حکومت کا آخری بجٹ۔۔۔ عوام کو ریلیف ملنے کی اُمید پوری ہوگی

عوامی ضروریات کو ترجیح دی جائے، منہگائی میں کمی کا نظام بنایا جائے۔

بیمار صنعتی یونٹس کی نجکاری کی جائے، کاروباری لاگت میں کمی کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ فوٹو : فائل

مالی سال 2018-19 کا میزانیہ ستائیس اپریل کو پیش کیا جارہا ہے۔ صنعت کار اور تاجروں سے لے کر کسان، مزدور، تنخواہ دار ملازم اور گھریلو خواتین تک سب اس بات کی توقع کررہے ہیں کہ حکومت ان کے مسائل اور مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے بجٹ میں ریلیف مہیا کرے گی۔

معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی حکومت سے اس خوش اُمیدی کی اہم وجہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کا یہ آخری بجٹ ہے۔ عوام سمجھتے ہیں کہ آئندہ عام انتخابات میں عوامی ہم دردی حاصل کرنے کے لیے حکومت بجٹ میں زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی کوشش کرے گی۔

بدقسمتی سے پاکستان میں بجٹ کبھی عوامی توقعات پر پورا نہیں اترتا۔ ٹیکس براہ راست عائد کیے جائیں یا بالواسطہ، گھوم پھر کر ان کا اثر عام آدمی پر پڑتا ہے۔ ٹیکس چاہے کسی بھی صورت میں یا کسی بھی سطح پر ہو، اس سے اشیائے ضرورت کے نرخ لازماً متأثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بجٹ کے بعد منی بجٹ آنے کی روایت بھی پائی جاتی ہے۔ اگر بجٹ میں کوئی کسر باقی رہ جائے تو وہ منی بجٹ میں پوری کردی جاتی ہے۔ منی بجٹ کی یہ روایت ختم ہونی چاہیے۔

بجٹ سے سب سے زیادہ مزدور اور تنخواہ دار طبقہ متأثر ہوتا ہے۔ ٹیکس عائد ہونے کی صورت میں صنعت کار، تاجر اور دکان دار مصنوعات کے نرخ بڑھا کر سارا کا سارا بوجھ عام آدمی پر منتقل کردیتے ہیں جس کی آمدنی وہی رہتی ہے مگر اخراجات بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اُمید ہے کہ کم از کم آئندہ بجٹ میں حکومت، ووٹ کے لالچ ہی میں سہی، عوام کا خیال رکھے گی۔

معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگ آئندہ بجٹ میں کیا چاہتے ہیں، ایکسپریس نے اس تناظر میں ان سے گفتگو کی جس کی تفصیل قارئین کی نذر ہے:

ڈاکٹر قیصر بنگالی، ماہرِاقتصادیات

برآمداتی حجم گررہا ہے اور درآمدات بڑھ رہی ہیں۔ یہ مضبوط معیشت کے اشاریے نہیں ہیں۔ برآمدات بڑھانے کے لیے صنعتی شعبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکسوں کا بوجھ کم کیا جائے۔ ہمارا زیادہ زور درآمدات پر ہے۔ ہر چیز درآمد کی جارہی ہے۔ ان میں بیشتر اشیائے تعیشات ہوتی ہیں جنھیں معاشرے کے صرف دو فی صد لوگ استعمال کرتے ہیں مگر اس کا بوجھ باقی اٹھانوے فی صد عوام کو جھیلنا پڑتا ہے۔یہ بات ذہن میں رکھی جانی چاہیے کہ ایک بجٹ ملک کی قسمت نہیں بدل سکتا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بجٹ سازی کرتے ہوئے عوام کی روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ 1977ء کے بعد ایک بھی کم آمدنی ہاؤسنگ اسکیم نہیں لائی گئی۔ بجٹ میں عوام کی ضروریات کو ترجیح دی جانی چاہیے۔

تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لیے بجٹ میں مناسب رقم رکھی جاتی ہے۔ یہ شعبے صوبوں کی ذمہ داری ہیں، تاہم ان میں بہتری کے لیے اصلاحات اور گھوسٹ اساتذہ جیسے عوامل کا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ زراعت اور صنعت ملکی معیشت کے اہم ترین شعبے ہیں جو زوال کی جانب گام زن ہیں۔ ان میں بجٹ ہی کے ذریعے بہتری لائی جاسکتی ہے۔ حکومت کی جانب سے حالیہ اعلان کردہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے بارے میں اظہارخیال کرتے ہوئے ڈاکٹر قیصر نے کہا کہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے خواہش مندوں کو جیل میں ہونا چاہیے ۔

محمد فصیح الدین، ماہرمعاشیات، سابق چیف اکانومسٹ منصوبہ بندی کمیشن آف پاکستان

اس سے پہلے بھی ایسی صورت حال پیش آچکی ہے کہ جانے والی حکومت بہت کچھ آنے والی حکومت پر چھوڑدیتی ہے، وہ کچھ ایسا کرجاتی ہے کہ لوگ واہ، واہ کرتے ہیں لیکن آنے والی حکومت کے لیے مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے، ان کی ساری سوچ انتخاب جیتنے تک کی ہوتی ہے، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جی ڈی پی کا معاملہ بہتر ہے، لیکن کم زور پہلو یہ ہے کہ بجٹ میں خسارہ زیادہ ہوگا۔ گذشتہ برس خسارہ 4.1 فی صد تھا ، اس سال توقع ہے کہ خسارہ ساڑھے پانچ سے چھے فی صد تک بڑھ جائے گا۔

اگر آئندہ سال اسے کم کرنا ہے تو سادہ سی بات ہے کہ انھیں اخراجات کم کرنا ہوں گے یا پھر ریونیو بڑھانا ہوں گے۔ اس وقت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ درآمدات میں غیرمعمولی طور پر اضافہ ہوا ہے، جب کہ برآمدات میں کمی آئی ہے۔ بے روزگاری کی شرح چھے فی صد چل رہی ہے، اس میں مزید اضافے کے امکانات ہیں۔ غربت کی صورت حال جوں کی توں ہے۔ دفاع کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ضروری اخراجات میں کمی نہیں آسکتی۔

حکومت کو ایسا بجٹ بنانا ہوگا جو عوام کے مفاد میں ہو، ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن پر اتفاق رائے ہو۔ اس وقت حکومت تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا دو فی صد رکھتی ہے۔ حکومت کو کم ازکم چار فی صد رکھنا چاہیے۔ باقی فیصلے بھی ایسے ہی کرنے چاہییں، جن پر اتفاق رائے ہو، اختلاف نہ ہو۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آنے والی حکومت بھی اس پالیسی کو جاری رکھ سکتی ہے۔ جب ہم ایک خاص حد سے زیادہ بیرونی قرض نہیں لے سکتے تب ہمیں بہت سوچ سمجھ کے، ازحد احتیاط کے ساتھ اقدامات کرنے چاہییں۔ حکومت کو عبوری بجٹ پیش کرناچاہیے، اگلے پانچ سال کے لیے پالیسیاں نہ بنائی جائیں، انھیں اگلی حکومت ہی پر چھوڑدیا جائے۔

ظفربختاوری، بزنس مین، سابق صدر اسلام آباد چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری

حکم راں جماعت کو اس بجٹ کے بعد الیکشن کے لیے جانا ہے، اس لیے اس کی کوشش ہوگی کہ ایک بہتر بجٹ پیش کرے۔ گذشتہ چارپانچ برسوں کے دوران حکومت کی پالیسیاں تاجردشمن تھیں، پاکستان کا تاجرطبقہ اس عرصہ میں انتہائی مشکلات اور خوف وہراس کا شکار رہا، نتیجتاً پاکستان میں ٹیکس کلچر تقریباً ختم ہوکر رہ گیا، پچاس فی صد لوگوں نے خود کو ٹیکس نیٹ سے باہر نکال لیا۔ دراصل حکومت نے صرف ریوینیو کلیکشن پر توجہ مرکوز کررکھی تھی، سارا زور اسی بات پر تھا کہ زیادہ سے زیادہ ریونیو اکٹھا کرنا ہے، اس کے برعکس اگر ایکسپورٹ کو دُگنا کرنے پر فوکس کرتے تو پاکستان کا ریونیو دگنا کے بجائے تین گنا ہوجاتا۔

معیشت کی بنیاد ایکسپورٹ پر ہوتی ہے، آپ کے پاس فارن ایکسچینج نہیں ہوگا تو ملک تباہ ہوجائے گا۔ اب جو وزیراعظم نے ایمنسٹی کا ایک بہتر پروگرام دیا ہے، اس کے نتیجے میں ملکی معیشت فعال ہوگی، ایسا بہت سا سرمایہ جو غیراعلانیہ ہے، میں اسے کالا دھن نہیں کہتا، لوگوں نے پیسے چھپا کے رکھے ہوئے ہیں، وہ کسی سسٹم میں نہیں آرہے، وہ سسٹم میں آئیں گے، اس کے نتیجے میں حالات بہتر ہوں گے۔


