بچوں پر تعلیم مسلط نہ کریں
یہ اللہ کا قانون اور ہمارا ایمان ہے کہ ہر بچہ مختلف خصوصیات لے کر دنیا میں آتا ہے۔
ISLAMABAD/لاہور:
''میرا بیٹا بڑا ہوکر ڈاکٹر بنے گا''۔
''میں تو اپنے بیٹے کو انجینئر بناؤں گا''۔
''ہماری شہزادی بھی ڈاکٹر بنے گی''۔
''ہم تو اپنے بچے کو فوج میں بھیجیں گے''۔
''ہمارے بیٹے سول سروس میں چلے جائیں تو زندگی سنور جائے گی''۔
یہ جملے ہمارے معاشرے میں روزانہ ہزاروں نہیں تو سیکڑوں لوگ ضرور بولتے ہیں، ہم بھی ان جملوں کو سنتے بھی ہیں اور شاید بولتے بھی ہیں۔ بحیثیت قوم یہ ہمارا مزاج بن گیا ہے کہ ہم حقائق کا سامنا بعد میں کرتے ہیں ، عملی کاموں کی طرف توجہ دیر سے دی جاتی ہے لیکن پہلے خوابوں کا طویل سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔
بطور والدین ہم خود سے طے کرلیتے ہیں کہ ہمارے بچوں نے بڑے ہوکر کیا بننا ہے، کون سے شعبے اور فیلڈ میں جانا ہے۔ جب ہم یہ سوچ لیتے ہیں تو پھر ہم اپنی بات کو منوانے کے لیے بچوں کو شب و روز یہی بات یاد کراتے رہتے ہیں کہ اب تم نے کچھ نہیں کرنا ، بس ہم نے جو سوچ لیا ہے ، جو تمہیں بتادیا ہے، اس پرعمل کرنا ہے اور اس فیلڈ یا شعبے میں جاکر دکھانا ہے۔ یہ اتنی بھیانک غلطی ہے جس کا اندازہ ہمیں ہوتا ہی نہیں اور اگر ہوتا بھی ہے تو اس وقت تک کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ شاعر نے کہا ہے کہ
خواب کتنے بھی سنہری ہوں مگر
زندگی بیداریوں کا نام ہے
اچھے خواب دیکھنا، بڑی منزلوں کی طرف جانے کا سوچنا سب کا حق بھی اور فرض بھی لیکن زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر اگر فیصلے یا اقدامات کیے جائیں تو مقصد کے حصول میں آسانیاں ہوسکتی ہیں۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور مستقبل کے معمار ہیں، ہم انھیں آگے بڑھنے، دنیا کا مقابلہ کرنے، آزمائشوں سے گزرنے کی تربیت دینی ہے۔ انھیں ہر طرح کی ممکنہ آسائشوں اور سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انھیں مشکل حالات سے نمٹنا بھی سکھانا ہے لیکن اگر ہم ان کو پابند کردیں گے کہ ''تم نے صرف یہی کرنا ہے جو ہم کہہ رہے ہیں'' تو ہوسکتا ہے کہ آپ انجانے میں ایسی غلطی کربیٹھیں جس کا مداوا مشکل سے ہو۔
یہ اللہ کا قانون اور ہمارا ایمان ہے کہ ہر بچہ مختلف خصوصیات لے کر دنیا میں آتا ہے، اگر کوئی پڑھائی لکھائی میں بہت اچھا ہوتا ہے تو کوئی جسمانی مشقت کے کاموں میں آگے آگے ہوتا ہے۔ کوئی اپنی آواز کے ذریعے دنیا میں خودکو منوانا چاہتا ہے تو کوئی پینٹنگ کے برش سے اپنی قسمت کے صفحے پر رنگ بکھیرتا ہے۔ کسی کو کتابوں سے زیادہ قدرت کے بکھرے حسن کو تسخیر کرنے کا شوق ہوتا ہے تو کوئی نصابی کتب کو ہی اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے۔
ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بچے کو خالی ذہن اور بے کار دماغ کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہو۔ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے اور ہمیشہ رہے گی کہ والدین اپنے بچوں کی ان مثبت صلاحیتوں اور کارآمد ٹیلنٹ کو پہچانیں، جو اسے آگے بڑھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
بچوں کو اعلیٰ تعلیم کی منازل تک پہنچانا فرض بھی ہے اور ہر ایک کی خواہش بھی ہوتی ہے لیکن یہ بات سب کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اولاد کو ضخیم کتابیں یاد کرادینے سے بات نہیں بنتی، بات اس وقت بنتی ہے جب آپ اپنی اولاد کوتہذیب و اقدار سکھائیں اور اسے بتائیں کہ زندگی آسائشوں کے ساتھ اور بغیر آسائشوں کے کس طرح گزاری جاتی ہے۔ ہر حال میں زندہ رہنے کا فن سیکھنے والے ہی آگے بڑھتے ہیں۔
آئیے تعلیم کے حوالے سے کچھ اقوال زریں پڑھیں۔
٭ آپ اپنی تعلیم پر پورا دھیان دیں اور خود کو عمل کے لیے تیار کریں۔ یہ آپ کا پہلا فریضہ اور آپ کی تعلیم کا حصہ ہے۔ ہماری قوم کے لیے تعلیم زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔ (بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ)
٭ بچے ہمارے مستقبل کی بہترین امید ہیں۔ (سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی)
٭ تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ ایک خالی دماغ کو بامقصد بنادیا جائے۔ (میلکم فوربس)
٭ تعلیم زندگی کی تیاری نہیں بلکہ خود ایک زندگی ہے۔ (امریکی فلسفی جان ڈیوی)
٭ تعلیم کی جڑیں کڑوی ہوسکتی ہیں مگر اس کا پھل بہت میٹھا ہوتا ہے۔ (ارسطو)
٭ تعلیم کا مقصد حقائق کو نہیں بلکہ اقدار کو جاننا ہے۔ (امریکی مصنف ولیم بورو)
٭ بامقصد تعلیم کسی فوج سے زیادہ بہتر انداز میں آزادی کا تحفظ کرسکتی ہے۔ (امریکی سیاستدان ایڈورڈ ایورٹ)
٭ اچھی تعلیم کا سب سے بہترین نتیجہ برداشت ہے۔ (ہیلن کیلر)
٭ تعلیم کے بغیر انسان ایسا ہی ہے جیسے بنیاد کے بغیر عمارت۔
٭ ہر انسان کے لیے تعلیم اس کے مستقبل کا پاسپورٹ ہے۔
٭ تعلیم اندھیرے سے روشنی کا سفر ہے۔
تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ایک اور ضروری چیز تعلیمی نظام ہے۔ پاکستان میں یوں تو بہت سے تعلیم نظام رائج ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق یا اپنی حیثیت سے بھی بڑھ کر نظام تعلیم اپنے بچوں کے لیے منتخب کرتا ہے۔ بات اس میں بھی وہی آتی ہے کہ بڑے تعلیمی ادارے، لاتعداد کتابوں سے بھرے بھاری بھرکم بستے، مختلف days منانے کے نام پر تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں ہی status symbol نہیںہیں، اصل چیز اچھی، معیاری اور بامقصد تعلیم ہے جس پر حکمرانوں، والدین، اساتذہ سمیت سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو اچھی اور بامقصد تعلیم دیں، ان پر تعلیم تھوپیں نہ، اگر ایسا کیا جائے گا تو وقتی طور پر تو ہمیں خوشی بھی ملے گی، تعریفیں بھی ہورہی ہوں گی لیکن اس سے بچوں کی اصل صلاحیتیں اور ٹیلنٹ دب جائے گا اور اعلیٰ تعلیمی مدارج طے کرنے کے باوجود بچہ اپنی اصل صلاحیتوں کو استعمال نہ کرنے کی کسک لیے رہے گا جو اس کے لیے صحیح نہیں۔
ہمیں اپنے بچوں کو نصابی کتابیں یاد کرانے کے ساتھ ساتھ صبر و برداشت، تحمل، ادب، تمیز، تہذیب، دوسرے کی بات سننے کا فن، غیر متوقع بات کو برداشت کرنے کی صلاحیت ، مشکل حالات میں بھی ہنسنے مسکرانے کی عادت جیسے ہنر بھی سکھانے ہوں گے اور یہ سب کچھ اس وقت ہوگا جب آپ خود ان باتوں کو اپنے اندر پیدا کریں اور بچوں کے سامنے عملی طور پر ان صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں کیونکہ وہ آپ سے ہی سیکھتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ قارئین میں سے اکثریت اپنے اپنے بچپن میں اس صورتحال سے گزری ہوگی اور اب ان کے بچے ان کی جانب سے صحیح فیصلہ کرنے کے منتظر ہوں گے۔ بروقت صحیح فیصلہ کرکے ہم نہ صرف اپنا مستقبل محفوظ بناسکتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی ملک و قوم کا صحیح معنوں میں نمایندہ بننے کا اہل ثابت کرسکتے ہیں، اس پر سب کو سوچنا ہوگا۔ کچھ باتوں میں کڑواہٹ ضرور ہوتی ہے، افسوس بھی ہوتا ہے لیکن اگر انسان غلطیوں سے سیکھنے اور انھیں نہ دہرانے کا تہیہ کرلے تو ہم بہت سے مثبت نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔
سب کو بحیثیت والدین اور اساتذہ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کو ان غلطیوں اور کوتاہیوں سے بچائیں جو جانے انجانے میں ہم سے ہوچکی ہیں۔ ماضی سے سیکھ کر اگر ہم اپنے حال پر کچھ توجہ دے لیں گے تو مستقبل یقینی طور پر بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کی شکل میں ہمارے سامنے آئے گا۔
''میرا بیٹا بڑا ہوکر ڈاکٹر بنے گا''۔
''میں تو اپنے بیٹے کو انجینئر بناؤں گا''۔
''ہماری شہزادی بھی ڈاکٹر بنے گی''۔
''ہم تو اپنے بچے کو فوج میں بھیجیں گے''۔
''ہمارے بیٹے سول سروس میں چلے جائیں تو زندگی سنور جائے گی''۔
یہ جملے ہمارے معاشرے میں روزانہ ہزاروں نہیں تو سیکڑوں لوگ ضرور بولتے ہیں، ہم بھی ان جملوں کو سنتے بھی ہیں اور شاید بولتے بھی ہیں۔ بحیثیت قوم یہ ہمارا مزاج بن گیا ہے کہ ہم حقائق کا سامنا بعد میں کرتے ہیں ، عملی کاموں کی طرف توجہ دیر سے دی جاتی ہے لیکن پہلے خوابوں کا طویل سلسلہ شروع کردیا جاتا ہے۔
بطور والدین ہم خود سے طے کرلیتے ہیں کہ ہمارے بچوں نے بڑے ہوکر کیا بننا ہے، کون سے شعبے اور فیلڈ میں جانا ہے۔ جب ہم یہ سوچ لیتے ہیں تو پھر ہم اپنی بات کو منوانے کے لیے بچوں کو شب و روز یہی بات یاد کراتے رہتے ہیں کہ اب تم نے کچھ نہیں کرنا ، بس ہم نے جو سوچ لیا ہے ، جو تمہیں بتادیا ہے، اس پرعمل کرنا ہے اور اس فیلڈ یا شعبے میں جاکر دکھانا ہے۔ یہ اتنی بھیانک غلطی ہے جس کا اندازہ ہمیں ہوتا ہی نہیں اور اگر ہوتا بھی ہے تو اس وقت تک کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ شاعر نے کہا ہے کہ
خواب کتنے بھی سنہری ہوں مگر
زندگی بیداریوں کا نام ہے
