پیغامِ معراج مصطفیﷺ عالمی انسانی ترقی کی حقیقی منزل کا روشن نشان
معراج نبوی ﷺ کا عظیم ترین تحفہ جو آپؐ کو امت کے لیے عطا کیا گیا وہ پنج گانہ نماز ہے۔
ہجرت مدینہ سے تقریباً ایک سال پہلے کے حالات اسلام قبول کرنے والوں کے لیے انتہائی پریشان کُن اور اذیت ناک تھے۔ بہ قول شخصے اسلام کی تاریخ بننے سے قبل ہی بگڑتی معلوم ہوتی تھی۔ گنتی کے چند لوگ ہی قبول اسلام کے بعد اپنے نظریے پر استقامت سے کھڑے تھے۔
شرق و غرب اور عرب و عجم سے کفر و ظلم کی تاریکی کو مٹانے کی دعوے دار یہ قلیل سی، مگر منظم اجتماعیت خود اپنے ہی شہر میں تاریخی جبر کے ہاتھوں مجبور اور مقہور تھی۔ وہ کون سی ذہنی و جسمانی اذیت تھی، جس کا کڑوا کسیلا ذائقہ رحمۃ اللعالمین ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ نے نہ چکھا ہو، مگر صد آفرین کہ بارگاہ الٰہی میں ایک ساعت کے لیے بھی شاکی نہ ٹھہرے۔
ایسے میں رب العالمین نے اپنے محبوب ﷺ اور ان کے جان نثاروں کی دل جوئی اور ہمت افزائی کے لیے وہ تاریخی انعام فرمایا کہ جو حضور سرور دو عالم ﷺ کے توسط و تصدق سے تاقیامت عالمی انسانی ترقی کی حقیقی منزل کا روشن نشان قرار پایا۔
آسمانی برق سے تیز رفتار براق پر سوار آقائے دو جہاں ﷺ اور جبریلِ امینؑ پر مشتمل دو رکنی وفد نے پہلا قیام مسجد اقصیٰ میں فرمایا۔ سابقہ انبیاء و رسلؑ نے استقبال فرمایا اور آپؐ کی امامت میں نماز ادا فرمائی۔ لہٰذا خاتم الاانبیاء ﷺ سفر معراج کی ابتداء میں امام الانبیاء کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ ایسی عظیم الشان تقریب کے لیے شایان شان مقام کے حسنِ انتخاب کے کیا کہنے! کہ جو اکثر انبیاء کا وطن اور مدفن ہے۔
یہاں سے ساتوں آسمانوں کی سیر فرمائی، جہاں چنیدہ اُوالعزم پیغمبروں سے فرداً فرداً ملاقات کا اہتمام موجود تھا۔
پہلے آسمان پر سیدنا آدم ؑ سے ملاقات ہوئی، دوسرے آسمان پر یحییٰؑ و عیسیٰؑ نے مرحبا کہا، تیسرے آسمان پر حسن یوسفؑ نے آنکھیں بچھا رکھی تھیں، چوتھے آسمان پر حضرت ادریسؑ موجود تھے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارونؑ سے تعارف ہوا، چھٹے آسمان پر سیدنا موسیٰ ؑ کا جاہ و جلال سراپاء استقبال تھا اور ساتویں آسمان پر آپؐ کے جد امجد سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ ؑ اپنی دعا کو مکمل و مجسم صورت میں ملاحظہ فرما رہے تھے۔
