ہماری انتظامیہ
انتظامیہ کا کردارملک کو مستحکم بنیادوں پر آگے بڑھانا اور ایسے قواعد و ضوابط وضع کرنا ہے۔
انتظامیہ کی کار کردگی کو اگر دیکھا جائے تو آپ اس نتیجہ پر فوراً ہی پہنچ جاتے ہیں کہ انتظامیہ نام کی کوئی چیز اس ملک میں موجود نہیں جو آپ کو نظر آتا ہے وہ محض نظر کا دھوکا ہے، انتظامیہ اشرافیہ کے ارد گرد ہی گھومتی نظر آتی ہے اور ہٹو بچو کی صدائیں بلند ہوتی سنائی دیتی ہیں۔
اس لیے آپ یہ تو بھول جائیں کہ کوئی انتظامیہ ہے جو میری اور آپ کی حفاظت اور مفادات کے تحفظ کے لیے موجود ہے بلکہ یہ انتظامیہ صرف اور صرف امراء کے لیے ہی اپنی انتظامی صلاحیتیں استعمال کرتی ہے ان کی حفاظت میرے اور آپ کے خرچے پر کی جاتی ہے جب کہ مجھے اور آپ کو بے یارومددگارچھوڑ دیا گیا ہے ہمیں اپنی حفاظت خود کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے لاتعداد کمپنیاں بھی قائم کر دی گئیں تا کہ آپ ان کی مدد سے اپنی حفاظت کا بندو بست خود ہی کر لیں اور انتظامیہ کو اس معاملے میں زحمت نہ دیں۔
انتظامیہ کا کردارملک کو مستحکم بنیادوں پر آگے بڑھانا اور ایسے قواعد و ضوابط وضع کرنا جن کے تحت ملکی نظام کو ہموار طریقے سے بغیر کسی رکاوٹ کے چلایا جا سکے ۔یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ ایک نوزائیدہ ملک کو شروع میں ہی ایسی انتظامیہ مل گئی جس نے ملک کے انتظامی امور کے لیے قوانین کے تحت قواعد و ضوابط بنائے اور پھر ان پراحسن طریقے سے عمل درآمد بھی کیا لیکن پھر وہی ہوا جو ہوتا آیا ہے کہ افسروں کی وہ نسل آہستہ آہستہ ناپید ہوتی گئی یعنی وہ اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر ہو گئے اور ہمیں نئے زمانے کے نئے افسران کے رحم و کرم پر چھوڑ گئے۔
جنہوں نے وقت کی ضرورت کے مطابق انتظامی امور کو چلانا شروع کیا ۔ ملکی مفادات کی جگہ ذاتی مفادات کو ترجیح دی جانے لگی۔ پسند ناپسند کی بنیاد پر فیصلے کیے جانے لگے جس سے ملکی نظام میں خرابی کا آغاز ہوا حالانکہ افسر شاہی انگریز دور کی پیداوار تھی اور انگریزوں نے برصغیر میں انصاف فراہم کر کے اپنے اقتدار کو طول دیا، انگریز سرکار کی بہت ساری خرابیوں کو ان کا نظام عدل چھپا لیتا تھا اور اس کی وجہ سے وہ برصغیر میں کامیابی سے حکمرانی کر گئے لیکن بعد میں جب ان کے پیروکاروں کے ہاتھ میں انتظامی امور آئے تو انھوں نے آہستہ آہستہ عوام سے دور ہونا شروع کیا اور پھر اتنی دور چلے گئے کہ اپنے ساتھ عوام کے لیے انصاف کا نظام بھی لے گئے اور اسی ابتری کو ہم آج بھگت رہے ہیں ۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انتظامیہ نام کی کوئی شئے ملک میں موجود نہیں ۔ہمارے حکمرانوں نے اپنی سیاسی دکانداری قائم رکھنے کے لیے ملکی انتظامیہ کو دو حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، پسند ناپسند کی بنیاد پر افسران کا انتظامی عہدوں پر تقرر کیا جاتا ہے سینئر افسران کو کھڈے لائن لگا کر جونیئر افسروں کو اہم انتظامی عہدوں پہ تعینات کیا جاتا ہے اور پھر ان سے اپنے مطلب اور مفاد کے کام کرائے جاتے ہیں جن کے نتائج پوری قوم بھگتتی ہے اور یہ سب ہم دیکھ رہے ہیں کس طرح ان جونیئر افسران کو استعمال کر کے ملکی اداروں کا بیڑا غرق کیا گیا ۔ سینئر انتظامی افسران اپنے تمام تر تجربے کے باوجود اپنا انتظامی کردار ادا نہیں کر رہے۔
جس کی صرف ایک ہی وجہ ہے کہ حکومت کو یہ تجربہ کار افسران اس لیے پسند نہیں کہ یہ انتظامی امور میں رات کو دن نہیں کرتے یعنی حکمرانوں کی پسند کے مطابق فیصلے نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ کون سے فیصلے ملکی مفاد کے لیے ضروری ہیں اور اگر وہ قواعد و ضوابط کوچھوڑ کر فیصلے کرنا شروع ہو گئے تو ملکی انتظامیہ تباہ ہو جائے گی اس لیے ان جماندروں افسروں کو کھڈے لائن لگا کر ان کی جگہ جونیئر اور ناتجربہ کار افسران سے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے جاتے ہیں اور یہ جونیئر افسران اپنی مراعات کی خاطر حکومت کی منشا کے مطابق فیصلے کر دیتے ہیں جس کے دوررس نتائج ہوتے ہیں اور ہم اب ان ناتجربہ کار فیصلوں کو بد انتظامی کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔
انتظامیہ کا یہ بحران راتوں رات پیدا نہیں ہو گیا بلکہ اس کے لیے ہمارے سیاستدانوں نے بڑی محنت کی اور اپنے مفادات کے لیے من پسند افسران اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں تعینات کراکر ان سے جائز ناجائز کام کراتے رہے یعنی انھوں نے بڑی کوشش کر کے ضلعی سطح تک انتظامیہ کو برباد کیا، عوام کو ان افسروں کے ذریعے دباؤ میں لا کر اپنے ووٹ سیدھے کیے گئے جس کی وجہ سے عوام کا انتظامیہ پر اعتماد مجروح ہو گیا اور ہماری انتظامیہ اپنی غیر معمولی نااہلی اور غفلت پر نادم ہونے کے بجائے عوام کو اس کی سزا دیتی رہتی ہے، اپنے قلم کا استعمال کرتے ہوئے ایسی کارروائیاں کرتی رہتی ہے جس سے عام آدمی کی مشکلات بھری زندگی میں کچھ اور اضافہ ہوجاتا ہے۔
اس ساری صورتحال کی بگاڑ کا ذمے دار ہمارا وہ طبقہ ہے جو کہ با اختیار ہے اس ملک کا مالک ہے اور اس ملک کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں اور وہ اس میں ابھی تک کامیاب جا رہے، ملک کی انتظامیہ ان کے گھر کی باندی بنی ہوئی ہے جس کا نقصان پاکستان کے عوام سہہ رہے ہیں اور نہ جانے کب تک سہتے رہیں گے اور ان کی اس بے پناہ طاقتور طبقے سے کب جان چھوٹے گی۔