عجب طرفہ تماشہ ہے

کیا آرٹیکل 63-62 کا یہی ’’معیار‘‘ ہے اور اسلامی شعار ’’امین‘‘ و ’’صادق‘‘ ہونے کی یہی کسوٹی ہے؟


MJ Gohar April 12, 2013
[email protected]

پاکستان میں 11 مئی 2013 کو ہونے والے مجوزہ عام انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے امیدواروں کی نامزدگیوں کا پہلا مرحلہ طے کرلیا ہے، ریٹرننگ افسروں نے اپنے طور پر آئین کے آرٹیکل 63-62 کی ''کسوٹی'' پر پورا اترنے والے ''امین'' اور ''صادق'' امیدواروں کے کاغذات نامزدگی تو قبول کرلیے لیکن باقیوں کے مسترد کردیے۔

ریٹرننگ افسران نے امیدواروں کے امین و صادق ہونے کی پہچان کرنے کے لیے دینی، ذاتی اور نجی زندگی کے حوالے سے ایسے ایسے حیران کن سوالات پوچھے اور پھر ہمارے آزاد میڈیا میں ان کی اس طرح تشہیر کی گئی کہ ملک بھر کے سیاسی، صحافتی و عوامی حلقوں اور آئینی و قانونی ماہرین کے درمیان ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ چھ عشرے گزرنے کے بعد نظریہ پاکستان کی تشریح معمہ بن گئی۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم اپنے آغاز سفر کے مقاصد سے آگاہ ہیں اور نہ ہی انجام پر ہماری نظریں ہیں، ہم اپنے آبا کے آدرش، اصولوں، نظریات اور سب سے بڑھ کے تاریخ سے نابلد اور بھٹکے ہوئے لوگ ہیں جو زمینی حقائق سے ناآشنا اور اپنے قومی معاملات کو سلجھانے کا ہنر اور سلیقہ نہیں جانتے۔

کیا آرٹیکل 63-62 کا یہی ''معیار'' ہے اور اسلامی شعار ''امین'' و ''صادق'' ہونے کی یہی کسوٹی ہے؟ سیاسی قائدین، تجزیہ نگار و مبصرین ریٹرننگ افسروں کے امیدواروں سے غیر متعلقہ سوالات پوچھے جانے پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 63-62 کے مطابق دین اسلام کا خاطرخواہ علم رکھنے والا ہی رکن پارلیمنٹ بننے کا اہل ہوسکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ''خاطرخواہ علم'' کی حد اول و آخر کیا ہے؟ کیا آئین پاکستان میں اس حوالے سے کوئی وضاحت موجود ہے؟ کیا پارلیمنٹ یا عدالت نے اس کی کوئی تشریح کی ہے یا حدود متعین کی ہیں؟ کیا وطن عزیز میں آئین کے آرٹیکل 63-62کے علاوہ دیگر آئینی شقوں پر من و عن عمل درآمد ہورہا ہے؟ کیا مملکت خداداد پاکستان کے تمام ریاستی ادارے آئین کے مطابق اپنے فرائض وذمے داریاں ادا کر رہے ہیں؟ افسوس کہ ایسے بہت سے سوالات کا جواب کوئی بھی شخصیت ''ہاں'' میں دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس ملک میں بار بار آئین شکنی کی گئی ہے اور ہرآمر کے اقدام کو تحفظ بھی فراہم کیا جاتا رہا ہے یہاں تک کہ آئین میں ترامیم کے اختیارات بھی تفویض کیے گئے۔

اگر وطن عزیز میں آئین پاکستان کی ایک ایک شق/ آرٹیکل پرعملدرآمد اس کی روح کے مطابق کیا جارہا ہے تو پھر سب ٹھیک قرار پائے گا اور بحث کی گنجائش نہیں، وگرنہ اس ''شوق ستم'' کا مطلب اور مقصد ''اسلامی احتساب'' کے نام پر سیاستدانوں کو میدان سیاست سے ''آؤٹ'' کرنے کے مترادف قرار پائے گا۔ اگر ایک لمحے کے لیے فرض کرلیں کہ عوامی نمایندگی کا حق دعویٰ رکھنے والوں کے لیے آئین کے آرٹیکل 63-62 کی کسوٹی پر پورا اترنا لازم ہے اور آنے والی پارلیمنٹ میں جو نمایندے منتخب ہوکر آئیں گے وہ سو فی صد ''امین'' اور ''صادق'' ہوں گے ان کی نیتوں اور قول و عمل پر شک کی گنجائش بھی نہیں ہوگی تو کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ آیندہ پارلیمنٹ ایسی آئینی ترامیم منظور کرے کہ تمام ریاستی اداروں سے منسلک افراد پر بھی لازم ہوگا کہ وہ آئین کے آرٹیکل 63-62 پر سوفیصد پورا اترتے ہوں اور اس ''کسوٹی'' پر پورا نہ اترنے والوں پر آئینی اداروں میں داخلہ ''ممنوع'' قرار دیا جائے۔

