مسلم لیگ ن اور جنوبی پنجاب
ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں جنوبی پنجاب علیحدہ صوبے کی بات نہیں ہے۔
پانامہ کیس سے پہلے دیکھا جائے تو یہ نظر آتا تھا کہ 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ پہلے سے زیادہ نشستیں حاصل کرے گی۔ یہ صورتحال دیگر سیاسی جماعتوں اور بالادست قوتوں کے لیے خوش آئند نہ تھی۔
پاکستان کے اندر ان مخصوص حالات میں کچھ چیزیںتو آئین اور قانون کے تحت کی جاتی ہیں جب کہ اس ملک کے اندر بہت سے معاملات غیر تحریر شدہ قوانین کے تحت طے پاتے ہیں۔ 90 کی دہائی سے لے کر آج تک کے انتخابات کو دیکھیں تو ان انتخابات کے اندر بالواسطہ یا بلا واسطہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دخل اندازی کی گئی۔ اصغر خان کیس کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
اس کیس میں واضح طور پر سامنے آیا کہ آئی جے آئی بنانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے کس کس سیاستدان کو نوٹ دیے۔ آئی جے آئی اتحاد90 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ہٹانے کے لیے بنایا گیا۔ بہر حال پاناما کیس کے بعد ن لیگ پر کڑا وقت آیا ۔ ن لیگ کا گراف مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کے بنچ نے نواز شریف کو نا اہل کر دیا۔ جس کے بعد آئین میں نا اہل شخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔
مسلم لیگ ن نے پہلے سینیٹ اور پھر قومی اسمبلی سے بل پاس کروا کر نواز شریف کو جماعت کا دوبارہ صدر بنادیا۔ اس آئینی ترمیم پر تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں سپریم کورٹ پہنچی۔ تو سپریم کورٹ نے22 فروری 2018 کو اس آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے کر نواز شریف کو پارٹی عہدے سے ہٹا دیا۔حال ہی میں اب تو میاں صاحب کو سپریم کورٹ نے سیاست کے لیے تاحیات نااہل قرار دے دیا ہے ۔
اسی طرح پچھلے کچھ عرصے سے پنجاب حکومت کے خلاف نیب حرکت میں آئی ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے قریبی بیوروکریٹس پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اس دوران بہت سے لیگی ممبران نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور قائد گھرانے کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ پاناما فیصلے کے بعد یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی تھیں کہ میاں صاحب کی نا اہلی کے بعد بہت سے اراکین اسمبلی پارٹی کو چھوڑ جائیں گے۔ ایسا نہ ہو سکا۔ پھر وقت گزرتا گیا اعلیٰ عدلیہ میں کیسز میں اضافہ ہوا اور حکمران جماعت کی قیادت اور وزراء کی پیشیاں بڑھتی گئیں۔
ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں جنوبی پنجاب علیحدہ صوبے کی بات نہیں ہے۔ اس لیے اس محاذ کے علیحدہ بلاک بنانے کی منطق بھی سمجھ میں آتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان اراکین کا تعلق جنوبی پنجاب کے با اثر خاندانوں سے ہے۔ وہ کسی جماعت سے الحاق کیے بغیر بھی اپنا وجود باقی رکھ سکتے ہیں۔آنے والے الیکشن کے اندر محسوس کیاجاسکتاہے بالادست قوتوں اوربڑی سیاسی جماعتوں کی کوشش قومی اسمبلی کے اندر ن لیگ کو اکثریت نہ حاصل کرنے دینے کی جانب ہو گی۔
اس کاایک ٹریلر توگزشتہ سینیٹ کے انتخابات میں سب دیکھ ہی چکے ہیں۔ایسی صورتحال کے اندرصوبائی اسمبلی کی بجائے قومی اسمبلی کے اندر جنوبی پنجاب کے آزاد امیدواران کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی ۔جب کہ دوسری طرف صوبائی اسمبلی کے اندر ن لیگ سے اکثریت چھیننا نہایٹ کٹھن عمل ہے ۔
ایسی صورتحال کے اندر نیشنل اسمبلی کے اراکین کا پارٹی کو چھوڑ کر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کے پیچھے صاف منطق دکھائی دیتی ہے اوریہ بات بھی قا بل غور ہے کہ حالیہ کچھ عرصے سے یہ بھی سامنے آرہاہے کہ پاکستان کے کچھ مقتدر حلقے اٹھارویں ترمیم سے کچھ زیادہ خوش نہیں ۔اسی طرح اٹھارویں ترمیم کوختم کرنے اورردوبدل کرنے بارے بھی آصف زرداری صاحب نے کچھ سیاسی اشارے دے دیے ہیں۔
