا اضافہ ہوا، اس کا ازالہ سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ بننے سے ہوگا؟ حسین احمد کے سر پر تاج رکھنے سے ہو گا؟ حاصل بزنجو کے وزیر بننے سے ہوگا؟ اب ان لالی پوپ سے نوجوانوں کو بہلانا ہمارے یا کسی اور کے لئے ممکن نہیں رہا، جب تک کہ آپ اصل حقائق کو بیان کرنے کا حتمی فیصلہ نہ کر لیں۔ اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، صرف پختہ ارادے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس: ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی کسی اشارے کا نتیجہ ہے، کیا کہیں گے؟
حافظ حسین احمد: مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پر اشاروں کی طرف اشارے فوراً ہو جاتے ہیں۔ میں ایک سیاسی ورکر ہوں، صرف ایم ایم اے کی رابطہ کمیٹی کا چیئرمین نہیں یا اس کی قیادت میری پارٹی کے پاس ہے تو میں اس کا دفاع کروں، میں کہنا صرف یہ چاہتا ہوں کہ آئی جے آئی بھی ایک اتحاد تھی، کیوں بنائی گئی؟ سب کو پتہ ہے، یہ تو طے ہے کہ کوئی جنرل جیلانی کا ہاتھ نہ پکڑتا تو اصغر خان کی طرح تحریک استقلال میں ان کے لئے قدم بڑھانا مشکل ہوتا۔ کبھی ہم ووٹ کے تقدس کی بات کرتے ہیں تو کبھی آئی جے آئی بنا کر نوٹ کے تقدس کی بات کرتے ہیں، کبھی میمو گیٹ میں کالے کوٹ کے تقدس کی بات ہوتی ہے اور اب خیر سے ووٹ کے تقدس کی بات ہو رہی ہے۔

دیکھیں! جو مذہبی جماعتوں کا ووٹ ہے، ہماری کاوش تھی کہ اسے اکٹھا کیا جائے۔ ایوب خان کے دور میں کہا گیا کہ کس کا اسلام لائیں، تو اس وقت بریلوی، شیعہ، سنی، دیوبندی، اہلحدیث کے تمام علماء کرام نے 22 نکات بنا کر دیئے کہ ہم ان تمام امور پر متفق ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل بنی، سارے بہانے ختم ہوگئے، لیکن اسلامی نظام آج تک نافذ نہیں ہو سکا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لانے والے اس نظام کو لانا نہیں چاہتے۔ ایم ایم اے میں شامل جماعتیں چاہتی ہیں کہ جس مقصد کے لئے یہ ملک بنا تھا اس کو حاصل کیا جائے یعنی اسلامی نظام کا نفاذ۔ پچھلے ادوار میں بھی ہم نے اس مقصد کے حصول کے لئے کوشش کی لیکن ہمیں سادہ اکثریت نہیں مل سکی۔ میں بحیثیت ورکر یہ چاہتا تھا کہ یہ اتحاد قائم رہے لیکن ہر چیز کو فنا ہے، تو یہ اتحاد بھی قائم نہ رہ سکا۔ اب میں ایک عمل کرتا ہوں تو کوئی اس سے کیا فائدہ اٹھاتا ہے تو یہ اس کی منشاء یا درد سر ہے۔ لہٰذا ہمارا مقصد یہ ہے کہ ایسا ماحول بنایا جائے جس سے اس ملک کو بنانے کے حقیقی اہداف حاصل کئے جا سکیں، لیکن اس میں اہم کردار ہمارے لوگوں یعنی قوم نے ادا کرنا ہے کہ عوا برادری سسٹم سے نکلے۔

