ایف سی آر کا کالا قانون
مزید یہ کہ اگست 2011تک کسی بھی سیاسی جماعت کو ان علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں تھی۔
آئین پاکستان کے آرٹیکل247کے مطابق ایف سی آر نامی ایک قانون ایسا بھی ہے جس کی رو سے فاٹا اور شمالی علاقہ جات پر کسی بھی صوبائی حکومت ٗ وفاقی حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کا کوئی بھی دائرہ اختیار متعین نہیں۔ یہ علاقہ جات براہ راست صدارتی احکامات کے پابند ہوتے ہیں۔میرے سامنے بیٹھا نوجوان درست کہا رہا تھا۔
فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (FCR)پہلی مرتبہ1848ء میں برطانوی راج نے نافذ کیا تھا۔ یہ قانون خصوصاً شمالی علاقہ جات میں پختون اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے رائج ہوا۔ پھر 1873،1876 اور1901 میں اس میں مزید ترامیم ہوئیں۔ 1947میں حکومت پاکستان نے اس قانون کو من و عن تسلیم کرنے کے بجائے ایک ترمیم اور کر دی جس کی رو سے کسی بھی فاٹا کے شہری کو اس کا جرم بتائے بغیر گرفتار کیا جا سکتا تھا!۔ اس قانون کی رو سے فاٹا اور شمالی علاقہ جات کے شہری وکیل، دلیل اور اپیل جیسے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رہے۔
مزید یہ کہ اگست 2011تک کسی بھی سیاسی جماعت کو ان علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں تھی۔ 9مارچ 2008 کو سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پوری پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے ہی خطاب میں اس '' کالے قانون'' کو ختم کرنے کا اعلان تو کیا مگر عملدرآمد میں بہت دیر کر دی۔ اگرچہ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی تھی بلکہ میرے نزدیک تو پانی 2008ء سے بہت پہلے ہی سر سے گزر چکا تھا۔کیونکہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم یہ شہری بہت پہلے سے خود کو سیاسی اور معاشرتی طور پر تنہا محسوس کرنے لگے تھے۔
ہر انسان کی بنیادی جبلت ہے کہ جب اسے احساس ہوتا ہے کہ اسے اپنا جائز حق نہیں مل پا رہا تو پہلے وہ اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر بات نہ بنے تو احتجاج کرتا ہے اگر احتجاج کو بھی دبا دیا جائے تو مجبوراً وہ شخص تشدد کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ یہی سب کچھ فاٹا سمیت شمالی علاقہ جات کے اکثر لوگوں کے ساتھ ہوا۔ تہذیب یافتہ معاشروں میں اپنے حق کا مطالبہ کرنے کا واحد راستہ جمہوریت ہی فراہم کرتی ہے۔ جمہوریت کا مقصد محض حکومت کرنا ہی نہیں بلکہ یہ عوام کو سیاسی نظام میں براہ راست شامل کرنے کا دوسرا نام ہے۔ یہ سارا نظام ایک متفقہ آئین کے مرہون منت ہے مگر اسی آئین میں ہر پاکستانی کے بنیادی حقوق کا ذکر بھی موجود ہے مگر یہ امر بھی ماورائے عقل ہے کہ لاہور ٗکراچی ٗ پشاور اور کوئٹہ وغیرہ میں آئین پاکستان کی رو سے جو شخصی ٗ قانونی اور سیاسی حقوق حاصل ہیں وہ فاٹا کے پاکستانیوں کو حاصل کیوں نہیں ہیں؟۔