برصغیر پاک و ہند کے نام ور محقق ڈاکٹر حمید اﷲ ؒ کے مطابق: '' کسی شخص سے آگے بڑھنے کے لیے اس کی برابر کی سطح تک آنا ہوتا ہے۔ آنحضور ﷺ کی ان پیغمبروں سے ملاقات ان کی خصوصیات کا اعلیٰ پیمانے پر حصول تھا۔ حضرت آدم ؑ کے پاس اپنی غلطی کے اعتراف کی جرأت تھی، حضرت عیسیٰؑ کو دنیاوی اور مادی آلائشوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی، حضرت یوسفؑ نے عظمت و پاکیزگی کی مثال قائم کی، حضرت ادریسؑ کے بارے میں آنحضور ﷺ نے بتایا کہ وہ تحریر کے موجد تھے جس سے تمام انسانی تہذیب و ترقی ہوئی، حضرت ہارونؑ اور حضرت موسیٰؑ نے اہل ایمان کو ظالم فرعون کے ظلم و ستم سے بچایا، حضرت ابراہیمؑ نے ہمیں توحید کا پاکیزہ ترین مفہوم سمجھایا۔ مزید یہ کہ اﷲ تعالیٰ اور اﷲ تعالیٰ کے امور کے مابین فرق قائم کیا۔ یہ ایک اچھے مومن کی بنیادی خصوصیات ہیں اور محمد ﷺ نے ان تمام خصوصیات کو حاصل کیا، حتیٰ کہ آپ ﷺ فرشتوں سے بھی آگے نکل گئے۔''
(بہ حوالہ: محمد الرسول اﷲ ﷺ از ڈاکٹر حمید اﷲ ؒ)
بعد ازاں آپؐ کو جنت کے نظاروں اور جہنم کا مشاہدہ کرایا گیا۔ دوران سفر جب سدرۃ المنتہٰی کے مقام پر پہنچے تو جبریل امینؑ نے آگے جانے سے معذرت چاہی۔ آخر کار سفر معراج کی وہ منزل مقصود بھی آپہنچی کہ جس کے لیے آپؐ کو فرش سے عرش پر بلایا گیا اور دیدار الہیٰ کی نعمت عظمیٰ آپؐ کا مقدر ٹھہری۔ قرآن حکیم میں ہے، مفہوم: (جس ذات (اﷲ) نے ترقی کا پیمانہ مقرر کیا اور پھر انسانیت کی اس کی طرف راہ نمائی کی) یعنی خدا نے تمام انسانیت کو صالح فطرت پر پیدا فرمایا اور انسانیت کی ترقی اور کام یابی کے لیے راہ ہدایت کی طرف اس کی راہ نمائی فرمائی۔عظیم ترین تاریخی واقعۂ معراج، انسانی ارادے، کاوشوں، کارناموں اور ترقیات کا رُخ متعین کرتا ہے، تاکہ انسان بھول بھلیوں سے نکل کر ہمہ وقت اپنے مقصد حیات کو پیش نظر رکھے۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ کے مطابق صرف سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت ہی واقعۂ اسراء یا معراج کے متعلق نہیں، بل کہ پوری سورہ اسی واقعہ کے گرد گھومتی ہے اور معراج کے فلسفہ و مقاصد کو واضح کرتی ہے۔
(بہ حوالہ سیرت النبیٰ ﷺ جلد سوم صفحہ 252)
واقعۂ اسراء میں مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی سیر واضح کرتی ہے کہ آپ ﷺ نبی القبلتین کے منصب جلیلہ پر فایز ہوئے ورنہ آپؐ سے پہلے جس قدر انبیاء ؑ شام اور عرب میں گزرے ہیں، وہ ان دونوں میں سے کسی ایک قبلے کے متولی ہوا کرتے تھے۔
سیدنا ابراہیمؑ کو اﷲ نے دو بیٹے عطا کیے۔ حضرت اسحاقؑ شام میں آباد ہوئے اور سیدنا اسمٰعیلؑ نے عرب میں قیام فرمایا۔ آگے چل کر ان دو صاحب زادوں کی اولاد میں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کی تفریق پیدا ہوئی، جسے اﷲ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کے ذریعے ختم کیا، اور آپ ﷺ نے پھر سے ملت ابراہیمی کو نظری، عملی اور تاریخی اعتبار سے وحدت بخشی۔
