چاروں صوبوں کا سیاسی منظر نامہ ایک نظر میں
اقتدار کی خوشبو سونگھنے اور جیتنے والے گھوڑے تحریک انصاف کی کشتی میں کیوں سوار نہیں ہوئے۔
PESHAWAR:
ملک کے سیاسی منظر نامہ میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ چاروں صوبوں کا منظر نامہ اپنی اپنی جگہ سیاسی طور پر مستحکم نظر آرہا ہے۔ بلوچستان میں صاف نظرا ٓرہا ہے کہ جو نئی جماعت بن گئی ہے وہ کچھ سیٹیں لے جائے گی۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی اپنی سیٹیں لیں گے۔ شاید محمود اچکزئی کی سیٹیں کم ہو جائیں۔
اس طرح بلوچستان میں اگلی حکومت بناننے کے حوالے سے اسٹبلشمنٹ کو زیادہ مشکلات درپیش نہیں ہیں۔ ویسے بھی پاک فوج نے بلوچستان میں بہت کام کیا ہے۔ بھارت اور دیگر ممالک کی تمام سازشوں کو ناکام بنانے میں پاک فوج نے بہت کام کیا ہے۔ بلاشبہ بہت کامیابیاں بھی ملی ہیں۔
فراریوں کو واپس قومی دھارے میں شامل کیا گیا ہے۔ انھیں واپس پاکستان کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ ان کو نہ صرف عام معافی دی گئی ہے بلکہ معمول کی زندگی گزارنے کے لیے رقم بھی دی گئی ہے۔ بلوچستان میں پاک فوج کی کامیابیوں کو قومی منظر نامہ میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ لیکن ان کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے۔
سندھ کا منظر نامہ بھی کافی حد تک صاف ہے۔ پیر پگاڑا نے چند وڈیروں اور جاگیرداروں کے ساتھ مل کر ایک اتحاد بنایا ہے۔ لیکن یہ اتحاد ابھی تک پیپلزپارٹی کے لیے کوئی چیلنج نہیں بن سکا ہے۔ جیتنے والے گھوڑے ابھی پیپلز پارٹی میں موجود ہیں۔
سندھ میں پیپلزپارٹی ہی بڑی طاقت ہے اور اگلے انتخابات میں اس کے لیے کوئی بڑا چیلنج نظر نہیں آرہا ہے۔ بلکہ کراچی میں ایم کیو ایم کی تقسیم کا بھی کچھ نہ کچھ فائدہ پیپلزپارٹی کو ہی ہو گا۔کراچی کے منظر نامہ کو بھی سندھ کے منظر نامہ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ بے شک ایم کیو ایم کے لوگ ایک ایک کر کے پاک سر زمین پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ لیکن کراچی کا سیاسی منظر نامہ ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ پاک سرزمین ساری سیٹیں جیت لے گی۔
کراچی کی سیٹیں کسی ایک کے پاس نہیں جا رہی ہیں۔ یہ بھی بلا شبہ پاک فوج کی بڑی کامیابی ہے کہ کراچی کو الطاف حسین کے تسلط سے آزاد کرا لیا گیا ہے ورنہ کراچی لندن کی قید میں تھا۔ اب کراچی سیاسی طور پر آزاد ہو چکا ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کراچی کی یہ آزادی کس قدر دیر پا اور پائیدا ر ہے۔
یہ ابہام بھی ابھی تک موجود ہے کہ لندن کا ووٹ بینک قائم ہے۔ لندن کی چاکنگ بھی ہو رہی ہے۔ لیکن اب لندن کے اشارے پر نہ تو کراچی بند ہو سکتا ہے اور نہ ہی کراچی کا امن خراب ہو سکتا ہے۔ پاک سرزمین کراچی میں اسی طرز پر کام کر رہی ہے جیسے 2002کے انتخابات میں پنجاب میں ق لیگ کام کر رہی تھی ۔ لیکن کیا وہ ق لیگ جیسی کامیابی حاصل کر لے گی۔ یہ سوال ابھی تک موجود ہے اور امیدیں کم ہیں۔ سب چند سیٹوں کی بات کر رہے ہیں۔
