اداروں کے تنازعے پریشان عوام
کے الیکٹرک ہمیشہ خود کو سچا۔ سوئی سدرن گیس،واٹر بورڈ ودیگر سرکاری اداروں کوغلط اور اپنے صارفین کو ہی غلط قرار دیتا ہے۔
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کے درمیان الزامات کی جنگ تیز ہوگئی ہے اور سوئی سدرن کمپنی کے مطابق کے الیکٹرک کی طرف 80 ارب روپے کے واجبات کے باوجود گیس دے رہے ہیں اور ہم کے الیکٹرک کے پاور پلانٹ کو گیس فراہم کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ کے الیکٹرک کو پلانٹ لگانے سے قبل سوچنا چاہیے تھا ہم 28 لاکھ صارفین کو بھی گیس دے رہے ہیں صرف کے الیکٹرک کو گیس کی شکایت ہے۔
دوسری طرف کے الیکٹرک کی ترجمان نے کہا ہے کہ گیس نہ ملنے سے اب طویل لوڈ شیڈنگ ہوگی۔ 60 فی صد علاقوں کو استثنیٰ ختم کر دیا ہے اور رمضان المبارک میں بجلی کے بحران میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔
واٹر بورڈ کو بھی کے الیکٹرک سے یہ شکایت عام ہے کہ کے الیکٹرک آئے دن فراہمی آب کے پمپنگ اسٹیشنوں کی بجلی بند کردیتی ہے جس کی وجہ سے شہر میں پانی کی فراہمی معطل ہوجاتی ہے اور شہریوں کو پریشانی اور قلت آب کا سامنا رہتا ہے۔ کے الیکٹرک سوئی سدرن کمپنی کو ان کے واجبات ادا نہیں کررہی اور عدالت سے اسٹے کے باعث صرف موجودہ بل کی ادائیگی کی جارہی ہے جس کے لیے ترجمان کے الیکٹرک کا کہناہے کہ وہ باقاعدگی سے موجودہ بل ادا کررہی ہے۔
گزشتہ سال ایس ایس جی سی نے کے الیکٹرک کو 160 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کی تھی اور 2016 کے موسم گرما میں 193 گیس فراہم کی گئی تھی اس لیے سوئی سدرن عوام کی بہتری کے لیے کے الیکٹرک کو تجارتی مقاصد کی بجائے شہری مفاد میں کے الیکٹرک کو مطلوبہ گیس فراہم کرے۔
سوئی سدرن بھی کہہ چکی ہے کہ کے الیکٹرک تجارتی ادارہ ہے اور تجارتی بنیاد پر ہی بجلی فروخت کرتا ہے اور ایس ایس جی سی بھی کے الیکٹرک کی طرح تجارتی ادارہ ہے اور اپنی پالیسی اور کے الیکٹرک کو معاہدے کے تحت ہی گیس فراہم کی جائے گی جب کہ کے الیکٹرک ترجمان کا کہناہے کہ گیس سپلائی ایگریمنٹ کے لیے تیار ہیں جو نیشنل گیس ایلوکیشن پالیسی کے تحت ہی ہوسکتا ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ سفاکانہ تجارتی پالیسی کی بنیاد پر چلایا جانے والا کے الیکٹرک کو گیس کے معاملے میں شہری مفاد یاد آگیا ہے اور وہ چاہتاہے کہ اسے حکومتی معاہدے کے مطابق فیول سے بجلی پیدا نہ کرنی پڑے اور وہ سوئی گیس کے ذریعے اپنی بجلی سستی پیدا کرکے مہنگے داموں صارفین کو فروخت کرکے ہر ماہ کروڑوں روپے اضافی رقم بھی حاصل کرتا رہے مگر سوئی سدرن کو ان کے بقایاجات ادا کرنے کی بجائے عدالت سے حکم امتناعی لے کر گیس کے 80ارب روپے ادا نہ کرنا پڑیں اور بعد میں یہ تنازعہ شنگھائی الیکٹرک کے گلے پڑ جائے۔
