کوئی خوش فہمی میں نہ رہے
آنے والے انتخابات ہی ملک کے مستقبل کا تعین کریں گے جس کے لیے الیکشن کمیشن کی چھلنی حرکت میں آچکی ہے.
الیکشن کمیشن نے پہلے ہی ارکان پارلیمان کو متنبہ کردیا تھا کہ اگر انھوں نے اپنی تعلیمی اسناد کی تصدیق نہ کرائی تو انھیں جعلی ڈگری کا حامل سمجھا جائے گا اور ان کے خلاف فوجداری قوانین کے تحت کارروائی بھی کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے لکھے گئے خط میں واضح کردیا گیا تھا کہ ارکان پارلیمان ہائر ایجوکیشن کمیشن سے اپنی اسناد کی تصدیق میں مسلسل تین سال سے لیت و لعل سے کام لے رہے ہیں ۔
ملک میں شفاف الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے متعدد فیصلے کیے ہیں جن میں متفقہ ضابطہ اخلاق کے علاوہ امیدواروں کی اہلیت کے بارے میں اقدامات بھی شامل ہیں ۔ یہ تو پہلے ہی طے کیا جاچکا ہے کہ ٹیکس نادہندگان اور بینکوں سے قرضے لے کر واپس نہ کرنے والوں کو نااہل قرار دے دیا جائے گا بلکہ اب تو یہ اطلاع بھی آگئی ہے کہ اسکروٹنی کے اتنے سخت مراحل سے گزرکرانتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدوار پر اگر بعد میں بھی کوئی بدعنوانی ثابت ہوگئی تو وہ اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ وہ پارلیمان کا رکن بن گیا ہے اس لیے اس کے خلاف تادیبی کارروائی نہیں کی جاسکے گی، ہرگز نہیں بلکہ اسے بھی نااہل قرار دے دیا جائے گا۔ امیدواروں کی اہلیت سے متعلق تو مزے مزے کے سوال جواب منظر عام پر آرہے ہیں۔ ریٹرننگ افسران کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے دلچسپ جواب سننے کو مل رہے ہیں ۔
آج کا نوجوان طالب علم سوال کررہا ہے کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ملک پر حکمرانی کے خواب دیکھنے والوں کو ملک اور مذہب سے متعلق بنیادی باتوں کا بھی علم نہیں ہے۔ قوم کو مفت تعلیم کے سبز باغ دکھانے والے حکمرانوں میں سے اکثر کی اپنی تعلیمی اسناد جعلی ہیں جن کے احوال جان کر ان امیدواروں کے سر تو شرم سے نہیں جھکے البتہ پوری قوم کو بین الاقوامی سطح پر شرمندگی و بدنامی کا دکھ ضرور سہنا پڑرہا ہے۔ ماضی میں بھی جعلی ڈگریوں کے حامل ارکان پارلیمان کی رکنیت ختم کی گئی اور سپریم کورٹ نے اس سے متعلق واضح فیصلہ بھی دیا جس کے تحت بہت سے ارکان کے خلاف کارروائی بھی کی گئی۔
تاہم اب بھی ایسے کتنے ہی ارکان موجود ہیں جن کی ڈگریوں کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ اقتدار پر قابض ٹولے نے ہائر ایجوکیشن کمیشن پر بھی دبائو ڈالا کہ جعلی ڈگریوں کے حوالے سے کی جانے والی کارروائی کو معطل کیا جائے، یہ حکومتی اور سیاسی دبائو ہی تھا جس کے سبب بہت سے ارکان پارلیمان کی جعلی ڈگریوں کی تصدیق کے معاملات ایک مدت تک زیر التوا بھی رکھے گئے۔
یہی نہیں بلکہ دبائو اس قدر بڑھا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن میں اس حوالے سے متعدد لوگوں کے تبادلے بھی کیے گئے۔ لیکن بکرے کے ماں کب تک خیر منائے گی کے مصداق ڈگریوں کے جعلی اور اصلی ہونے کی چھان بین کے معاملات میں تیزی آنا شروع ہوگئی ۔اب تک تو کئی سابق ارکان پارلیمان جیل کی سلاخوں کے پیچھے جاچکے ہیں اور جو باقی رہ گئے ہیں وہ بھی پریشان ہیں۔ جن لوگوں کی سزا کالعدم قرار دی گئی ان سے متعلق ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ جرم چاہے کس نوعیت کا بھی ہو، کسی بھی نیت سے کیا جائے جرم ہی رہتا ہے۔
انتخابات میں حصہ لینے اور ملک پر حکمرانی کا خواب دیکھنے والوں کے ساتھ اسکروٹنی کے ایسے سخت اقدامات اگر مستقبل میں بھی دیگر مراحل میں جاری رہے تو امید کی جاسکتی ہے کہ ایک بہتر پاکستان کی تعمیر کا عمل شروع ہوچکا ہے ورنہ تاحال تو ابتری کی صورتحال نے چاروں طرف سے وطن عزیز کو جکڑ رکھا ہے۔ اسکروٹنی کا یہ سلسلہ صحیح معنوں میں جاری و ساری رہے تو ہوسکتا ہے اس بار وجود میں آنے والی پارلیمان بدعنوانیوں اور بدعنوانوں سے پاک ہو۔ عوامی مسائل ، داخلی و خارجی معاملات کا حل بھی نکلے گا اور ملک بھی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے گا۔
انتخابی امیدواروں کی اسکروٹنی کا عمل صرف جعلی ڈگریوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ٹیکس نادہندگان، قرضے واپس نہ کرنے والے، بجلی، پانی اور گیس کے بل ادا نہ کرنے والوں سمیت عوام کے خون پسینے سے جمع ہونے والے ملکی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والوں کے خلاف بھی سخت سے سخت اقدامات بروئے کار لائے جارہے ہیں ۔ کسی فرد سے کوئی رعایت نہیں کی جارہی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کا کہنا بجا ہے کہ حقیقی جمہوریت کے لیے ملک کو آلودہ قیادت سے بچانا ہوگا۔
آنے والے انتخابات ہی ملک کے مستقبل کا تعین کریں گے جس کے لیے الیکشن کمیشن کی چھلنی حرکت میں آچکی ہے اور چھان پھٹک کر دیانتدار اور شفاف امیدوار لانے کی جستجو کی جارہی ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے عوام پر حکمرانی کرنے والے حکمرانوں نے اقربا پروری، کرپشن، بیروزگاری اور مہنگائی میں بے پناہ اضافہ کیا ہے جس کا لامتناہی سلسلہ اب رکنے میں ہی نہیں آرہا ہے۔ جعلی ڈگری کے حامل حکمرانوں کی ناقص کارکردگی و پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی معیشت اور قومی ادارے قرضوں کے بوجھ تلے دبے جارہے ہیں۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وطن عزیز کو اس وقت دو بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ ان میں سے ایک ملک کی سلامتی اور عوام کی زندگیاں محفوظ بنانے کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور لاقانونیت کی بلند ترین سطح کی وجہ سے خاصا سنگین ہوگیا ہے جب کہ قانون کی عملداری ہر شعبے میں کمزور نظر آتی ہے۔ دوسرے مسئلے کا تعلق معیشت یعنی ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال اور عام لوگوں سے تعلق رکھنے والے معاملات سے ہے۔ ان معاملات میں روزگار، مہنگائی، علاج معالجے، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور کئی دوسرے امور آجاتے ہیں۔
اقتصادی نظم وضبط میں ناکامی اور موثر منصوبہ بندی کے فقدان کے رجحان کے باعث اس شعبے میں کوئی واضح پالیسی عملی طور پر نظر نہیں آتی، دوسری جانب کرپشن کے زہر نے ہر شعبے میں سرائیت کرکے معیشت کو غیر معمولی نقصان سے دوچار کیا ہے۔ ایسے وقت میں الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابی قوانین کی پابندی یقینی بنانے کے لیے جو اقدامات کیے جارہے ہیں ان کی بنیاد پر یہ توقعات بے محل نہیں کہ آیندہ عام انتخابات شفاف اور غیرجانبدارانہ ہوں گے۔ تمام جماعتوں کو بھی چاہیے کہ ملکی صورتحال کے پس منظر میں انتخابی عمل کو صاف شفاف بنانے کے لیے الیکشن کمیشن سے بھرپور تعاون کریں تاکہ موجودہ نظام پر عوام کا اعتماد مستحکم ہو جو ماضی کی بعض بے قاعدگیوں کے باعث بڑی حد تک مجروح ہوا ہے۔ عوامی حلقے بھی اس بار کے عام انتخابات کو وطن عزیز کی تاریخ کے اہم انتخابات سے تعبیر کررہے ہیں۔
اب ہم سب کو خواب غفلت سے جاگنا ہوگا۔ سیاستدان ملک کو اچھی معیشت اور عوام کو محفوظ زندگی دینے کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کریں۔ خاص کر عوام کو بھی یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ انتخابات میں ووٹ اس بات کو مدنظر رکھ کر دیں کہ کونسی قیادت ملک کو بدعنوانی اور عدم تحفظ کی مہیب صورتحال سے نکالنے کا قابل عمل پروگرام اور اس پر عملدرآمد کرانے کی اہلیت رکھتی ہے کیو نکہ اب صرف اسی طرح ہم ایک محفوظ اور خوشحال پاکستان کی منزل کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