اچھے خواب دیکھنا، بڑی منزلوں کی طرف جانے کا سوچنا سب کا حق بھی اور فرض بھی لیکن زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر اگر فیصلے یا اقدامات کیے جائیں تو مقصد کے حصول میں آسانیاں ہوسکتی ہیں۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور مستقبل کے معمار ہیں، ہم انھیں آگے بڑھنے، دنیا کا مقابلہ کرنے، آزمائشوں سے گزرنے کی تربیت دینی ہے۔ انھیں ہر طرح کی ممکنہ آسائشوں اور سہولتوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ انھیں مشکل حالات سے نمٹنا بھی سکھانا ہے لیکن اگر ہم ان کو پابند کردیں گے کہ ''تم نے صرف یہی کرنا ہے جو ہم کہہ رہے ہیں'' تو ہوسکتا ہے کہ آپ انجانے میں ایسی غلطی کربیٹھیں جس کا مداوا مشکل سے ہو۔
یہ اللہ کا قانون اور ہمارا ایمان ہے کہ ہر بچہ مختلف خصوصیات لے کر دنیا میں آتا ہے، اگر کوئی پڑھائی لکھائی میں بہت اچھا ہوتا ہے تو کوئی جسمانی مشقت کے کاموں میں آگے آگے ہوتا ہے۔ کوئی اپنی آواز کے ذریعے دنیا میں خودکو منوانا چاہتا ہے تو کوئی پینٹنگ کے برش سے اپنی قسمت کے صفحے پر رنگ بکھیرتا ہے۔ کسی کو کتابوں سے زیادہ قدرت کے بکھرے حسن کو تسخیر کرنے کا شوق ہوتا ہے تو کوئی نصابی کتب کو ہی اوڑھنا بچھونا بنالیتا ہے۔
ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بچے کو خالی ذہن اور بے کار دماغ کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہو۔ ضرورت اس بات کی ہوتی ہے اور ہمیشہ رہے گی کہ والدین اپنے بچوں کی ان مثبت صلاحیتوں اور کارآمد ٹیلنٹ کو پہچانیں، جو اسے آگے بڑھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
بچوں کو اعلیٰ تعلیم کی منازل تک پہنچانا فرض بھی ہے اور ہر ایک کی خواہش بھی ہوتی ہے لیکن یہ بات سب کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اولاد کو ضخیم کتابیں یاد کرادینے سے بات نہیں بنتی، بات اس وقت بنتی ہے جب آپ اپنی اولاد کوتہذیب و اقدار سکھائیں اور اسے بتائیں کہ زندگی آسائشوں کے ساتھ اور بغیر آسائشوں کے کس طرح گزاری جاتی ہے۔ ہر حال میں زندہ رہنے کا فن سیکھنے والے ہی آگے بڑھتے ہیں۔
آئیے تعلیم کے حوالے سے کچھ اقوال زریں پڑھیں۔
٭ آپ اپنی تعلیم پر پورا دھیان دیں اور خود کو عمل کے لیے تیار کریں۔ یہ آپ کا پہلا فریضہ اور آپ کی تعلیم کا حصہ ہے۔ ہماری قوم کے لیے تعلیم زندگی و موت کا مسئلہ ہے۔ (بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح ؒ)
٭ بچے ہمارے مستقبل کی بہترین امید ہیں۔ (سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی)
٭ تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ ایک خالی دماغ کو بامقصد بنادیا جائے۔ (میلکم فوربس)
٭ تعلیم زندگی کی تیاری نہیں بلکہ خود ایک زندگی ہے۔ (امریکی فلسفی جان ڈیوی)
٭ تعلیم کی جڑیں کڑوی ہوسکتی ہیں مگر اس کا پھل بہت میٹھا ہوتا ہے۔ (ارسطو)
٭ تعلیم کا مقصد حقائق کو نہیں بلکہ اقدار کو جاننا ہے۔ (امریکی مصنف ولیم بورو)