موجودہ صورتحال میں کے الیکٹرک سوئی سدرن گیس پر الزام عائد کررہی ہے کہ وہ 276 ایم ایم سی ایف ڈی گیس فراہم کرنے کی پابند ہے اور ایس ایس جی کے ترجمان کا کہناہے کہ ہم کے الیکٹرک کوکیے گئے معاہدے کے تحت روزانہ صرف دس ایم ایم سی ایف گیس فراہم کرنے کے پابند ہیں اور کے الیکٹرک کی شرائط پر نیا معاہدہ نہیں ہوسکتا کیونکہ کے الیکٹرک بھی ہماری طرح تجارتی ادارہ ہے اور ہماری ترجیح ہمارے 28 لاکھ صارفین ہیں۔
دو بڑے تجارتی اداروں کے باہمی تنازعے میں دونوں کا تو کچھ نہیں بگڑ رہا اور لوڈ شیڈنگ بڑھ جانے کی سزا عوام کو مل رہی ہے ۔ دونوں کے تنازعے میں ایس ایس جی کا موقف درست لگتا ہے کہ وہ شہری مفاد میں کے الیکٹرک پر 80 ارب کے واجبات کے باوجود بھی گیس دے رہی ہے جو ایک بہت بڑی رقم ہے۔
حیرت یہ ہے کہ نیپرا کے الیکٹرک پر جرمانہ کرے تو وہ عدالت سے اسٹے لے لیتی ہے اور واجبات دینے پر بھی اسے حکم امتناعی مل جاتا ہے مگر کے الیکٹرک اپنے چند سو روپے کے بقایاجات پر صارف کی بجلی منقطع کردیتی ہے اور صارف کو کسی عدالت سے حکم امتناعی نہیں ملتا۔
جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جو ایک سال سے کے الیکٹرک کی ظالمانہ لوڈ شیڈنگ، ناجائز وصولی، اضافی بلنگ اور صارفین سے مسلسل زیادتیوں کے خلاف تحریک چلارہی ہے جب کہ کراچی کی نمایندگی کی دعویدار ایم کیو ایم دس سال سے حکومت کرنے والی پیپلزپارٹی اور کراچی کی دوسری بڑی دعویدار اے این پی کے الیکٹرک کے خلاف دکھاوے کے بیانات دیتی رہتی ہیں کیونکہ کے الیکٹرک نے تینوں پارٹیوں کی مبینہ سفارشوں پر ان کے خاص لوگوں کو بھارتی تنخواہوں پر ملازم رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے تینوں عملاً خاموش رہتی ہیں۔
عملی طور پر صرف جماعت اسلامی کے الیکٹرک کے مظالم کے خلاف عوام کی ترجمانی اور عدالتی کارروائی کررہی ہے۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم نے سپریم کورٹ میں کے الیکٹرک کے خلاف زیر التوا مقدمات کی سماعت نہ ہونے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے چیف جسٹس سے نوٹس لینے اور کے الیکٹرک کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ حقائق منظر عام پر آسکے۔
کے الیکٹرک ہمیشہ خود کو سچا۔ سوئی سدرن گیس، واٹر بورڈ ودیگر سرکاری اداروں کو غلط اور اپنے صارفین کو ہی غلط قرار دیتا ہے جس کے آگے حکومت مجبور و بے بس ہے۔ کراچی میں لوڈ شیڈنگ بڑھی شہر میں احتجاج ہوئے مگر دس سالوں میں کہیں سے بھی اس اہم مسئلے پر ایکشن ہوا نہ کے الیکٹرک کے خلاف زیر التوا مقدمات کی سماعت ہورہی ہے اور کے الیکٹرک وفاقی محتسب کے فیصلوں کو بھی نہیں مان رہی اور ایک سال قبل کیے جانے والے وفاقی محتسب کے فیصلے ماننے سے بھی انکاری ہے اور کے الیکٹرک دیگر اداروں سے اپنے مالی تنازعات کی سزا ناحق عوام کو دے رہی ہے جن کا کوئی سننے والا نہیں ہے۔