اس سفر میں سابقہ انبیاء ؑ سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان کی امامت کے شرف سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے اور سابقہ پیغمبروں کے مشن میں کوئی فرق اور تعارض نہیں پایا جاتا۔ بل کہ باہمی فرق صرف زمانی و مکانی حالات، معروضیت اور عصری تقاضوں کا ہے، اسی لیے پہلے انبیاء قومی درجے پر مبعوث ہوئے جب کہ آپ ﷺ نے سیدنا ابراہیمؑ کی عالم گیر دعوت کے غلبہ و اشاعت کی تکمیل فرمائی۔ حضرت موسیٰؑ کو طور سینا پر احکام عشرہ سے نوازا گیا اور آپؐ کو سورہ بنی اسرائیل میں انسانیت کو راہ ترقی پر گام زن رکھنے کے لیے بارہ احکامات عطا ہوئے، جو زیادہ جامع اور ہر دور کی انسانیت کو اس کی فطرت پر قایم رکھنے کے لیے بنیادی نسخہ ہیں۔ انسانیت کو حکم دیا گیا۔
(1) شرک نہ کرو (2) والدین کی عزت اور اطاعت کرو (3) حق داروں کا حق ادا کرو (4) اسراف، افراط و تفریط سے پر ہیز کرکے میانہ روی اختیار کرو (5) اپنی اولاد کو قتل نہ کرو (6) زنا کے قریب نہ جاؤ (7) کسی کو ناحق قتل نہ کرو (8) یتیم سے بہتر سلوک کرو (9) عہد کی پاس داری کرو (10) ناپ تول اور وزن کرنے میں عدل کرو (11) نامعلوم بات کی پیروی نہ کرو، یعنی جہالت سے دور رہو (12) غرور اور تکبر سے اجنتاب کرو۔ (بہ حوالہ، مفہوم : سورۃ بنی اسرائیل آیت 32تا37)
معراج نبوی ﷺ کا عظیم ترین تحفہ جو آپؐ کو امت کے لیے عطا کیا گیا وہ پنج گانہ نماز ہے۔ نماز معراج مومن ہے، سے واضح ہوتا ہے کہ انسانیت کے سفر ارتقاء اور عروج کا حاصل اور مطلوب صرف ''حقیقت کبریٰ'' اور ''ذات خداوندی'' کا عرفان ہونا چاہیے۔ معراج کا یہ عظیم ہدیہ دن میں پانچ مرتبہ ہمیں فلسفۂ حیات اور فلسفۂ معراج کی یاد دلاتا ہے اور یقینا دنیائے رنگ و بُو میں اہل بصیرت کے لیے نماز سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں، جیسا کہ حدیث میں ''احسان'' کی تعریف موجود ہے۔ ''اﷲ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔''
واقعۂ معراج کی عظمت موجودہ دور کی انسانیت کو متوجہ کرتی ہے کہ آج اگر ہم نے انسانیت میں ہر قسم کے امتیازات اور تفریق کو ختم کرکے اُسے وحدت بخشنا ہے، انسانی معاشروں کو امن، خوش حالی، عدل و انصاف اور جامع و اجتماعی ترقی سے ہم کنار کرنا ہے، اگر قافلۂ انسانیت کو بہیمیت سے نجات دلا کر اسے اخلاق و کردار حسنہ سے روشناس کرانا ہے اور اگر انسانی ظاہر و باطن میں توازن اور یگانگت پیدا کرکے انسانیت کو اس کی اصل کی طرف لوٹانا ہے، جو کہ اس کی تمام تر ترقی اور عروج کی معراج ہے، تو پھر ہمیں تمام انبیاء ؑ کے اُسوہ سے راہ نمائی حاصل کرنا ہوگی، جس کی طرف قرآن نے بھی دعوت دی ہے۔
