قومی مفاد
پاکستان کوحقیقت پسندی سے کام لے کرامریکا سے تعلقات بہتر بنانے کی بھرپورکوشش کرنی چاہیے۔
MARDAN:
دنیاکی ہرقوم اپنے مفادات کوسینے سے لگاکررکھتی ہے۔قومی فائدے پرکسی قسم کاکوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاتا۔ منسلک ادارے اورلوگ ہرقیمت پران مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔وقت آنے پراپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔ لڑتے ہیں،ہرحربہ استعمال کرتے ہیں۔
مقصدصرف ایک کہ ملکی مفادات کوآنچ نہ آئے۔اس کی سادہ ترین مثال پاکستان کے جوہری ہتھیارہیں۔ان کی حفاظت اورترتیب پرپورے ملک میں کوئی دورائے نہیں۔بالکل اسی طرح دہشت گردی کے خلاف موثرجنگ ہے۔تمام لوگ،ادارے اورسیاسی اکابرین اس لڑائی میں ریاستی طاقت کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔
یہاں تک بات بالکل ٹھیک ہے اوردرست بھی۔معاملہ اس وقت بگڑتاہے جب ملک اپنے قومی مفادات کوپسِ پشت ڈال کرکسی ایسی جانب روانہ ہوجاتے ہیں جن سے انھیں بے حدنقصان ہوتاہے۔وہ اس قیمت کو اداکرتے بھی ہیں مگراداکرنابھی نہیں چاہتے۔
اس میں کسی قسم کاکوئی ابہام نہیں کہ ہمارے ملک کی فکری اساس اسلام سے کشیدکی گئی ہے۔لبرل حلقے کے افراد،اس نکتہ کومتنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔مگراس سچ سے گریزنہیں کیاجاسکتاکہ سات دہائیوں سے ملک میں مذہب کوغیرمعمولی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔یہ بالکل درست ہے۔قوموں کے لیے ایک نظریہ،فلسفہ یکجارکھنے میں کلیدی اہمیت رکھتاہے۔ہمارے ملک میں یہ حقیقت صرف اورصرف اسلام ہے۔
صورتحال سے ایک مزیدردِعمل سامنے آتاہے کہ ملک کی بیرونی پالیسی خصوصاًفارن پالیسی کس طرح کی ہونی چاہیے۔خارجہ پالیسی بھی دراصل ملکی نظریہ سے ہی آگے بڑھتی ہے۔مگر انتہائی سنجیدہ لوگ اس نکتہ کوبے حداہمیت دیتے ہیں کہ ملک کسی الجھاؤکاشکارنہ ہوجائے۔ سفارتی سطح پراپنے دشمنوں کوکم سے کم کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے۔مگریہاں آکرابہام آجاتاہے کہ کیا واقعی ہم اپنے دشمنوں کوکم کرپائے ہیں یاانھیں بڑھارہے ہیں۔
اس صورتحال کودلیل سے پہچاننے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے امریکا اورپاکستان کے حالیہ تعلقات کی جانب نظردوڑائیے۔دنیاکے کسی سیانے ملک کودیکھ لیجیے۔ ہرملک اپنے قومی مفادکومدِنظررکھتے ہوئے امریکا سے بہترین تعلقات رکھنے کی بھرپورکوشش کرتاہے۔متحرک قومیں واشنگٹن میں ایسی کمپنیوں سے معاہدے کرتی ہیں جو امریکی انتظامیہ اورسیاستدانوں سے ان کے باہمی تعلقات کو بہترسے بہترکرسکیں۔
اس کام کے لیے کروڑوں ڈالرخرچے جاتے ہیں۔مسلمان ملکوں کی مثال سامنے رکھیے۔ اُردن، سعودی عرب،الجزائر،موروکو،حتیٰ کہ بنگلہ دیش تک تمام ممالک امریکا سے تعلق کوانتہائی اہمیت دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ ممالک اپنے اپنے قومی مفادات کے تحت امریکا سے دوستی قائم رکھتے ہیں۔پالیسی کاانکوفائدہ ہوتاہے اوران کے عوام کوبھی۔تعاون سے ترقی کے نئے امکان جنم لیتے ہیں۔زندگی کے ہرشعبہ میں نئی جہتیں وجودمیں آتی ہیں۔دوبارہ عرض کرونگاکہ تمام قومیں اپنی خودمختاری اورقومی مفادپرقطعاًسمجھوتا نہیں کرتیں۔مگر کامیاب سفارت کاری کے ذریعہ امریکا سے باہمی فائدے حاصل کرتیں ہیں۔