٭ بامقصد تعلیم کسی فوج سے زیادہ بہتر انداز میں آزادی کا تحفظ کرسکتی ہے۔ (امریکی سیاستدان ایڈورڈ ایورٹ)
٭ اچھی تعلیم کا سب سے بہترین نتیجہ برداشت ہے۔ (ہیلن کیلر)
٭ تعلیم کے بغیر انسان ایسا ہی ہے جیسے بنیاد کے بغیر عمارت۔
٭ ہر انسان کے لیے تعلیم اس کے مستقبل کا پاسپورٹ ہے۔
٭ تعلیم اندھیرے سے روشنی کا سفر ہے۔
تعلیم کی اہمیت اپنی جگہ لیکن ایک اور ضروری چیز تعلیمی نظام ہے۔ پاکستان میں یوں تو بہت سے تعلیم نظام رائج ہیں اور ہر کوئی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق یا اپنی حیثیت سے بھی بڑھ کر نظام تعلیم اپنے بچوں کے لیے منتخب کرتا ہے۔ بات اس میں بھی وہی آتی ہے کہ بڑے تعلیمی ادارے، لاتعداد کتابوں سے بھرے بھاری بھرکم بستے، مختلف days منانے کے نام پر تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں ہی status symbol نہیںہیں، اصل چیز اچھی، معیاری اور بامقصد تعلیم ہے جس پر حکمرانوں، والدین، اساتذہ سمیت سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو اچھی اور بامقصد تعلیم دیں، ان پر تعلیم تھوپیں نہ، اگر ایسا کیا جائے گا تو وقتی طور پر تو ہمیں خوشی بھی ملے گی، تعریفیں بھی ہورہی ہوں گی لیکن اس سے بچوں کی اصل صلاحیتیں اور ٹیلنٹ دب جائے گا اور اعلیٰ تعلیمی مدارج طے کرنے کے باوجود بچہ اپنی اصل صلاحیتوں کو استعمال نہ کرنے کی کسک لیے رہے گا جو اس کے لیے صحیح نہیں۔
ہمیں اپنے بچوں کو نصابی کتابیں یاد کرانے کے ساتھ ساتھ صبر و برداشت، تحمل، ادب، تمیز، تہذیب، دوسرے کی بات سننے کا فن، غیر متوقع بات کو برداشت کرنے کی صلاحیت ، مشکل حالات میں بھی ہنسنے مسکرانے کی عادت جیسے ہنر بھی سکھانے ہوں گے اور یہ سب کچھ اس وقت ہوگا جب آپ خود ان باتوں کو اپنے اندر پیدا کریں اور بچوں کے سامنے عملی طور پر ان صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں کیونکہ وہ آپ سے ہی سیکھتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ قارئین میں سے اکثریت اپنے اپنے بچپن میں اس صورتحال سے گزری ہوگی اور اب ان کے بچے ان کی جانب سے صحیح فیصلہ کرنے کے منتظر ہوں گے۔ بروقت صحیح فیصلہ کرکے ہم نہ صرف اپنا مستقبل محفوظ بناسکتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی ملک و قوم کا صحیح معنوں میں نمایندہ بننے کا اہل ثابت کرسکتے ہیں، اس پر سب کو سوچنا ہوگا۔ کچھ باتوں میں کڑواہٹ ضرور ہوتی ہے، افسوس بھی ہوتا ہے لیکن اگر انسان غلطیوں سے سیکھنے اور انھیں نہ دہرانے کا تہیہ کرلے تو ہم بہت سے مثبت نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔
سب کو بحیثیت والدین اور اساتذہ یہ کوشش کرنی چاہیے کہ بچوں کو ان غلطیوں اور کوتاہیوں سے بچائیں جو جانے انجانے میں ہم سے ہوچکی ہیں۔ ماضی سے سیکھ کر اگر ہم اپنے حال پر کچھ توجہ دے لیں گے تو مستقبل یقینی طور پر بچوں کی بہترین تعلیم و تربیت کی شکل میں ہمارے سامنے آئے گا۔