تعلیم کا نوحہ

اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ہم دنیا کے نت نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لائق نہیں ہیں۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اگر کوئی قوم یا ملک دنیا میں کوئی اعلیٰ مقام حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہے تو اس کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیمی درسگاہیں قائم کر لے۔ بہترین تعلیمی سہولتوں کی فراہمی اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بہتری لائے بغیرکسی ملک کی ترقی ممکن نہیں ہے۔

وطن عزیز کے تمام شعبہ حیات پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو ان کے درمیان تعلیم سینڈوچ کی مانند دبی اور سہمی نظر آتی ہے۔ اس لیے کہ کرپشن کے گدھ قومی دولت کو بری طرح نوچ رہے ہیں۔ اربوں روپے کے منصوبے محض سہل پسندی اور عدم توجہی کے سبب کھربوں روپوں کی لاگت طلب کر رہے ہیں۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ اگر ان منصوبوں کی اضافی رقم کا کچھ حصہ مزید تعلیمی بجٹ کے لیے مختص کردیا جاتا، لیکن بدقسمتی سے ہر برسر اقتدار حکومت، سابقہ حکومت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دل فریب تعلیمی وعدے تو کرتی رہی مگر عمل درآمد ایک پر بھی نہیں ہوا ۔

تعلیم کی ضرورت و افادیت ہر دور میں مسلمہ رہی ہے ۔ وقت کے بدلے تقاضوں کے باعث اعلیٰ تعلیم کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں آج بھی تعلیم حاصل کرنے کا واحد مقصد نوکری کا حصول رہا ہے۔ اس لیے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ہم دنیا کے نت نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ جس جوش اور جذبے کے ساتھ ہمارے نوجوان محنت کر رہے ہیں، ہم انھیں اس کے مطابق وسائل اور مواقعے فراہم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔

اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود نوجوان خود روزگاری کے طریقے اپنانے کے بجائے نوکری کے حصول ہی کو کامیابی سمجھتے ہیں۔ ملک میں گرتے ہوئے تعلیمی معیار کی وجہ سے ہمارے نوجوانوں کی سوچ محض نوکری کے حصول تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ وطن عزیز کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ دنیا کی 500 بہترین جامعات میں پاکستان کی صرف ایک یونیورسٹی شامل ہے۔ حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود ہم اپنی نوجوان نسل کو بین الاقوامی معیارکی تعلیم فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔

اس وقت پاکستان میں پرائمری سطح سے لے کر ہائر سیکنڈری تک سرکاری اسکولوں کی تعداد 153941 ہے جب کہ ان اسکولوں میں زیر تعلیم لڑکیوں کی تعداد 53822 اور لڑکوں کی تعداد 98638 ہے۔ خواتین اساتذہ کی تعداد 283852 اور مرد اساتذہ کی 406422 ہے اور اگر یہاں زیر تعلیم طلبا کی تعلیمی قابلیت کی بات کی جائے تو ان میں سے 47 فیصد اردو کی کوئی کہانی نہیں پڑھ سکتے اور 51 فیصد انگریزی کا ایک صحیح جملہ تک نہیں پڑھ پاتے اور 53 فیصد ریاضی میں دو عدد نمبرز کی تقسیم نہیں کرسکتے۔

اس بات میں بھی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاکستان کی تمام یونیورسٹیز کی سنڈیکٹ اپنی آزادانہ فیصلہ کن حیثیت کھو چکی ہیں، کیونکہ ان کے ارکان میں سرکاری نمایندے شامل کیے جا رہے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی بھی جس کے تحت ہر نجی یونیورسٹی کا الحاق اور ماتحتی لازم ہے بالکل آزادانہ اور غیر محتاط طریقوں سے کام کر رہی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایم بی اے، بی بی اے اور پی ایچ ڈی تک کی اسناد تقسیم کی جا رہی ہیں اور کالجز کی سطح پر پاکستان بھر کی تعلیم روبہ زوال ہے۔

یو این رپورٹ کے مطابق پاکستان پرائمری تعلیم میں دیگر ممالک سے 50 سے زائد برس پیچھے ہے جب کہ سیکنڈری تعلیم کے حصول کے ہدف میں مزید 60 برس سے زائد کا عرصہ درکار ہے۔ جب ستون کمزور ہوجائیں تو عمارت گر جاتی ہے، کم و بیش یہ صورتحال ہمارے ملک میں شعبہ تعلیم کو درپیش ہے۔

یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ بڑھتے ہوئے اخراجات اور مہنگائی کے سبب آج کے اساتذہ کی بڑی تعداد اپنے فرائض کی بجا آوری میں غیر مخلص نظر آتی ہے، تو طلبا کی بہت بڑی تعداد اپنی پڑھائی میں غیر سنجیدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں شعبہ تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے، آج کا معلم اور شاگرد ذاتی مسائل میں اس قدر الجھ کر رہ گیا ہے کہ وہ اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی کا مرتکب ہو رہا ہے۔


