قندوز کے بچے بھی اپنے ہیں
ان کی ماؤں نے صبح ان کو نہلا دھلا کر سفید براق کپڑوں میں کسی دلہا کی طرح سجاکر روانہ کیا ہوگا۔
قندوز کا نوحہ نیا کب ہے؟ 26 اپریل2015 سے ہی افغان حکومت اور طالبان یہاں دست بہ گریباں ہیں۔ طالبان نے کئی علاقوں کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے کر یہاں فتح کے جھنڈے گاڑے، انھیں پیچھے دھکیلنے کے لیے اکثر وبیشتر افغان فوج چڑھائی کرتی رہتی ہے۔ لیکن اس بار مدرسہ ہاشمیہ کی تقریب دستار بندی میں جو انسانی المیہ وقوع پذیر ہوا، اس کے بعد الفاظ ختم اور زبانیں گنگ ہیں۔ کیا ہوا؟ کس نے کیا؟
ان سوالات کا جواب مل بھی جائے تو کیا حاصل۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ان سانحات کے بعد میں ہمیشہ سائنسی ترقی سے شکوہ کناں ہوجاتی ہوں کہ اس کے طفیل یہ درد بھرے مناظر ہماری نظروں سے ہوتے ہوئے سینے میں جا کے چبھ جاتے ہیں۔ ایسے کتنے ہی سانحات کی ویڈیوز لرزتی اور بھیگتی پلکوں کے سائے میں دیکھ چکی ہوں لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ دہشت اور خوف اس قدر حاوی رہا کہ غیردانستہ طور پر موبائل کی اسکرین پر انگلیوں کی جھری بنا کر یہ خونی مناظر بہ مشکل دیکھ پائی ہوں۔
کہا جارہا ہے کہ یہ حملہ اہم طالبان کمانڈرز کے خلاف آپریشن کا ایک حصہ تھا، لیکن ہاتھیوں کی جنگ میں جو ننھی کلیاں مسلی گئیں ان کا حساب کون دے گا؟ ان معصوم بچوں کی نرم مسکراہٹ کہیں سے بھی ان کے دہشت گرد ہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر رہی۔ حملے سے پہلے ان کے چہرے کھلکھلا رہے تھے۔ وہ سند ملنے پر ایسے ہی خوش تھے جیسے ہمارے اور آپ کے بچے اپنے رزلٹ ڈے پر خوشی سے ہلکان ہوتے ہیں۔
ان کی ماؤں نے صبح ان کو نہلا دھلا کر سفید براق کپڑوں میں کسی دلہا کی طرح سجاکر روانہ کیا ہوگا، تقریب میں فخر سے سر اٹھائے ان بچوں کے باپ اور بھائی بھی بیٹھے ہوں گے۔ ننھے بچوں کی بڑی بڑی آنکھوں میں دیپ جل رہے ہوں گے، مائیں ان کا ماتھا چومنے کو گھروں میں بے تاب منتظر ہوں گی۔ لیکن افسوس! گھروں کو وہ زندہ سلامت نہیں پہنچ سکے۔
میں کتنی ہی دیر ویڈیو میں بچوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے درمیان طالبان کمانڈروں کو کھوجتی رہی لیکن مردہ جسموں سے بہتا لہو اور موت کے کرب سے کھلی رہ جانے والی آنکھیں تو نئی کہانی سنا رہی تھیں۔ لیکن اس کہانی میں صرف منظر ہی نیا تھا، پلاٹ تو وہی پرانا تھا۔ ایک بار پھر ہمارے بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ لاشوں پر جشن منایا گیا۔
غلبے اور تسلط کی دیرینہ خواہش کی تکمیل میں کلیوں کو مسل کر افغانستان کو ایک قدم اور پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ معصوم آرزوئیں بین الاقوامی سیاست کی نذر ہوئی ہیں۔ مذہبی منافرت اور انتہاپسندی نے ماؤں کی کوکھ پھر اجاڑی ہے۔ فضا سے پھینکے گئے بموں سے صرف عام شہری اور بچے ہی نہیں جل کر راکھ ہوئے بلکہ افغانستان میں قیام امن کے سارے خوب صورت خواب بھی خاکستر ہوئے ہیں۔
دنیا کے کسی گوشے میں تو ماتم ہوا تو صد افسوس! انسانیت کی بدترین رسوائی پر وقت کے فرعونوں کے تو چہرے ہی کھل بھی اٹھے۔ بین الاقوامی طاقتوں اور مذہبی انتہاپسندی کے درمیان بچوں کو پستا دیکھ کر مجھے گئے وقتوں کے نمرود، فرعون، چنگیز اور ہٹلر یاد آگئے۔ کتنی ہی ایسی ہولناک جنگیں میرے ذہن میں تازہ ہوگئیں جن میں بچے بطور خاص نشانہ بنائے گئے۔ کبھی بچوں کو نیزوں میں پرویا گیا، کبھی بھٹیوں میں ڈال کر بھونا گیا، کبھی ماؤں کی گودوں سے چھین کر سمندر برد کیا گیا۔
کبھی بچوں کو پاؤڈر منکی powder monkey کے طور جنگ کا حصہ بنایا گیا، کہیں یہودی بچوں کا خون حلال کیا گیا تو کہیں مسلمان بچوں کا گوشت۔ لیکن یہ دور نیا ہے۔ اب نیزے اور بھٹیاں کہاں! اب تو فضا میں تیرتے ہوئے ہاتھی آگ اگلتے ہیں اور چٹکیوں میں ہی سب جلا کر بھسم کر دیتے ہیں۔
شام، عراق، افغانستان سمیت دنیا کے دیگر جنگی خطوں میں بچوں کی ہلاکتوں کا کوئی جواز پیش ہی نہیں کیا جاسکتا۔ جنگ بذات خود بری چیز ہے لیکن میرے نزدیک اس کا سب سے خطرناک پہلو بچوں کا قتل عام ہے۔ قندوز کے سانحے پر دنیا کے کتنے ہی اخبارات کی سرخیاں پڑھ ڈالیں سب نےimmoral کہہ کر خبرنگاری کا فرض تو پورا کردیا لیکن انسانیت کا حق کہاں ادا کیا؟
قندوز کے سانحے کی تصاویر اور بچوں کے قتل عام کی یہ سرخیاں پوری دنیا کے عالموں اور دانشوروں کے سامنے روتے ہوئے پوچھ رہی ہیں کہ اتنے بڑے سانحے کو صرف غیراخلاقی قرار دے کر کیا بری الذمہ ہوا جا سکتا ہے؟
جینوا کنوینشن میں واضح طور پر درج ہے کہ جنگوں میں بیماروں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو یا کسی ایسے مقام کو نشانہ بنانا جنگی جرم ہے جہاں عام شہری بھی موجود ہوں۔ یہاں تک کہ کم عمر بچوں کو بہ طور جنگجو بھی بھرتی کرنے کی بھی سختی سے ممانعت ہے۔ لیکن انسان جب بھیڑیا بنتا ہے تو سارے قوانین بھاڑ میں جھونک دیے جاتے ہیں اور ان کی اہمیت ردی کے ٹکڑوں سے زیادہ کچھ قرار نہیں پاتی۔ اور پھر جب دنیا سے ساری اخلاقی اقدار ہی ایک ایک کرکے روٹھ رہی ہوں تو جنگی اخلاقیات کی کیا بات کی جائے!! کہ جنگ تو ماسوائے تباہی اور بربادی کے کچھ ہے ہی نہیں۔
بوسنیا، کمبوڈیا، صومالیہ، روانڈا، افغانستان، عراق اور دنیا بھر میں جو بھی ممالک جنگوں کی لپیٹ میں آئے وہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد جان سے گئی۔ بچوں کا قتل کرنے کے پس پردہ مقصد معاشرے کے بڑوں کو دباؤ میں لینا ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر جگہ بچوں کا استیصال باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات تو پوری پوری نسلیں تصادم کے سائے میں پروان چڑھتی ہیں اور جو بچے مرنے سے بچ بھی جاتے ہیں وہ خوراک، ادویات اور پانی کی قلت کے باعث مُردوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی کی بات کریں تو دنیا کے تمام جنگی خطوں میں مجموعی طور پر دو ملین بچے مار دیے گئے، چار سے پانچ ملین بچے کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہوئے، دو ملین بے گھر، ایک ملین سے زاید یتیم اور دس ملین بچے جنگوں کی ہولناکیوں کے باعث نفسیاتی عوارض کا شکار ہوئے۔ لہٰذا عالمی شاطروں کی اس بات پر کیسے ایمان لائیں کہ انھوں نے پوری دنیا میں جنگیں سرکشوں کو لگامیں ڈالنے کے لیے چھیڑ رکھی ہیں۔