اگر مستقبل کی پارلیمنٹ نے ایسی آئینی ترامیم منظور کرلیں تو یقین جانیے کہ بڑے بڑے ''پردہ نشینوں'' کے چہروں سے نقابیں اتر جائیں گی اور قحط الرجال کا وہ عالم ہوگا کہ الامان والحفیظ۔ پہلے لاہور ہائی کورٹ پھر الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اس نوٹس لیا اور ریٹرننگ افسروں کو غیر ضروری سوالات پوچھنے سے روک دیا۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی بجاطور پر ریٹرننگ افسروں اور الیکشن کمیشن کے رویے کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھوں نے آئینی اختیارات ہونے کے باوجود محض اس لیے مداخلت نہ کی کہ غلط تاثر پیدا نہ ہو۔ صدر کا مثبت طرز عمل ان کی غیرجانبداری کا عکاس ہے اور ان سیاستدانوں کے لیے دو ٹوک جواب بھی جو صدر زرداری کی موجودگی میں شفاف انتخابات کے انعقاد پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔

قائداعظم تو ایسا پاکستان چاہتے تھے کہ جہاں آئین و قانون کا احترام کیا جائے، جہاں پارلیمنٹ آزادی، خودمختاری اور ذمے داری سے فیصلے کرسکے، جہاں ہر شہری کو بلاتفریق رنگ و نسل، جنس و مذہب انصاف اور آزادی میسر ہو۔ قائد اعظم نے 11 اگست 1947 کراچی میں دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''آپ آزاد ہیں، آزادی سے اپنے مندروں میں عبادت کے لیے جاسکتے ہیں، آپ آزاد ہیں، آزادی سے اپنی مساجد یا جو بھی آپ کی عبادت گاہ ہے، اپنی عبادت کرسکتے ہیں، خواہ آپ کا مذہب، مسلک یا فرقہ جو بھی ہو، ریاست اس میں دخل نہیں دے گی، مذہب فرد کا انفرادی معاملہ ہے، جب کہ سیاسی طور پر ہر فرد پاکستانی ہے، ایک ریاست کا شہری ہے اور سب کے حقوق مساوی ہیں''۔ اگر ہم ایمانداری سے بحیثیت مجموعی اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو سوائے ندامت کے کچھ پاس نہیں کہ ہم نے قائداعظم کے نظریات، اصولوں اور فکروفلسفے کا کیا حشر کیا ہے۔

سول و عسکری ہر دو حکمرانوں نے آئین و قانون کو کس طرح ''بازیچہ اطفال'' بنادیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63-62 کی تخلیق کرنے والے جنرل ضیاء کا ''قول زریں'' تھا کہ آئین کیا ہے چار کاغذ کی کتاب۔۔۔۔۔ میں جب چاہے اسے پھاڑکے پھینک سکتا ہوں۔ کیا عجیب صورت حال ہے کہ اسی جنرل ضیاء کی تراشیدہ ترمیم 63-62 کی شمشیر برہنہ سیاستدانوں کے سروں پر لٹک رہی ہے اور ماضی کی کسی پارلیمنٹ میں یہ جرأت نہ ہوئی کہ وہ اس ترمیم کا خاتمہ کرتی۔ رضا ربانی صاحب کہتے ہیں کہ ان کی کمیٹی نے اس معاملے پر غور و خوض کیا تھا لیکن دائیں بازو کی جماعتوں کے اصرار کے باعث بات آگے نہ بڑھ سکی۔ کیا آنے والی پارلیمنٹ یہ ''کارنامہ'' انجام دے سکے گی؟ آئین و قانون کا احترام بلاتفریق سب پر لازم ہے اور قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔

لیکن افسوس کہ وطن عزیز میں قانون کے نفاذ کے معیارات الگ الگ ہیں کوئی یہ پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ کیا سوال کرنے والے بھی آرٹیکل 63-62 پر پورا اترتے ہیں؟ کیا وہ کسی مذہبی اسکالر اور عالم دین کے سوالات کا جواب دے سکیں گے؟ غلطیوں، لغزشوں اور خطاؤں سے پاک تو صرف نبیوں ہی کی ذات ہے، انسان تو خطا کا پتلا ہے۔ محض ایک دو سوالات کی بنیاد پر عوامی نمایندوں کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنا دانشمندی نہیں۔ جب الیکشن ٹریبونل امیدواروں کی اپیلوں کی اگلے مرحلے میں سماعت شروع کرے گا تو صورت حال مزید گمبھیر ہوسکتی ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک ہی امیدوار کے کاغذات نامزدگی ایک حلقے سے منظور جب کہ دوسرے حلقے سے مسترد کردیے گئے۔ سابق صدر جنرل پرویز مشرف اور چوہدری نثار علی خان اس ''سلوک'' کا نشانہ بنے۔ کیا وہ ایک حلقے میں ''صادق'' و ''امین'' تھے جب کہ دوسرے حلقے میں ''دروغ گو'' اور ''بے ایمان''؟ عجب طرفہ تماشہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں