کروڑوں روپے کی 5 ڈکیتیاں رقم دہشتگردی میں استعمال ہونے کا خدشہ
منظم گروہ نے4ماہ کے دوران بینک لاکرز، 2 منی ایکس چینج، کیش وین سمیت 5 ڈکیتیاں کیں،گروہ پولیس کے لیے چھلاوا بن گیا
شہر قائد میں 4 ماہ کے دوران 5 بڑی ڈکیتیاں کرکے کروڑوں روپے لوٹنے والے ڈکیت گروہ کو پولیس گرفتار نہیں کرسکی جب کہ ڈکیتوں کی جانب سے لوٹی گئی رقم دہشت گردی کی سرگرمیوں میں استعمال ہونے کا خدشہ ہے۔
شہر میں رواں سال کے 4 ماہ کے دوران سرکاری بینک کے لاکرز ، 2 منی ایکسچینج ادارے ، این ایل سی اور نجی کیش لے جانے والی گاڑیوں سمیت 5 ڈکیتی کے واقعات میں کروڑوں روپے لوٹنے والے منظم ڈکیت گروہ کا کراچی پولیس تاحال کوئی سراغ نہ لگاسکی ،تربیت یافتہ ڈکیتوں نے وارداتوں کے دوران فوجی جوان سمیت2 گارڈز قتل کردیے ،ڈکیت گروہ نے سرکاری بینک کے27 لاکرز توڑ کر کروڑوں روپے کے زیورات اور نقدی لوٹ لی۔
شہر میں لوٹ مار کی بڑی وارداتوں میں ملوث گروہ کی نشاندہی نہ ہونے کے باعث خدشہ ہے کہ یہ رقم دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کیلیے استعمال کی جاتی ہے ،اس سلسلے میں شہر قائد میں ہونے والی ان وارداتوں کی تحقیقات کرنے والے تفتیشی افسران اور اعلیٰ پولیس افسران نے رابطوں پر اپنے اپنے مقدمات کے بارے میں تفصیل بتائی۔
رضویہ تھانے کے تفتیشی شعبے کے انچارج انسپکٹر حسن حیدر نے بتایا کہ 8 جنوری کو نیشنل بینک میں تعینات سیکیورٹی گارڈ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 27 لاکرز توڑ کر اس میں موجود پونے 6 کروڑ سے زاید مالیت کے طلائی زیورات، نقدی اور قیمتی سامان لوٹ کر فرار ہوگیا تھا جس کی تلاش میں چھاپے مارے جارہے ہیں تاحال ڈکیت گارڈ گرفتار نہیں ہو سکا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پولیس کو بینک کے عملے پر شک تھا جنھیں حراست میں لے کر پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا گیا جبکہ مرکزی ڈکیت سیکورٹی گارڈ کے متعلق اطلاعات پر خیبر پختونخواہ میں بھی چھاپے مارے گئے جو بے سود رہے۔
فیروز آباد تھانے کے انویسٹی گیشن افسر انسپکٹر جاوید شیخ نے بتایا کہ 17فروری کو نجی منی ایکسچینج کمپنی سے ڈکیت 38 ہزار ڈالر یعنی پاکستانی 42 لاکھ سے زائد کی رقم لوٹ کر فرار ہوگئے تھے اس مقدمے میں پولیس تاحال گروہ کا تعین نہیں کرسکی ہے پولیس کی تفتیش جاری ہے۔
22مارچ کو بوٹ بیسن تھانے کی حدود میں ڈاکوؤں نے این ایل سی کی کیش وین لوٹنے کی کوشش کی این ایل سی کے گارڈ راویز خان نے مزاحمت کی تو ملزمان نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں روایزخان جاں بحق اور ڈائیور سمیت 2 افراد زخمی ہوگئے تاہم ملزمان واردات کرنے میں ناکام رہے۔
بوٹ بیسن تھانے کے تفتیشی افسر انسپکٹر امتیاز نے مذکورہ ڈکیتی کی واردات میں ملوث ڈاکوؤں کی گرفتاری سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے بتایاکہ پولیس کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مختلف پہلوؤں سے بھی تفتیش کررہی ہے لیکن اب تک کی جانے والی تفتیش میں پولیس ڈکیت گروہ کا تعین کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اس کے 5 دن بعد27 مارچ کو شاہراہ فیصل تھانے کی حدود گلستان جوہر میں مسلح ڈاکوؤں نے نجی منی ایکسچینج سے 27 لاکھ روپے لوٹے اور فرار ہوگئے ڈاکوؤں نے مزاحمت کرنے پر منیجر کو گولی مار کر زخمی کردیا تھا اس کیس میں بھی پولیس کی کارگردگی رپورٹ زیرو نظر آئی۔