ایکسپریس: ایم ایم اے کی بحالی کے لئے تمام بڑی مذہبی جماعتوں نے کڑی محنت کی، لیکن یہ جماعتیں خود کو کب بحال کریں گی؟ یعنی ان کے اپنے اندر تو اتفاق نہیں (جے یو آئی(ف)، جے یو آئی(س)، جے یو پی (نورانی) جے یو پی (عبدالستار) جمعیت اہلحدیث(ساجد میر) جمعیت اہلحدیث (ابتسام ظہیر) جمعیت اہلحدیث (لکھوی گروپ) ) یہ ایم ایم اے کے ذریعے کیا اتحاد و اتفاق کا درس دیں گی؟
حافظ حسین احمد: دیکھیں! ایک بات تو یہ ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، دوسرا میں جب کسی کی طرف ایک انگلی سے اشارہ کرتا ہوں تو چار انگلیاں تو میری طرف ہوتی ہیں۔ ایم ایم اے میں اس وقت جو جماعتیں اکٹھی ہیں، ان کی شوری کا اجلاس ہوا، جس میں، میں نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم متفرق پارٹیوں سے بیٹھ کر مشترکہ معاملات پر اظہار یکجہتی کرتے ہیں تو اپنی پارٹی کے اندر جو ناراض لوگ ہیں، یا انہوں نے الگ گروپ بنایا ہے تو ہم ان سے کیوں بات نہیں کرتے؟ تو یوں مجھے احساس ہوا، میں نے بات کی تو میری پارٹی کو احساس ہوا اور میری پارٹی نے اس پر ایک کمیٹی بھی بنا دی۔ لہذا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس معاملے پر بھی کام ہو رہا ہے، پھر ہمارا یہ عمل یعنی ایم ایم اے کا قیام بھی اس مقصد کے حصول میں ممدومعاون ثابت ہوگا۔

ایکسپریس: کیا جے یو آئی کا مقصد صرف اور صرف اقتدار اور مراعات ہی ہیں، کیوں کہ ہر حکومت کے آپ اتحادی بن جاتے ہیں، ملک کی دو بڑی جماعتیں جو برسر اقتدار آتی رہیں، آپ ان دونوں کے اتحادی رہے؟
حافظ حسین احمد: میرے بھائی! بات یہ ہے کہ ہمارے پاس آئین موجود ہے، جس میں لکھا ہے کہ قرآن و سنت سے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکتا، یہ اسلام کے نام پر بننے والا ملک ہے، لیکن پھر بھی 70 سال سے یہاں اسلام نافذ نہیں ہو رہا، کیوں کہ جو اقتدار میں بیٹھا ہے وہ اسے نافذ نہیں کرنا چاہ رہا، تو اس نقطے کو ہم نے سمجھا کہ بڑے مقصد کے حصول کے لئے اقتدار ضروری ہے، جب آپ اقتدار میں ہوں گے تو پالیسیوں کو اپنے مقصد کے قالب میں ڈھال سکیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ اقتدار میں آتے کیسے ہیں؟ ایک تو یہ ہے کہ آپ فوج کے ذریعے انقلاب لے کر آئیں، وہ ہم مارشل لاء کی صورت میں کئی بار دیکھ چکے۔ اب ہمارے چیف جسٹس صاحب ہیں، جو کہتے ہیں کہ جب تک میں ہوں مارشل لاء نہیں آئے گا، اللہ کرے آپ ہوں اور مارشل لاء نہ آئے اور اگر آپ نہ بھی ہوں تو بھی مارشل لاء نہ آئے، یہ راستہ بند ہو گیا۔ اب ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے آئین و قانون کے ذریعے اقتدار۔ وہ کون سی کم بخت سیاسی جماعت ہے جو اپوزیشن کے لئے الیکشن لڑتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ آپ اِس کے ساتھ ہیں یا اُس کے ساتھ۔ بھائی میرے پاس بکری یا دنبہ نہیں ہے، مگر آپ اگر کھانا پکا رہے ہیں تو ایک نمک کی پوٹلی میرے پاس ہے۔ میں کہوں گا یار! اگر آپ یہ نمک سالن میں ڈالیں گے تو اس کا ذائقہ بہت اچھا ہو جائے گا۔ اگر ہماری 15،20سیٹیں آتی ہیں اور ہم کبھی اِس کے ساتھ تو کبھی دوسرے کے ساتھ نمک بنتے ہیں تو یہ اقتدار کے لئے نہیں بلکہ ہم چاہتے کہ دنبے کا گوشت بنانا ہے تو اس میں خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ پھر اس وقت جو قوانین آئین پاکستان میں موجود ہیں، مغرب یہ چاہتا ہے کہ ان کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے، ہم کچھ زیادہ نہیں کر پا رہے تو کم از کم پہلے سے موجود اسلامی قوانین کی چوکیداری تو کریں، ورنہ ختم نبوتؐ قانون کے بارے میں آپ نے دیکھ لیا کہ ناموس رسالتؐ قانون کو نکالنے کی کتنی کوششیں ہو چکی ہیں۔ تو تسلسل کے ساتھ یہ چیزیں جاری ہیں، اچھا اب دفاع کے لئے بھی ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم لڑ کر دفاع کر سکتے ہیں، ہم ساتھ مل کر دفاع کر سکتے ہیں، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کس طرح اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔

ایکسپریس: موروثی سیاست کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
حافظ حسین احمد: دیکھیں! ایک پنجاب ہمارا ہے اور ایک بھارت کا۔ ایک بلوچستان ہمارا ہے اور ایک بلوچستان ایران کا ہے، لیکن کچھ روایات ہر جگہ ایک جیسی ہیں۔ بھارت میں دیکھ لیں وہاں بھی خاندان چل رہے ہیں جیسے نہرو، گاندھی کا خاندان، یہاں ذوالفقار بھٹو، بے نظیر بھٹو اور اب بلاول بھٹو۔ بنگلہ دیش میں دیکھ لیں، مجیب الرحمن، اس کی بیٹی حسینہ واجد، خالدہ ضیاء وغیرہ وغیرہ۔ برطانیہ جیسے ملک میں بھی آج تک بادشاہت جاری ہے توکچھ چیزیں پوری دنیا میں مشترک ہیں، جو چل رہی ہیں۔ اچھا دوسری بات یہ ہے کہ میں ایک پارٹی میں ہوں اور میرا بیٹا کسی دوسری میں تو آپ نہیں لکھیں گے کہ کیا عجیب آدمی ہے، خود ایک پارٹی میں اور بیٹے کو دوسری پارٹی میں شامل کروایا ہوا ہے، تو پھر کیا کریں ہم؟ تو اس کا پھر حل یہ ہے کہ جس پارٹی میں، میں ہوں، میرا بیٹا بھی اسی میں ہو، بیٹی بھی اسی میں ہو، اور پھر جب یہ ہوگا تو آپ کہیں گے کہ یہ موروثیت ہے۔ تو پھر اب کیا کریں! اس کا حل یہ ہے کہ بھلے باپ بیٹا ایک پارٹی میں ہوں، لیکن جس میں صلاحیت زیادہ ہو، آگے اسے آنا چاہیے اور اس کا فیصلہ پارٹی کی جنرل کونسل نے کرنا ہوتا ہے اور وہ تب کرتی ہے، جب عوام اپنا فیصلہ کرتے ہیں۔

ایکسپریس: آج کئی بڑی سیاسی و مذہبی جماعتیں فاٹا کے انضمام کی بات کر رہی ہیں اور کیوں نہ کریں بظاہر اس کے بے شمار فوائد ہیں، فاٹا کے باسیوں کو روزگار سمیت دیگر سہولیات ملیں گی، وہ قومی دھارے میں شامل ہوں گے، سکیورٹی کے معاملات بہتر ہوں گے، لیکن جے یو آئی اس کی شدید مخالف ہے اور آپ کی پارٹی کی وجہ سے ن لیگ بھی کچھ ڈنڈی مار رہی ہے۔ مخالفت کی وجوہات کیا ہیں؟
حافظ حسین احمد: انضمام کس کا ہو رہا ہے؟ فاٹا کا، تو پھر فاٹا سے کیوں نہیں پوچھا جا رہا۔ شادی آپ کی ہو رہی ہو اور آپ سے کوئی پوچھے ہی نہ، بلکہ سب فیصلے گھر کے دیگر افراد کرتے رہیں تو کیا یہ انصاف ہے؟ تو اس ضمن میں ہم نے کیا کہا ہے، ہم نے صرف اتنا کہا ہے کہ آپ انضمام کر رہے ہیں پہلے ان سے تو پوچھ لو کہ وہ یہ چاہتے بھی ہیں یا نہیں؟ یا کن شرائط پر اور کس طرح چاہتے ہیں؟ تو اس ضمن میں آپ کی جمہوریت کہاں گئی؟ ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ کوئٹہ یا لاہور والوں سے پوچھ کر کیوں کرتے ہو؟ جس کے مستقبل کا فیصلہ ہے اس سے بھی تو پوچھو، تو یہ کون سے بڑی یا غلط بات ہے۔ آپ ہماری بات نہ مانیں، کسی اور کی بات بھی نہ مانیں، جس کے مستقبل کا معاملہ ہے اس سے پوچھ لیں، بات ختم ہو جائے گی۔