ایسی صورتحال کے اندر مستقبل کے اندر اگر دوبارہ سے کنکرنٹ لسٹ بحال کردی جاتی ہے اورصوبوں کی خودمختاری کو پھر پرانے لیول پر لے جایاجاتاہے۔قومی اسمبلی اوروفاقی وزراء کی طاقت اوراہمیت دونوںبہت زیادہ بڑھ جائیں گی۔ساتھ ہی نیشنل لیول کے اوپر ہنگ پارلیمینٹ تشکیل دی جاتی ہے تو پھر جنوبی پنجاب کے قومی اسمبلی کے آزاد اراکین کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی ۔شاید اسی لیے جنوبی پنجاب کا سیاسی فرنٹ تشکیل پایاہے ۔
پاکستان کے اندر ان مخصوص حالات میں کچھ چیزیںتو آئین اور قانون کے تحت کی جاتی ہیں جب کہ اس ملک کے اندر بہت سے معاملات غیر تحریر شدہ قوانین کے تحت طے پاتے ہیں۔ 90 کی دہائی سے لے کر آج تک کے انتخابات کو دیکھیں تو ان انتخابات کے اندر بالواسطہ یا بلا واسطہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دخل اندازی کی گئی۔ اصغر خان کیس کی مثال آپ کے سامنے ہے۔
اس کیس میں واضح طور پر سامنے آیا کہ آئی جے آئی بنانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے کس کس سیاستدان کو نوٹ دیے۔ آئی جے آئی اتحاد90 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ہٹانے کے لیے بنایا گیا۔ بہر حال پاناما کیس کے بعد ن لیگ پر کڑا وقت آیا ۔ ن لیگ کا گراف مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کے بنچ نے نواز شریف کو نا اہل کر دیا۔ جس کے بعد آئین میں نا اہل شخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔
مسلم لیگ ن نے پہلے سینیٹ اور پھر قومی اسمبلی سے بل پاس کروا کر نواز شریف کو جماعت کا دوبارہ صدر بنادیا۔ اس آئینی ترمیم پر تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں سپریم کورٹ پہنچی۔ تو سپریم کورٹ نے22 فروری 2018 کو اس آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دے کر نواز شریف کو پارٹی عہدے سے ہٹا دیا۔حال ہی میں اب تو میاں صاحب کو سپریم کورٹ نے سیاست کے لیے تاحیات نااہل قرار دے دیا ہے ۔
اسی طرح پچھلے کچھ عرصے سے پنجاب حکومت کے خلاف نیب حرکت میں آئی ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے قریبی بیوروکریٹس پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اس دوران بہت سے لیگی ممبران نے استقامت کا مظاہرہ کیا اور قائد گھرانے کو چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ پاناما فیصلے کے بعد یہ چہ مگوئیاں کی جا رہی تھیں کہ میاں صاحب کی نا اہلی کے بعد بہت سے اراکین اسمبلی پارٹی کو چھوڑ جائیں گے۔ ایسا نہ ہو سکا۔ پھر وقت گزرتا گیا اعلیٰ عدلیہ میں کیسز میں اضافہ ہوا اور حکمران جماعت کی قیادت اور وزراء کی پیشیاں بڑھتی گئیں۔
ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں جنوبی پنجاب علیحدہ صوبے کی بات نہیں ہے۔ اس لیے اس محاذ کے علیحدہ بلاک بنانے کی منطق بھی سمجھ میں آتی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان اراکین کا تعلق جنوبی پنجاب کے با اثر خاندانوں سے ہے۔ وہ کسی جماعت سے الحاق کیے بغیر بھی اپنا وجود باقی رکھ سکتے ہیں۔آنے والے الیکشن کے اندر محسوس کیاجاسکتاہے بالادست قوتوں اوربڑی سیاسی جماعتوں کی کوشش قومی اسمبلی کے اندر ن لیگ کو اکثریت نہ حاصل کرنے دینے کی جانب ہو گی۔
اس کاایک ٹریلر توگزشتہ سینیٹ کے انتخابات میں سب دیکھ ہی چکے ہیں۔ایسی صورتحال کے اندرصوبائی اسمبلی کی بجائے قومی اسمبلی کے اندر جنوبی پنجاب کے آزاد امیدواران کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی ۔جب کہ دوسری طرف صوبائی اسمبلی کے اندر ن لیگ سے اکثریت چھیننا نہایٹ کٹھن عمل ہے ۔
ایسی صورتحال کے اندر نیشنل اسمبلی کے اراکین کا پارٹی کو چھوڑ کر آزاد حیثیت سے الیکشن لڑنے کے پیچھے صاف منطق دکھائی دیتی ہے اوریہ بات بھی قا بل غور ہے کہ حالیہ کچھ عرصے سے یہ بھی سامنے آرہاہے کہ پاکستان کے کچھ مقتدر حلقے اٹھارویں ترمیم سے کچھ زیادہ خوش نہیں ۔اسی طرح اٹھارویں ترمیم کوختم کرنے اورردوبدل کرنے بارے بھی آصف زرداری صاحب نے کچھ سیاسی اشارے دے دیے ہیں۔
ایسی صورتحال کے اندر مستقبل کے اندر اگر دوبارہ سے کنکرنٹ لسٹ بحال کردی جاتی ہے اورصوبوں کی خودمختاری کو پھر پرانے لیول پر لے جایاجاتاہے۔قومی اسمبلی اوروفاقی وزراء کی طاقت اوراہمیت دونوںبہت زیادہ بڑھ جائیں گی۔ساتھ ہی نیشنل لیول کے اوپر ہنگ پارلیمینٹ تشکیل دی جاتی ہے تو پھر جنوبی پنجاب کے قومی اسمبلی کے آزاد اراکین کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جائے گی ۔شاید اسی لیے جنوبی پنجاب کا سیاسی فرنٹ تشکیل پایاہے ۔