میری یادیں اور خالد احمد
جالب بھائی کے چہرے پر بھی خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے ہاتھ میں پکڑی چپل پاؤں میں پہنی اور مجھے گلے لگالیا۔
شاعر خالد احمد بھی دنیا چھوڑ گئے۔ خالد احمد اردو ادب کے ایک بڑے خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ میرا اور ان کا تعلق اسی بڑے ادبی خانوادے کے دیگر افراد کے تعلق سے بھی تھا اور میں اسی تعلق سے بات کروں گا۔ 1964ء میں، میں نے مسلم ماڈل ہائی اسکول لاہور سے میٹرک پاس کیا۔ میٹرک کا نتیجہ اخبارات کے دفاتر میں پہنچ چکا تھا۔
میں نے اپنے بڑے بھائی حبیب جالب سے کہا کہ نتیجہ اخباروں کے دفتروں میں آ چکا ہے، تو میرا نتیجہ پتا کروا دیں۔ گھر میں میری صورت حال اچھے اور لائق طالب علم کی نہیں تھی۔ سو ہمارے بھائی صاحب بھی میرے بارے میں یہی رائے رکھتے تھے۔ بہرحال میرے بے حد اصرار پر بھائی جالب اس شرط پر اخبار کے دفتر چلنے پر رضامند ہوئے کہ اگر تم فیل ہوئے تو اخبار کے دفتر میں ہی تمہاری پٹائی ہو گی، میں نے شرط منظور کر لی اور بھائی مجھے روزنامہ امروز کے دفتر لے گئے۔ ظہیر بابر امروز اخبار کے ایڈیٹر تھے، بھائی سیدھے ظہیر بابر کے کمرے میں گئے۔
ظہیر بابر، خالد احمد کے بہنوئی اور معروف ادیبہ خدیجہ مستور کے شوہر تھے۔ بھائی جالب نے ظہیر بابر سے کہا ''یہ میرا چھوٹا بھائی ہے، مگر نالائق ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ میٹرک میں فیل ہے۔ آپ ذرا گزٹ میں دیکھ کر اس کا نتیجہ بتا دیں۔'' میرے بارے میں تاثر کو ظہیر بابر نے بھی قبول کرتے ہوئے، اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے درشت لہجے میں کہا ''میاں! اپنا ایڈمٹ کارڈ نکالو۔'' میں نے ایڈمٹ کارڈ ان کے سامنے رکھ دیا۔ انھوں نے ایڈمٹ کارڈ دیکھا اور گزٹ کے ورق الٹنے پلٹنے شروع کردیے، جالب بھائی ہاتھ میں چپل پکڑے بالکل تیار بیٹھے تھے۔
''بھئی جالب! تمہارا بھائی تو سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہے۔'' ظہیر بابر کے چہرے پر خوشی کے تاثرات تھے، مگر بھائی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ سو انھوں نے کہا ''بھائی! ذرا غور سے دیکھیے یہ نالائق پاس نہیں ہو سکتا۔'' جالب بھائی کی بات سن کر ظہیر بابر پھر سنجیدہ ہوگئے اور مجھے گھور کر دیکھتے ہوئے ایڈمٹ کارڈ اور گزٹ کے نتیجے کو دیکھا، ایک ایک ہندسہ ملایا اور پہلے سے زیادہ خوش ہوکر بولے۔
بھئی جالب! واقعی تمہارا بھائی سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہے''۔
''اچھا! واقعی!'' جالب بھائی کے چہرے پر بھی خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے ہاتھ میں پکڑی چپل پاؤں میں پہنی اور مجھے گلے لگالیا۔ بھائی جالب اس روز کہیں نہیں گئے۔ راستے سے مٹھائی خریدی اور گھر والوں کے ساتھ میری کامیابی کی خوشی منائی۔
