اختر پیامی دوامی سفر پر روانہ ہوگئے
مشرقی پاکستان آنے سے پہلے ہی وہ ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے خاصی شہرت حاصل کرچکے تھے۔
ہم جیسے گوشہ نشینوں کے لیے اخبار آئینہ جہاں ہوتا ہے۔ کل کہاں کیا ہوا، کسی حد تک ہمیں باخبر کردیتا ہے۔ کبھی خوش خبری سناتا ہے اور کبھی بدخبری سناکر ملول کردیتا ہے۔ 10اپریل کو بھی ایسا ہی ہوا، ایک خبر پر نظر پڑی ''سینئر صحافی اختر پیامی بھی انتقال کرگئے''۔
دل پر ایک دھچکا سا لگا۔ اخبار ایک طرف رکھ کر اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ پھر سکون قلب کی گولی لے کر تھوڑی دیر تک بستر پر دراز ہوگیا۔ کچھ لوگ دل سے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ مدتوں ملاقات نہ ہونے کے باوجود ان لوگوں سے زیادہ قربت ہوتی ہے جو ہر وقت نگاہوں کے آس پاس رہتے ہیں۔
اختر پیامی بھی میرے ایسے ہی پیاروں میں تھے۔ میں 1949 میں ڈھاکا سے آتے وقت جو ان سے ملا تھا، اس کے بعد ان سے بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی۔ وہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ڈھاکا سے کراچی آئے۔ پہلے ''مارننگ نیوز'' سے وابستہ رہے پھر ڈان (انگریزی) میں آگئے اور ریٹائرمنٹ تک یہیں رہے۔ مگر عجیب اتفاق ہے کہ یہاں ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اگرچہ میں اکثر ڈان کے دفتر آتا جاتا رہتا تھا۔ مگر بقول شاعر میں ان کے خیال سے غافل نہیں رہا۔
میں ان کے بارے میں دوستوں اور ان کے قریب کے افراد سے ان کی خیر خیریت معلوم کرتا رہتا تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب وہ 2007 میں ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھ گئے۔ ویسے بھی وہ مجلسی آدمی نہیں تھے۔ بہت کم کہیں آتے جاتے تھے۔ طبیعتاً تو شروع ہی سے بہت دھیمے مزاج کے، بہت کم گو اور کم آمیز تھے۔ خلوص اور محبت کے پیکر۔ ڈھاکا میں جب ان سے پریس کلب میں ملاقات ہوتی تھی تو وہ دور ہمارا طالب علمی کا تھا اور ہماری شعروشاعری کا بھی ابتدائی دور تھا۔
پھر فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب میں بھی باضابطہ صحافت کے کوچے میں داخل ہوگیا تو سچی شاعری اور پکی صحافت کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ کہتے تھے یہ دونوں بڑے مشکل کام ہیں۔ مشکل ان معنوں میں کہ آپ کو اپنے جذبات اور اپنی ذمے داریوں کو مصلحت سے روکنا پڑتا ہے۔ ایک باضمیر شاعر اور صحافی کے لیے یہ مرحلہ بڑا دشوار ہوتا ہے۔ پتہ نہیں ان کے بتائے ہوئے اس معیار پر میں پورا اتر سکا یا نہیں مگر وہ زندگی بھر ادب اور صحافت کے میدان میں بہت ثابت قدم رہے۔
یکم فروری 1930 کو وہ مونگیر (بہار) میں پیدا ہوئے، والدین نے ان کا نام سید سعید اختر رکھا مگر جب انھوں نے شعروشاعری شروع کی تو اپنا قلمی نام اختر پیامی رکھ لیا۔ ابھی اسکول ہی میں تھے کہ نظمیں لکھنے لگے، اور ترقی پسند تحریک سے دل لگا بیٹھے۔ پٹنہ اور رانچی میں تعلیم حاصل کی۔ ابھی انھوں نے میٹرک کا امتحان بھی نہیں دیا تھا کہ ان کے بزرگوں نے خاندان ہی کی ایک لڑکی رضیہ بانو سے ان کی شادی کرادی۔