غور کریں تو بآ سانی سمجھ آ سکتا ہے کہ کس طرح ایف سی آر کے قانون نے فاٹا کے لوگوں کو پورے ملک کے سیاسی نظام سے الگ تھلگ کر دیا۔ ہم نے اس قانون کے تحت وہاں کے عوام کو چند سرداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔ ان سرداروں کو عرف عام میں ملک کے نام سے جانا جاتا ہے۔باقی ماندہ قبائلیوں کو ووٹ کے حق سے بھی محروم رکھا گیا۔اسی طرح یہ ملک اکثریت پر محض اپنی طاقت کے بل بوتے پر حکومت کرتے رہے۔ غور کی بات یہ ہے کہ پاکستانی سرکار وفاقی نمایندے یعنی'' پولیٹیکل ایجنٹ'' کے ذریعے سامراجی انداز میں اس محروم خطے پر حکومت کرتی رہی۔
پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس اور لامحدود اختیارات ہوا کرتے تھے اور اس کا فیصلہ تاریخ کے بادشاہوں کی طرح حرف آخر ہوا کرتا تھا اور مظلوم فاٹا کے عوام کو عدلیہ یا کسی اور سرکاری فورم پر اپیل یا داد رسی کا حق حاصل نہ تھا۔ پولیٹیکل ایجنٹ کسی مجرم کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ اس کے بوڑھے رشتہ داروں اور بچوں سمیت اس کے اہل خانہ کو بھی پابند سلاسل کر سکتا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مجرم کا گھر بھی مسمار کیا جا سکتا تھا۔
اب اگر ہم ذکر بالا حالات کی روشنی میں قبائلی علاقوں میں موجودہ بدامنی اور دہشت گردی کی لہر کی وجوہات کا تجزیہ کریں تو سارا معاملہ با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ ملک دشمن بیرونی طاقتوں نے استحصال شدہ ریاستی نا انصافی اور اپنے پاکستانی بھائیوں کی بیگانگی کا شکار ہمارے قبائلی بھائیوں کو مذہبی انتہاپسندی کے ذریعے اس نا انصافی اور استحصالی نظام سے نجات کا راستہ دکھایا۔ یوں پاکستانی سرکار اور عوام دونوں نے اپنی بیگانگی کے ذریعے اپنے قبائلی بھائیوں کو ملک دشمن عناصر کے فریب کا نشانہ بننے کی راہ خود ہموار کی۔
اس بے حسی کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی 99فی صد پاکستانی درج بالا کئی دہائیوں پر محیط قبائلی بھائیوں پر ڈھائے گئے آئینی و قانونی ناانصافی سے ناواقف ہیں، ان حقائق سے نابلد ہمارے دانشور حضرات آئے روز طالبائزیشن اور شدت پسندی کی وجوہات پر اپنی ماہرانہ رائے دیتے نہیں تھکتے ۔ شاید ان کی کم علمی کی بنا پر شدت پسندی کے پیچھے موجود حقائق نظر انداز ہو جاتے ہیں، دانستہ طور پر یہ لوگ عوام کو ان حقائق سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔اس کالے قانون کے پیچھے کارفرما قوتوں کو سمجھنا اہمیت رکھتا ہے۔
ان قوتوں نے آئینی سقم کا بھرپور ناجائز استعمال کیا مثلا اسٹیبلشمنٹ کے کچھ عناصر جو کبھی تو ان علاقوں میں افغانستان اور کشمیر میں استعمال کرنے کے لیے '' انسانی نرسریوں'' کی افزائش کرتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ منشیات ٗ غیر قانونی اسلحہ اور دیگر گھنائونے جرائم سے متعلقہ بین الاقوامی تنظیموں نے ان حالات سے فائدہ اٹھایا اور اس غیر مساوی قانون کے خاتمے کی راہ میں روڑے بھی اٹکاتے رہے۔