1964 میں یقیناً خالد احمد بھی کسی کالج میں پڑھ رہے ہوں گے۔ میں بھی میٹرک کے بعد لاہور چھوڑ کر کراچی چلا آیا اور سیلف میڈ کراچی کی روایت کے مطابق صبح کلرکی اور شام کو کالج، بس یونہی اپنے اپنے سفر میں گم، کہیں دور میں، کہیں دور تم، چلے جا رہے تھے جدا جدا کہ اچانک خالد احمد سے پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ملاقات ہوگئی۔
خالد احمد کی شاعری کے حوالے سے تو میں انھیں جانتا تھا۔ مختلف رسائل اور ٹی وی پر ان کا کلام بارہا سنا تھا، مگر بالمشافہ ملاقات پاک ٹی ہاؤس میں ہوئی، پینٹ شرٹ پہنے، بھرا بھرا جسم، رت جگوں کی ماری آنکھیں، اس روز بھی ان کے ساتھ شاعر نجیب احمد تھے۔ نجیب احمد سے بھی پہلی بار مل رہا تھا۔ خالد احمد نے اگلے روز مال روڈ پر ہونے والی ایک ادبی نشست میں مجھے مدعو کرلیا۔ جہاں میں نے ان کے کہنے پر اپنا افسانہ سنایا۔ پھر جب بھی لاہور جانا ہوتا تو خالد احمد سے ملاقات ضرور ہوتی۔ کبھی واپڈا ہاؤس کہ جہاں وہ ملازم تھے یا مال روڈ کے کسی ریسٹورنٹ یا پاک ٹی ہاؤس۔
دن گزرتے گئے، زندگی چلتی رہی اور میرے افسانوں کی پہلی اور ہنوز اکلوتی کتاب ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' شایع ہوگئی۔ یہ 1992 تھا۔ ہمارے بڑے بھائی حبیب جالب شدید علالت کے باعث اسپتال میں داخل تھے۔ میں نے انھیں اپنے افسانوں کی کتاب دکھائی، وہ بہت خوش ہوئے اور بولے کہ ''میں کتاب کی رونمائی کی تقریب میں آؤں گا''۔
میں نے بھائی سے کہا کہ ''نہیں، اس روز کراچی میں آپ کا داخلہ بند ہوگا، میں پدرم سلطان بود نہیں بننا چاہتا''۔ میری بات سن کر بھائی صاحب بہت زیادہ خوش ہوئے اور انھوں نے مجھے گلے لگا کر میری پیٹھ تھپتھپائی اور پھر ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' کی صدارت ہاجرہ مسرور نے کی۔ ہاجرہ مسرور! خالد احمد کی بڑی بہن اور اردو ادب میں افسانے کی آبرو۔
ہاجرہ مسرور صاحبہ کو جب میں صدارت کے لیے درخواست کرنے ان کے گھر گیا تھا تو انھوں نے بھی چھٹتے ہی یہ کہا تھا کہ ''جالب صاحب کو صدارت کے لیے بلاؤ، اور میں بھی آؤں گی''۔ میں نے ہاجرہ مسرور صاحبہ کو بھی وہی کہا جو میں نے بھائی جالب سے کہا تھاکہ ''میں پدرم سلطان بود نہیں بننا چاہتا''۔
خالد احمد! اب تم سے مخاطب ہوں، سن رہے ہو، خالد احمد! پہلے میں نے ان باتوں پر غور نہیں کیا تھا، مگر آج اپنی یادیں لے کر بیٹھا ہوں، تو یادوں کی کڑیوں میں خود بخود رشتے جڑتے چلے جارہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھائی حبیب جالب بس چند دنوں کے ہی مہمان رہ گئے تھے تو خالد احمد! تم نے تین نظمیں جالب صاحب کے لیے لکھی تھیں، جو احمد ندیم قاسمی صاحب کے رسالے فنون میں شایع ہوئی تھیں۔ دیکھ لو خالد! تمہاری یاد رہ جانے والی باتیں امڈھی چلی آرہی ہیں۔ بھلا میں تمہیں بھول سکتا ہوں! شاید کبھی نہیں۔
خالد احمد! ایک شاعر، جس کا شعری بیان دوسروں سے مختلف تھا اور وہ اپنی ہی دھن میں مست لکھتا رہا۔ اسے دنیا سمیٹنے کی بھی خواہش نہیں رہی۔ چند سال سے وہ زندگی کی بیاض نکال رہا تھا۔ بیاض خالد احمد کا ماہانہ کتاب لڑی سلسلہ ہے۔ ہو بہو خالد احمد کے مزاج اور شخصیت کا ترجمان۔
بھائی حبیب جالب کا انتقال 13 مارچ 1993 کو لاہور کے ایک اسپتال میں ہوا تھا۔ خالد احمد نے مجھے تعزیت کا خط لکھا۔ مجھے مخاطب کرتے ہوئے دراصل خالد احمد نے جالب صاحب پر ایک بھرپور مضمون لکھ دیا تھا اور اس کا یہ خط میں نے اپنی ضخیم کتاب (صفحات 1200) ''میں طلوع ہورہا ہوں'' میں من و عن شایع کرکے محفوظ کردیا ہے۔ خالد احمد کے خط سے اقتباس پیش کرتا ہوں۔ ''آپ کی بے پایاں محبتوں کے خزینے موصول ہوئے تو رات بھر انھیں پڑھتا رہا اور صبح ہوگئی تو دفتر گیا۔
واپس آیا تو سو گیا، رات دس بجے جاگا۔ گھر سے نکلا، دوستوں سے ملا اور رات بھر پھر وہی وظیفہ رہا۔ تین راتوں میں ''گھر کی گواہی'' (راقم کی کتاب) حرف جاں کرلی، حبیب جالب آپ کے بھائی تھے، میرے آئیڈیل تھے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب اور ہمارے محسن نبی اکرم کے طفیل حبیب جالب مرحوم، مشتاق مبارک مرحوم، ان کے والدین کو اپنے جوار رحمت میں بلند تر درجات سے نوازے (آمین)۔ آپ کا خاندان محنت کشوں اور محنت کشوں سے محبت کرنے والوں کا خاندان ہونے کے ساتھ ساتھ اﷲ کے نیک بندوں کا خاندان ہے اور میرے ایمان کے عین مطابق اﷲ کے نیک بندوں کی اولاد سے ہی ایسے لوگ اٹھتے ہیں جو اﷲ کے بندوں کے حقوق کے لیے اور ان کے حقوق کی گواہی کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ حبیب جالب علیہ الرحمہ ایسے ہی خاندان کا چراغ تھے اور یہ چراغ آئینہ دہر میں ہمیشہ جھلملاتا رہے گا۔ انشاء اﷲ (24 جولائی 1995)''۔
خالد احمد! خدا تمہاری مغفرت کرے (آمین)۔
(4 اپریل 2013 خالد احمد کی یاد میں ہونے والے تعزیتی ریفرنس، منعقدہ آرٹس کونسل کراچی میں پڑھا گیا)
میں نے اپنے بڑے بھائی حبیب جالب سے کہا کہ نتیجہ اخباروں کے دفتروں میں آ چکا ہے، تو میرا نتیجہ پتا کروا دیں۔ گھر میں میری صورت حال اچھے اور لائق طالب علم کی نہیں تھی۔ سو ہمارے بھائی صاحب بھی میرے بارے میں یہی رائے رکھتے تھے۔ بہرحال میرے بے حد اصرار پر بھائی جالب اس شرط پر اخبار کے دفتر چلنے پر رضامند ہوئے کہ اگر تم فیل ہوئے تو اخبار کے دفتر میں ہی تمہاری پٹائی ہو گی، میں نے شرط منظور کر لی اور بھائی مجھے روزنامہ امروز کے دفتر لے گئے۔ ظہیر بابر امروز اخبار کے ایڈیٹر تھے، بھائی سیدھے ظہیر بابر کے کمرے میں گئے۔
ظہیر بابر، خالد احمد کے بہنوئی اور معروف ادیبہ خدیجہ مستور کے شوہر تھے۔ بھائی جالب نے ظہیر بابر سے کہا ''یہ میرا چھوٹا بھائی ہے، مگر نالائق ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ میٹرک میں فیل ہے۔ آپ ذرا گزٹ میں دیکھ کر اس کا نتیجہ بتا دیں۔'' میرے بارے میں تاثر کو ظہیر بابر نے بھی قبول کرتے ہوئے، اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے مجھے گھورتے ہوئے درشت لہجے میں کہا ''میاں! اپنا ایڈمٹ کارڈ نکالو۔'' میں نے ایڈمٹ کارڈ ان کے سامنے رکھ دیا۔ انھوں نے ایڈمٹ کارڈ دیکھا اور گزٹ کے ورق الٹنے پلٹنے شروع کردیے، جالب بھائی ہاتھ میں چپل پکڑے بالکل تیار بیٹھے تھے۔
''بھئی جالب! تمہارا بھائی تو سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہے۔'' ظہیر بابر کے چہرے پر خوشی کے تاثرات تھے، مگر بھائی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ سو انھوں نے کہا ''بھائی! ذرا غور سے دیکھیے یہ نالائق پاس نہیں ہو سکتا۔'' جالب بھائی کی بات سن کر ظہیر بابر پھر سنجیدہ ہوگئے اور مجھے گھور کر دیکھتے ہوئے ایڈمٹ کارڈ اور گزٹ کے نتیجے کو دیکھا، ایک ایک ہندسہ ملایا اور پہلے سے زیادہ خوش ہوکر بولے۔
بھئی جالب! واقعی تمہارا بھائی سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہے''۔
''اچھا! واقعی!'' جالب بھائی کے چہرے پر بھی خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے ہاتھ میں پکڑی چپل پاؤں میں پہنی اور مجھے گلے لگالیا۔ بھائی جالب اس روز کہیں نہیں گئے۔ راستے سے مٹھائی خریدی اور گھر والوں کے ساتھ میری کامیابی کی خوشی منائی۔
1964 میں یقیناً خالد احمد بھی کسی کالج میں پڑھ رہے ہوں گے۔ میں بھی میٹرک کے بعد لاہور چھوڑ کر کراچی چلا آیا اور سیلف میڈ کراچی کی روایت کے مطابق صبح کلرکی اور شام کو کالج، بس یونہی اپنے اپنے سفر میں گم، کہیں دور میں، کہیں دور تم، چلے جا رہے تھے جدا جدا کہ اچانک خالد احمد سے پاک ٹی ہاؤس لاہور میں ملاقات ہوگئی۔
خالد احمد کی شاعری کے حوالے سے تو میں انھیں جانتا تھا۔ مختلف رسائل اور ٹی وی پر ان کا کلام بارہا سنا تھا، مگر بالمشافہ ملاقات پاک ٹی ہاؤس میں ہوئی، پینٹ شرٹ پہنے، بھرا بھرا جسم، رت جگوں کی ماری آنکھیں، اس روز بھی ان کے ساتھ شاعر نجیب احمد تھے۔ نجیب احمد سے بھی پہلی بار مل رہا تھا۔ خالد احمد نے اگلے روز مال روڈ پر ہونے والی ایک ادبی نشست میں مجھے مدعو کرلیا۔ جہاں میں نے ان کے کہنے پر اپنا افسانہ سنایا۔ پھر جب بھی لاہور جانا ہوتا تو خالد احمد سے ملاقات ضرور ہوتی۔ کبھی واپڈا ہاؤس کہ جہاں وہ ملازم تھے یا مال روڈ کے کسی ریسٹورنٹ یا پاک ٹی ہاؤس۔
دن گزرتے گئے، زندگی چلتی رہی اور میرے افسانوں کی پہلی اور ہنوز اکلوتی کتاب ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' شایع ہوگئی۔ یہ 1992 تھا۔ ہمارے بڑے بھائی حبیب جالب شدید علالت کے باعث اسپتال میں داخل تھے۔ میں نے انھیں اپنے افسانوں کی کتاب دکھائی، وہ بہت خوش ہوئے اور بولے کہ ''میں کتاب کی رونمائی کی تقریب میں آؤں گا''۔
میں نے بھائی سے کہا کہ ''نہیں، اس روز کراچی میں آپ کا داخلہ بند ہوگا، میں پدرم سلطان بود نہیں بننا چاہتا''۔ میری بات سن کر بھائی صاحب بہت زیادہ خوش ہوئے اور انھوں نے مجھے گلے لگا کر میری پیٹھ تھپتھپائی اور پھر ''نہ وہ سورج نکلتا ہے'' کی صدارت ہاجرہ مسرور نے کی۔ ہاجرہ مسرور! خالد احمد کی بڑی بہن اور اردو ادب میں افسانے کی آبرو۔
