نگراں حکومت نے آٹا سستا کردیا

ہماری نگراں حکومت کے وزیر خوراک و زراعت نے ہوسکتا ہے بڑے خلوص سے عوام پر یہ مہربانی کی ہو۔


Zaheer Akhter Bedari April 12, 2013
[email protected]

ہمارا ملک گندم میں نہ صرف خودکفیل ہوگیا ہے بلکہ ہم فاضل گندم برآمد بھی کر رہے ہیں اور لاکھوں ٹن گندم ہمارے گوداموں میں پڑی ہوئی ہے۔ گندم کی اس تاریخی فراوانی کا پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بار بار بڑے فخر سے اظہار کرتی رہی ہے، لیکن فلور ملوں نے اس بہانے پر کہ انھیں ان کی ضرورت کے مطابق گندم سپلائی نہیں کی جارہی ہے، آٹے کی قیمت میں فی کلو 15-10 روپے اضافہ کردیا۔

چند روز قبل ایک خبر شایع ہوئی کہ نگراں حکومت نے آٹا سستا کردیا۔ میرے ایک گزشتہ کالم کا عنوان تھا ''نگراں حکومت اور آٹا'' سندھ کی نگراں حکومت کے وزیر خوراک کی طرف سے جو خبر شایع ہوئی اس میں بتایا گیا کہ نگراں حکومت نے آٹے کی قیمت میں دو روپے فی کلو قیمت کم کردی ہے۔

ہم نے یہ خبر پڑھی تو ہمارے چودہ طبق روشن ہوگئے، کیونکہ آٹے کی مہنگائی پر ہونے والے واویلے کی وجہ سے قائم علی شاہ کی حکومت نے آٹے کی فی کلو قیمت 33 روپے فی کلو مقرر کردی تھی لیکن بازار میں اب بھی دھڑلے سے آٹا 40 سے 45 روپے کلو فروخت ہورہا ہے۔ البتہ فلور ملوں کے گیٹ پر 10 کلو کا تھیلا 330 روپے کے بینر لگے ہیں ہیں، لیکن یہاں بھی آٹا دستیاب نہیں۔

ہماری نگراں حکومت کے وزیر خوراک و زراعت نے ہوسکتا ہے بڑے خلوص سے عوام پر یہ مہربانی کی ہو، لیکن ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیوروکریسی نے ہمارے صوبائی وزیر خوراک کو یہ نہیں بتایا کہ آٹے کی قیمت پہلے ہی 33 روپے کلو مقرر کردی گئی تھی لیکن نہ اس وقت اس قیمت پر عمل ہورہا تھا نہ نگراں حکومت کے حکم پر عمل ہورہا ہے۔

لے دے کر ایک آٹا ہی ہے جس پر غریب عوام کا کسی نہ کسی طرح گزارا ہورہا ہے اگر اس واحد غذائی جنس کی قیمت میں بلاجواز اچانک فی کلو 15-10 روپے اضافہ کردیا جائے تو ان غریب عوام کا کیا حشر ہوگا جن کی بنیادی خوراک ہی آٹا ہے؟ ہم نے اپنے کالم میں نگراں حکومت سے یہ گزارش کی تھی کہ وہ آٹے کی قیمت میں اس غیر معمولی اور بلاجواز اضافے اور فلور ملوں کو کوٹے کے مطابق گندم کی عدم سپلائی کے اسکینڈل کی تحقیق کرے اور یہ پتہ چلائے کہ اس پورے فراڈ کے پیچھے جس میں اربوں روپوں کی ہیراپھیری نظر آتی ہے کون کون ملوث ہیں؟ لیکن افسوس کہ اس فراڈ کی تحقیق کے بجائے عوام کے سروں پر ایک اور فراڈ لاد دیا گیا۔

ایک بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر فلور ملوں کی یہ شکایت درست تھی جس کو بنیاد بناکر آٹے کی قیمتوں میں اتنا زیادہ اضافہ کیا گیا کہ فلور ملوں کو ان کے کوٹے کے مطابق گندم سپلائی نہیں کی جارہی ہے تو سب سے پہلے اس بات کی تحقیق ہونی چاہیے تھی کہ لاکھوں ٹن گندم کی فاضل مقدار موجود ہونے کے باوجود فلورملوں کو ان کے کوٹے کے مطابق گندم کیوں سپلائی نہیں کی گئی؟ سابق حکومت کی جانب سے اس حوالے سے ایک تردید بھی ہماری نظر سے گزری کہ ''فلور ملوں کو ان کے کوٹے کے مطابق گندم دی جارہی ہے''۔ اس تردیدکے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آٹے کی قیمت میں کمی کرکے 30 روپے فی کلو کی پرانی سطح پر لایا جاتا لیکن ایسا کچھ نہ ہوا بلکہ سابق حکومت بھی آٹے کی قیمت میں بلاجواز15-10 روپے فی کلو اضافے کو کم نہ کرسکی اور نگراں حکومت کی طرف سے آٹے کی قیمت میں 2 روپے فی کلو کمی کا اعلان تو ایک لطیفے سے کم نہیں۔