1947 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اسی سال کلکتہ آگئے اور ایک ہفتہ وار جریدے ''نئی منزل'' میں بطور مدیر ملازمت کرلی۔ ایک سال بعد انھیں خیال آیا کہ مزید تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ لہٰذا وہ رانچی چلے گئے۔ وہاں 1951 میں انھوں نے رانچی کالج سے معاشیات میں بی اے آنرز کیا اور اسی سال ڈھاکا آگئے، یہاں پہنچ کر انھوں نے کچھ دنوں تک ارمنی ٹولہ گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول میں درس وتدریس کا کام کیا۔ اس کے بعد ڈھاکا سے شایع ہونے والے ممتاز انگریزی اخبار ''مارننگ نیوز'' سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں وہ سقوط ڈھاکا تک اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔ ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے بھی بہت دنوں تک بطور نیوز کاسٹر اردو میں خبریں پڑھتے رہے۔
مشرقی پاکستان آنے سے پہلے ہی وہ ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے خاصی شہرت حاصل کرچکے تھے۔ ان کی نظمیں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر رسالوں اور جریدوں میں بڑے نمایاں انداز میں شایع کی جاتی تھیں۔ ڈھاکا میں قیام کے دوران بھی شاعری اور ادبی سرگرمیاں جاری رہیں۔ ان کی تحریریں بھی اخبارات و جرائد میں چھپتی رہیں۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ تنقیدی مضامین، انشائیے اور تبصرے بھی لکھے۔ وہ اردو اور انگریزی زبان میں یکساں مہارت سے لکھتے تھے۔
وہ اپنے نظریاتی رشتے سے بنگالی ادیبوں اور صحافیوں میں بھی مقبول تھے مگر جب لسانیت کی بنیاد پر وہاں فسادات شروع ہوئے تو بنگالی قوم پرستوں اور ان کی جنگ لڑنے والے مکتی باہنیوں نے ان جیسے لوگوں کو بھی نہیں بخشا اور 1972 کے بعد وہ زخم خوردہ دل کے ساتھ کراچی آگئے۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد ان پر اور ان کے خاندان پر جو ابتلا گزری اس نے انھیں اس قدر متاثر کیا کہ ان کا زرخیز ذہن گویا مفلوج ہوکر رہ گیا۔ ان کی شاعری کے سوتے خشک ہوکر رہ گئے اور وہ محض معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے بس صحافت ہی کے ہوکر رہ گئے۔
دوسری ہجرت کے بعد کچھ عرصہ تک ''مارننگ نیوز'' کراچی میں کام کیا۔ پھر روزنامہ ''ڈان'' سے رشتہ استوار کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ جزوقتی طور پر اس اخبار سے وابستہ رہے اور مضامین اور کتابوں پر تبصرے لکھتے رہے۔ کراچی آنے کے بعد انھوں نے نہ صرف مکمل طور پر شعروشاعری ترک کردی بلکہ اپنے شعری مجموعے کی اشاعت پر بھی کبھی توجہ نہیں دی۔
ان کے بھائی پروفیسر جابر حسین جو بہار کے صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ پٹنہ سے ان کے دو شعری مجموعے ''تاریخ'' اور ''کلس'' کے نام سے شایع کیے۔ سہ ماہی خیال کے مدیر احمد زین الدین نے 2004 میں ان دونوں مجموعوں میں کچھ مزید اضافے کے بعد ''آئینہ خانے'' کے عنوان سے ان کا شعری گلدستہ کراچی سے شایع کیا۔ چند برس پہلے ان کی بیگم رضیہ بانو کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کے باپ تھے۔ جن میں سے ایک بیٹی فوت ہوچکی ہے، باقی تمام بچے خوش حال زندگی گزار رہے ہیں اور اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔ ان کا ایک بیٹا سکندر مہدی کراچی یونیورسٹی میں کلیدی پوسٹ پر فائز رہ کر ریٹائر ہوچکا ہے۔
