علامہ آئی آئی قاضی

سندھ کے سب سیاستدان علامہ صاحب کا احترام کرتے تھے اور عقیدت مند تھے۔

سندھ ''باب الاسلام'' ہے۔ یہ سرزمین اولیا اﷲ، اہل علم، مفکرین اسلام، سیاستدانوں، تاریخ دانوں اور ماہرین تعلیم کی رہی ہے۔ ایسی عظیم شخصیتوں میں سے ایک اعلیٰ شخصیت علامہ آئی آئی قاضی کی بھی تھی جنھوں نے اس خطے کی بے حد خدمت کی ہے اور تقسیم ہند کے بعد سندھ سے قابل ہندو اساتذہ کے ہندوستان چلے جانے کے بعد تعلیم کے میدان میں جو خلا پیدا ہو گیا تھا، اس خلا کو پُر کرنے میں علامہ قاضی کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

علامہ آئی آئی قاضی کی شخصیت کسی رسمی تعارف کی محتاج نہیں۔ علامہ صاحب کے علمی تجربے، ذہانت اور جدید اور قدیم فلسفہ پر دسترس سے سندھ اور ہند کے صاحبِ نظر لوگوں نے استفادہ حاصل کیا ہے۔ علامہ قاضی کی شہرت صرف سندھ تک محدود نہیں تھی۔ سندھ کے علاوہ پاکستان اور ہندوستان کے اہلِ علم اور جانی پہچانی عظیم شخصیات علامہ صاحب کی علمیت اور فکر سے آگاہ تھیں۔ ڈاکٹر ذاکر حسین جو تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے صدر بھی رہے، ان کے ساتھ علامہ صاحب کے خط و کتابت رہی ہے۔

ایک خط میں ڈاکٹر ذاکر حسین لکھتے ہیں کہ''زندگی کے جو لمحات آپکی صحبت میں گزرے، وہ میری زندگی کا عزیز ترین سرمایہ حیات ہیں۔'' علامہ صاحب کی وفات کی خبر نشر ہونے کے بعد صدرِ پاکستان سے قبل ہندوستان کے صدر ڈاکٹر ذاکر حسین کا تعزیتی پیغام آل انڈیا ریڈیو سے نشر کیا گیا۔ تقسیم ہند سے قابل علامہ آئی آئی قاضی کراچی میں جناح کورٹس کی مسجد میں جمعہ کے دن خطبہ دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ امام الہند مولانا ابوالکلام تقسیم ہند سے قبل ان سے ملنے کراچی آئے تھے۔ انھوں نے علامہ کا جمعہ کا خطبہ بھی سنا اور جمعہ کی نماز بھی ان کی امامت میں پڑھی۔ مولانا آزاد علامہ صاحب سے بے حد متاثر تھے۔

علامہ صاحب کی شخصیت میں مقناطیسی جادو تھا۔ بڑے سے بڑا آدمی بھی ملنے کے بعد ان کا معترف ہوجاتا تھا۔ سندھ کے سب سیاستدان علامہ صاحب کا احترام کرتے تھے اور عقیدت مند تھے۔ سائیں جی ایم سید اپنی یادداشتوں 'جنب گذاریم جن سین' (جن کے ساتھ زندگی بھر رہا) میں لکھتے ہیں کہ ''کتابیں پڑھنے اور غور و فکر کے بعد مجھے مذہب کے عام بیان کیے ہوئے عقیدوں کے بارے میں بہت سارے شکوک و شبہات پیدا ہوگئے تھے۔ ان کو حل کرنے کے لیے بہت سے لوگوں سے رہنمائی حاصل کرنی چاہی۔ تھیاسافیکل سوسائٹی میں علامہ قاضی صاحب سے ملاقات کے بعد قاضی صاحب کے پاس جاکر مختلف سوالات پوچھتا رہتا تھا۔ میں اگر انھیں اپنا روحانی (ذہنی) اساتذہ میں شمار کروں تو بے جا نہ ہوگا۔''

علامہ صاحب جید عالم تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ دینی اور سائنسی علوم میں کوئی تضاد نہیں۔ اسلام کو وہ آخری ضابطہ حیات سمجھتے تھے۔ اسلام کی تشریح علامہ صاحب سائنٹیفک طریقے سے کرتے تھے۔ اس دور کے بڑے بڑے علما مثلاً مولانا عبیداﷲ سندھی، مولانا غلام مصطفیٰ قاسمی، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خان، مولانا محمد صادق کھڈے والے اور بے شمار جید القدر علماء قاضی صاحب کی علمیت کے قائل تھے اور ان کا احترام کرتے تھے۔


