وہ مفلسی ہے تیمم کو گھر میں خاک نہیں
پاکستان میں کپاس کے حوالے سے شہرت رکھنے والا رحیم یار خان آج بدترین آبی قلت کا شکار ہے
ضلع رحیم یار خان پاکستان کے صوبے پنجاب کا ایک جنوبی ضلع ہے۔ اس کا مرکزی شہر رحیم یار خان ہے۔ ضلع رحیم یار خان کا رقبہ 11880 کلومیٹر اور اس کی آبادی 48 لاکھ ہے۔ ضلع رحیم یار خان سندھ پنجاب بارڈر کے ساتھ واقع ہے اور اس میں چولستان جیسا علاقہ بھی شامل ہے۔ یہ پورا علاقہ آج کل پانی کے شدید بحران کا شکار ہے۔
ششماہی نہریں 16 اکتوبر 2017 سے بند ہونے کی وجہ سے پکے کا علاقہ پانی کی کمی کا شکار ہے۔ اس علاقے میں 70 سے 75 فیصد زیر زمین پانی کھارا اور نمکین ہے جبکہ یہاں سالانہ بارش کا اوسط 150 ملی میٹر ہے جو انتہائی کم ہے۔ بارشوں میں کمی کے باعث کاشت کار زیادہ تر انحصار نہری پانی پر کرتے ہیں۔ چونکہ زیر زمین بھی پانی کھارا ہے اس لیے ٹیوب ویل بھی زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہو پاتا۔ 16 اکتوبر سے نہروں کی بندش کی وجہ ملک میں پانی کا شدید بحران ہے۔ تربیلا اور منگلا میں پانی ڈیڈ لیول پر آگیا ہے۔
دوسری جانب صورتِ حال یہ ہے کہ ضلع رحیم یار خان کا 70 فیصد رقبہ ششماہی نہروں کے پانی سے کاشت ہوتا ہے۔ پانی کی کمی کے باعث جہاں فصلیں تباہ ہوچکی ہیں وہیں عوام کو بھی پینے کا پانی میسر نہیں۔ نہری پانی بند ہونے کے باعث لوگ پینے کے پانی سے تو محروم ہیں ہی لیکن اب مویشیوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں۔ مویشیوں کےلیے دستیا ب آبی ذخائر ختم ہوچکے ہیں۔ اب انسان اور جانور پینے کے پانی کےلیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔
پانی، زندگی ہے اور اس کے بغیر زندگی ناممکن ہے۔ نہ تو انسان پانی کے بغیر رہ سکتا ہے نہ جانور اور نہ ہی کاشت کاری پانی کے بغیر عمل میں لائی جاسکتی۔ اس حقیقت کے باوجود پانی کے سنگین بحران کا سامنا ہونا ایک غیرمعمولی بات ہے۔ اس ضلع میں پانی کی شدید بندش کی بہت سی وجوہ ہیں۔
کچھ سال پہلے تک ضلع رحیم یار خان کپاس کی کاشت کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور اور ملک میں کپاس کی مجموعی سالانہ پیداوار کا 15 فیصد کاشت کرنے والا ضلع تھا لیکن شوگر ملوں کی بہتات کی بہتات اور گنے کی کاشت میں اضافے نے کپاس پیدا کرنے والے ضلعے کو بنجر اور سیم زدہ کرنا شروع کردیا۔
ضلع بھر میں گنے کی پیداوار کے دوران پانی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ زیرزمین پانی چونکہ اس علاقے میں پہلے ہی کم ہے جس کی وجہ سے زمین سیم زدہ ہونا شروع ہوگئی۔ اور خاص طور پر پکے کا وہ علاقہ جہاں سالانہ نہری نظام ہے اور کاشت کاروں کا انحصار ہی نہری پانی پر ہے، وہاں پانی کے مسائل اور زیادہ ہوگئے ہیں اور زمین بنجر ہونا شروع ہوگئی ہے۔
پانچ سال پہلے تک ضلع بھر میں 8 لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس کاشت کی جاتی تھی جو شوگر ملوں اور گنے کی کاشت کی وجہ سے کم ہوکر 4 لاکھ ایکڑ رہ گئی ہے۔ گنے کی کاشت کی وجہ سے جہاں کپاس کی کاشت میں کمی واقع ہورہی ہے وہیں پانی کے مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں اور زمین سیم و تھور کا شکار ہورہی ہے۔