بزلہ سنجی اور حسِ ظرافت صلاحیت کے اظہار کا موقع ملنے سے نمایاں ہوئی
آپ کی بذلہ سنجی کی ہمارے سمیت ایک دنیا معترف ہے، آپ کے الفاظ میں جو مٹھاس اور لحجے میں شُستگی ہے، ایسا طبعاً ہے؟ کیوں کہ عمومی طور پر ہمارے ہاں علماء اکرام کا عام تاثر یہ نہیں، وہ ذرا سخت مزاج ہوتے ہیں؟ کے جواب میں وہ گویا ہوئے۔ دیکھیں! علماء بھی گوشت پوست کے بنے ہوتے ہیں، ان کا بھی دل و دماغ اور جذبات ہوتے ہیں، حس ظرافت بھی ہوتی ہے۔ بات کرنے والا جس انداز میں سوال کرتا ہے، اسے جواب بھی اسی انداز سے دیا جاتا ہے۔ میں آج جس ادارے کو چلا رہا ہوں، وہ والد صاحب نے 1942ء میں قائم کیا تھا، تو ہم نے وہاں پر مادری زبان اردو نہ ہونے کے باوجود ذریعہ تعلیم اردو کو لازمی ٹھہرایا، میں نے ساری تعلیم اپنے ادارے سے مکمل کی، تاہم کچھ تعلیم بلوچستان یونیورسٹی سے بھی حاصل کی، تو وہاں پر طلباء کی تربیت کے حوالے سے تقریری مقابلے اور مناظرے ہوتے، جس میں ہم بھرپور شرکت کرتے تھے۔

آپ اگر دیکھیں گے تو شیخ الہندؒ اور شاہ ولی اللہؒ سے لے کر آج تک آپ کو ان اداروں سے نکلنے والے نابغہ روزگار افراد ملیں گے۔ ہر انسان میں اللہ نے کچھ صلاحیتیں رکھی ہیں، لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا اسے ان صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملتا ہے، مفتی محمود صاحبؒ، اشرف علی تھانویؒ، شبیر احمد عثمانیؒ اور پیر حسنات جیسی شخصیات ایک مدرسے سے ہی نکلیں، تو یہ لوگ کیا تھے؟ بس ان کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا اور ان کا نام بن گیا، ان کی صلاحتیں عوام کے سامنے آ گئیں۔ تو اللہ نے مجھے بھی موقع دیا، میں پارلیمنٹ میں آیا تو قوم کو مجھے سننے اور مجھے اس سے بات کرنے کا موقع ملا، اگر میں پارلیمنٹ نہ پہنچتا تو شائد میں بھی آج ایک کونے میں ہی پڑا ہوتا۔

پسند نا پسند
(مسکراتے ہوئے) سیاست سے بڑا کھیل کیا ہو گا، ایک لمبے عرصہ سے کھیل ہی تو کھیل رہے ہیں۔ بچپن میں فٹ بال کھیلتا تھا، اس لئے پسندیدہ کھیل بھی یہی ہے۔ ہر وہ کھلاڑی پسند ہے، جو کھیل کھیل سکتا ہو۔ موسیقی سے شغف نہیں کیوں کہ ایسا ماحول ہی نہیں تھا، تعلیمی مصروفیات کی وجہ سے کبھی موقع ملا نہ کبھی اپنے اندر دلچسپی پیدا ہوئی۔ پسندیدہ کتاب، کتاب اللہ ہے، جواللہ تعالی کے فضل سے میرے سینے میں بھی موجود ہے۔ میری آئیڈیل شخصیت اور پسندیدہ سیاست دان مفتی محمود صاحبؒ ہیں۔