کے پی کے کا منظر نامہ بھی دلچسپ ہے۔ متحدہ مجلس عمل بن گئی ہے۔ بلا شبہ یہ ابھی تک لولی لنگڑی ہے۔ جماعت اسلامی تحریک انصاف کے ساتھ حکومت میں شامل ہے اور مولانا فضل الرحمن ن لیگ کے ساتھ شراکت اقتدار میں ہیں۔ دونوں ہی الگ الگ سیاسی دھڑوں میں بیٹھے ہیں۔ لیکن اکٹھے چلنے کی خواہش بھی دونوں کی مجبوری ہے۔ تین انتخاب الگ الگ لڑ کر دونوں کو احساس ہو گیا ہے کہ اکٹھے چلنے میں ہی برکت ہے۔ اب جب کہ عمران خان کی تحریک انصاف کے پی کے کی ایک بڑی جماعت بن چکی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگلے انتخاب میں اس جماعت کی کارکردگی کیا ہو گی۔کیا گزشتہ انتخاب جتنی سیٹیں جیتی جا سکیں گی۔ ادھر کے پی کے کی تحریک انصاف میں بغاوت بھی نظر آرہی ہے۔ یہ بغاوت کس قدر موثر اور کس قدر غیر موثر ہے یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ اے این پی کی بھی بحالی نظرا ٓرہی ہے۔ ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ اے این پی گزشتہ انتخاب کی طرح صاف ہو جائے گی ۔ اس بار اے این پی کی سیٹوں میں بھی اضافہ ہو گا۔
ن لیگ کی طرف سے امیر مقام نے بھی بہت کام کیا ہے۔ اس لیے ن لیگ کے امکانات بھی کے پی کے میں بہتر نظرا ٓرہے ہیں۔ اگر متحدہ مجلس عمل کی چند سیٹوں میں اضافہ ہو تا ہے۔ ن لیگ کی سیٹوں میں بھی اضافہ لگ رہا ہے ۔ اس سب کا نقصان عمران خان کو ہو گا۔ عمران خان کی سیٹوں میں کمی ہو گی۔
یہ کتنی ہو گی یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے لیکن کے پی کے میں عمران خان کی دوبارہ حکومت بنے گی کہ نہیں۔ یہ خود عمران خان کو بھی کلیئر نہیں ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کے پی کے کے سیاسی تناظر میں اسٹبلشمنٹ نیوٹرل ہے۔ کسی ایک جماعت کی مدد کرتی نظر نہیں آرہی۔ سب اپنے اپنے طور پر زور لگا رہے ہیں۔
اب پنجاب کی بات کریں تو پنجاب ہی اصل میدان جنگ ہے۔ پنجاب کا فیصلہ ہی پورے ملک میں چلے گا۔ پنجاب میں بھی جیتنے والے گھوڑے ابھی ن لیگ کے ساتھ ہیں۔نواز شریف کی نا اہلی اور بیانیہ کے باوجود ن لیگ کا ووٹ بینک قائم ہے۔اسٹبلشمنٹ کی ناراضی کے باوجود جیتنے والے گھوڑے ن لیگ چھوڑنے کو تیار نہیں۔جو دو چار لوگ گئے ہیں۔ وہ وہی ہیں جن کو ن لیگ سے ٹکٹ ملنے کا امکان نہیں تھا۔ جیسے گوجرانوالہ کے طارق کا حلقہ ختم ہو گیا تھا۔
اس لیے ن لیگ کے پاس ان کے لیے جگہ نہیں تھی۔ نئی مردم شماری کی وجہ سے خالد ورک کا حلقہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ ن لیگ کے پاس ان کے لیے بھی جگہ نہیں تھی۔ اس لیے ان دونوں کا تحریک انصاف جوائن کر نا ن لیگ کا کوئی نقصان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ بے شک میڈیا میں یہ آیا ہے کہ تحریک انصاف نے ن لیگ کی دو وکٹیں اڑا دی ہیں جب کہ حقیقت میں ان لوگوں کی اب ن لیگ میں جگہ نہیں تھی۔
اسی طرح چوہدری ظہیر الدین بھی ق لیگ سے گئے ہیں۔ ان کا بھی ن لیگ کو کوئی نقصان نہیں ہے۔ جہاں تک نئے بننے و الے جنوبی پنجاب محاذ کا تعلق ہے تو ان لوگوں کی ناراضی بھی کوئی نئی نہیں ہے۔ میرے لیے ان کا ن لیگ سے علیحدہ ہو جانا کوئی خبر نہیں ہے بلکہ یہ بڑی خبر ہے کہ انھوں نے تحریک انصاف کو جوائن کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
اقتدار کی خوشبو سونگھنے اور جیتنے والے گھوڑے تحریک انصاف کی کشتی میں کیوں سوار نہیں ہوئے۔ کیاانھیں اندازہ ہے کہ تحریک انصاف کو اقتدار کے لیے گرین سگنل نہیں ہے اور ان کی چند سیٹیں بہت اہم ہو جائیں گی اور یہ اپنے دروازے سب جماعتوں کے لیے کھلے رکھنا چاہتے تھے۔ تا کہ کسی سے بھی کسی بھی وقت اتحاد کیا جا سکے۔ اسی تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شدید کوشش کے باوجود بھی تحریک انصاف ابھی تک جیتنے والے گھوڑوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکی ہے۔
بے شک ان کے ساتھ وہی آیا ہے جس کو ن لیگ نے قبول نہیںکیا۔ جو پیپلزپارٹی کی تباہی کے بعد اپنا سیاسی مستقبل بند سمجھ رہے تھے۔وہی تحریک انصاف میں جا رہا ہے۔ جس کے پاس ن لیگ کا کنفرم ٹکٹ ہے وہ تحریک انصاف کی طرف نہیں دیکھ رہا ۔اسی وجہ سے پنجاب میں یہ ماحول نہیں بن ریا کہ تحریک انصاف جیت رہی ہے۔
پنجاب کی حد تک یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے مقدمات کو اگر ایک طرف کر دیں تو باقی ن لیگ پر کوئی دباؤ نظر نہیں آرہا ۔ دباؤ میں وہی نظر آرہے ہیں جنھوں نے ریڈ لائن کراس کی ہے۔ جیسے طلال چوہدری سعد رفیق، دانیال عزیز۔ان کے علاوہ باقی ن لیگ خود کو محفوظ سمجھ رہی ہے۔ کوئی بڑی بغاوت نظر نہیں آرہی۔ آپ دیکھ لیں چوہدری نثار علی خان بھی کہیں نہیں جا رہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ن لیگ کو لال جھنڈی دکھا دی گئی ہے۔ ن لیگ مقابلے میں ہے اور سخت مقابلے میں ہے۔ یہی پنجاب کا منظر نامہ ہے۔
ملک کے سیاسی منظر نامہ میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے۔ چاروں صوبوں کا منظر نامہ اپنی اپنی جگہ سیاسی طور پر مستحکم نظر آرہا ہے۔ بلوچستان میں صاف نظرا ٓرہا ہے کہ جو نئی جماعت بن گئی ہے وہ کچھ سیٹیں لے جائے گی۔ مولانا فضل الرحمٰن بھی اپنی سیٹیں لیں گے۔ شاید محمود اچکزئی کی سیٹیں کم ہو جائیں۔
اس طرح بلوچستان میں اگلی حکومت بناننے کے حوالے سے اسٹبلشمنٹ کو زیادہ مشکلات درپیش نہیں ہیں۔ ویسے بھی پاک فوج نے بلوچستان میں بہت کام کیا ہے۔ بھارت اور دیگر ممالک کی تمام سازشوں کو ناکام بنانے میں پاک فوج نے بہت کام کیا ہے۔ بلاشبہ بہت کامیابیاں بھی ملی ہیں۔
فراریوں کو واپس قومی دھارے میں شامل کیا گیا ہے۔ انھیں واپس پاکستان کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ ان کو نہ صرف عام معافی دی گئی ہے بلکہ معمول کی زندگی گزارنے کے لیے رقم بھی دی گئی ہے۔ بلوچستان میں پاک فوج کی کامیابیوں کو قومی منظر نامہ میں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ لیکن ان کی حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے۔
سندھ کا منظر نامہ بھی کافی حد تک صاف ہے۔ پیر پگاڑا نے چند وڈیروں اور جاگیرداروں کے ساتھ مل کر ایک اتحاد بنایا ہے۔ لیکن یہ اتحاد ابھی تک پیپلزپارٹی کے لیے کوئی چیلنج نہیں بن سکا ہے۔ جیتنے والے گھوڑے ابھی پیپلز پارٹی میں موجود ہیں۔