تعلیم سے عدم دلچسپی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت نے اب تک ملک بھر میں یکساں تعلیمی پالیسی نہیں بنائی اور نہ ہی سرکاری اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کا معیار بہتر بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ امتحانات میں برسہا برس سے امتحانی پرچہ چند اہم اور مخصوص سوالات پر ہی مشتمل چلا آرہا ہے۔

اسی وجہ سے امیدوار نصاب میں تجویز کی گئی کتابوں کو دیکھنے اور پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور پورے سال نصابی کتب کا مطالعہ کرنے کے بجائے گیس پیپرز یا حل شدہ پرچہ جات پر انحصار کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایسے طلبا و طالبات امتحان میں کامیابی تو حاصل کرلیتے ہیں لیکن ان میں قابلیت مفقود ہوتی ہے۔

تعلیم کے حوالے سے ملکی سطح پر جس مجرمانہ غفلت، بے حسی اور بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے وہ بہت اندوہناک بھی ہوسکتا ہے ۔ دنیا بھر میں غذا، دوا اور تعلیم کے معاملے میں بے ایمانی اور ملاوٹ کا تصور تک نہیں کیا جاسکتا اور ایک ہم ہیں کہ ناقص غذا، جعلی ادویات اور غیر معیاری پست تعلیم کے ضمن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ پاکستان ایٹمی قوت کا حامل ایک طاقتور ملک ضرور ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے یہاں تعلیم مکمل طور پر بزنس انڈسٹری کا روپ دھار چکی ہے۔

چھوٹے بچوں کا کورس ان کے وزن کے برابرکردیا گیا ہے لیکن اس کی معصومیت اور مقصدیت ناپید ہوچکی ہے۔ علم کا فروغ قوموں کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ صحیح علم محض مادی ترقی کا ذریعہ نہیں بلکہ معاشرے میں تہذیب و شائستگی اور تحمل و رواداری کی ترویج کا سبب بھی بنتا ہے۔ جہالت سے محض غربت کا مسئلہ جنم نہیں لیتا بلکہ انتہا پسندی اور تشدد کے پھیلنے کے راستے بھی ہموار ہوتے ہیں۔

تعلیم ہی شدت پسندی کا توڑ اور بیشتر سماجی و معاشی بیماریوں کا علاج ہے۔ پاکستان پہلے ہی توانائی کے بحران، معاشی زبوں حالی، صنعتوں کے بگڑے ہوئے حالات، زرعی میدان میں پیدا ہونے والے سنگین مسائل، مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن سمیت پسماندگی کی پہلے سے کئی علامات رکھتا ہے ایسے میں یہاں برسہا برس سے شعبہ تعلیم کی تنزلی ملک کو حد درجہ پستی میں گرانے کا سبب بن سکتی ہے۔

دنیا بھر کی معاشی و دفاعی بلکہ سماجی طور پر کامیاب ترین ممالک کی کامرانیوں کی جڑیں تلاش کریں تو وہ ہمیں جدید تعلیم ہی میں ملیں گی۔ جدید تعلیم کے بغیر کسی بھی نوع کی ترقی کا تصور محال ہے۔ قائد اعظم کی ترجیحات میں اولین تعلیم کو ہی حاصل تھی جب کہ معاشی انقلاب اور دفاع کی مضبوطی اس کے بعد بانی پاکستان کو احساس تھا کہ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جو قومیں تعلیم کو اولیت دیتی ہیں وہ بالآخر معاشی ترقی کی طرف گامزن ہوکر اپنے دفاع کو بھی ناقابل تسخیر بنا دیا کرتی ہیں۔

لیکن جب سے ہمارے ہاں حصول تعلیم کمرشل ہوئی ہے یہ ایک منافع بخش کاروبار میں بدل کر رہ گئی ہے اب نہ کوئی فلسفہ پڑھتا ہے نہ تاریخ، نہ سیاست ڈھنگ سے پڑھائی جاتی ہے نہ اقتصادیات بس تعلیم لے دے کر کاروبار کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ مستقبل کے معمار بچوں کو کہا جاتا ہے اور ہمارے ہاں تین کروڑ کے لگ بھگ بچے اسکول نہیں جاتے۔

کون نہیں جانتا کہ ہم نسل نو کو تعلیم کی دولت فراہم کرکے ہی ملک اور قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ ملک کے تعلیمی اداروں خصوصاً سرکاری اداروں کا جو حال ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم پر ایک تعلیمی انقلاب قرض ہے اس لیے ضروری ہے کہ تعلیمی شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں، ملک کی درسگاہوں میں تمام سہولتیں، نصابی کتب کی بروقت فراہمی، اساتذہ کی بھرتی سے پھلے ان کی تعلیمی قابلیت اور تجربے پر خصوصی توجہ اور جو فنڈ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے خرچ کیے جا رہے ہیں ان کے صحیح استعمال پر خاص طور پر نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔

تعلیمی اصلاحات میں ایسا نصاب ہماری ضرورت ہے جو ہمیں ایک متحد و مربوط قوم بنائے اور نسلی، لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ ورانہ تعصبات اور تشدد و انتہا پسندی سے نجات دلائے۔
Load Next Story