تیسری عالمی جنگ کے خدشات
پہلے مصر، پھر عراق، لیبیا اور اب شام۔ عراق پر لگا الزام جھوٹا ثابت ہوا۔
PESHAWAR:
مشرق وسطیٰ جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ایسی جنگ جو عالمی جنگ کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ امریکا، برطانیہ ہو یا فرانس طریقہ واردات وہی ہے جو ماضی میں اختیار کیا جاتا رہا۔ برطانوی وزیراعظم تھریسامے وہی کردار ادا کررہی ہے جو ماضی میں ٹونی بلیئر کا تھا۔
عراق پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگایا گیا، اس الزام کی آڑ میں لاکھوں عراقیوں کو قتل کردیا گیا۔ ایک طرف عراق کے تیل پر قبضہ ہوا تو دوسری طرف عراقی فوجی قوت کے خاتمے سے اسرائیل محفوظ ہوا۔ خطہ عرب میں ایک ایک کرکے اسرائیل دشمن قوتوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔
پہلے مصر، پھر عراق، لیبیا اور اب شام۔ عراق پر لگا الزام جھوٹا ثابت ہوا۔اس جھوٹ کو خود امریکا برطانیہ اور ٹونی بلیئر نے تسلیم کیا۔ ٹونی بلیئر کے خلاف انکوائری بھی ہوئی کہ اس نے ناکافی کمزور ثبوت کے باوجود عراق پر مجرمانہ حملہ کرتے ہوئے امریکا کا ساتھ دیا لیکن یہ سب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہ تھا۔
اس سے کیا عراقی مظلوموں کے خون اور عراق کی تباہی بربادی کی تلافی ہوسکتی ہے۔ عراق پر حملے سے پہلے مغربی میڈیا نے عراق کے خلاف خوفناک پروپیگنڈا کیا جس کے ذریعے مغرب اور دنیا کے عوام کی اس طرح برین واشنگ کی گئی کہ عراق پر حملہ ثواب کا کام ہوگا۔
آج کل بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ جھوٹ کا ایک طومار ہے، مغربی میڈیا شام کے حوالے سے جھوٹ کو سچ بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ پروپیگنڈے کا ایک طوفان ہے جو اچھے بھلے سمجھدار باخبر انسان کی مت مار دیتا ہے، عام بے خبر سادہ لوح آدمی تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ جب خاصے پڑھے لکھے لوگ ان مغربی خبر رساں ایجنسیوں کے پروپیگنڈے کے طوفان میں پھنسے نظر آتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے گزشتہ 40 برس کی ہولناک تباہی و بربادی کے باوجود بھی کچھ نہیں سیکھا۔
مغربی خبر رساں ایجنسیاں پوری دنیا میں معلومات کے ''معتبر'' ذرایع بنا دیے گئے ہیں۔ جب کہ مسلم دنیا کی اپنی کوئی خبر رساں ایجنسی ہی نہیں۔ کیوں نہیں ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جن مسلم حکمرانوں نے اسے بنانا ہے وہ خود امریکی سامراج کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی اور موت کا دارومدار ہی اس پر ہے۔
یہ مغربی یہودی خبر رساں ایجنسیاں، جب انھوں نے کسی مسلمان ملک پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں کے درمیان مذہبی تعصبات اس شدت سے پھیلائے ہیں کہ عام مسلمان ان کے جھوٹ کو ہی سچ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے پاس اپنا کوئی ذریعہ تو ہے نہیں سچ تک پہنچنے کا۔ ویسے بھی تمام دنیا کے ذرایع ابلاغ پر بلاواسطہ یا بالواسطہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا قبضہ ہے۔
ایک عام آدمی ملکی یا خاص طور پر بین الاقوامی معاملات سے متعلق جب کوئی خبر پڑھتا یا سنتا ہے تو اس بات پر قطعاً غور نہیں کرتا کہ یہ کس مغربی ایجنسی کی طرف سے آئی ہے۔ وہ اس خبر کو اس طرح قبول کرتا ہے کہ جیسے آسمان سے نازل ہوئی ہے۔
جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ان مغربی یہودی خبر رساں ایجنسیوں کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تعصب، انتشار اور اس کے نتیجے میں تقسیم کی کیسے آبیاری کی جائے تاکہ مسلمان ایک دوسرے سے دور اور تنہا ہوں۔ یعنی جب مسلمانوں کے ایک حصے پر ظلم ہورہا ہو تو دوسرے مسلمان خاموش تماشائی ہوں یا تائید کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر قیمت اور ہر صورت ان تک سچ کی رسائی ناممکن بنا دی جائے۔