سندھ میں پیپلزپارٹی ہی بڑی طاقت ہے اور اگلے انتخابات میں اس کے لیے کوئی بڑا چیلنج نظر نہیں آرہا ہے۔ بلکہ کراچی میں ایم کیو ایم کی تقسیم کا بھی کچھ نہ کچھ فائدہ پیپلزپارٹی کو ہی ہو گا۔کراچی کے منظر نامہ کو بھی سندھ کے منظر نامہ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ بے شک ایم کیو ایم کے لوگ ایک ایک کر کے پاک سر زمین پارٹی میں شامل ہو رہے ہیں۔ لیکن کراچی کا سیاسی منظر نامہ ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ پاک سرزمین ساری سیٹیں جیت لے گی۔
کراچی کی سیٹیں کسی ایک کے پاس نہیں جا رہی ہیں۔ یہ بھی بلا شبہ پاک فوج کی بڑی کامیابی ہے کہ کراچی کو الطاف حسین کے تسلط سے آزاد کرا لیا گیا ہے ورنہ کراچی لندن کی قید میں تھا۔ اب کراچی سیاسی طور پر آزاد ہو چکا ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کراچی کی یہ آزادی کس قدر دیر پا اور پائیدا ر ہے۔
یہ ابہام بھی ابھی تک موجود ہے کہ لندن کا ووٹ بینک قائم ہے۔ لندن کی چاکنگ بھی ہو رہی ہے۔ لیکن اب لندن کے اشارے پر نہ تو کراچی بند ہو سکتا ہے اور نہ ہی کراچی کا امن خراب ہو سکتا ہے۔ پاک سرزمین کراچی میں اسی طرز پر کام کر رہی ہے جیسے 2002کے انتخابات میں پنجاب میں ق لیگ کام کر رہی تھی ۔ لیکن کیا وہ ق لیگ جیسی کامیابی حاصل کر لے گی۔ یہ سوال ابھی تک موجود ہے اور امیدیں کم ہیں۔ سب چند سیٹوں کی بات کر رہے ہیں۔
کے پی کے کا منظر نامہ بھی دلچسپ ہے۔ متحدہ مجلس عمل بن گئی ہے۔ بلا شبہ یہ ابھی تک لولی لنگڑی ہے۔ جماعت اسلامی تحریک انصاف کے ساتھ حکومت میں شامل ہے اور مولانا فضل الرحمن ن لیگ کے ساتھ شراکت اقتدار میں ہیں۔ دونوں ہی الگ الگ سیاسی دھڑوں میں بیٹھے ہیں۔ لیکن اکٹھے چلنے کی خواہش بھی دونوں کی مجبوری ہے۔ تین انتخاب الگ الگ لڑ کر دونوں کو احساس ہو گیا ہے کہ اکٹھے چلنے میں ہی برکت ہے۔ اب جب کہ عمران خان کی تحریک انصاف کے پی کے کی ایک بڑی جماعت بن چکی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اگلے انتخاب میں اس جماعت کی کارکردگی کیا ہو گی۔کیا گزشتہ انتخاب جتنی سیٹیں جیتی جا سکیں گی۔ ادھر کے پی کے کی تحریک انصاف میں بغاوت بھی نظر آرہی ہے۔ یہ بغاوت کس قدر موثر اور کس قدر غیر موثر ہے یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ اے این پی کی بھی بحالی نظرا ٓرہی ہے۔ ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ اے این پی گزشتہ انتخاب کی طرح صاف ہو جائے گی ۔ اس بار اے این پی کی سیٹوں میں بھی اضافہ ہو گا۔
ن لیگ کی طرف سے امیر مقام نے بھی بہت کام کیا ہے۔ اس لیے ن لیگ کے امکانات بھی کے پی کے میں بہتر نظرا ٓرہے ہیں۔ اگر متحدہ مجلس عمل کی چند سیٹوں میں اضافہ ہو تا ہے۔ ن لیگ کی سیٹوں میں بھی اضافہ لگ رہا ہے ۔ اس سب کا نقصان عمران خان کو ہو گا۔ عمران خان کی سیٹوں میں کمی ہو گی۔
یہ کتنی ہو گی یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے لیکن کے پی کے میں عمران خان کی دوبارہ حکومت بنے گی کہ نہیں۔ یہ خود عمران خان کو بھی کلیئر نہیں ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ کے پی کے کے سیاسی تناظر میں اسٹبلشمنٹ نیوٹرل ہے۔ کسی ایک جماعت کی مدد کرتی نظر نہیں آرہی۔ سب اپنے اپنے طور پر زور لگا رہے ہیں۔