اختر پیامی، پیار اور محبت کے پیکر تھے۔ اپنے غموں کو چھپانے کے لیے ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو اپنی من موہنی باتوں اور عادتوں سے دوسروں کو متاثر کرتے ہیں۔ میں اپنی اس تعزیتی تحریر کو ان کے ہی دو شعروں پر ختم کرتا ہوں۔
مسکراؤ کہ ابھی زخم ہرے ہیں شاید
اب کوئی اور سر بام نہیں آئے گا
دل کو سمجھاؤ نئی شمع جلائی جائے
اس اندھیرے میں کوئی کام نہیں آئے گا
دل پر ایک دھچکا سا لگا۔ اخبار ایک طرف رکھ کر اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی۔ پھر سکون قلب کی گولی لے کر تھوڑی دیر تک بستر پر دراز ہوگیا۔ کچھ لوگ دل سے اتنے قریب ہوتے ہیں کہ مدتوں ملاقات نہ ہونے کے باوجود ان لوگوں سے زیادہ قربت ہوتی ہے جو ہر وقت نگاہوں کے آس پاس رہتے ہیں۔
اختر پیامی بھی میرے ایسے ہی پیاروں میں تھے۔ میں 1949 میں ڈھاکا سے آتے وقت جو ان سے ملا تھا، اس کے بعد ان سے بالمشافہ ملاقات نہیں ہوئی۔ وہ سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ڈھاکا سے کراچی آئے۔ پہلے ''مارننگ نیوز'' سے وابستہ رہے پھر ڈان (انگریزی) میں آگئے اور ریٹائرمنٹ تک یہیں رہے۔ مگر عجیب اتفاق ہے کہ یہاں ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ اگرچہ میں اکثر ڈان کے دفتر آتا جاتا رہتا تھا۔ مگر بقول شاعر میں ان کے خیال سے غافل نہیں رہا۔
میں ان کے بارے میں دوستوں اور ان کے قریب کے افراد سے ان کی خیر خیریت معلوم کرتا رہتا تھا۔ پھر وہ وقت آیا جب وہ 2007 میں ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھ گئے۔ ویسے بھی وہ مجلسی آدمی نہیں تھے۔ بہت کم کہیں آتے جاتے تھے۔ طبیعتاً تو شروع ہی سے بہت دھیمے مزاج کے، بہت کم گو اور کم آمیز تھے۔ خلوص اور محبت کے پیکر۔ ڈھاکا میں جب ان سے پریس کلب میں ملاقات ہوتی تھی تو وہ دور ہمارا طالب علمی کا تھا اور ہماری شعروشاعری کا بھی ابتدائی دور تھا۔
پھر فارغ التحصیل ہونے کے بعد جب میں بھی باضابطہ صحافت کے کوچے میں داخل ہوگیا تو سچی شاعری اور پکی صحافت کی تلقین کرتے رہتے تھے۔ کہتے تھے یہ دونوں بڑے مشکل کام ہیں۔ مشکل ان معنوں میں کہ آپ کو اپنے جذبات اور اپنی ذمے داریوں کو مصلحت سے روکنا پڑتا ہے۔ ایک باضمیر شاعر اور صحافی کے لیے یہ مرحلہ بڑا دشوار ہوتا ہے۔ پتہ نہیں ان کے بتائے ہوئے اس معیار پر میں پورا اتر سکا یا نہیں مگر وہ زندگی بھر ادب اور صحافت کے میدان میں بہت ثابت قدم رہے۔
یکم فروری 1930 کو وہ مونگیر (بہار) میں پیدا ہوئے، والدین نے ان کا نام سید سعید اختر رکھا مگر جب انھوں نے شعروشاعری شروع کی تو اپنا قلمی نام اختر پیامی رکھ لیا۔ ابھی اسکول ہی میں تھے کہ نظمیں لکھنے لگے، اور ترقی پسند تحریک سے دل لگا بیٹھے۔ پٹنہ اور رانچی میں تعلیم حاصل کی۔ ابھی انھوں نے میٹرک کا امتحان بھی نہیں دیا تھا کہ ان کے بزرگوں نے خاندان ہی کی ایک لڑکی رضیہ بانو سے ان کی شادی کرادی۔