خصوصاً امام الانبیاء، خاتم الانبیاء ﷺ کے لائے ہوئے جامع دین کا مکمل شعور حاصل کرنا ہوگا اور حکمت و بصیرت کے ساتھ انسانیت کو پھر سے اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانا ہوگا۔ اور اسی طرح سورہ بنی اسرائیل جو کہ اصل میں سورہ اسراء و معراج ہے، اس میں موجود بارہ احکامات کو سماجی نظام میں پرو کر اپنے معاشروں کی ظاہری و باطنی تطہیر کرنا ہوگی تاکہ انسانیت کو اپنی معراج پانے میں کوئی دشواری نہ ہو۔
شرق و غرب اور عرب و عجم سے کفر و ظلم کی تاریکی کو مٹانے کی دعوے دار یہ قلیل سی، مگر منظم اجتماعیت خود اپنے ہی شہر میں تاریخی جبر کے ہاتھوں مجبور اور مقہور تھی۔ وہ کون سی ذہنی و جسمانی اذیت تھی، جس کا کڑوا کسیلا ذائقہ رحمۃ اللعالمین ﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ نے نہ چکھا ہو، مگر صد آفرین کہ بارگاہ الٰہی میں ایک ساعت کے لیے بھی شاکی نہ ٹھہرے۔
ایسے میں رب العالمین نے اپنے محبوب ﷺ اور ان کے جان نثاروں کی دل جوئی اور ہمت افزائی کے لیے وہ تاریخی انعام فرمایا کہ جو حضور سرور دو عالم ﷺ کے توسط و تصدق سے تاقیامت عالمی انسانی ترقی کی حقیقی منزل کا روشن نشان قرار پایا۔
آسمانی برق سے تیز رفتار براق پر سوار آقائے دو جہاں ﷺ اور جبریلِ امینؑ پر مشتمل دو رکنی وفد نے پہلا قیام مسجد اقصیٰ میں فرمایا۔ سابقہ انبیاء و رسلؑ نے استقبال فرمایا اور آپؐ کی امامت میں نماز ادا فرمائی۔ لہٰذا خاتم الاانبیاء ﷺ سفر معراج کی ابتداء میں امام الانبیاء کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔ ایسی عظیم الشان تقریب کے لیے شایان شان مقام کے حسنِ انتخاب کے کیا کہنے! کہ جو اکثر انبیاء کا وطن اور مدفن ہے۔
یہاں سے ساتوں آسمانوں کی سیر فرمائی، جہاں چنیدہ اُوالعزم پیغمبروں سے فرداً فرداً ملاقات کا اہتمام موجود تھا۔
پہلے آسمان پر سیدنا آدم ؑ سے ملاقات ہوئی، دوسرے آسمان پر یحییٰؑ و عیسیٰؑ نے مرحبا کہا، تیسرے آسمان پر حسن یوسفؑ نے آنکھیں بچھا رکھی تھیں، چوتھے آسمان پر حضرت ادریسؑ موجود تھے، پانچویں آسمان پر حضرت ہارونؑ سے تعارف ہوا، چھٹے آسمان پر سیدنا موسیٰ ؑ کا جاہ و جلال سراپاء استقبال تھا اور ساتویں آسمان پر آپؐ کے جد امجد سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ ؑ اپنی دعا کو مکمل و مجسم صورت میں ملاحظہ فرما رہے تھے۔
برصغیر پاک و ہند کے نام ور محقق ڈاکٹر حمید اﷲ ؒ کے مطابق: '' کسی شخص سے آگے بڑھنے کے لیے اس کی برابر کی سطح تک آنا ہوتا ہے۔ آنحضور ﷺ کی ان پیغمبروں سے ملاقات ان کی خصوصیات کا اعلیٰ پیمانے پر حصول تھا۔ حضرت آدم ؑ کے پاس اپنی غلطی کے اعتراف کی جرأت تھی، حضرت عیسیٰؑ کو دنیاوی اور مادی آلائشوں سے کوئی دل چسپی نہ تھی، حضرت یوسفؑ نے عظمت و پاکیزگی کی مثال قائم کی، حضرت ادریسؑ کے بارے میں آنحضور ﷺ نے بتایا کہ وہ تحریر کے موجد تھے جس سے تمام انسانی تہذیب و ترقی ہوئی، حضرت ہارونؑ اور حضرت موسیٰؑ نے اہل ایمان کو ظالم فرعون کے ظلم و ستم سے بچایا، حضرت ابراہیمؑ نے ہمیں توحید کا پاکیزہ ترین مفہوم سمجھایا۔ مزید یہ کہ اﷲ تعالیٰ اور اﷲ تعالیٰ کے امور کے مابین فرق قائم کیا۔ یہ ایک اچھے مومن کی بنیادی خصوصیات ہیں اور محمد ﷺ نے ان تمام خصوصیات کو حاصل کیا، حتیٰ کہ آپ ﷺ فرشتوں سے بھی آگے نکل گئے۔''