ہمارا میڈیا بھی ان مغربی اطلاعات کا اسیر ہے اور انہی کی اطلاعات کو شایع کرکے پاکستانی عوام کی رائے عامہ پر اثر انداز ہورہا ہے ۔ شامی حکومت پر الزام ہے کہ اس نے چند دن پہلے باغیوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کی جب کہ شامی حکومت اس کو صریحاً جھوٹ قرار دیتی ہے جب کہ شام اور روس نے اس عالمی دارے کو شام آنے کی دعوت دی ہے جو کیمیائی ہتھیاروں کا نگران ہے۔ لیکن اس تحقیقات سے پہلے ہی امریکی صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کے ذریعے اپنے نئے خوبصورت اور چمکدار اسمارٹ میزائل دمشق پر داغنے کی دھمکی دے دی ہے۔
پھر امریکا نے فرانس اور برطانیہ کی مدد سے کیمیائی گیس کا بہانہ بناکر براہ راست شام پر میزائیلوں سے حملہ کردیا ہے۔ کیمیائی گیس استعمال کرنے کا الزام شام پر اپریل میں لگتا ہے لیکن شامی حکومت کو سازش کی اطلاع مارچ کے وسط میں ہی مل جاتی ہے کہ دمشق کے قریب غوطہ میں موجود شامی باغی امریکی تعاون سے کیمیائی حملے کا منصوبہ تیار کررہے ہیں جس کا نشانہ غوطہ کی سویلین آبادی ہوگی تاکہ اس بہانے دمشق پر حملہ کیا جاسکے۔
یعنی امریکا کا وہی پرانا طریقہ واردات کہ زہریلی گیس کا حملہ شامی باغیوں سے کراؤ اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اس قدر جھوٹ بولو کہ لوگ اس پر ایمان لے آئیں کہ کیمیکل حملہ شامی حکومت نے کیا ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف قومی اسمبلی میں میڈ ان امریکا جہاد کے حوالے سے مسلمانوں کی تباہی کا رونا روچکے ہیں کہ مسلمان حکمران ہی دشمن کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔ حالیہ دورہ امریکا میں سعودی ولی عہد نے نہ صرف یہودی مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں بلکہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ایک ایسے راز سے پردہ اٹھایا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔
نکتے کی بات ایک اور بھی ہے ذرا غور فرمائیں۔ ادھر پاکستان کا سیاسی بحران عروج پر تو دوسری طرف شام پر امریکا حملہ۔ ماضی میں صدام کا کویت پر حملہ تو بینظیر حکومت کی چھٹی ہوگئی۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر امریکا کا انحصار ناگزیر، جمہوری قوتیں مزید کمزور، مستقبل تاریک۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔
٭... شامی جنگ فیصلہ کس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ پہلا اہم مہینہ مئی ہے۔
سیل فون: 0346-4527997
مشرق وسطیٰ جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ایسی جنگ جو عالمی جنگ کی شکل اختیار کرسکتی ہے۔ امریکا، برطانیہ ہو یا فرانس طریقہ واردات وہی ہے جو ماضی میں اختیار کیا جاتا رہا۔ برطانوی وزیراعظم تھریسامے وہی کردار ادا کررہی ہے جو ماضی میں ٹونی بلیئر کا تھا۔
عراق پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگایا گیا، اس الزام کی آڑ میں لاکھوں عراقیوں کو قتل کردیا گیا۔ ایک طرف عراق کے تیل پر قبضہ ہوا تو دوسری طرف عراقی فوجی قوت کے خاتمے سے اسرائیل محفوظ ہوا۔ خطہ عرب میں ایک ایک کرکے اسرائیل دشمن قوتوں کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔
پہلے مصر، پھر عراق، لیبیا اور اب شام۔ عراق پر لگا الزام جھوٹا ثابت ہوا۔اس جھوٹ کو خود امریکا برطانیہ اور ٹونی بلیئر نے تسلیم کیا۔ ٹونی بلیئر کے خلاف انکوائری بھی ہوئی کہ اس نے ناکافی کمزور ثبوت کے باوجود عراق پر مجرمانہ حملہ کرتے ہوئے امریکا کا ساتھ دیا لیکن یہ سب دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہ تھا۔
اس سے کیا عراقی مظلوموں کے خون اور عراق کی تباہی بربادی کی تلافی ہوسکتی ہے۔ عراق پر حملے سے پہلے مغربی میڈیا نے عراق کے خلاف خوفناک پروپیگنڈا کیا جس کے ذریعے مغرب اور دنیا کے عوام کی اس طرح برین واشنگ کی گئی کہ عراق پر حملہ ثواب کا کام ہوگا۔
آج کل بھی یہی کچھ ہورہا ہے۔ جھوٹ کا ایک طومار ہے، مغربی میڈیا شام کے حوالے سے جھوٹ کو سچ بنانے پر تلی ہوئی ہیں۔ پروپیگنڈے کا ایک طوفان ہے جو اچھے بھلے سمجھدار باخبر انسان کی مت مار دیتا ہے، عام بے خبر سادہ لوح آدمی تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔ جب خاصے پڑھے لکھے لوگ ان مغربی خبر رساں ایجنسیوں کے پروپیگنڈے کے طوفان میں پھنسے نظر آتے ہیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے گزشتہ 40 برس کی ہولناک تباہی و بربادی کے باوجود بھی کچھ نہیں سیکھا۔
