تباہی ہمیشہ اپنے ہاتھوں ہوتی ہے
ہم ہمیشہ تباہی کے بعد ہی کیوں سمجھتے ہیں، تباہی سے پہلے ہمیں سمجھ کیوں نہیں آتی۔
لاہور:
آپ کی تباہی ہمیشہ اپنے ہاتھوں ہوتی ہے نہ کہ دوسروں کے ہاتھوں۔ یہ بات ہمیشہ تباہی کے بعد ہی سمجھ میں آتی ہے۔ تباہی سے پہلے آپ خود کو دنیا کا سب سے بڑا سمجھدار، عقل مند سمجھتے ہیں۔ قدرت بار بار آپ کو اشارے دے رہی ہوتی ہے لیکن آپ ہر بار اس کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں۔
لیڈیا کے بادشاہ قارون جس کے پاس دولت کے خزانوں کے انبار تھے نے اپنے ایک منظور نظر خادم کو دارالتخارہ بھیجا تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ وہ ایرانیوں پر حملہ کرے یا نہ کرے وہاں سے جواب آیا ''اگر وہ ایرانیوں کے خلاف فوج بھیجے گا تو پھر تو وہ ایک عظیم سلطنت تباہ کردے گا'' لہذا شہ پاکر اس نے حملہ کردیا دوران جنگ اسے معلوم ہوا کہ غیبی آواز نے بالکل درست کہا تھا جو سلطنت تباہ ہوئی وہ اسی ہی کی سلطنت تھی۔ عام طور پر احساس برتری اپنے تباہی کے بیج اپنے ساتھ لیے پھرتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ہمیشہ تباہی کے بعد ہی کیوں سمجھتے ہیں، تباہی سے پہلے ہمیں سمجھ کیوں نہیں آتی یا یہ کہ ہم تباہی سے پہلے سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں یا پھر یہ کہ انسان کو خواہشات کا قیدی بنا یا گیا ہے ہم میں سے کچھ لوگ کافی جدوجہد کے بعد اس قید سے رہائی پا لیتے ہیں اور ہر دکھ سے آزاد ہو جاتے ہیں، باقی اپنی قید کے عذاب میں سے تسکین پاتے رہتے ہیں آپ اور کچھ نہ کریں صرف اپنے ملک کے بعض اہم کرداروں کی زندگی کا جائزہ لے لیں تو آپ برملا یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ خدا نے انھیں ہر چیز سے نوازا ہے، ہر نعمت سے مالا مال کر رکھا ہے پھر یہ آخر کیوں مزید ''اور'' کے لیے مارے مارے پھررہے ہیں کیوں اپنا سر پھوڑنے پر بضد ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ خدا کی دی گئی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے خود بھی چین اور سکون سے زندگی گذارتے اور دوسروں کو بھی چین اور سکون سے رہنے میں مدد دیتے ۔آخر وہ اتنی دولت کے انباروں کا کیا کریں گے۔ اتنی زمینوں، ملوں ،گھروں کا آخر کریں گے کیا ۔ یہ چھوٹی سی زندگی آخر ان کا کتنا ساتھ دے گی کیا انھیں خدا اور اس کے انصاف پر یقین نہیں ہے کیا یہ سب روز حساب سے مبرا ہوگئے ہیں۔