مگرانتہائی مشکل اَمریہ ہے کہ متضادپالیسیاں اپناکر قوم کوانتہائی ہیجان،جذباتیت اورجعلی روایات کاعادی بنادیا گیاہے۔مختلف حکومتوں نے عجیب وغریب محرکات کے تحت کام کیاہے۔پوری دنیاسے لشکرمنگواکرافغانستان پر ایک جنگ مسلط کردی،جس سے وہ بدقسمت ملک آج تک نہیں نکل سکا۔مجاہدین کوہیروبناکروائٹ ہاؤس بھجوایا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ ہمارے ماضی کے دست وبازوبیرونی طاقتوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔
دہشت گردوں کے ایک گروہ کوختم کیاجاتاہے توفوراًہی دوسراجنم لے لیتا ہے۔ یعنی موت اوربارودکاکھیل ہرطریقے سے جاری وساری ہے۔ہوناتویہ چاہیے تھاکہ ہم دنیاکی واحدسُپرپاورسے اس مشکل صورتحال میں مثالی تعلقات رکھتے۔مگرغیردانش مندی کامظاہرہ کرتے ہوئے امریکا کواپنادشمن بنالیا ہے۔ اس دشمنی کی کیاقیمت ہوسکتی ہے مقتدرطبقہ اس سے مکمل طورپرواقف ہے۔
ان میں سے اکثریت نے محفوظ ممالک کی شہریت حاصل کررکھی ہے کہ جب بھی حالات خراب ہوں،فوراًپاکستان چھوڑکرٹھنڈی ہواؤں میں چلے جائیں اوروہاںجاکرقومی حمیت،غیرت اوراتحادپربیانات دیں۔ مستقبل توبائیس کروڑلوگوں کاہے جنکاخارجہ پالیسی سے کسی قسم کاکوئی تعلق نہیں۔ان میں ایک منظم طریقے سے امریکا کوولن بناکرپیش کیاجاچکاہے۔عام لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لیے امریکا سے بہترین تعلقات نہ بھی ہوں توکوئی فرق نہیں پڑتا۔مگرسنجیدگی سے دیکھاجائے توبے انتہافرق پڑتاہے۔ہرطرح سے اورہرسطح پر۔
غورکیجیے۔اسامہ بن لادن کیاہمارے ملک میں قیام پذیرنہیں تھا۔کیااس سچ کوکسی بھی طریقے سے غلط ثابت کیا جاسکتاہے۔کیاآج تک اس چیزکادلیل پرجواب ڈھونڈنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ سب کچھ ہماری ناک کے نیچے کیسے ہوتارہا۔آپ سمجھتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کے ذہن میں ہمارے ملک کے متعلق منفی خیالات نہیں آئے ہونگے۔ عدالتی کمیشن بنانے سے کیاہمارے بیرونی تعلقات بہتر ہوگئے۔
کیاہمارے ملک کے اردگردشک کے دائرے مزید گھمبیرنہیں ہوچکے۔مگرہم ہراہم موضوع پربات کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔سچ بولناتودور،سچ سننے سے بھی خوفزدہ ہیں۔ہم نے اس معاملہ کوایک سیکیورٹی ایشو کانام دیاکہ امریکا نے ہماری فضائی اورزمینی حدودکی خلاف ورزی کی ہے۔یہ الزام درست ہے۔مگرکیاآج تک کسی نے امریکی انتظامیہ کے اس بیان کی تردیدکی کہ اگرہم اسامہ بن لادن کی موجودگی اوررہائش کی معلومات پاکستانی انتظامیہ کودے دیتے،توشائداُسامہ اپناٹھکانہ تبدیل کرلیتا۔یعنی عدم اعتماد کی انتہادیکھیے۔ہم پریقین نہ پہلے تھااورخیراب تو غیراعتمادی کی کیفیت ہرجائزحدعبورکرچکی ہے۔
کیایہ نہیں ہوناچاہیے تھاکہ پاکستانی حکومت زمین آسمان ایک کرکے اس شک اورشبہہ کی فضاکومعتدل بناتی۔پرنہیں۔خیرآج کی صورتحال حددرجہ مشکل ہے۔ٹرمپ اوراُبامہ کے مزاج میں بے حدفرق ہے۔ٹرمپ مکمل طورپرپاکستان کے خلاف ہے اور ہمارے ملک کے اردگردگھیراتنگ کیا جاچکا ہے۔ اقتصادی طورپرہماری معیشت کوبے حدکمزور کردیا گیا ہے۔ بیرونی معاملات توچھوڑیے۔