(بہ حوالہ: محمد الرسول اﷲ ﷺ از ڈاکٹر حمید اﷲ ؒ)
بعد ازاں آپؐ کو جنت کے نظاروں اور جہنم کا مشاہدہ کرایا گیا۔ دوران سفر جب سدرۃ المنتہٰی کے مقام پر پہنچے تو جبریل امینؑ نے آگے جانے سے معذرت چاہی۔ آخر کار سفر معراج کی وہ منزل مقصود بھی آپہنچی کہ جس کے لیے آپؐ کو فرش سے عرش پر بلایا گیا اور دیدار الہیٰ کی نعمت عظمیٰ آپؐ کا مقدر ٹھہری۔ قرآن حکیم میں ہے، مفہوم: (جس ذات (اﷲ) نے ترقی کا پیمانہ مقرر کیا اور پھر انسانیت کی اس کی طرف راہ نمائی کی) یعنی خدا نے تمام انسانیت کو صالح فطرت پر پیدا فرمایا اور انسانیت کی ترقی اور کام یابی کے لیے راہ ہدایت کی طرف اس کی راہ نمائی فرمائی۔عظیم ترین تاریخی واقعۂ معراج، انسانی ارادے، کاوشوں، کارناموں اور ترقیات کا رُخ متعین کرتا ہے، تاکہ انسان بھول بھلیوں سے نکل کر ہمہ وقت اپنے مقصد حیات کو پیش نظر رکھے۔ علامہ شبلی نعمانی ؒ کے مطابق صرف سورہ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیت ہی واقعۂ اسراء یا معراج کے متعلق نہیں، بل کہ پوری سورہ اسی واقعہ کے گرد گھومتی ہے اور معراج کے فلسفہ و مقاصد کو واضح کرتی ہے۔
(بہ حوالہ سیرت النبیٰ ﷺ جلد سوم صفحہ 252)
واقعۂ اسراء میں مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی سیر واضح کرتی ہے کہ آپ ﷺ نبی القبلتین کے منصب جلیلہ پر فایز ہوئے ورنہ آپؐ سے پہلے جس قدر انبیاء ؑ شام اور عرب میں گزرے ہیں، وہ ان دونوں میں سے کسی ایک قبلے کے متولی ہوا کرتے تھے۔
سیدنا ابراہیمؑ کو اﷲ نے دو بیٹے عطا کیے۔ حضرت اسحاقؑ شام میں آباد ہوئے اور سیدنا اسمٰعیلؑ نے عرب میں قیام فرمایا۔ آگے چل کر ان دو صاحب زادوں کی اولاد میں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کی تفریق پیدا ہوئی، جسے اﷲ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کے ذریعے ختم کیا، اور آپ ﷺ نے پھر سے ملت ابراہیمی کو نظری، عملی اور تاریخی اعتبار سے وحدت بخشی۔