فاٹا کے عوام کی سوچ یہ رہی کہ اس سیاسی عمل نے ان کو اور ان کی کئی نسلوں کو محکوم رکھا اور اسی احساس محرومی کے نتیجے میں وہ اپنا حق لینے کے لیے بندوق اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ ان عسکریت پسندوں نے چن چن کر سب سے پہلے '' قبائلی ملکوں '' اور پولیٹیکل ایجنٹ صاحبان کو نشانہ بنا کر کئی دہائیوں پر محیط اجارہ داری اور ناانصافی پر رد عمل کا اظہار کیا۔آج اگر حکومت پاکستان اور عوام اس بات کا رونا روتے ہیں کہ تمام دہشت گردی کے تانے بانے فاٹا اور شمالی علاقہ جات سے ملتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان علاقوں میں رہنے والے تقریباً 30 لاکھ افراد کو سیاسی نظام میں شامل کیا جاتا اور ہر ایک کو اتنے ہی آئینی و قانونی حقوق حاصل ہوتے جتنے باقی تمام پاکستانیوں کو حاصل ہیں تو وہ ہرگز تشدد کا راستہ اختیار نہ کرتے۔
یہ کیسے جائز ہے کہ ہم ان لوگوں سے حب الوطنی کا تقاضہ تو بہت زور و شور سے کرتے رہے ہیں مگر جب بات برابر حقوق کی آتی ہے تو FCRکا کالا قانون آڑے آ جاتا ہے۔اسی طرح گو اگست 2011میں صدرآصف علی زرداری نے ترمیمی ایف سی آر کے قانون پر دستخط کر دیے ہیں مگر یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے اور ان ترامیم میںچند اصطلاحات کے سوا کچھ نہیں ۔ہم قبائلی بھائیوں سے آئین و قانون اور حب الوطنی کی پاسداری کا تقاضہ صرف تب ہی کر سکتے ہیںجب انھیں باقی تمام پاکستانیوں کی طرح مکمل آئینی وقانونی حقوق بھی دے دیں۔
اس کالم کے ہر پاکستانی قاری سے التماس ہے کہ وہ اپنے حلقے کے قومی اسمبلی کے امیدوارسے فوری رابطہ کریں اور اسFCRکے کالے قانون کو ختم کرنے سے متعلق آئینی ترمیم لانے کا وعدہ لیں۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں آیندہ انتخابات میں اس امیدوار کو ہرگز ووٹ نہ دیں۔ کیونکہ یہی ایک واحد حل ہے۔
جس کی رو سے ملک عزیز میں دہشت گردی کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے بصورت دیگر دہشت گردی کا لامتناہی چکر یونہی برپا رہے گا۔ میری چیف جسٹس افتخار چوہدری سے استدعا ہے کہ وہ قومی سلامتی اور بنیادی انسانی حقوق سے متعلقہ سنگین معاملے کا از خود نوٹس لیںکیونکہ FCR کا قانون آئین پاکستان کے بنیادی حقوق کے آرٹیکل سے متصادم بھی ہے۔
فرنٹیئر کرائم ریگولیشن (FCR)پہلی مرتبہ1848ء میں برطانوی راج نے نافذ کیا تھا۔ یہ قانون خصوصاً شمالی علاقہ جات میں پختون اثر و رسوخ کو ختم کرنے کے لیے رائج ہوا۔ پھر 1873،1876 اور1901 میں اس میں مزید ترامیم ہوئیں۔ 1947میں حکومت پاکستان نے اس قانون کو من و عن تسلیم کرنے کے بجائے ایک ترمیم اور کر دی جس کی رو سے کسی بھی فاٹا کے شہری کو اس کا جرم بتائے بغیر گرفتار کیا جا سکتا تھا!۔ اس قانون کی رو سے فاٹا اور شمالی علاقہ جات کے شہری وکیل، دلیل اور اپیل جیسے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رہے۔
مزید یہ کہ اگست 2011تک کسی بھی سیاسی جماعت کو ان علاقوں میں سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں تھی۔ 9مارچ 2008 کو سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے پوری پارلیمنٹ سے متفقہ طور پر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے ہی خطاب میں اس '' کالے قانون'' کو ختم کرنے کا اعلان تو کیا مگر عملدرآمد میں بہت دیر کر دی۔ اگرچہ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی تھی بلکہ میرے نزدیک تو پانی 2008ء سے بہت پہلے ہی سر سے گزر چکا تھا۔کیونکہ بنیادی انسانی حقوق سے محروم یہ شہری بہت پہلے سے خود کو سیاسی اور معاشرتی طور پر تنہا محسوس کرنے لگے تھے۔
ہر انسان کی بنیادی جبلت ہے کہ جب اسے احساس ہوتا ہے کہ اسے اپنا جائز حق نہیں مل پا رہا تو پہلے وہ اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے۔ اگر بات نہ بنے تو احتجاج کرتا ہے اگر احتجاج کو بھی دبا دیا جائے تو مجبوراً وہ شخص تشدد کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ یہی سب کچھ فاٹا سمیت شمالی علاقہ جات کے اکثر لوگوں کے ساتھ ہوا۔ تہذیب یافتہ معاشروں میں اپنے حق کا مطالبہ کرنے کا واحد راستہ جمہوریت ہی فراہم کرتی ہے۔ جمہوریت کا مقصد محض حکومت کرنا ہی نہیں بلکہ یہ عوام کو سیاسی نظام میں براہ راست شامل کرنے کا دوسرا نام ہے۔ یہ سارا نظام ایک متفقہ آئین کے مرہون منت ہے مگر اسی آئین میں ہر پاکستانی کے بنیادی حقوق کا ذکر بھی موجود ہے مگر یہ امر بھی ماورائے عقل ہے کہ لاہور ٗکراچی ٗ پشاور اور کوئٹہ وغیرہ میں آئین پاکستان کی رو سے جو شخصی ٗ قانونی اور سیاسی حقوق حاصل ہیں وہ فاٹا کے پاکستانیوں کو حاصل کیوں نہیں ہیں؟۔
غور کریں تو بآ سانی سمجھ آ سکتا ہے کہ کس طرح ایف سی آر کے قانون نے فاٹا کے لوگوں کو پورے ملک کے سیاسی نظام سے الگ تھلگ کر دیا۔ ہم نے اس قانون کے تحت وہاں کے عوام کو چند سرداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ۔ ان سرداروں کو عرف عام میں ملک کے نام سے جانا جاتا ہے۔باقی ماندہ قبائلیوں کو ووٹ کے حق سے بھی محروم رکھا گیا۔اسی طرح یہ ملک اکثریت پر محض اپنی طاقت کے بل بوتے پر حکومت کرتے رہے۔ غور کی بات یہ ہے کہ پاکستانی سرکار وفاقی نمایندے یعنی'' پولیٹیکل ایجنٹ'' کے ذریعے سامراجی انداز میں اس محروم خطے پر حکومت کرتی رہی۔
پولیٹیکل ایجنٹ کے پاس اور لامحدود اختیارات ہوا کرتے تھے اور اس کا فیصلہ تاریخ کے بادشاہوں کی طرح حرف آخر ہوا کرتا تھا اور مظلوم فاٹا کے عوام کو عدلیہ یا کسی اور سرکاری فورم پر اپیل یا داد رسی کا حق حاصل نہ تھا۔ پولیٹیکل ایجنٹ کسی مجرم کو سزا دینے کے ساتھ ساتھ اس کے بوڑھے رشتہ داروں اور بچوں سمیت اس کے اہل خانہ کو بھی پابند سلاسل کر سکتا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مجرم کا گھر بھی مسمار کیا جا سکتا تھا۔
اب اگر ہم ذکر بالا حالات کی روشنی میں قبائلی علاقوں میں موجودہ بدامنی اور دہشت گردی کی لہر کی وجوہات کا تجزیہ کریں تو سارا معاملہ با آسانی سمجھ سکتے ہیں۔ ہوا کچھ یوں کہ ملک دشمن بیرونی طاقتوں نے استحصال شدہ ریاستی نا انصافی اور اپنے پاکستانی بھائیوں کی بیگانگی کا شکار ہمارے قبائلی بھائیوں کو مذہبی انتہاپسندی کے ذریعے اس نا انصافی اور استحصالی نظام سے نجات کا راستہ دکھایا۔ یوں پاکستانی سرکار اور عوام دونوں نے اپنی بیگانگی کے ذریعے اپنے قبائلی بھائیوں کو ملک دشمن عناصر کے فریب کا نشانہ بننے کی راہ خود ہموار کی۔
اس بے حسی کا اندازہ اس بات سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے کہ آج بھی 99فی صد پاکستانی درج بالا کئی دہائیوں پر محیط قبائلی بھائیوں پر ڈھائے گئے آئینی و قانونی ناانصافی سے ناواقف ہیں، ان حقائق سے نابلد ہمارے دانشور حضرات آئے روز طالبائزیشن اور شدت پسندی کی وجوہات پر اپنی ماہرانہ رائے دیتے نہیں تھکتے ۔ شاید ان کی کم علمی کی بنا پر شدت پسندی کے پیچھے موجود حقائق نظر انداز ہو جاتے ہیں، دانستہ طور پر یہ لوگ عوام کو ان حقائق سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔اس کالے قانون کے پیچھے کارفرما قوتوں کو سمجھنا اہمیت رکھتا ہے۔
ان قوتوں نے آئینی سقم کا بھرپور ناجائز استعمال کیا مثلا اسٹیبلشمنٹ کے کچھ عناصر جو کبھی تو ان علاقوں میں افغانستان اور کشمیر میں استعمال کرنے کے لیے '' انسانی نرسریوں'' کی افزائش کرتے رہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ منشیات ٗ غیر قانونی اسلحہ اور دیگر گھنائونے جرائم سے متعلقہ بین الاقوامی تنظیموں نے ان حالات سے فائدہ اٹھایا اور اس غیر مساوی قانون کے خاتمے کی راہ میں روڑے بھی اٹکاتے رہے۔
فاٹا کے عوام کی سوچ یہ رہی کہ اس سیاسی عمل نے ان کو اور ان کی کئی نسلوں کو محکوم رکھا اور اسی احساس محرومی کے نتیجے میں وہ اپنا حق لینے کے لیے بندوق اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ ان عسکریت پسندوں نے چن چن کر سب سے پہلے '' قبائلی ملکوں '' اور پولیٹیکل ایجنٹ صاحبان کو نشانہ بنا کر کئی دہائیوں پر محیط اجارہ داری اور ناانصافی پر رد عمل کا اظہار کیا۔آج اگر حکومت پاکستان اور عوام اس بات کا رونا روتے ہیں کہ تمام دہشت گردی کے تانے بانے فاٹا اور شمالی علاقہ جات سے ملتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان علاقوں میں رہنے والے تقریباً 30 لاکھ افراد کو سیاسی نظام میں شامل کیا جاتا اور ہر ایک کو اتنے ہی آئینی و قانونی حقوق حاصل ہوتے جتنے باقی تمام پاکستانیوں کو حاصل ہیں تو وہ ہرگز تشدد کا راستہ اختیار نہ کرتے۔
یہ کیسے جائز ہے کہ ہم ان لوگوں سے حب الوطنی کا تقاضہ تو بہت زور و شور سے کرتے رہے ہیں مگر جب بات برابر حقوق کی آتی ہے تو FCRکا کالا قانون آڑے آ جاتا ہے۔اسی طرح گو اگست 2011میں صدرآصف علی زرداری نے ترمیمی ایف سی آر کے قانون پر دستخط کر دیے ہیں مگر یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے اور ان ترامیم میںچند اصطلاحات کے سوا کچھ نہیں ۔ہم قبائلی بھائیوں سے آئین و قانون اور حب الوطنی کی پاسداری کا تقاضہ صرف تب ہی کر سکتے ہیںجب انھیں باقی تمام پاکستانیوں کی طرح مکمل آئینی وقانونی حقوق بھی دے دیں۔
اس کالم کے ہر پاکستانی قاری سے التماس ہے کہ وہ اپنے حلقے کے قومی اسمبلی کے امیدوارسے فوری رابطہ کریں اور اسFCRکے کالے قانون کو ختم کرنے سے متعلق آئینی ترمیم لانے کا وعدہ لیں۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں آیندہ انتخابات میں اس امیدوار کو ہرگز ووٹ نہ دیں۔ کیونکہ یہی ایک واحد حل ہے۔
جس کی رو سے ملک عزیز میں دہشت گردی کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جا سکتا ہے بصورت دیگر دہشت گردی کا لامتناہی چکر یونہی برپا رہے گا۔ میری چیف جسٹس افتخار چوہدری سے استدعا ہے کہ وہ قومی سلامتی اور بنیادی انسانی حقوق سے متعلقہ سنگین معاملے کا از خود نوٹس لیںکیونکہ FCR کا قانون آئین پاکستان کے بنیادی حقوق کے آرٹیکل سے متصادم بھی ہے۔