یہ سب ان دولت کے انباروں ، محلوں ، زمینوں ، جاگیروں سے آخر کونسا انوکھا سکھ ، چین اور خوشی پا رہے ہیں جو دوسرے انسان نہیں پا رہے ہیں کیا یہ سب عام انسانوں کی طرح چھ فٹ کے بستر پر نہیں ہوتے ہیں یا پھر یہ ہزاروں گز کے بستر پر سوتے ہیں کیا یہ دیگر انسانوں کی طرح کھانا کھاتے ہیں یا پھر جنوں کی طرح کھاتے ہیں کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ نوٹ کھارہے ہوں کیونکہ نوٹوں کو جمع کرنے کی ان کی ہوس ختم ہی نہیں ہو پارہی ہے اب تو اس بات پر یقین ہوتا جا رہا ہے کہ یہ سب کے سب مختلف ذہنی بیماریوں میں گرفتار ہیںاور اس گرفتار ی سے انھیں رہائی ہی نہیں مل پا رہی ہے۔
عظیم یونانی فلسفی پائر ہو نے کہا تھا ''دانا شخص خواہشات سے آزاد ہونے کے بعد دکھ سے آزاد ہو جاتا ہے وہ جان لیتا ہے کہ لوگ اپنی خواہش کے لیے باہم لڑتے اور جدوجہد کے باوجود خواہ مخواہ کچھ چیزوں کو دوسری چیزوں سے بہتر تصورکر لیتے ہیں۔ اس قسم کی جدوجہد اورکوشش بے مقصد اور لا حاصل ہے کیونکہ تمام چیزیں ایک جیسی بے تعلق اور غیر اہم ہیں''۔
خواہشات کے غلام اصل میں خود اذیتی کے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں وہ خود کو اذیت پہ اذیت دیے جاتے ہیں یہ بالکل اپنے زخموں کو کرید کر لذت حاصل کرنے کی مانند ہے، یہ جتنی لذت حاصل کرتے جاتے ہیں زخم اتنے گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں اور پھر وہ ناسور بن جاتے ہیں لیکن کیا کیا جائے وہ اپنے ناسوروں سے ہی لذت پاتے رہتے ہیں۔
چین میں کہاوت مشہور ہے کہ دولت تین نسلوں سے آگے نہیں بڑھتی ہے۔ اس لیے یہ کچھ بھی کرلیں اس جمع دولت کو آخرکار لٹ ہی جانا ہے اور ان کے نصیب میں صرف ایک اجڑی ہوئی برباد قبر ہی آتی ہے جہاں کسی نے ان کے لیے فاتحہ تک پڑھنے نہیں آنا ہے اور یہ سب حساب دیتے دیتے تھک جائیں گے لیکن حساب پھر بھی ختم نہیں ہوں گے اور نئے عذابوں کا ایک ایسا نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا جو کبھی بھی ختم نہیں ہوپائے گا۔
یہ جتنا چیخیں گے چلائیں گے وہ سلسلہ ا تنا طویل ہوتا جائے گا یہ طے ہے کہ یہ وہاں اکیلے عذاب نہیں جھیل رہے ہونگے وہاں ان کے ساتھ ساتھ ان کے ہمسفر ایتھوپیا، سوڈان، افغانستان، نائیجریا، لاطینی امریکا، لیبیا، عراق، شام ، مصر کے ان ہی جیسے کردار کے لوگ بھی نہ ختم ہونے والے عذابوں میں ان کے ساتھ چل رہے ہوں گے اور چلیں بھی کیوں نہیں ۔انھوں نے دنیا میں اپنے ہی جیسے انسانوں کی زندگی عذاب بنا کے رکھی ہوئی تھیں۔
یہ اپنے آپ کو خدا سمجھے بیٹھے تھے ان کے غرور، ان کی شان و شوکت، ان کی طرم خانی ان کے جاہ و جلال نے بڑے بڑے بادشاہوں کے قبروں کا چین و سکون لوٹ لیا تھا انھیں کسی کروٹ آرام نصیب نہیں ہوتا تھا ۔
اگاتھون نے کہا تھا '' صرف ایک چیز دیوتاؤں کے بس میں نہیں ہے ماضی کو منسوخ کرنا '' لہذا کوئی بھی انسان اپنے ماضی کو منسوخ نہیں کرسکتا ہے نہ اس کو بدل سکتا ہے نہ ہی اس میں ترمیم کرسکتا ہے، لیکن جو وقت ابھی تک آیا نہیں ہے، اسے ضرور تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ ہم اپنے آج کو تبدیل نہ کر لیں۔