اس سفر میں سابقہ انبیاء ؑ سے ملاقاتیں ہوئیں اور ان کی امامت کے شرف سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کے اور سابقہ پیغمبروں کے مشن میں کوئی فرق اور تعارض نہیں پایا جاتا۔ بل کہ باہمی فرق صرف زمانی و مکانی حالات، معروضیت اور عصری تقاضوں کا ہے، اسی لیے پہلے انبیاء قومی درجے پر مبعوث ہوئے جب کہ آپ ﷺ نے سیدنا ابراہیمؑ کی عالم گیر دعوت کے غلبہ و اشاعت کی تکمیل فرمائی۔ حضرت موسیٰؑ کو طور سینا پر احکام عشرہ سے نوازا گیا اور آپؐ کو سورہ بنی اسرائیل میں انسانیت کو راہ ترقی پر گام زن رکھنے کے لیے بارہ احکامات عطا ہوئے، جو زیادہ جامع اور ہر دور کی انسانیت کو اس کی فطرت پر قایم رکھنے کے لیے بنیادی نسخہ ہیں۔ انسانیت کو حکم دیا گیا۔
(1) شرک نہ کرو (2) والدین کی عزت اور اطاعت کرو (3) حق داروں کا حق ادا کرو (4) اسراف، افراط و تفریط سے پر ہیز کرکے میانہ روی اختیار کرو (5) اپنی اولاد کو قتل نہ کرو (6) زنا کے قریب نہ جاؤ (7) کسی کو ناحق قتل نہ کرو (8) یتیم سے بہتر سلوک کرو (9) عہد کی پاس داری کرو (10) ناپ تول اور وزن کرنے میں عدل کرو (11) نامعلوم بات کی پیروی نہ کرو، یعنی جہالت سے دور رہو (12) غرور اور تکبر سے اجنتاب کرو۔ (بہ حوالہ، مفہوم : سورۃ بنی اسرائیل آیت 32تا37)
معراج نبوی ﷺ کا عظیم ترین تحفہ جو آپؐ کو امت کے لیے عطا کیا گیا وہ پنج گانہ نماز ہے۔ نماز معراج مومن ہے، سے واضح ہوتا ہے کہ انسانیت کے سفر ارتقاء اور عروج کا حاصل اور مطلوب صرف ''حقیقت کبریٰ'' اور ''ذات خداوندی'' کا عرفان ہونا چاہیے۔ معراج کا یہ عظیم ہدیہ دن میں پانچ مرتبہ ہمیں فلسفۂ حیات اور فلسفۂ معراج کی یاد دلاتا ہے اور یقینا دنیائے رنگ و بُو میں اہل بصیرت کے لیے نماز سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں، جیسا کہ حدیث میں ''احسان'' کی تعریف موجود ہے۔ ''اﷲ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔''
واقعۂ معراج کی عظمت موجودہ دور کی انسانیت کو متوجہ کرتی ہے کہ آج اگر ہم نے انسانیت میں ہر قسم کے امتیازات اور تفریق کو ختم کرکے اُسے وحدت بخشنا ہے، انسانی معاشروں کو امن، خوش حالی، عدل و انصاف اور جامع و اجتماعی ترقی سے ہم کنار کرنا ہے، اگر قافلۂ انسانیت کو بہیمیت سے نجات دلا کر اسے اخلاق و کردار حسنہ سے روشناس کرانا ہے اور اگر انسانی ظاہر و باطن میں توازن اور یگانگت پیدا کرکے انسانیت کو اس کی اصل کی طرف لوٹانا ہے، جو کہ اس کی تمام تر ترقی اور عروج کی معراج ہے، تو پھر ہمیں تمام انبیاء ؑ کے اُسوہ سے راہ نمائی حاصل کرنا ہوگی، جس کی طرف قرآن نے بھی دعوت دی ہے۔
خصوصاً امام الانبیاء، خاتم الانبیاء ﷺ کے لائے ہوئے جامع دین کا مکمل شعور حاصل کرنا ہوگا اور حکمت و بصیرت کے ساتھ انسانیت کو پھر سے اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانا ہوگا۔ اور اسی طرح سورہ بنی اسرائیل جو کہ اصل میں سورہ اسراء و معراج ہے، اس میں موجود بارہ احکامات کو سماجی نظام میں پرو کر اپنے معاشروں کی ظاہری و باطنی تطہیر کرنا ہوگی تاکہ انسانیت کو اپنی معراج پانے میں کوئی دشواری نہ ہو۔