چندبلین ڈالرکے خفیف ذخائر رکھ کر بھی ہم لوگوں کوسچ نہیں بتارہے کہ اگرمزیدقرضے نہ لیے گئے توملک دیوالیہ ہوسکتاہے۔قیامت یہ ہے کہ حقیقت سے روگردانی کرتے ہوئے ہم اپناایک مخصوص بیانیہ ترتیب دے رہے ہیں جسکودنیامیں کوئی تسلیم نہیں کرتا۔چین اورترکی بھی نہیں۔سعودی عرب بھی نہیں۔آپ ترکی کے صدرکی حالت دیکھیے۔گفتارکے غازی نے دومہینے پہلے اسرائیل کے خلاف جذباتی تقریرکی۔معاملہ امریکی سفارت خانے کے القدس منتقلی کاتھا۔
لوگ تقریرسن سن کرروتے تھے۔گریہ کرتے تھے۔مگرٹھیک چندہفتے پہلے اسرائیل اورامریکا کے ساتھ ملکراسلامی ملک شام پرحملہ کردیا۔سوال ہے کہ ترکی نے ایساکیوں کیا۔صرف اسلیے کہ وہ امریکا کوناراض نہیں کرناچاہتااوراپناقومی مفادکوسامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کرنے کی بھرپورکوشش کرتاہے۔
ترکی سے کوئی دلچسپی نہیں۔اپناملک سب سے زیادہ عزیزاورمحترم ہے۔کیااس وقت، امریکا مخالف پالیسی کے زیرِاثر،روس اورچین کے ساتھ قربت ہمارے مفادمیں ہے۔ہوسکتاہے کہ کچھ لوگ اسکودرست گردانتے ہوں۔مگر تجزیہ کیجیے توروس نے جس طرف بھی دوستی کاہاتھ بڑھایا،وہ ملک تھوڑے عرصے میں خون اوربارودمیں نہاگیا۔دورمت جائیے۔لبنان خوبصورت ترین ملک تھا۔
روس نے ایک گروہ کی حمایت کرکے امن سے اس خطہ کودہائیوں دوررکھا۔ قطعاًیہ عرض نہیں کررہاکہ دوسری جانب سے کوئی سنجیدہ بات ہورہی تھی۔مگردوستوں کاکمال تویہ ہے کہ جنگ ہونے ہی نہ دیں۔اگرایک باریہ جن بوتل سے باہرآگیاتواس کے نتائج پر کسی کوکنٹرول نہیں رہتا۔لبنان میں بھی یہی ہوا اورشام میں بھی یہی ہورہاہے۔اگرواقعتاروس چاہے توکیاشام میں مذاکرات کے ذریعے امن واپس نہیں لاسکتا۔مگرآپ نے کبھی امن کالفظ نہیں سناہوگا۔
ہمارے کان جنگ،مفلسی اور لاشوں جیسے الفاظ ہی سنتے ہیں۔پوری دنیاکی لڑائی شام منتقل ہوچکی ہے۔مگرامن کی کوشش کرنے والاکوئی بھی نہیں۔ ہمارا معاملہ توبالکل مختلف ہے۔پاکستان نے توروس کے حصے بخرے کرنے میں استطاعت سے بڑھ کرمددکی ہے۔ آپکا خیال ہے کہ روسی قیادت یہ فراموش کرچکی ہے۔ہونہیں سکتا، کہ جس ملک نے اس سُپرپاورکوختم کرنے میں عملی رول ادا کیاہو،اسے اتنی آسانی سے بخش دیاجائے۔روس کی بھرپور کوشش ہوگی کہ جس آگ میں ہم نے انھیں مبتلاکیاتھا،اس آگ میں وہ ہمارے ملک کوبھی خاکسترکردے۔مگرہم انتہائی ناقص حکمتِ عملی کے تحت امریکا کواپنامزیددشمن بنانے پرتلے ہوئے ہیں اوراس میں کامیاب بھی ہورہے ہیں۔
چین کی طرف آئیے۔وہ ہمارادوست صرف اس وقت تک ہے جب تک اس کے اورہمارے اقتصادی ہدف ایک جیسے ہیں۔لیکن چین کبھی بھی جذباتی پالیسی کوتقویت نہیں دیتا۔سیانامشورہ دیکرآرام سے پیچھے ہوجاتاہے۔خودچین کے امریکا سے انتہائی مضبوط تعلقات ہیں۔چھوٹے موٹے تجارتی مسائل ایک طرف،مگرآج بھی چینی سرمایہ کار سب سے زیادہ امریکی جائیدادخریدنے والے طبقے میں شامل ہیں۔
عرض کرنے کامقصدصرف ایک ہے۔پاکستان کوحقیقت پسندی سے کام لے کرامریکا سے تعلقات بہتر بنانے کی بھرپورکوشش کرنی چاہیے۔یہ نہ ہو،کہ ہمیں اتنا نقصان پہنچادیاجائے کہ پھرہم کوئی فیصلہ کرنے کی حالت میں نہ رہیں۔اگرآج بھی ہمیں سمجھ نہ آئی توشائدمعاملہ ہر طریقہ سے خراب ہوتاچلاجائیگا۔اس منفی صورتحال سے بچناہمارااولین قومی مفادہے۔