مغربی خبر رساں ایجنسیاں پوری دنیا میں معلومات کے ''معتبر'' ذرایع بنا دیے گئے ہیں۔ جب کہ مسلم دنیا کی اپنی کوئی خبر رساں ایجنسی ہی نہیں۔ کیوں نہیں ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جن مسلم حکمرانوں نے اسے بنانا ہے وہ خود امریکی سامراج کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ ان کی زندگی اور موت کا دارومدار ہی اس پر ہے۔
یہ مغربی یہودی خبر رساں ایجنسیاں، جب انھوں نے کسی مسلمان ملک پر حملہ کرنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں کے درمیان مذہبی تعصبات اس شدت سے پھیلائے ہیں کہ عام مسلمان ان کے جھوٹ کو ہی سچ سمجھنے لگتا ہے۔ اس کے پاس اپنا کوئی ذریعہ تو ہے نہیں سچ تک پہنچنے کا۔ ویسے بھی تمام دنیا کے ذرایع ابلاغ پر بلاواسطہ یا بالواسطہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کا قبضہ ہے۔
ایک عام آدمی ملکی یا خاص طور پر بین الاقوامی معاملات سے متعلق جب کوئی خبر پڑھتا یا سنتا ہے تو اس بات پر قطعاً غور نہیں کرتا کہ یہ کس مغربی ایجنسی کی طرف سے آئی ہے۔ وہ اس خبر کو اس طرح قبول کرتا ہے کہ جیسے آسمان سے نازل ہوئی ہے۔
جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ان مغربی یہودی خبر رساں ایجنسیوں کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تعصب، انتشار اور اس کے نتیجے میں تقسیم کی کیسے آبیاری کی جائے تاکہ مسلمان ایک دوسرے سے دور اور تنہا ہوں۔ یعنی جب مسلمانوں کے ایک حصے پر ظلم ہورہا ہو تو دوسرے مسلمان خاموش تماشائی ہوں یا تائید کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر قیمت اور ہر صورت ان تک سچ کی رسائی ناممکن بنا دی جائے۔
ہمارا میڈیا بھی ان مغربی اطلاعات کا اسیر ہے اور انہی کی اطلاعات کو شایع کرکے پاکستانی عوام کی رائے عامہ پر اثر انداز ہورہا ہے ۔ شامی حکومت پر الزام ہے کہ اس نے چند دن پہلے باغیوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کی جب کہ شامی حکومت اس کو صریحاً جھوٹ قرار دیتی ہے جب کہ شام اور روس نے اس عالمی دارے کو شام آنے کی دعوت دی ہے جو کیمیائی ہتھیاروں کا نگران ہے۔ لیکن اس تحقیقات سے پہلے ہی امریکی صدر ٹرمپ نے ٹویٹ کے ذریعے اپنے نئے خوبصورت اور چمکدار اسمارٹ میزائل دمشق پر داغنے کی دھمکی دے دی ہے۔
پھر امریکا نے فرانس اور برطانیہ کی مدد سے کیمیائی گیس کا بہانہ بناکر براہ راست شام پر میزائیلوں سے حملہ کردیا ہے۔ کیمیائی گیس استعمال کرنے کا الزام شام پر اپریل میں لگتا ہے لیکن شامی حکومت کو سازش کی اطلاع مارچ کے وسط میں ہی مل جاتی ہے کہ دمشق کے قریب غوطہ میں موجود شامی باغی امریکی تعاون سے کیمیائی حملے کا منصوبہ تیار کررہے ہیں جس کا نشانہ غوطہ کی سویلین آبادی ہوگی تاکہ اس بہانے دمشق پر حملہ کیا جاسکے۔
یعنی امریکا کا وہی پرانا طریقہ واردات کہ زہریلی گیس کا حملہ شامی باغیوں سے کراؤ اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے اس قدر جھوٹ بولو کہ لوگ اس پر ایمان لے آئیں کہ کیمیکل حملہ شامی حکومت نے کیا ہے۔
پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف قومی اسمبلی میں میڈ ان امریکا جہاد کے حوالے سے مسلمانوں کی تباہی کا رونا روچکے ہیں کہ مسلمان حکمران ہی دشمن کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔ حالیہ دورہ امریکا میں سعودی ولی عہد نے نہ صرف یہودی مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں بلکہ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کو انٹرویو دیتے ایک ایسے راز سے پردہ اٹھایا کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے چودہ طبق روشن ہوگئے۔
نکتے کی بات ایک اور بھی ہے ذرا غور فرمائیں۔ ادھر پاکستان کا سیاسی بحران عروج پر تو دوسری طرف شام پر امریکا حملہ۔ ماضی میں صدام کا کویت پر حملہ تو بینظیر حکومت کی چھٹی ہوگئی۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر امریکا کا انحصار ناگزیر، جمہوری قوتیں مزید کمزور، مستقبل تاریک۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔
٭... شامی جنگ فیصلہ کس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ پہلا اہم مہینہ مئی ہے۔
سیل فون: 0346-4527997