پانی کی کمی کی دوسری بڑی وجہ بھارت کی آبی دہشت گردی ہے۔ 1960 کے سندھ طاس معاہدے میں دریائے سندھ، جہلم اور چناب کا زرعی پانی پاکستان کے حصے میں آیا اور راوی، ستلج اور بیاس پر بھارت کا حق مانا گیا۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ بھارت ان دریاؤں کا قدرتی راستہ بند کرکے ان دریاؤں سے ملحق علاقوں کو مفلوج کردے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی بھی دریا کا قدرتی راستہ بند نہیں کیا جاسکتا بلکہ دریا میں کچھ نہ کچھ پانی ضرور آتا رہنا چاہیے کیونکہ مکمل پانی بند ہونے کے باعث زیر زمین پینے کا پانی بہت نیچے چلا جاتا ہے۔
کچھ یہی صورت حال ہمیں بھی درپیش ہے؛ اور اگر حالات اسی طرح رہے تو صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے۔
پاکستان کونسل برائے تحقیق آبی ذخائر کے مطابق پاکستان 2025 تک پانی کی شدید کمی کا شکار ہوجائے گا۔ موجودہ حکومت اب اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ دو تین ماہ کے بعد الیکشن آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن حکومت نے ان 5 سال میں پانی کے مسئلے کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں دی اور نہ ہی بھارت کی ہٹ دھرمی پر سوال اٹھایا گیا۔
پنجاب اسمبلی کے باہر کسان ہر سال سر پیٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے لوگ سال میں 6 ماہ پانی کی کمی سے مرتے ہیں اور 6 ماہ سیلاب سے۔ حکومت کو یہ سنگین مسئلہ حل کرنے کےلیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے پانی کی فراہمی کے مستقل ذرائع مہیا کیے جانے چاہئیں۔ نہروں کی بندش پر اقدامات کی ضرورت ہے؛ اور کسانوں اور کاشت کاروں کی تربیت کےلیے اقدامات کیے جائیں کیونکہ تربیت نہ ہونے باعث کسانوں کی غفلت کی وجہ سے بھی پانی کا بحران پیدا ہوتا ہے۔
پانی کی اس کمی پر آخر میں مجھے میر تقی میر کا ایک شعر یاد آرہا جو ہمارے جذبات کی بخوبی ترجمانی کرتا ہے:
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
ششماہی نہریں 16 اکتوبر 2017 سے بند ہونے کی وجہ سے پکے کا علاقہ پانی کی کمی کا شکار ہے۔ اس علاقے میں 70 سے 75 فیصد زیر زمین پانی کھارا اور نمکین ہے جبکہ یہاں سالانہ بارش کا اوسط 150 ملی میٹر ہے جو انتہائی کم ہے۔ بارشوں میں کمی کے باعث کاشت کار زیادہ تر انحصار نہری پانی پر کرتے ہیں۔ چونکہ زیر زمین بھی پانی کھارا ہے اس لیے ٹیوب ویل بھی زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہو پاتا۔ 16 اکتوبر سے نہروں کی بندش کی وجہ ملک میں پانی کا شدید بحران ہے۔ تربیلا اور منگلا میں پانی ڈیڈ لیول پر آگیا ہے۔
دوسری جانب صورتِ حال یہ ہے کہ ضلع رحیم یار خان کا 70 فیصد رقبہ ششماہی نہروں کے پانی سے کاشت ہوتا ہے۔ پانی کی کمی کے باعث جہاں فصلیں تباہ ہوچکی ہیں وہیں عوام کو بھی پینے کا پانی میسر نہیں۔ نہری پانی بند ہونے کے باعث لوگ پینے کے پانی سے تو محروم ہیں ہی لیکن اب مویشیوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں۔ مویشیوں کےلیے دستیا ب آبی ذخائر ختم ہوچکے ہیں۔ اب انسان اور جانور پینے کے پانی کےلیے مارے مارے پھر رہے ہیں۔
پانی، زندگی ہے اور اس کے بغیر زندگی ناممکن ہے۔ نہ تو انسان پانی کے بغیر رہ سکتا ہے نہ جانور اور نہ ہی کاشت کاری پانی کے بغیر عمل میں لائی جاسکتی۔ اس حقیقت کے باوجود پانی کے سنگین بحران کا سامنا ہونا ایک غیرمعمولی بات ہے۔ اس ضلع میں پانی کی شدید بندش کی بہت سی وجوہ ہیں۔
