سیاسی وفاداریاں کی تبدیلی کا عمل
مسئلہ محض اسٹیبلیشمنٹ کا ہی نہیں خود سیاسی ماحول کی تبدیلی اور حکمران طبقات کی داخلی کمزوریوں سے بھی جڑا ہوتا ہے۔
پاکستان کی مجموعی سیاست کا تجزیہ کیا جائے تو وہ جماعتی، نظریاتی، اصولی ، اخلاقی ، جمہوری اور قانون کی حکمرانی سمیت انصاف کے بنیادی اصولوں کے بجائے افراداور ذاتی مفادات کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔حالیہ زمانہ نظریاتی اور دیوانگی کی سیاست کا نہیں بلکہ ایک کاروباری او رمفاداتی سیاست کے ساتھ جڑ کر رہ گیا ہے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں جو لوگ نظریاتی اور اصولی سیاست کے علمبردار ہیں ان کے لیے یہ سیاسی ماحول گھٹن ، بدبودار اور محدود ہوکر رہ گیا ہے ۔ جو چیز بچی ہے وہ یہ ہی ہے کہ سیاسی لوگوں کو اپنے شوق کے لیے حکمران اور طاقت ور طبقات کی سیاسی غلامی کرنا پڑتی ہے، اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو واحد راستہ ان کے لیے سیاسی استحصال ، انتقام او رلاتعلقی کا رہ جاتا ہے ۔
بدقسمتی سے اس معاشرے میں جمہوریت ، اصول، نظریات، عقائد،سوچ کو سیاسی جماعتوں او ران کی خاندانی قیادتوں نے '' بطور ہتھیار '' استعمال کیا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ یہاں جمہوریت کمزور اور سیاسی نظام میں انتشار سمیت استحصال کی سیاست کو بالادستی حاصل ہے ۔
2108کے انتخابات کے تناظر میں بڑے پیمانے پر ہمیں سیاسی جماعتوں میں ارکان اسمبلی کی وفاداریوں کی تبدیلی کا کھیل نمایاں نظر آرہا ہے ۔ اس کھیل میں اس وقت سب سے زیادہ پریشانی مسلم لیگ)ن(اوراس کے قائد نواز شریف سمیت ان کی جماعت میں دیکھی جاسکتی ہے ۔ ان کے بقول اسٹیبلیشمنٹ کی مدد سے ماضی کا کھیل دوبارہ شروع کردیا گیا ہے ۔
اس کا مقصد بڑی سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کرنا ، کمزور کرنا اور ان کی مقبولیت کو کم کرنے سمیت اقتدار کے کھیل سے بے دخلی سے جڑا ہوا ہے ۔ بات تو سچ ہے لیکن یہ بھی حققیت ہے کہ ماضی میں بھی اسٹیبلیشمنٹ نے ایسا کھیل کھیلا لیکن وہ نواز شریف کے حق میں تھا، یوں اگر وہی پرانا کھیل آج نواز شریف کے خلاف کھیلا جائے تو یہ جمہوریت مخالف کھیل سمجھا جائے گا ۔
سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی میں یقینی طور پر اسٹیبلیشمنٹ کے فیکٹر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔یہ کھیل ماضی میں بھی شدت کے ساتھ کھیلا جاتا رہا ہے ۔لیکن یہ آدھا سچ ہے ، مکمل سچ یہ بھی ہے کہ ہمارا سیاسی نظام بہت کمزور ہے ۔ اس کمزوری کی وجہ سے سیاسی جماعتوں میں مفاداتی طبقات کی اجارہ داری ہوتی ہے ۔ اس لیے سیاسی جماعتوں میں ارکان اسمبلیوں کی مجموعی سیاست پر نظر ڈالیں تو اس میں جمہوریت سے زیادہ طاقت کے کھیل کو بالادستی ہوتی ہے۔
جب سیاسی لوگ وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں تو ان کے سامنے چار عوامل ہوتے ہیں ۔ اول، وہ دیکھتے ہیں کہ انتخابات سے قبل سیاسی لہر کا رخ کس کے حق میں ہے او رکس کی مخالفت میں ۔ دوئم دیکھا جاتا ہے کہ طاقت ور فریقین یعنی اسٹیبلیشمنٹ کی سیاسی حمایت کس کے ساتھ ہے او رکس کی مخالفت میں ہے ۔
سوئم اگر کسی ایک فرد یا خاندان کو ایک جماعت سیاسی طور پر ٹکٹوں کی تقسیم میں ایڈجسٹ نہیں کرتی تو وہ کسی او رکے پاس جاکر اپنے لیے محفوظ راستہ تلاش کرتا ہے۔ چہارم اگر اسے لگے کہ وہ جس جماعت کے ساتھ کھڑا ہے اس کی جیت کے امکانات کم ہیں تو وہ وفاداری تبدیل کرتا ہے ۔
2008کے انتخابات کا تجزیہ کریں تو مسلم لیگ )ق(سے جتنی بڑی تعداد میں لوگوںنے اپنی وفاداری تبدیل کرکے نواز شریف کا ساتھ دیا ، وہ مفاداتی کھیل ہی تھا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نواز شریف جنرل مشرف کی باقیات پر بڑا ماتم کرتے ہیں ۔لیکن طاقت کے کھیل میں برتری کے لیے انھوں نے جنرل مشرف کی باقیات کو اپنی سیاسی گود میں لینے کا عمل بخوشی کیا تھا ۔حالانکہ نواز شریف جانتے تھے کہ یہ لوگ محض اقتدار کے کھلاڑی ہیں ، لیکن ان ہی کے ساتھ مل کر سمجھوتہ کرنا ان کی مجبوری بن گیا تھا۔
اب جیسے ہی 2018میں سیاسی ماحول تبدیل ہورہا ہے تو مسلم لیگ میں موجود حلقہ جاتی بنیاد پر اپنی ترجیحات طے کرنے والے افراد کو محسوس ہورہا ہے کہ اب سیاسی فضا نواز شریف کے حق میں نہیں ہے اور اب ہمیں نئی سیاسی کروٹ لینا ضروری ہے۔
اس لیے مسئلہ محض اسٹیبلیشمنٹ کا ہی نہیں خود سیاسی ماحو ل کی تبدیلی اور حکمران طبقات کی داخلی کمزوریوں سے بھی جڑا ہوتا ہے ۔نواز شریف کا جو بیانیہ اداروں سے ٹکراو سے جڑا ہوا ہے وہ تو ان طاقت ور طبقات کے حق میں نہیں اور وہ اسی سے گریز کرنے کو ہی اپنی سیاسی بقا سمجھتے ہیں۔یہ حال پیپلز پارٹی کا بھی ہے ۔ پنجاب میں اس کی سیاسی پوزیشن اس حد تک کمزور ہے کہ اب خود پیپلزپارٹی کا جیالا بھی اپنی ہی جماعت سے لاتعلقی اختیار کرچکا ہے ۔
تحریک انصاف کے سامنے بھی مسئلہ اصولی نہیں بلکہ وہ بھی ماضی کے انتخابی تجربے کی بنیاد پر طاقت ور افراد کی تلاش میں ہیں، تاکہ وہ انتخابی عمل جیت کراقتدار کی سیاست کو اپنے حق میں ہموا رکرسکیں ۔یہ بااثر افراد کے سامنے محض اقتدار کا کھیل ہوتا ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ حالات کو سامنے رکھ کر اپنی وفاداری کی تبدیلی کے عمل کو کوئی بڑا سیاسی گناہ نہیں سمجھتے ۔ اگر واقعی سیاسی قیادتوں نے سیاسی جماعتوں کو مضبوط بنایا ہوتا او رموسم کی تبدیلی سے بدلنے والے لوگوں سے دوری اختیار کرکے نظریاتی ساتھیوں پر انحصار کیا جاتا تو آج سیاسی قیادتوں اور جماعتوں کی صورتحال قدرے بہتر ہوتی۔
اب سابق وزیر اعظم نواز شریف پارٹی چھوڑنے والوں کو جمہوریت دشمن ، پارٹی کے غیر وفاداراور ان کے بقول یہ لوگ سیاست کو بدنام کرتے ہیں کہ سیاسی طعنے دے رہے ہیں ، تو ان کی بے بسی پر دکھ ہوتا ہے ۔ کاش وہ خود بے اصولی سیاست کے مرتکب نہ ہوتے۔
اگر واقعی ہم نے سیاسی نظام کو مضبوط ، جمہوری اور شفاف بنانا ہے تو لوگوں کو سیاسی جماعتوں کے داخلی معاملات، فیصلہ سازی اور قیادت کے آمرانہ معاملات کو چیلنج کرنا ہوگا۔ خود سیاسی قیادتوں بالخصوص عمران خان کو بھی سمجھنا چاہیے کہ محض طاقت وریا electableکی بنیاد پر انتخاب تو جیتا جاسکتا ہے ، مگر نظام کی تبدیلی کا عمل بہت پیچھے رہ جاتا ہے، کاش ہمارے سامنے افرادکے مقابلے میں نظام کی تبدیلی کے عمل کو فوقیت حاصل ہوتی تو آج ہمارا سیاسی نظام لوگوں میں اپنی سیاسی ساکھ قائم کرسکتا تھا ۔