1947 میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اسی سال کلکتہ آگئے اور ایک ہفتہ وار جریدے ''نئی منزل'' میں بطور مدیر ملازمت کرلی۔ ایک سال بعد انھیں خیال آیا کہ مزید تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ لہٰذا وہ رانچی چلے گئے۔ وہاں 1951 میں انھوں نے رانچی کالج سے معاشیات میں بی اے آنرز کیا اور اسی سال ڈھاکا آگئے، یہاں پہنچ کر انھوں نے کچھ دنوں تک ارمنی ٹولہ گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول میں درس وتدریس کا کام کیا۔ اس کے بعد ڈھاکا سے شایع ہونے والے ممتاز انگریزی اخبار ''مارننگ نیوز'' سے وابستہ ہوگئے۔ یہاں وہ سقوط ڈھاکا تک اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔ ریڈیو پاکستان ڈھاکا سے بھی بہت دنوں تک بطور نیوز کاسٹر اردو میں خبریں پڑھتے رہے۔
مشرقی پاکستان آنے سے پہلے ہی وہ ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے خاصی شہرت حاصل کرچکے تھے۔ ان کی نظمیں ترقی پسند تحریک کے زیر اثر رسالوں اور جریدوں میں بڑے نمایاں انداز میں شایع کی جاتی تھیں۔ ڈھاکا میں قیام کے دوران بھی شاعری اور ادبی سرگرمیاں جاری رہیں۔ ان کی تحریریں بھی اخبارات و جرائد میں چھپتی رہیں۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ تنقیدی مضامین، انشائیے اور تبصرے بھی لکھے۔ وہ اردو اور انگریزی زبان میں یکساں مہارت سے لکھتے تھے۔
وہ اپنے نظریاتی رشتے سے بنگالی ادیبوں اور صحافیوں میں بھی مقبول تھے مگر جب لسانیت کی بنیاد پر وہاں فسادات شروع ہوئے تو بنگالی قوم پرستوں اور ان کی جنگ لڑنے والے مکتی باہنیوں نے ان جیسے لوگوں کو بھی نہیں بخشا اور 1972 کے بعد وہ زخم خوردہ دل کے ساتھ کراچی آگئے۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد ان پر اور ان کے خاندان پر جو ابتلا گزری اس نے انھیں اس قدر متاثر کیا کہ ان کا زرخیز ذہن گویا مفلوج ہوکر رہ گیا۔ ان کی شاعری کے سوتے خشک ہوکر رہ گئے اور وہ محض معاشی ضروریات کی تکمیل کے لیے بس صحافت ہی کے ہوکر رہ گئے۔
دوسری ہجرت کے بعد کچھ عرصہ تک ''مارننگ نیوز'' کراچی میں کام کیا۔ پھر روزنامہ ''ڈان'' سے رشتہ استوار کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ جزوقتی طور پر اس اخبار سے وابستہ رہے اور مضامین اور کتابوں پر تبصرے لکھتے رہے۔ کراچی آنے کے بعد انھوں نے نہ صرف مکمل طور پر شعروشاعری ترک کردی بلکہ اپنے شعری مجموعے کی اشاعت پر بھی کبھی توجہ نہیں دی۔
ان کے بھائی پروفیسر جابر حسین جو بہار کے صوبائی وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ پٹنہ سے ان کے دو شعری مجموعے ''تاریخ'' اور ''کلس'' کے نام سے شایع کیے۔ سہ ماہی خیال کے مدیر احمد زین الدین نے 2004 میں ان دونوں مجموعوں میں کچھ مزید اضافے کے بعد ''آئینہ خانے'' کے عنوان سے ان کا شعری گلدستہ کراچی سے شایع کیا۔ چند برس پہلے ان کی بیگم رضیہ بانو کا انتقال ہوگیا تھا۔ وہ چار بیٹیوں اور دو بیٹوں کے باپ تھے۔ جن میں سے ایک بیٹی فوت ہوچکی ہے، باقی تمام بچے خوش حال زندگی گزار رہے ہیں اور اچھے عہدوں پر فائز ہیں۔ ان کا ایک بیٹا سکندر مہدی کراچی یونیورسٹی میں کلیدی پوسٹ پر فائز رہ کر ریٹائر ہوچکا ہے۔
اختر پیامی، پیار اور محبت کے پیکر تھے۔ اپنے غموں کو چھپانے کے لیے ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو اپنی من موہنی باتوں اور عادتوں سے دوسروں کو متاثر کرتے ہیں۔ میں اپنی اس تعزیتی تحریر کو ان کے ہی دو شعروں پر ختم کرتا ہوں۔
مسکراؤ کہ ابھی زخم ہرے ہیں شاید
اب کوئی اور سر بام نہیں آئے گا
دل کو سمجھاؤ نئی شمع جلائی جائے
اس اندھیرے میں کوئی کام نہیں آئے گا