مجھے حیرت کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ عوام پر ہونے والی ان کھلی زیادتیوں اور ناانصافیوں کے باوجود کسی سیاسی رہنما، کسی سیاسی جماعت کی طرف سے کوئی ردعمل، کوئی مذمتی بیان تک نہیں دکھائی دیتا۔ ہمارے جمہوری حکمرانوں کا یہ رویہ خود ان کی بدنامی اور عوام سے دوری کا موجب بن رہا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کھلے ظلم کے خلاف سیاسی جماعتیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر نوٹس لیتیں اور سڑکوں پر آکر احتجاج کرتیں لیکن ایسا کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ ہر جماعت کی پہلی ترجیح آج انتخابات اور اقتدار میں شیئرنگ ہے اس مقدس کام کی موجودگی میں کس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ آٹے جیسی فضول چیز پر توجہ دے۔ لیکن برگر، کیک، پیزہ، انڈے، مکھن، شہد پر گزارا کرنے والوں کو شاید یہ علم نہیں کہ اب عوام اہل سیاست کے کارناموں سے پوری طرح واقف ہیں اور اس آگاہی کا ثبوت شاید 11 مئی کو دیں۔ بیلٹ پیپر میں اس بار ایک خالی خانہ بھی رکھا جارہا ہے؟

نگراں حکومت کی مدت اب ایک ماہ کے لگ بھگ رہ گئی ہے۔ اس مختصر مدت میں وہ کوئی بڑے کارنامے تو انجام نہیں دے سکتی، لیکن وہ کچھ ایسے کام ضرور کرسکتی ہے جو اس مختصر عرصے میں ممکن ہیں۔ اس حوالے سے اگر وہ کوئی قدم اٹھائے گی تو عوام اس کے جانے کے بعد بھی اسے اچھے الفاظ کے ساتھ یاد رکھیں گے۔ ہمارے ملک کے غریب عوام کا ایک بڑا مسئلہ بے لگام مہنگائی ہے۔ بدقسمتی سے کوئی جمہوری حکومت اس مسئلے کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاسکی یہ اس کی کوئی مجبوری نہیں ہے بلکہ اس کے مفادات کا تقاضا اور ایک مجرمانہ غفلت ہے۔

دنیا کے ہر ملک میں قیمتوں کو ان کی حدود میں رکھنے کے لیے ایک پرائس کنٹرول کمیشن موجود ہوتا ہے۔ جس کی اجازت کے بغیر کسی مینوفیکچرر، کسی صنعت کار کسی، کارخانہ دار، کسی دکاندارکو قیمتوں میں ایک پائی اضافے کی اجازت ہوتی ہے نہ ہمت اور یہ پرائس کنٹرول کے ادارے بلاجواز کسی کو ایک پینی کے قیمتوں میں اجافے کی اجازت نہیں دیتے۔

کیا ایک ماہ کا عرصہ اسے بااختیار، غیرجانبدار پرائس کنٹرول کمیشن قائم کرنے کے لیے ناکافی ہے؟ ہمیں نہیں معلوم کہ ہماری صوبائی اور مرکزی نگراں حکومتیں کس قدر مصروف ہیں لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ اگر نگراں حکومتیں اپنے اپنے صوبوں میں ایک آزاد، خودمختار پرائس کنٹرول کمیشن قائم کرنا چاہیں تو کوئی انھیں اس نیک کام سے نہیں روک سکتا۔ اگر نگراں حکومتیں صرف یہ ایک کام کر جائیں اور اعلیٰ عدلیہ اسے تحفظ فراہم کرے تو یہ نگراں حکومتوں کا ایک ایسا کارنامہ ہوگا جسے نگراں حکومتوں کی تاریخ میں ایک منفرد مقام حاصل ہوگا۔

ہماری سب سے بڑی حکومتی اور ادارتی کمزوری یہ ہے کہ اس کے پاس اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرنے کے لیے کوئی مشنری ہے نہ ول ہے۔ ہماری محترم عدلیہ عوامی مفاد کے بہت سارے فیصلے کرتی ہے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا اس حوالے سے پٹرول گیس وغیرہ کی قیمتوں کے تعین کے بہت معقول فیصلے کیے جاتے رہے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ دودھ، دہی کی قیمتوں کے حوالے سے بھی کئی مناسب فیصلے بار بار کیے گئے لیکن ڈیری فارمر مافیا ہول سیلر اور ریٹیلرز نے انھیں پونچھ کے پھینک دیا اس قسم کی جرأت کا مطلب حکومتی رٹ کو جوتوں سے روندنے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے اور اگر کوئی حکومت اپنی رٹ قائم رکھنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو اس سے بڑھ کر حکومت کی ناکامی اور کیا ہوسکتی ہے۔

ہماری عدلیہ بار بار بلدیاتی حکام کا حکم دے رہی ہے اور مدت بھی تقرر کر رہی ہے کہ وہ اپنے ملازمین کی رکی ہوئی تنخواہیں فوری ادا کردے لیکن بلدیہ کے ملازمین آج بھی اپنی تنخواہوں کے لیے سڑکوں پر مظاہرے کرتے نظر آرہے ہیں۔ آٹے کی قیمت سے اس مسئلے کا بہ ظاہر کوئی تعلق نظر نہیں آتا لیکن اگر تنخواہ سے محروم ان ملازمین سے پوچھا جائے تو پھر آٹے کی اہمیت ہمارے سامنے آجائے گی۔ ہم نے نگراں حکومت کے کورٹ میں ''پرائس کنٹرول کمیشن'' کی گیند ڈال دی ہے اب دیکھنا ہے کہ نگراں حکومت اس گیند کا کیا کرتی ہے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں