کراچی کے یرغمال شہری

سیاسی نمائندگان، حکومت اور انتظامیہ کی خاموشی اور عدم دل چسپی عوام کے دکھوں میں اضافہ کررہی ہے۔

کے الیکٹرک کو گیس سے چلنے والے پاور پلانٹس چلانے کے لیے سوئی سدرن گیس کی جانب سے مطلوبہ مقدارمیں سپلائی نہیں مل رہی، جس کی وجہ سے کراچی کے صارفین کو اضافی لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑ رہا ہے۔ سوئی سدرن گیس کمپنی اور کے الیکٹرک کے مابین اس ڈیڈ لاک کی وجہ سے پاور شارٹ فال 500میگا واٹ تک پہنچ چکا ہے، اس کی ابتدا دس روز پہلے ہوئی تھی، حل کے آثار دکھائی نہیں دیتے اور یہ مسئلہ وہیں کھڑا ہے۔

سوئی سدرن گیس نے ابتدائی طور پر اس بات سے انکار کیا کہ کے الیکٹرک کو گیس کی فراہمی میں کمی کی گئی ہے۔ اس کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ ایس ایس جی سی کو مختلف گیس فیلڈز میں قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے موجودہ صارفین کی ضروریات پوری کرنے کے لیے گیس کی فراہمی نہیں ہوپارہی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایس ایس جی سی اور کے الیکٹرک کے مابین مسائل کی نوعیت مختلف ہے۔

ایس ایس جی سی کا دعوی ہے کہ کے الیکٹرک فراہم کردہ گیس کی ادائیگیاں نہیں کررہی۔ دوسری جانب کے ای نے بلاناغہ گیس کے ماہانہ بلوں کی ادائیگی کے ثبوت پیش کیے، اس میں اصل قابل ادا رقوم پر تنازعہ نہیں، جب کہ سود کی رقم 60ارب بتائی جاتی ہے۔ کمشنر کراچی کو اپنے خط میں ایس ایس جی سی نے کے الیکٹرک کو گیس کی اضافی فراہمی کے لیے تین شرائط رکھی ہیں۔ پہلی شرط یہ ہے تمام بقایاجات ادا کیے جائیں،کے الیکٹرک فراہمی گیس کے معاہدے (GSA) پر دستخط کرے اور تیسری شرط یہ ہے کہ زر ضمانت جمع کروایا جائے۔

کے الیکٹرک کا مؤقف یہ ہے کہ ان پر ایس ایس جی سی کے صرف 13.7ارب واجب الادا ہیں جب کہ باقی رقم پر تنازعہ ہے، 60ارب روپے کے جو بقایا جات بتائے جاتے ہیں ان میں سود اور تاخیر سے ادائیگی کے سرچارج شامل ہیں اور یہ معاملہ عدالتوں میں ہے۔ جب تک کے الیکٹرک کو مطلوبہ مقدار میں فراہمی نہیں کی جاتی، گیس سے چلنے والے اس کے پاؤر پلانٹ بند رہیں گے اور 500میگا واٹ کا شارٹ فال جاری رہے گا۔

اہل کراچی کی بدقسمتی یہ ہے کہ ایس ایس جی سی نے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے شدید گرم موسم کا انتخاب کیا۔ شنگھائی الیکٹرک پاؤر(ایس ای پی) کو کے الیکٹرک کے انتظام کی ممکنہ منتقلی بھی ایک پہلو ہے۔ اس بات پر سوچنا گوارہ نہیں کیا گیا کہ لوڈ شیڈنگ سے شہر کی صنعتی پیداوار پر پڑنے والے اثرات سے اربوں کا نقصان ہوگا، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے روزگاری سے ایس ایس جی سی کو کوئی سروکار نہیں۔ کراچی چیمبر آف کامرس اور بن قاسم ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری(بقاٹی) نے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ ''گیس لوڈ مینجمنٹ پالیسی'' پر نظر ثانی ہونی چاہیے اور گیس کی فراہمی کے لیے نسبتاً کم اہم سیکٹرز کے مقابلے میں زیادہ اہم سیکٹرز، جیسے کہ سی این جی سیکٹر کی نسبت پاؤر سیکٹر کو ترجیحی بنیادوں پر فراہمی ہونی چاہیے۔ آگ برساتے موسم میں لوڈ شیڈنگ کا عذاب جھیلنے والے شہریوں کی داد رسی کے لیے وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گذشتہ ہفتے کے الیکٹرک اور ایس ایس جی سی کے نمایندگان کو طلب کیا اور ان پر واضح کیا کہ دونوں کمپنیوں کے باہمی تنازعے کی سزا شہریوں کو دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

مراد علی شاہ نے یہ بے باک اور خوش آیند اقدام کرتے ہوئے نہ صرف دونوں کمپنیوں کو مسئلے کا فوری حل نکالنے کے لیے الٹی میٹم دیا بلکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے بھی کراچی کے شہریوں اور کاروباری سرگرمیوں کے ریلیف کے لیے اس معاملے میں مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعظم کو دس روز کے اندر اپنے دوسرے خط میں وزیراعلی مراد علی شاہ نے شہر کے عوام کو فوری طورپر لوڈ شیڈنگ سے ریلیف فراہم کرنے پر زور دیا۔

وزیراعلی مراد علی شاہ کے مطابق ''مفاد عامہ'' کی خاطر ایس ایس جی سی کی جانب سے اپنے گیس مینجمنٹ پلان کے ذریعے کے الیکٹرک کو گیس کی اضافی فراہمی کی پیش کش کی گئی، اور اس کے لیے زر ضمانت جمع کروانے، بقایاجات کی ادائیگی اور گیس فراہمی کے معاہدے (جی ایس اے) پر دست خط کرنے کی شرائط رکھی گئیں۔

دوسری جانب کے الیکٹرک نے زرضمانت جمع کروانے کی یقین دہانی کروائی اور باہمی متفقہ شرائط پرگیس کی فراہمی کا معاہدہ کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی۔ اتوار کو ایس ایس جی سی نے بورڈ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا جس میں کے الیکٹرک کو چھے ارب روپے زرضمانت، جو 150ایم ایم سی ایف ڈی کی فراہمی کے اعتبار سے تین ماہ کے اوسط بل کے مساوی ہے، جمع کروانے پر 120ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی فراہمی اور متفقہ شرائط پر آزاد چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ فرم کی تقرری کرنے کے معاہدے کی منظوری دی۔


کے الیکٹرک نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایس ایس جی سی کو سود/تاخیر سے ادائیگی کے سرچارجز کی ادائیگی ایک پیچیدہ معاملہ ہے اور جواباً اس میں اسٹرٹیجک بلک کنزیومرز اور وفاقی حکومت پر (نرخوں میں دی جانے والی سبسڈی کی مد میں ) واجبات کی ادائیگی کو بھی اس میں شامل کردیا۔ یہ غیر معمولی مسئلہ حل کرنے کے لیے وزیر اعلیٰ کے خط میں وفاقی و صوبائی حکومتوں، ایس ایس جی سی اور کے الیکٹرک کے نمایندگان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش بھی کی گئی۔

ایس ایس جی سی نے کے الیکٹرک کو بجلی کی پیداوار کے لیے مطلوب اضافی فراہمی سے واجبات کی بنا پر انکار کرکے ایک ہولناک نظیر قائم کی ہے، جس کے تباہ کُن نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، اسے کسی صورت قبول نہیں کیا جاسکتا۔

واجبات کی وصولی کے لیے سرکاری /نیم سرکاری اداروں کا یہ طرز عمل نہ صرف کئی اثرات کا حامل ہے بلکہ مستقبل میں دونوں اسٹیک ہولڈرز اور وسیع پیمانے پر عوام کو بھی اس سے دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس مثال کو دیکھتے ہوئے پی ایس او 26ارب کے واجبات کی بنا پر پی آئی اے کو یا سوئی ناردرن گیس کو فراہمی روک سکتا ہے، ملک کو ایل این جی کی سب سے بڑی فراہم کنندہ اس کمپنی پر پی ایس او کے کم از کم 28ارب واجب الادا ہیں، یا کے الیکٹرک کو اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ 32ارب روپے کی عدم ادائیگی پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو بجلی کی فراہمی روک دے۔ خود ایس ایس جی سی کو پی پی ایل اور او جی ڈی سی ایل کے 112ارب روپے ادا کرنے ہیں۔

کیا ان کمپنیوں کو بھی ایس ایس جی سی کو فراہمی سے انکار کردینا چاہیے۔ اگر یہ سلسلہ چل نکلا تو ہمارے شہر(اور ملک میں) کہیں گیس ، بجلی اور پانی دستیاب نہیں ہوگا۔ کیا ایس ایس جی سی کراچی کے شہریوں کا تاوان وصول کرنے کی خواہاں ہے؟ گزشتہ دو برسوں میں سندھ اور کراچی میں ہیٹ اسٹروک سے ہونے والی اموات کون فراموش کرسکتا ہے؟

اس موضوع پر سیاسی نمایندگان، حکومت اور انتظامیہ کی خاموشی اور عدم دل چسپی عوام کے دکھوں میں اضافہ کررہی ہے ، عام آدمی معاشی اور دیگر مسائل کے ہاتھوں پہلے ہی تنگ ہے۔کراچی میں صنعتوں کی محدود ہوتی پیداوار کے باعث برآمدات میں کمی اور مقامی مارکیٹ کے بحران جنم لیں گے اور اس سے ملک کی مجموعی اقتصادی صورت حال متاثر ہوگی جب کہ غربت اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔

ہوش کے ناخن لینے چاہییں اور کراچی کو بجلی کی فراہمی بحال ہونی چاہیے۔ عوامی خدمات سے منسلک کمپنیوں کو اخلاقی دائرے میں رہنا چاہیے اور انھیں اپنے ''واجبات'' کی وصولی کے لیے کوئی ایسا اقدام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، جس کے باعث شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔

فی الحال تو ایس ایس جی سی نے اپنے مفادات کے لیے کراچی کے شہریوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کے مسلح گروہ تاوان کے لیے کراچی کو اسی طرح یرغمال رکھ چکے ہے، مسلح گروہوں کے بعد کیا اب یہ کراچی کے شہریوں کو بلیک میل کرنے کا کوئی نیا طریقہ ہے؟ ہمیں 2000 سے 2010کے سیاہ ترین دور میں دھکیلنے کی یہ کوشش کس کے اشارے پر کی جارہی ہے؟ جب تک کوئی بااختیار کمیٹی بلا تاخیر اس تنازعے کو حل کرتی ہے، کچھ اور تو چھوڑیے صرف انسانی بنیادوں ہی پر گیس کی فراہمی بحال ہونی چاہیے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)
Load Next Story