اس واقعے کے13دن بعد 9 اپریل کو ایف بی صعنتی ایریا تھانے کی حدود راشد منہاس روڈ پر نامعلوم مسلح ملزمان نے نجی منی ایکسچینج کی کیش وین لوٹنے کی کوشش اس واردات میں بھی مزاحمت پر ڈاکوؤں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے نجی کمپنی کے سیکورٹی گارڈ خالد کو قتل کردیا اور نقدی لوٹے بغیر فرار ہوگئے۔
ایس ایچ او ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ نجی کمپنیوں میں جو سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے ان کیمروں کی ریکارڈنگ سے ملزمان کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے،جائے وقوع کے قریب سرکاری نصب کیا جانا والا سی سی ٹی وی کیمرا خراب تھا۔
نمائندہ ایکسپریس نے جب بوٹ بیسن کے تفتیشی افسر امتیاز سے سوال کیا کہ ایف بی ایریا میں اس طرح کی ایک واردات ہوئی تھی اس کیس کے تفتیشی افسر یا متعلقہ ادارے سے کوئی رابطہ کیا تو ان کا جواب تھا کہ واردات تو ابھی ہوئی ہے تفتیش کے لیے پولیس کو بہت وقت درکار ہے۔
واضح رہے کہ کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ، اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ، کرائم برانچ اور کئی اداروں میں تعینات اعلیٰ پولیس افسران اور ان کے ماتحت عملہ کروڑوں روپے فنڈز کی مد میں حاصل کرنے کے باوجود ان کی کاگردگی گزشتہ کئی سال کی طرح تاحال زیرو ہے۔
سیکیورٹی اداروں کے چند افسران سے رابطہ کیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایاکہ سندھ پولیس سرکاری کاغذوں کا پیٹ بھرنے میں مصروف ہے کراچی پولیس کا یہ حال ہے کہ وہ صرف کاغذوں میں ہی تفتیش کرتی ہے لیکن ان کی تفتیش میں زمینی حقائق نہیں ہوتے انھوں نے بتایا کہ شہر میں لوٹ مار کی مذکورہ بڑی وارداتوں میں ملوث گروہ کی نشاندہی نہ ہونے کے باعث خدشہ ہے کہ یہ رقم دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس کا سراغ لگانا انتہائی ضروری ہے۔
شہری میں ڈاکو راج: روزانہ 100 سے زائد شہری لٹنے لگے
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور کراچی پولیس چیف مشتاق مہر شہر قائد میں اسٹریٹ کرائم ، ہائی ویز ،مسافروں، بسوں اور گھروں میںڈکیتیوں کی وارداتوں کی روک تھام کی موثر حکمت عملی بنانے میں تاحال ناکام ہوگئے۔
پولیس ، سی پی ایل سی ، اے سی ایل سی اور متعلقہ اداروں سے ملنے والی معلومات کے مطابق شہر کے مختلف مقامات پر روز کی بنیاد پر100سے زائد شہری مسلح ملزمان کے ہاتھوں نقدی ، موبائل فونز، طلائی زیورات ، گاڑیوںاور دیگر قیمتی اشیاء سے محروم ہوتے ہیں لیکن پولیس صرف چند ہی واقعات کے مقدمات درج کرتی ہے،ڈیڑھ ماہ میں 3 سرکاری گاڑیاں چھین لی گئیں۔
نمائندہ ایکسپریس کی جانب سے کراچی پولیس کے مختلف تھانوں کے ایس ایچ اوز ، ہیڈ محرران اور شاہراہوں پر ڈیوٹی انجام دینے والے افسران و اہلکار ،سی پی ایل سی ،اینٹی کارلفٹنگ سیل اور متعلقہ اداروں سے حاصل کی جانیوالی معلومات کے مطابق کراچی پولیس میں سب سے بڑا المیہ کم نفری ہے اور دوسرا وسائل نہ ہونے کے برابر ہے جس کے باعث شہر میں لوٹ مار کی وارداتیں عام ہوچکی ہے جس کی روک تھام کے لئے اعلی افسران کو موثر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