سندھ کا بمبئی پریزیڈنسی سے علیحدہ صوبہ بننے کے بعد سندھ کے مسلمان سیاستدانوں نے سندھ میں علیحدہ یونیورسٹی کے قیام کے لیے جدوجہد شروع کردی تاکہ سندھ میں اعلیٰ تعلیم کو فروغ دیا جاسکے۔ مسلسل دس سال کی جدوجہد کے بعد 3 اپریل 1947 کو کراچی میں سندھ یونیورسٹی قائم ہوئی۔ شروع میں صرف میٹرک، انٹر اور بی اے کا امتحان لیا جاتا تھا اور ڈگری بمبئی یونیورسٹی سے ملتی تھی۔ 1951 تک سندھ گورنمنٹ نے سندھ یونیورسٹی کی ترقی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا اور نہ کوئی تعلیمی اور سائنسی شعبہ قائم کیا گیا تھا۔

1951 میں سندھ یونیورسٹی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا، ایک کراچی یونیورسٹی اور دوسری سندھ یونیورسٹی، بعد میں سندھ یونیورسٹی کو حیدرآباد منتقل کیا گیا اور علامہ آئی آئی قاضی کو 9 اپریل 1951 کو سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔ جب علامہ صاحب نے وائس چانسلر کی حیثیت سے سندھ یونیورسٹی کا چارج لیا تو سندھ یونیورسٹی کی الحاقی اور امتحانی شعبوں کی تعداد پانچ کالجوں اور چونتیس ہائی اسکولوں تک رہ گئی۔ اس وقت یونیورسٹی کی ذمے داری صرف میٹرک، انٹر اور گریجویشن ڈگریوں کا امتحان لینا تھا۔

علامہ قاضی نے سندھ یونیورسٹی کیمپس کی جامع منصوبہ بندی کی اور اخراجات کا تخمینہ 3 کروڑ روپے لگایا گیا۔ اس وقت سندھ میں گورنر راج تھا۔ علامہ صاحب نے گورنر دین محمد کو گرانٹ بڑھانے کے لیے خط لکھا اور یونیورسٹی کی مالی مشکلات بیان کی، ایک دم گرانٹ ایک لاکھ روپے سے پانچ لاکھ کردی گئی۔ علامہ قاضی کے سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر مقرر ہونے پر 'یونیورسٹی ورلڈ' رسالے میں ایک تبصرہ شایع ہوا۔ اس کے اقتباس اس طرح تھے ''ہم سندہ سرکار کو اس کے شاندار انتخاب پر مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک بے حد لائق شخص کو جو سندھ کا عظیم محقق ہے بطور وائس چانسلر مقرر کیا ہے۔ مسٹر آئی آئی قاضی ایک بیرسٹر ہیں اور ان کو کافی عدالتی اور انتظامی تجربہ ہے۔ اس نے تقابلی مذہبی فلسفے کا عمیق مطالعہ کیا ہے اور اس کے تجسس اور تحقیقات کی وجہ سے بلاشبہ اس کو مذہب کے تقابلی فلسفے میں سب سے بڑی سند کے طور پر پیش کر سکتے ہیں۔''

علامہ صاحب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے سندھ یونیورسٹی کو پاکستان کی پہلی ریزیڈنشل یونیورسٹی بنایا۔ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ جن کو دمشق میں ڈپلومیٹ مقرر کیا گیا تھا، اس بات پر راضی کیا کہ وہ چونکہ پی ایچ ڈی ایجوکیشن میں ہیں، اس لیے بحیثیت پروفیسر اور ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے سندھ یونیورسٹی میں خدمات سرانجام دیں تاکہ اساتذہ کی تربیت کے لیے بی ایڈ اور ایم ایڈ کا پروگرام شروع کیا جائے تاکہ ہمارے نوجوانوں کی صحیح تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جاسکے۔ ڈاکٹر بلوچ نے علامہ قاضی کا حکم مانتے ہوئے اپنی زندگی سندھی نوجوانوں کی تربیت اور تعلیم کے لیے وقف کردی۔ سندھ کے جملہ ہائی اسکولوں کے اساتذہ کو ٹرینڈ کیا گیا اور بی ایڈ، ایم ایڈ، ڈپلومہ وغیرہ کرایا گیا تاکہ سندھ میں تعلیم کا معیار بلند ہو اور جو خلا قابل ہندو اساتذہ کے ہندوستان جانے سے پیدا ہوگیا تھا اس کی تلافی کردی جائے۔

علامہ آئی آئی قاضی نہ صرف دانشور و مفکر تھے، بلکہ وہ عظیم مبلغ و مصلح بھی تھے۔ ان کی ہمہ گیر شخصیت کا اثر سندھ میں رہنے والے ہر طبقے کے لوگوں پر تھا، چاہے وہ عالم ہو یا دانشور، صاحب علم ہو یا درگاہ نشین، سیاستدان ہو یا قانون دان۔ علامہ صاحب کے علم و فکر کا سر چشمہ قرآن حکیم کی حکمت اور ہدایت تھا۔ علامہ صاحب کو یونانی اور ہندی فکر و فلسفہ کے ساتھ ساتھ جدید یورپ کے سائنسی اور سماجی علوم پر بھی دسترس تھی۔ دراصل وہ علم کا دریا تھے۔ ایسے عظیم انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
Load Next Story