اور ہمارے اس نہ ماننے کہ وجہ تو انسانی تاریخ کے وہ سیاہ پَنّے ہیں جو بتاتے ہیں کہ اٹھارویں صدی سے آج تک ہونے والی تمام جنگوں میں عام شہریوں کو ہی سب سے بڑا ہدف بنایا گیا۔ سانحہ قندوز کو دیکھتے ہوئے یقین ہو رہا ہے کہ ہر جنگ زدہ خطے کی طرح افغانستان میں بھی آنے والا سال پچھلے سے بدتر ثابت ہو رہا ہے۔ ہر سال جتنے بچے جنم لیتے ہیں اس سے دگنی تعداد میں مار دیے جاتے ہیں۔
بیٹھے بیٹھے جانے کیوں یہی خیال آرہا ہے کہ کاش دنیا بھر میں مارے جانے والے ان بچوں کے لاشوں میں جان پڑ جائے اور یہ اسی حال میں صف بستہ ہو کر بیٹھ جائیں کہ ان کے جسموں سے خون رِس رہا ہو، کسی کا ہاتھ کٹ کر لٹک رہا ہو اور کسی کے تن پر سر نہ ہو۔ وقت کے آمروں اور جابروں کے سامنے یہ ننھے لاشے اپنا نوحہ خود پڑھیں اور چلا چلا کر گائیں۔۔۔ سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے، سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے۔
مگر افسوس! جس بدبو دار سماج میں ہم سانس لیتے ہیں وہاں تو جنگل جیسا بھی کوئی قانون نہیں۔ یہاں شیر صرف قندوز کی نہیں بلکہ دنیا بھر کی ہزاروں لاکھوں ماؤں کے بچے کھا گئے ہیںلیکن ان کا پیٹ ہے کہ بھر کے نہیں دے رہا۔ یہ دکھیاری مائیں اجڑی کوکھوں پر آنچل پھیلائے آسمان کو تک رہی ہیں اور پکار رہی ہیں، خداوند! جلیل ومعتبر! دانا و بینا منصف اکبر۔۔۔ مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر۔
ان سوالات کا جواب مل بھی جائے تو کیا حاصل۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ان سانحات کے بعد میں ہمیشہ سائنسی ترقی سے شکوہ کناں ہوجاتی ہوں کہ اس کے طفیل یہ درد بھرے مناظر ہماری نظروں سے ہوتے ہوئے سینے میں جا کے چبھ جاتے ہیں۔ ایسے کتنے ہی سانحات کی ویڈیوز لرزتی اور بھیگتی پلکوں کے سائے میں دیکھ چکی ہوں لیکن ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ دہشت اور خوف اس قدر حاوی رہا کہ غیردانستہ طور پر موبائل کی اسکرین پر انگلیوں کی جھری بنا کر یہ خونی مناظر بہ مشکل دیکھ پائی ہوں۔
کہا جارہا ہے کہ یہ حملہ اہم طالبان کمانڈرز کے خلاف آپریشن کا ایک حصہ تھا، لیکن ہاتھیوں کی جنگ میں جو ننھی کلیاں مسلی گئیں ان کا حساب کون دے گا؟ ان معصوم بچوں کی نرم مسکراہٹ کہیں سے بھی ان کے دہشت گرد ہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر رہی۔ حملے سے پہلے ان کے چہرے کھلکھلا رہے تھے۔ وہ سند ملنے پر ایسے ہی خوش تھے جیسے ہمارے اور آپ کے بچے اپنے رزلٹ ڈے پر خوشی سے ہلکان ہوتے ہیں۔