معیشت بہتر بنانے کے لیے ملک میں جو بیمار یونٹس ہیں، انھیں پرائیویٹائز کردیا جائے۔ اسٹیل مل پر ہر سال پچاس ارب روپے خرچ ہورہے ہیں، وہ دو، تین سو ارب روپے کا ہر سال نقصان کرتی ہے، اگر آپ سارا حساب کتاب لگائیں تو ہماری ساری ریونیو کلیکشن تین ہزار پانچ سو ارب روپے ہے۔ یہ سارے بیمار ادارے ملک کو ایک ہزار پانچ سو ارب روپے کا ٹیکا لگاتے ہیں، اس کا سارا بوجھ عوام پر بھی پڑتا ہے۔ اس بجٹ میں ترجیحی بنیادوں پر ان تمام اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا جائے، اگر یہ ادارے کسی کو مفت بھی دینا پڑیں تو بھی ملک کے مفاد میں دے دیں۔ ریلوے اور پی آئی اے جسے دیں اس سے کہیں کہ یہ ادارے لیں لیکن آپ کو پانچ سال کے اندر پاکستان کا سارا قرضہ ادا کرنا ہے۔

یقیناً وہ پاکستان کا سارا قرضہ ختم کردے گا اور یہ ادارے بھی نفع بخش ہو جائیں گے، یہ نہ ہوا تو کم ازکم سالانہ پانچ چھے سو ارب روپے کا ٹیکس آنا شروع ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ ایف بی آر کو جو لامحدود اختیارات دیے گئے ہیں انہیں کم کرنا بہت ضروری ہے، ٹیکس گزاروں پر اعتماد کیا جائے اور ملک میں ٹیکس کلچر کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

شمیم فرپو، صنعت کار، سابق صدر کراچی چیمبر آف کامرس

کراچی چیمبر آف کامرس کے سابق صدر اور معروف صنعت کار شمیم فرپو کہتے ہیں کہ بجٹ کی تشکیل میں ملکی حالات اور حقائق کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری برآمدات زوال پذیر ہیں، جب کہ درآمداتی حجم بڑھتا جارہا ہے۔ برآمدات کی زوال پذیری کا سب سے اہم سبب کاروباری لاگت میں اضافہ ہے۔ پاکستان میں یوٹیلٹی سہولتوں کی لاگت زیادہ ہے جس کی وجہ سے کاروباری لاگت خودبہ خود بڑھ جاتی ہے۔ بجٹ سازی میں اس پہلو کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ اگر برآمدات بڑھانی ہیں تو پھر کاروباری لاگت میں کمی کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

حال ہی میں حکومت نے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان اور ٹیکسوں کی شرح میں ردوبدل کیا ہے۔ یہ خوش آئند ہے مگر اس حوالے سے غیریقینی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بہتر ہوتا اگر حکومت تمام جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے بعد یہ اقدامات کرتی۔ اب کچھ جماعتوں نے اس اسکیم کو عدالت میں چیلینج کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس سے غیریقینی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے اور انڈسٹری اس حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔ موجودہ حکومت کے چند ماہ باقی رہ گئے ہیں یہ اس کا آخری بجٹ ہے۔ پاکستان میں یہ روایت رہی ہے کہ نئی آنے والی حکومت سابق حکومت کی پالیسیوں کو بدل دیتی ہے اور گذشتہ حکم رانوں کے اقدامات منسوخ کردیے جاتے ہیں۔ چناں چہ انڈسٹری میں یہ بے یقینی پائی جاتی ہے کہ نئی حکومت ایمنسٹی اسکیم ختم کردے گی یا پھر اس کے خلاف کوئی جماعت عدالت چلی جائے گی۔ لہٰذا پالیسی اس طرح تشکیل دی جانی چاہیے کہ حکومت کی تبدیلی سے اس پر اثر نہ پڑے۔

منظور رضی، مزدور راہ نما، چیئرمین ریلوے ورکرز یونین

منہگائی میں اضافہ ہوا ہے اور اسی مناسبت سے آئندہ بجٹ میں تنخواہیں بڑھائی جانی چاہییں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ گریڈ ایک سے لے کر سولہ تک کی تنخواہوں میں پچاس فی صد اضافہ ہونا چاہیے۔ کم ازکم تنخواہ پندرہ ہزار سے بڑھا کر بیس ہزار روپے مقرر کی جانی چاہیے۔ علاوہ ازیں ریٹائرڈ ملازمین اور بیواؤں کے لیے پنشن میں بھی پچاس فی صد اضافہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریلوے کے سابق ملازمین کا میڈیکل الاؤنس بڑھایا جائے۔