کچھ سال پہلے تک ضلع رحیم یار خان کپاس کی کاشت کے حوالے سے دنیا بھر میں مشہور اور ملک میں کپاس کی مجموعی سالانہ پیداوار کا 15 فیصد کاشت کرنے والا ضلع تھا لیکن شوگر ملوں کی بہتات کی بہتات اور گنے کی کاشت میں اضافے نے کپاس پیدا کرنے والے ضلعے کو بنجر اور سیم زدہ کرنا شروع کردیا۔
ضلع بھر میں گنے کی پیداوار کے دوران پانی کا استعمال زیادہ ہوتا ہے۔ زیرزمین پانی چونکہ اس علاقے میں پہلے ہی کم ہے جس کی وجہ سے زمین سیم زدہ ہونا شروع ہوگئی۔ اور خاص طور پر پکے کا وہ علاقہ جہاں سالانہ نہری نظام ہے اور کاشت کاروں کا انحصار ہی نہری پانی پر ہے، وہاں پانی کے مسائل اور زیادہ ہوگئے ہیں اور زمین بنجر ہونا شروع ہوگئی ہے۔
پانچ سال پہلے تک ضلع بھر میں 8 لاکھ ایکڑ رقبے پر کپاس کاشت کی جاتی تھی جو شوگر ملوں اور گنے کی کاشت کی وجہ سے کم ہوکر 4 لاکھ ایکڑ رہ گئی ہے۔ گنے کی کاشت کی وجہ سے جہاں کپاس کی کاشت میں کمی واقع ہورہی ہے وہیں پانی کے مسائل دن بدن بڑھ رہے ہیں اور زمین سیم و تھور کا شکار ہورہی ہے۔
پانی کی کمی کی دوسری بڑی وجہ بھارت کی آبی دہشت گردی ہے۔ 1960 کے سندھ طاس معاہدے میں دریائے سندھ، جہلم اور چناب کا زرعی پانی پاکستان کے حصے میں آیا اور راوی، ستلج اور بیاس پر بھارت کا حق مانا گیا۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ بھارت ان دریاؤں کا قدرتی راستہ بند کرکے ان دریاؤں سے ملحق علاقوں کو مفلوج کردے۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی بھی دریا کا قدرتی راستہ بند نہیں کیا جاسکتا بلکہ دریا میں کچھ نہ کچھ پانی ضرور آتا رہنا چاہیے کیونکہ مکمل پانی بند ہونے کے باعث زیر زمین پینے کا پانی بہت نیچے چلا جاتا ہے۔
کچھ یہی صورت حال ہمیں بھی درپیش ہے؛ اور اگر حالات اسی طرح رہے تو صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے۔
پاکستان کونسل برائے تحقیق آبی ذخائر کے مطابق پاکستان 2025 تک پانی کی شدید کمی کا شکار ہوجائے گا۔ موجودہ حکومت اب اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ دو تین ماہ کے بعد الیکشن آتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن حکومت نے ان 5 سال میں پانی کے مسئلے کی طرف بالکل بھی توجہ نہیں دی اور نہ ہی بھارت کی ہٹ دھرمی پر سوال اٹھایا گیا۔
پنجاب اسمبلی کے باہر کسان ہر سال سر پیٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے لوگ سال میں 6 ماہ پانی کی کمی سے مرتے ہیں اور 6 ماہ سیلاب سے۔ حکومت کو یہ سنگین مسئلہ حل کرنے کےلیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے پانی کی فراہمی کے مستقل ذرائع مہیا کیے جانے چاہئیں۔ نہروں کی بندش پر اقدامات کی ضرورت ہے؛ اور کسانوں اور کاشت کاروں کی تربیت کےلیے اقدامات کیے جائیں کیونکہ تربیت نہ ہونے باعث کسانوں کی غفلت کی وجہ سے بھی پانی کا بحران پیدا ہوتا ہے۔
پانی کی اس کمی پر آخر میں مجھے میر تقی میر کا ایک شعر یاد آرہا جو ہمارے جذبات کی بخوبی ترجمانی کرتا ہے:
وضو کو مانگ کے پانی خجل نہ کر اے میر
وہ مفلسی ہے تیمم کو گھر میں خاک نہیں
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