اب پنجاب کی بات کریں تو پنجاب ہی اصل میدان جنگ ہے۔ پنجاب کا فیصلہ ہی پورے ملک میں چلے گا۔ پنجاب میں بھی جیتنے والے گھوڑے ابھی ن لیگ کے ساتھ ہیں۔نواز شریف کی نا اہلی اور بیانیہ کے باوجود ن لیگ کا ووٹ بینک قائم ہے۔اسٹبلشمنٹ کی ناراضی کے باوجود جیتنے والے گھوڑے ن لیگ چھوڑنے کو تیار نہیں۔جو دو چار لوگ گئے ہیں۔ وہ وہی ہیں جن کو ن لیگ سے ٹکٹ ملنے کا امکان نہیں تھا۔ جیسے گوجرانوالہ کے طارق کا حلقہ ختم ہو گیا تھا۔
اس لیے ن لیگ کے پاس ان کے لیے جگہ نہیں تھی۔ نئی مردم شماری کی وجہ سے خالد ورک کا حلقہ بھی ختم ہو گیا ہے۔ ن لیگ کے پاس ان کے لیے بھی جگہ نہیں تھی۔ اس لیے ان دونوں کا تحریک انصاف جوائن کر نا ن لیگ کا کوئی نقصان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ بے شک میڈیا میں یہ آیا ہے کہ تحریک انصاف نے ن لیگ کی دو وکٹیں اڑا دی ہیں جب کہ حقیقت میں ان لوگوں کی اب ن لیگ میں جگہ نہیں تھی۔
اسی طرح چوہدری ظہیر الدین بھی ق لیگ سے گئے ہیں۔ ان کا بھی ن لیگ کو کوئی نقصان نہیں ہے۔ جہاں تک نئے بننے و الے جنوبی پنجاب محاذ کا تعلق ہے تو ان لوگوں کی ناراضی بھی کوئی نئی نہیں ہے۔ میرے لیے ان کا ن لیگ سے علیحدہ ہو جانا کوئی خبر نہیں ہے بلکہ یہ بڑی خبر ہے کہ انھوں نے تحریک انصاف کو جوائن کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
اقتدار کی خوشبو سونگھنے اور جیتنے والے گھوڑے تحریک انصاف کی کشتی میں کیوں سوار نہیں ہوئے۔ کیاانھیں اندازہ ہے کہ تحریک انصاف کو اقتدار کے لیے گرین سگنل نہیں ہے اور ان کی چند سیٹیں بہت اہم ہو جائیں گی اور یہ اپنے دروازے سب جماعتوں کے لیے کھلے رکھنا چاہتے تھے۔ تا کہ کسی سے بھی کسی بھی وقت اتحاد کیا جا سکے۔ اسی تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ شدید کوشش کے باوجود بھی تحریک انصاف ابھی تک جیتنے والے گھوڑوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکی ہے۔
بے شک ان کے ساتھ وہی آیا ہے جس کو ن لیگ نے قبول نہیںکیا۔ جو پیپلزپارٹی کی تباہی کے بعد اپنا سیاسی مستقبل بند سمجھ رہے تھے۔وہی تحریک انصاف میں جا رہا ہے۔ جس کے پاس ن لیگ کا کنفرم ٹکٹ ہے وہ تحریک انصاف کی طرف نہیں دیکھ رہا ۔اسی وجہ سے پنجاب میں یہ ماحول نہیں بن ریا کہ تحریک انصاف جیت رہی ہے۔
پنجاب کی حد تک یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ نواز شریف اور مریم نواز کے مقدمات کو اگر ایک طرف کر دیں تو باقی ن لیگ پر کوئی دباؤ نظر نہیں آرہا ۔ دباؤ میں وہی نظر آرہے ہیں جنھوں نے ریڈ لائن کراس کی ہے۔ جیسے طلال چوہدری سعد رفیق، دانیال عزیز۔ان کے علاوہ باقی ن لیگ خود کو محفوظ سمجھ رہی ہے۔ کوئی بڑی بغاوت نظر نہیں آرہی۔ آپ دیکھ لیں چوہدری نثار علی خان بھی کہیں نہیں جا رہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ن لیگ کو لال جھنڈی دکھا دی گئی ہے۔ ن لیگ مقابلے میں ہے اور سخت مقابلے میں ہے۔ یہی پنجاب کا منظر نامہ ہے۔