حسین احمد! تم وقت سے پہلے بالغ ہو گئے ہو
زندگی میں ایسے واقعات تو بہت سے پیش آئے، جنہیں میں کبھی بھلا نہیں سکا، بلکہ کچھ واقعات تو ایسے بھی ہیں، جنہیں میں بھلانا چاہتا ہوں، لیکن وہ بھلائے نہیں جاتے۔ بہرحال میں آپ کو ایک ایسا واقعہ سناتا ہوں، جو مجھے آج بھی بڑی اچھی طرح یاد ہے اور کبھی بھلا نہیں سکا۔ میں نیا نیا جمعیت میں شامل ہوا تھا، اس وقت مولانا فضل الرحمن بھی سیاست میں نہیں آئے تھے۔ میں مرکزی شوری کا رکن نہیں تھا، لیکن یہاں لاہور میں الیکشن کے حوالے سے جماعت کی مرکزی شوری کا اجلاس ہوا تو اس میں مجھے بھی بلایا گیا، میں اس اجلاس میں ایک سائیڈ پر دبک کر بیٹھ گیا۔ ہمارے ہاں ایک مشکل یہ ہے کہ لوگ چاہتے ہوئے بھی پارٹی قیادت کے سامنے نہیں بولتے، لیکن بعد میں اس پر کمنٹ کرتے رہتے ہیں۔ ان دنوں چوں کہ قومی اتحاد بنا تھا اور مفتی محمود صاحبؒ بڑے دل والے بھی تھے، تو اس لئے وہ دوسروں کو زیادہ موقع دیتے تھے۔ جب بلوچستان کے حوالے سے بات ہوئی تو میں نے ایک ساتھی کو کہا کہ سیاسی اعتبار سے بلوچستان میں ہماری جماعت طاقت ور ہے۔

میں دیکھتا رہا کہ کوئی بات نہیں کر رہا تو میں بے ساختہ کھڑا ہو گیا اور بولا کہ مفتی صاحبؒ بلوچستان میں ہم کافی مضبوط ہیں۔ انہوں نے مجھے ڈانٹا کہ بیٹھ جائو تم دوسروں کو بات کرنے دو، لیکن پھر بھی میں نے کہا کہ مفتی صاحبؒ میں حقیقت بتا رہا ہوں، ساتھی یہ کہنا چاہ رہے ہیں، لیکن کہہ نہیں پا رہے۔ انہوں نے کہا کہ نہیں یہ ہمارا فیصلہ ہے اور جو فیصلہ ہم مرکزی سطح پر کرتے ہیں، اس کو سب کو ماننا پڑتا ہے۔ تو میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ اگر یہ آپ کا فیصلہ ہے تو پھر پہاڑوں میں آ کر آپ ہی الیکشن لڑیں، یعنی میں نے اپنے دل کی بات کر ڈالی۔ لوگوں نے مجھے یوں گھور کر دیکھا اور مفتی صاحبؒ غصے میں آ گئے، کسی نے میری شلوار پکڑ کر نیچے کھینچی تو میں ڈر کر بیٹھ گیا۔ لیکن آپ یقین جانیں کہ ایک لمحے کے بعد مفتی صاحبؒ کا غصہ ہوا ہو گیا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگے کہ حسین احمد! تم وقت سے پہلے بالغ ہو گئے ہو۔ پھر مجھے کہا کہ میرے پاس آئو اور تفصیل سے بتائو، اللہ نے مجھے ہمت دی تو میں پھر کھڑا ہو گیا اور تفصیل سے ساری بات کی۔ تو پھر مفتی صاحبؒ نے مجھے ہی سیٹوں کی تقسیم پر بٹھا دیا۔ اس وقت بلوچستان میں کوئی 9 جماعتیں اور چالیس حلقے تھے، جس میں سے الحمداللہ جمعیت نے 16 نشستیں جیتیں۔

عکاسی: وسیم نیاز
Load Next Story