ارم مبشر، گھریلو خاتون

ملیر سے تعلق رکھنے والی ارم مبشر گھریلو خاتون ہیں۔ آئندہ بجٹ میں وہ چاہتی ہیں حکومت منہگائی میں کمی لانے کے لیے ایسا نظام وضع کرے کہ تاجر اور دکان دار ازخود اشیاء کی قیمتیں نہ بڑھا سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تو تنخواہیں بڑھ جاتی ہیں مگر نجی اداروں کو بھی پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ بھی ہر سال ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کریں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر ایک بڑے نجی ادارے میں ملازمت کرتے ہیں، مگر تین سال سے ان کی تنخواہ نہیں بڑھائی گئی۔ اس عرصے کے دوران مہنگائی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کے اسکول کی فیسیں تیس فی صد بڑھ چکی ہیں۔ آٹا، چینی، دال، چاول سے لے کر دودھ اور سبزیوں تک کے نرخوں میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ شوہر کی تنخواہ میں گزارہ ناممکن ہوچکا ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیاکہ جیسے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ہر سال بڑھتی ہیں، نجی اداروں کو بھی ملازمین کی تنخواہیں سالانہ بنیادوں پر بڑھانے کا پابند کیا جائے۔

محمد وقار، ڈپلوما ہولڈر بیروزگار

کورنگی کے رہائشی محمد وقار نے الیکٹرونکس ٹیکنالوجی میں ایسوسی ایٹ انجنیئر کا ڈپلوما کا حاصل کر رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں انھیں امید تھی کہ ڈپلوما مکمل کرنے کے بعد کسی بھی نجی یا سرکاری ادارے میں موزوں ملازمت حاصل کرنے میں انھیں دشواری نہیں ہوگی، لیکن یہ ان کی خام خیالی ثابت ہوئی۔ ایک سال سے وہ ڈپلوما اٹھائے گھوم رہے ہیں مگر تعلیمی قابلیت کے مطابق نوکری تلاش کرنے سے محروم ہیں۔ نجی اداروں میں کوشش کرنے کے علاوہ انھوں نے سرکاری ملازمتوں کے اشتہارات کے جواب میں بھی درخواستیں ارسال کیں، ٹیسٹ اور انٹرویوز دیے مگر کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔

وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو تعلیم یافتہ بیروزگاروں کے لیے روزگار کا انتظام کرنا چاہیے۔ وہ چاہتے ہیں آئندہ بجٹ میں ایسی پالیسی وضع کی جائے جس کے تحت کم از کم میٹرک پاس ہر فرد کے روزگار کا انتظام کرنے کی ذمہ دار حکومت ہو۔ محمد وقار کا کہنا ہے کہ اگر تعلیم یافتہ افراد کو نوکریاں نہیں ملیں گی تو پھر اس سے ان میں بددلی اور مایوسی پھیلے گی اور وہ ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا نہیں کر پائیں گے۔

عامر شکور، سرکاری ملازم

عامرشکور ایک سرکاری ادارے میں ملازم ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آئندہ بجٹ میں حکومت سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں کم از کم بیس فی صد اضافہ کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ اصولی طور پر تنخواہوں میں اضافہ مہنگائی کے تناسب سے ہونا چاہیے۔ روزمرّہ استعمال کی اشیاء کے نرخ ایک سال کے دوران کم از کم ڈیڑھ گنا بڑھے ہیں لیکن حکومت تنخواہ میں صرف دس فی صد اضافہ کرتی ہے جو گھر کا خرچ چلانے میں ناکافی ثابت ہوتا ہے۔

عقیل خان، دُکان دار

کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں جنرل اسٹور چلانے والے عقیل خان کا کہنا ہے کہ اس بجٹ میں حکومت کو کوئی نیا ٹیکس نہیں لگانا چاہیے، اس سے مہنگائی بڑھتی ہے اور لوگوں کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے۔ منہگائی بڑھنے سے صرف خریدار متأثر نہیں ہوتے بلکہ ان کی آمدنی پر بھی اثر پڑتا ہے۔ ٹیکس کی شرح بڑھنے یا نئے ٹیکسوں کے نفاذ کا اثر صنعتوں اور کارخانوں سے ہوتا ہوا عام آدمی ہی کو منتقل ہوتا ہے۔ جب اشیاء کے نرخ بڑھتے ہیں تو لوگوں کی قوت خرید کم ہوجاتی ہے، پھر وہ صرف انتہائی ضروری اشیاء ہی خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ قوت خرید کم ہوجائے تو پھر کئی ضروری چیزیں بھی ان کے لیے لگژری بن جاتی ہیں اور وہ ان کی خرید ترک کردیتے ہیں ۔ چناں چہ دکان دار اور خریدار دونوں کے لیے آسانی اس میں ہے کہ آئندہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہ لگایا جائے۔
Load Next Story