ان کی ماؤں نے صبح ان کو نہلا دھلا کر سفید براق کپڑوں میں کسی دلہا کی طرح سجاکر روانہ کیا ہوگا، تقریب میں فخر سے سر اٹھائے ان بچوں کے باپ اور بھائی بھی بیٹھے ہوں گے۔ ننھے بچوں کی بڑی بڑی آنکھوں میں دیپ جل رہے ہوں گے، مائیں ان کا ماتھا چومنے کو گھروں میں بے تاب منتظر ہوں گی۔ لیکن افسوس! گھروں کو وہ زندہ سلامت نہیں پہنچ سکے۔
میں کتنی ہی دیر ویڈیو میں بچوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے درمیان طالبان کمانڈروں کو کھوجتی رہی لیکن مردہ جسموں سے بہتا لہو اور موت کے کرب سے کھلی رہ جانے والی آنکھیں تو نئی کہانی سنا رہی تھیں۔ لیکن اس کہانی میں صرف منظر ہی نیا تھا، پلاٹ تو وہی پرانا تھا۔ ایک بار پھر ہمارے بچوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ لاشوں پر جشن منایا گیا۔
غلبے اور تسلط کی دیرینہ خواہش کی تکمیل میں کلیوں کو مسل کر افغانستان کو ایک قدم اور پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ معصوم آرزوئیں بین الاقوامی سیاست کی نذر ہوئی ہیں۔ مذہبی منافرت اور انتہاپسندی نے ماؤں کی کوکھ پھر اجاڑی ہے۔ فضا سے پھینکے گئے بموں سے صرف عام شہری اور بچے ہی نہیں جل کر راکھ ہوئے بلکہ افغانستان میں قیام امن کے سارے خوب صورت خواب بھی خاکستر ہوئے ہیں۔
دنیا کے کسی گوشے میں تو ماتم ہوا تو صد افسوس! انسانیت کی بدترین رسوائی پر وقت کے فرعونوں کے تو چہرے ہی کھل بھی اٹھے۔ بین الاقوامی طاقتوں اور مذہبی انتہاپسندی کے درمیان بچوں کو پستا دیکھ کر مجھے گئے وقتوں کے نمرود، فرعون، چنگیز اور ہٹلر یاد آگئے۔ کتنی ہی ایسی ہولناک جنگیں میرے ذہن میں تازہ ہوگئیں جن میں بچے بطور خاص نشانہ بنائے گئے۔ کبھی بچوں کو نیزوں میں پرویا گیا، کبھی بھٹیوں میں ڈال کر بھونا گیا، کبھی ماؤں کی گودوں سے چھین کر سمندر برد کیا گیا۔
کبھی بچوں کو پاؤڈر منکی powder monkey کے طور جنگ کا حصہ بنایا گیا، کہیں یہودی بچوں کا خون حلال کیا گیا تو کہیں مسلمان بچوں کا گوشت۔ لیکن یہ دور نیا ہے۔ اب نیزے اور بھٹیاں کہاں! اب تو فضا میں تیرتے ہوئے ہاتھی آگ اگلتے ہیں اور چٹکیوں میں ہی سب جلا کر بھسم کر دیتے ہیں۔
شام، عراق، افغانستان سمیت دنیا کے دیگر جنگی خطوں میں بچوں کی ہلاکتوں کا کوئی جواز پیش ہی نہیں کیا جاسکتا۔ جنگ بذات خود بری چیز ہے لیکن میرے نزدیک اس کا سب سے خطرناک پہلو بچوں کا قتل عام ہے۔ قندوز کے سانحے پر دنیا کے کتنے ہی اخبارات کی سرخیاں پڑھ ڈالیں سب نےimmoral کہہ کر خبرنگاری کا فرض تو پورا کردیا لیکن انسانیت کا حق کہاں ادا کیا؟
قندوز کے سانحے کی تصاویر اور بچوں کے قتل عام کی یہ سرخیاں پوری دنیا کے عالموں اور دانشوروں کے سامنے روتے ہوئے پوچھ رہی ہیں کہ اتنے بڑے سانحے کو صرف غیراخلاقی قرار دے کر کیا بری الذمہ ہوا جا سکتا ہے؟
جینوا کنوینشن میں واضح طور پر درج ہے کہ جنگوں میں بیماروں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو یا کسی ایسے مقام کو نشانہ بنانا جنگی جرم ہے جہاں عام شہری بھی موجود ہوں۔ یہاں تک کہ کم عمر بچوں کو بہ طور جنگجو بھی بھرتی کرنے کی بھی سختی سے ممانعت ہے۔ لیکن انسان جب بھیڑیا بنتا ہے تو سارے قوانین بھاڑ میں جھونک دیے جاتے ہیں اور ان کی اہمیت ردی کے ٹکڑوں سے زیادہ کچھ قرار نہیں پاتی۔ اور پھر جب دنیا سے ساری اخلاقی اقدار ہی ایک ایک کرکے روٹھ رہی ہوں تو جنگی اخلاقیات کی کیا بات کی جائے!! کہ جنگ تو ماسوائے تباہی اور بربادی کے کچھ ہے ہی نہیں۔
بوسنیا، کمبوڈیا، صومالیہ، روانڈا، افغانستان، عراق اور دنیا بھر میں جو بھی ممالک جنگوں کی لپیٹ میں آئے وہاں بچوں کی ایک بڑی تعداد جان سے گئی۔ بچوں کا قتل کرنے کے پس پردہ مقصد معاشرے کے بڑوں کو دباؤ میں لینا ہوتا ہے۔ اسی لیے ہر جگہ بچوں کا استیصال باقاعدہ منصوبہ بندی سے کیا جاتا ہے۔ اکثر اوقات تو پوری پوری نسلیں تصادم کے سائے میں پروان چڑھتی ہیں اور جو بچے مرنے سے بچ بھی جاتے ہیں وہ خوراک، ادویات اور پانی کی قلت کے باعث مُردوں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
گزشتہ ایک دہائی کی بات کریں تو دنیا کے تمام جنگی خطوں میں مجموعی طور پر دو ملین بچے مار دیے گئے، چار سے پانچ ملین بچے کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہوئے، دو ملین بے گھر، ایک ملین سے زاید یتیم اور دس ملین بچے جنگوں کی ہولناکیوں کے باعث نفسیاتی عوارض کا شکار ہوئے۔ لہٰذا عالمی شاطروں کی اس بات پر کیسے ایمان لائیں کہ انھوں نے پوری دنیا میں جنگیں سرکشوں کو لگامیں ڈالنے کے لیے چھیڑ رکھی ہیں۔
اور ہمارے اس نہ ماننے کہ وجہ تو انسانی تاریخ کے وہ سیاہ پَنّے ہیں جو بتاتے ہیں کہ اٹھارویں صدی سے آج تک ہونے والی تمام جنگوں میں عام شہریوں کو ہی سب سے بڑا ہدف بنایا گیا۔ سانحہ قندوز کو دیکھتے ہوئے یقین ہو رہا ہے کہ ہر جنگ زدہ خطے کی طرح افغانستان میں بھی آنے والا سال پچھلے سے بدتر ثابت ہو رہا ہے۔ ہر سال جتنے بچے جنم لیتے ہیں اس سے دگنی تعداد میں مار دیے جاتے ہیں۔
بیٹھے بیٹھے جانے کیوں یہی خیال آرہا ہے کہ کاش دنیا بھر میں مارے جانے والے ان بچوں کے لاشوں میں جان پڑ جائے اور یہ اسی حال میں صف بستہ ہو کر بیٹھ جائیں کہ ان کے جسموں سے خون رِس رہا ہو، کسی کا ہاتھ کٹ کر لٹک رہا ہو اور کسی کے تن پر سر نہ ہو۔ وقت کے آمروں اور جابروں کے سامنے یہ ننھے لاشے اپنا نوحہ خود پڑھیں اور چلا چلا کر گائیں۔۔۔ سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے، سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے۔
مگر افسوس! جس بدبو دار سماج میں ہم سانس لیتے ہیں وہاں تو جنگل جیسا بھی کوئی قانون نہیں۔ یہاں شیر صرف قندوز کی نہیں بلکہ دنیا بھر کی ہزاروں لاکھوں ماؤں کے بچے کھا گئے ہیںلیکن ان کا پیٹ ہے کہ بھر کے نہیں دے رہا۔ یہ دکھیاری مائیں اجڑی کوکھوں پر آنچل پھیلائے آسمان کو تک رہی ہیں اور پکار رہی ہیں، خداوند! جلیل ومعتبر! دانا و بینا منصف اکبر۔۔۔ مرے اس شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی قانون نافذ کر۔