ہاجرہ مسرور صاحبہ کو جب میں صدارت کے لیے درخواست کرنے ان کے گھر گیا تھا تو انھوں نے بھی چھٹتے ہی یہ کہا تھا کہ ''جالب صاحب کو صدارت کے لیے بلاؤ، اور میں بھی آؤں گی''۔ میں نے ہاجرہ مسرور صاحبہ کو بھی وہی کہا جو میں نے بھائی جالب سے کہا تھاکہ ''میں پدرم سلطان بود نہیں بننا چاہتا''۔
خالد احمد! اب تم سے مخاطب ہوں، سن رہے ہو، خالد احمد! پہلے میں نے ان باتوں پر غور نہیں کیا تھا، مگر آج اپنی یادیں لے کر بیٹھا ہوں، تو یادوں کی کڑیوں میں خود بخود رشتے جڑتے چلے جارہے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب بھائی حبیب جالب بس چند دنوں کے ہی مہمان رہ گئے تھے تو خالد احمد! تم نے تین نظمیں جالب صاحب کے لیے لکھی تھیں، جو احمد ندیم قاسمی صاحب کے رسالے فنون میں شایع ہوئی تھیں۔ دیکھ لو خالد! تمہاری یاد رہ جانے والی باتیں امڈھی چلی آرہی ہیں۔ بھلا میں تمہیں بھول سکتا ہوں! شاید کبھی نہیں۔
خالد احمد! ایک شاعر، جس کا شعری بیان دوسروں سے مختلف تھا اور وہ اپنی ہی دھن میں مست لکھتا رہا۔ اسے دنیا سمیٹنے کی بھی خواہش نہیں رہی۔ چند سال سے وہ زندگی کی بیاض نکال رہا تھا۔ بیاض خالد احمد کا ماہانہ کتاب لڑی سلسلہ ہے۔ ہو بہو خالد احمد کے مزاج اور شخصیت کا ترجمان۔
بھائی حبیب جالب کا انتقال 13 مارچ 1993 کو لاہور کے ایک اسپتال میں ہوا تھا۔ خالد احمد نے مجھے تعزیت کا خط لکھا۔ مجھے مخاطب کرتے ہوئے دراصل خالد احمد نے جالب صاحب پر ایک بھرپور مضمون لکھ دیا تھا اور اس کا یہ خط میں نے اپنی ضخیم کتاب (صفحات 1200) ''میں طلوع ہورہا ہوں'' میں من و عن شایع کرکے محفوظ کردیا ہے۔ خالد احمد کے خط سے اقتباس پیش کرتا ہوں۔ ''آپ کی بے پایاں محبتوں کے خزینے موصول ہوئے تو رات بھر انھیں پڑھتا رہا اور صبح ہوگئی تو دفتر گیا۔
واپس آیا تو سو گیا، رات دس بجے جاگا۔ گھر سے نکلا، دوستوں سے ملا اور رات بھر پھر وہی وظیفہ رہا۔ تین راتوں میں ''گھر کی گواہی'' (راقم کی کتاب) حرف جاں کرلی، حبیب جالب آپ کے بھائی تھے، میرے آئیڈیل تھے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب اور ہمارے محسن نبی اکرم کے طفیل حبیب جالب مرحوم، مشتاق مبارک مرحوم، ان کے والدین کو اپنے جوار رحمت میں بلند تر درجات سے نوازے (آمین)۔ آپ کا خاندان محنت کشوں اور محنت کشوں سے محبت کرنے والوں کا خاندان ہونے کے ساتھ ساتھ اﷲ کے نیک بندوں کا خاندان ہے اور میرے ایمان کے عین مطابق اﷲ کے نیک بندوں کی اولاد سے ہی ایسے لوگ اٹھتے ہیں جو اﷲ کے بندوں کے حقوق کے لیے اور ان کے حقوق کی گواہی کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں ۔ حبیب جالب علیہ الرحمہ ایسے ہی خاندان کا چراغ تھے اور یہ چراغ آئینہ دہر میں ہمیشہ جھلملاتا رہے گا۔ انشاء اﷲ (24 جولائی 1995)''۔
خالد احمد! خدا تمہاری مغفرت کرے (آمین)۔
(4 اپریل 2013 خالد احمد کی یاد میں ہونے والے تعزیتی ریفرنس، منعقدہ آرٹس کونسل کراچی میں پڑھا گیا)