مذکورہ اداروں سے حاصل کی جانے والی معلومات کے مطابق لوٹ مار کرنے والے گروہ کے مسلح کارندے سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے پر مال برادرز گاڑیوں اورکراچی سے سندھ جانیوالی مسافر بسوں کو یرغمال بنا کر لوٹ کرتے ہے لیکن پولیس ان واقعات سے پراسرار طورپر لاعلم رہتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر قائد میں لوٹ مار کرنے والے افراد اب باآسانی بغیر کسی خوف کے گلیوں ، مین شاہراہوں اور مسافر بسوں میں چڑھ کر شہریوں کو اسلحے کے ذور پر نقدی ، موبائل فونز اور دیگر قیمتی سامان سے محروم کرکے فرار ہوجاتے ہے جبکہ علاقہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ہی طرح شہر میں گھروں ڈکیتیاں بھی عام ہوچکی ہے روز کی بنیاد پر کلفٹن ، ڈیفنس ، بہادرآباد، گلشن اقبال ، نارتھ ناظم آباد ، فیڈرل بی ایریا ، گارڈن ، سرجانی ٹاؤن ، سچل ، گلشن معمار سمیت دیگر علاقوں میں ہاؤس رابری کی 20 سے 25سے وارداتیں عام ہے جبکہ اسکے علاوہ شہر کے مختلف مارکیٹوں میں دکانوں پر نقیب زنی وارداتیں بھی روز کی بنیاد پر جاری ہے ۔
گھروں میں زیادہ تر ڈکیتیوں میں کام کرنے والی ماسیا ، چوکیدار و دیگر عملہ ملوث ہوتا ہے ،دوسری جانب کارلفٹرز نے بھی شہریوں کا خون چوسنے میں پیچھے نہیں رہے وہ بھی شہر کے مختلف علاقوں میں روز کی بنیاد پر شہریوں سے اسلحے کے ذور پر 10سے 15گاڑیاں چھین اور متعدد چوری کرلیتے ہے جبکہ اس کے علاوہ سرکاری گاڑیاں چھینے اور چوری کے واقعات میں بھی کمی نہیں آسکی ڈیڑھ ماہ کے دوران تین سرکاری گاڑی چھینی گئی پولیس کی جانب سے تلاش کی گئی جب جاکر صرف ایک سرکاری گاڑی لاوارث حالت میں تلاش کرپائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی جی سندھ اورایڈیشنل کراچی نے مددگار 15کی ایک موبائل اور اسکی نفری ہر تھانے میں زم کی تھی اسلئے کہ مدد گار 15پولیس کے محافظ شاید اسٹریٹ کرائمز پر قابو پاسکے لیکن وہ بھی علاقہ پولیس کے رنگ میں شامل ہوچکے ہے زیادہ تر مقامات پر مددگار 15 پولیس اسنیپ چیکنگ کے نام پر شہریوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے تنگ کر کے مبینہ طورپر رقم وصول کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔
شہر میں رواں سال کے 4 ماہ کے دوران سرکاری بینک کے لاکرز ، 2 منی ایکسچینج ادارے ، این ایل سی اور نجی کیش لے جانے والی گاڑیوں سمیت 5 ڈکیتی کے واقعات میں کروڑوں روپے لوٹنے والے منظم ڈکیت گروہ کا کراچی پولیس تاحال کوئی سراغ نہ لگاسکی ،تربیت یافتہ ڈکیتوں نے وارداتوں کے دوران فوجی جوان سمیت2 گارڈز قتل کردیے ،ڈکیت گروہ نے سرکاری بینک کے27 لاکرز توڑ کر کروڑوں روپے کے زیورات اور نقدی لوٹ لی۔
شہر میں لوٹ مار کی بڑی وارداتوں میں ملوث گروہ کی نشاندہی نہ ہونے کے باعث خدشہ ہے کہ یہ رقم دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کیلیے استعمال کی جاتی ہے ،اس سلسلے میں شہر قائد میں ہونے والی ان وارداتوں کی تحقیقات کرنے والے تفتیشی افسران اور اعلیٰ پولیس افسران نے رابطوں پر اپنے اپنے مقدمات کے بارے میں تفصیل بتائی۔
رضویہ تھانے کے تفتیشی شعبے کے انچارج انسپکٹر حسن حیدر نے بتایا کہ 8 جنوری کو نیشنل بینک میں تعینات سیکیورٹی گارڈ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 27 لاکرز توڑ کر اس میں موجود پونے 6 کروڑ سے زاید مالیت کے طلائی زیورات، نقدی اور قیمتی سامان لوٹ کر فرار ہوگیا تھا جس کی تلاش میں چھاپے مارے جارہے ہیں تاحال ڈکیت گارڈ گرفتار نہیں ہو سکا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پولیس کو بینک کے عملے پر شک تھا جنھیں حراست میں لے کر پوچھ گچھ کے بعد رہا کر دیا گیا جبکہ مرکزی ڈکیت سیکورٹی گارڈ کے متعلق اطلاعات پر خیبر پختونخواہ میں بھی چھاپے مارے گئے جو بے سود رہے۔
فیروز آباد تھانے کے انویسٹی گیشن افسر انسپکٹر جاوید شیخ نے بتایا کہ 17فروری کو نجی منی ایکسچینج کمپنی سے ڈکیت 38 ہزار ڈالر یعنی پاکستانی 42 لاکھ سے زائد کی رقم لوٹ کر فرار ہوگئے تھے اس مقدمے میں پولیس تاحال گروہ کا تعین نہیں کرسکی ہے پولیس کی تفتیش جاری ہے۔
22مارچ کو بوٹ بیسن تھانے کی حدود میں ڈاکوؤں نے این ایل سی کی کیش وین لوٹنے کی کوشش کی این ایل سی کے گارڈ راویز خان نے مزاحمت کی تو ملزمان نے اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں روایزخان جاں بحق اور ڈائیور سمیت 2 افراد زخمی ہوگئے تاہم ملزمان واردات کرنے میں ناکام رہے۔
بوٹ بیسن تھانے کے تفتیشی افسر انسپکٹر امتیاز نے مذکورہ ڈکیتی کی واردات میں ملوث ڈاکوؤں کی گرفتاری سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے بتایاکہ پولیس کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مختلف پہلوؤں سے بھی تفتیش کررہی ہے لیکن اب تک کی جانے والی تفتیش میں پولیس ڈکیت گروہ کا تعین کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اس کے 5 دن بعد27 مارچ کو شاہراہ فیصل تھانے کی حدود گلستان جوہر میں مسلح ڈاکوؤں نے نجی منی ایکسچینج سے 27 لاکھ روپے لوٹے اور فرار ہوگئے ڈاکوؤں نے مزاحمت کرنے پر منیجر کو گولی مار کر زخمی کردیا تھا اس کیس میں بھی پولیس کی کارگردگی رپورٹ زیرو نظر آئی۔
اس واقعے کے13دن بعد 9 اپریل کو ایف بی صعنتی ایریا تھانے کی حدود راشد منہاس روڈ پر نامعلوم مسلح ملزمان نے نجی منی ایکسچینج کی کیش وین لوٹنے کی کوشش اس واردات میں بھی مزاحمت پر ڈاکوؤں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے نجی کمپنی کے سیکورٹی گارڈ خالد کو قتل کردیا اور نقدی لوٹے بغیر فرار ہوگئے۔
ایس ایچ او ساجد جاوید کا کہنا ہے کہ نجی کمپنیوں میں جو سی سی ٹی وی کیمرے نصب تھے ان کیمروں کی ریکارڈنگ سے ملزمان کی شناخت تاحال نہیں ہوسکی ہے،جائے وقوع کے قریب سرکاری نصب کیا جانا والا سی سی ٹی وی کیمرا خراب تھا۔
نمائندہ ایکسپریس نے جب بوٹ بیسن کے تفتیشی افسر امتیاز سے سوال کیا کہ ایف بی ایریا میں اس طرح کی ایک واردات ہوئی تھی اس کیس کے تفتیشی افسر یا متعلقہ ادارے سے کوئی رابطہ کیا تو ان کا جواب تھا کہ واردات تو ابھی ہوئی ہے تفتیش کے لیے پولیس کو بہت وقت درکار ہے۔
واضح رہے کہ کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ، اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ، کرائم برانچ اور کئی اداروں میں تعینات اعلیٰ پولیس افسران اور ان کے ماتحت عملہ کروڑوں روپے فنڈز کی مد میں حاصل کرنے کے باوجود ان کی کاگردگی گزشتہ کئی سال کی طرح تاحال زیرو ہے۔
سیکیورٹی اداروں کے چند افسران سے رابطہ کیا تو انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے پر بتایاکہ سندھ پولیس سرکاری کاغذوں کا پیٹ بھرنے میں مصروف ہے کراچی پولیس کا یہ حال ہے کہ وہ صرف کاغذوں میں ہی تفتیش کرتی ہے لیکن ان کی تفتیش میں زمینی حقائق نہیں ہوتے انھوں نے بتایا کہ شہر میں لوٹ مار کی مذکورہ بڑی وارداتوں میں ملوث گروہ کی نشاندہی نہ ہونے کے باعث خدشہ ہے کہ یہ رقم دہشت گرد تنظیموں کی فنڈنگ کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس کا سراغ لگانا انتہائی ضروری ہے۔
شہری میں ڈاکو راج: روزانہ 100 سے زائد شہری لٹنے لگے
آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اور کراچی پولیس چیف مشتاق مہر شہر قائد میں اسٹریٹ کرائم ، ہائی ویز ،مسافروں، بسوں اور گھروں میںڈکیتیوں کی وارداتوں کی روک تھام کی موثر حکمت عملی بنانے میں تاحال ناکام ہوگئے۔
پولیس ، سی پی ایل سی ، اے سی ایل سی اور متعلقہ اداروں سے ملنے والی معلومات کے مطابق شہر کے مختلف مقامات پر روز کی بنیاد پر100سے زائد شہری مسلح ملزمان کے ہاتھوں نقدی ، موبائل فونز، طلائی زیورات ، گاڑیوںاور دیگر قیمتی اشیاء سے محروم ہوتے ہیں لیکن پولیس صرف چند ہی واقعات کے مقدمات درج کرتی ہے،ڈیڑھ ماہ میں 3 سرکاری گاڑیاں چھین لی گئیں۔
نمائندہ ایکسپریس کی جانب سے کراچی پولیس کے مختلف تھانوں کے ایس ایچ اوز ، ہیڈ محرران اور شاہراہوں پر ڈیوٹی انجام دینے والے افسران و اہلکار ،سی پی ایل سی ،اینٹی کارلفٹنگ سیل اور متعلقہ اداروں سے حاصل کی جانیوالی معلومات کے مطابق کراچی پولیس میں سب سے بڑا المیہ کم نفری ہے اور دوسرا وسائل نہ ہونے کے برابر ہے جس کے باعث شہر میں لوٹ مار کی وارداتیں عام ہوچکی ہے جس کی روک تھام کے لئے اعلی افسران کو موثر حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
مذکورہ اداروں سے حاصل کی جانے والی معلومات کے مطابق لوٹ مار کرنے والے گروہ کے مسلح کارندے سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے پر مال برادرز گاڑیوں اورکراچی سے سندھ جانیوالی مسافر بسوں کو یرغمال بنا کر لوٹ کرتے ہے لیکن پولیس ان واقعات سے پراسرار طورپر لاعلم رہتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شہر قائد میں لوٹ مار کرنے والے افراد اب باآسانی بغیر کسی خوف کے گلیوں ، مین شاہراہوں اور مسافر بسوں میں چڑھ کر شہریوں کو اسلحے کے ذور پر نقدی ، موبائل فونز اور دیگر قیمتی سامان سے محروم کرکے فرار ہوجاتے ہے جبکہ علاقہ پولیس خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ہی طرح شہر میں گھروں ڈکیتیاں بھی عام ہوچکی ہے روز کی بنیاد پر کلفٹن ، ڈیفنس ، بہادرآباد، گلشن اقبال ، نارتھ ناظم آباد ، فیڈرل بی ایریا ، گارڈن ، سرجانی ٹاؤن ، سچل ، گلشن معمار سمیت دیگر علاقوں میں ہاؤس رابری کی 20 سے 25سے وارداتیں عام ہے جبکہ اسکے علاوہ شہر کے مختلف مارکیٹوں میں دکانوں پر نقیب زنی وارداتیں بھی روز کی بنیاد پر جاری ہے ۔
گھروں میں زیادہ تر ڈکیتیوں میں کام کرنے والی ماسیا ، چوکیدار و دیگر عملہ ملوث ہوتا ہے ،دوسری جانب کارلفٹرز نے بھی شہریوں کا خون چوسنے میں پیچھے نہیں رہے وہ بھی شہر کے مختلف علاقوں میں روز کی بنیاد پر شہریوں سے اسلحے کے ذور پر 10سے 15گاڑیاں چھین اور متعدد چوری کرلیتے ہے جبکہ اس کے علاوہ سرکاری گاڑیاں چھینے اور چوری کے واقعات میں بھی کمی نہیں آسکی ڈیڑھ ماہ کے دوران تین سرکاری گاڑی چھینی گئی پولیس کی جانب سے تلاش کی گئی جب جاکر صرف ایک سرکاری گاڑی لاوارث حالت میں تلاش کرپائے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی جی سندھ اورایڈیشنل کراچی نے مددگار 15کی ایک موبائل اور اسکی نفری ہر تھانے میں زم کی تھی اسلئے کہ مدد گار 15پولیس کے محافظ شاید اسٹریٹ کرائمز پر قابو پاسکے لیکن وہ بھی علاقہ پولیس کے رنگ میں شامل ہوچکے ہے زیادہ تر مقامات پر مددگار 15 پولیس اسنیپ چیکنگ کے نام پر شہریوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے تنگ کر کے مبینہ طورپر رقم وصول کرنے میں مصروف نظر آتے ہیں ۔