نواز شریف اور کرم کا قانون
کل آپ کی باری تھی، آج کسی اور کی باری ہے۔
کائنات مقام بازگشت ہے، ہر عمل کا یکساں ردعمل ہوگا، کرم کے قانون سے مفر نہیں۔
2008 کے الیکشن کے چند روز بعد جب یکدم پرویز مشرف غیرمتعلقہ ہوئے، پیپلزپارٹی کے پھریرے لہرا نے لگے، تب کراچی کی ایک نیم گرم شام چند صحافی چائے پر اکٹھے ہوئے تھے اور یہ موضوع چھڑا تھا کس نے کس جماعت کو ووٹ دیا؟
''میں نے شیر پر مہر لگائی !'' یہ ایک سینئرکے الفاظ تھے، جس کے پیچھے اس کا اعتماد تھا۔''کیونکہ نواز شریف نے ججزکی بحالی کا وعدہ کیا ہے، ن لیگ عدلیہ کے ساتھ کھڑی ہے۔''
پرویز مشرف کی ایمرجینسی افتخار چوہدری کی مقبولیت کو کچلنے میں ناکام رہی ۔ 20 جولائی2007 کو جسٹس رمدے بینچ کے تاریخی فیصلے کے بعد بحال ہونے والے افتخار چوہدری نے تبدیلی کی علامت کی حیثیت اختیارکر لی ، اُس صدر کے مدمقابل آن کھڑے ہوئے، جس کے پی سی او پر انھوں نے کبھی حلف لیا تھا ۔
جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں بینچ پرویز مشرف کی اہلیت کیس کی سماعت مکمل کرنے کو تھا کہ ایمرجینسی لگا دی گئی۔ اعلیٰ عدلیہ کے 60ججز معطل ہوکر نظر بند ہوئے، مگر سرکارکو کچھ حاصل نہیں ہوا ۔ پی پی اور ن لیگ فاتح ٹھہرے ۔ میاں صاحب اور زرداری کے قہقہوں سے اعتماد جھلکتا تھا، وہ مجلسوں میں خود کو بھائی کہہ کر پکارتے ۔
شہادت سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو نے چیف جسٹس کے گھر پر جھنڈا لہرانے کا اعلان کیا تھا ، مگر این آر او کے باعث وہ اس معاملے سے پیچھے ہٹ گئیں ۔ ایسے میں 27 اکتوبر کا خونیں دن اترا، اور پاکستان کی اکلوتی ملک گیر جماعت کی سربراہ قتل کر دی گئی۔ البتہ پی پی کو ہمدردی کا ووٹ نہیں پڑا ۔ وہ بھاری اکثریت لینے میں ناکام رہی، مگر یہ کیا کم تھا کہ مشرف کی ق لیگ کو شکست ہوئی۔
پی پی کا وزیر اعظم آتے ہی الٹی گنتی شروع ہوگئی کہ فیصلہ ہوا تھا، جمہوری حکومت آنے کے تیس دن بعد ججز بحال ہوجائیں گے، مگر زرداری صاحب کے ارادے مختلف تھے۔الٹی گنتی چلتی رہی، نواز زرداری ملاقاتیں ہوئیں، بیانات داغے گئے، افتخار چوہدری نظر بندی ختم ہونے کے بعد آصف زرداری سے ملنے پہنچے، مگر ججز بحال نہیں ہوئے، وکلا تحریک میں آگے آگے رہنے والی جماعتوں کو اقتدار ملا، احتجاج میں پیش پیش رہنے والے یوسف رضا گیلانی وزیرا عظم بن گئے، مگر ججز بحال نہیں ہوئے۔
اس وجہ سے ن لیگ اور پی پی میں دوریاں پیدا ہوئیں ۔ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا جھگڑا اٹھا۔ سلمان تاثیر کوگورنر لگادیا گیا۔ لگتا تھا، ڈیڈلاک اتنے عرصے برقرار رہے گا کہ معطل شدہ ججزغیرمتعلقہ ہوجائیں گے، یہاں تک کہ مارچ 2009 آگیا۔ اس دن(9مارچ2007) کی یاد لے کر، جب افتخار چوہدری نے باوردی صدر کے سامنے استعفیٰ دینے سے انکار کیا تھا۔
لانگ مارچ شروع ہوا، تین صوبوں میں دفعہ 144 نافذ تھی۔ سپریم کورٹ بار کونسل کے صدر علی احمد کرد بھی بلوچستان کی سرحد تک محدود تھے، مگر پنجاب کی صورت حال الگ تھی۔ میاں صاحب آگے بڑھے، پنجاب کی انتظامیہ نے میاں صاحب کو سلوٹ کرکے وکلا کی راہ سے رکاوٹیں ہٹا دیں، حکومت پر دباؤ بڑھ گیا۔ ابھی اسلام آباد کچھ دُور تھا کہ افتخار چوہدری کو بحال کر دیا گیا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار معطل ہونے والا چیف جسٹس تیسری بار اپنے عہدے پر بحال ہوا۔ اصل کریڈٹ تووکلا اور سول سوسائٹی کو جاتا تھا، مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس رات اگر میاں صاحب نہ ہوتے، تو شاید یہ قوم جوڈیشل ایکٹو ازم کے وہ مظاہرہ نہیں دیکھتی، جو افتخار چوہدری کے پوری قوت سے لوٹنے کے بعددیکھا۔ (اورکچھ اس سے پہلے بھی، اسٹیل مل اور دیگر کیسز میں)
کائنات مقام بازگشت ہے، کرم کے قانون سے مفر نہیں۔۔۔۔
جولائی 2009کے آخر میں افتخار چوہدری کی سربراہی میں 14 رکنی بینچ نے 3 نومبر کی ایمرجنسی کوغیرقانونی قرار دیتے ہوئے پرویز مشرف کے دوسرے پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججز فارغ کردیے ۔ لگتا تھا ، انقلاب نزدیک ہے، یہاں تک کہ لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت نے بھی ایک حیران کن امکان پیدا کر دیا تھا ، مگر ہر انقلاب کی طرح یہ انقلاب بھی خواب ثابت ہوا۔ علی احمد کرد ، جنھوں بحالی کے فوراً بعد افتخار چوہدری سے کہا تھا '' اب ہم آپ پر نظر رکھیں گے '' کچھ ماہ بعد ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہتے ہوئے پھٹ پڑے کہ نظام عدل میں بھی اب بھی فرعونیت قائم ہے ۔
کچھ بھی پہلے جیسا نہیں رہا ۔ چیف جسٹس کی کورٹ میں کیس نہ لڑنے کا عہد کرنے والے اعتراز احسن نے اپنی پارٹی سے تلخیاں ختم کیں اور پی پی کے دفاع میں سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ ادھر افتخار چوہدری نے اصغر خان کیس کی ذمے داری اٹھانے سے اجتناب برتا، ان کے بیٹے ارسلان افتخار پر بدعنوانی کے سنگین الزامات عاید ہوئے۔ 2013کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات سے اُن کی لاتعلقی نے بھی عوام کو مایوس کیا، پھر اس سے بھی زیادہ پریشان کن وہ معاملات تھے، جن سے پیپلزپارٹی نبرد آزما ہوئی۔یہ واضح ہوگیا کہ کیوں آصف زرداری افتخار چوہدری کو دوبارہ چیف جسٹس بنانے کے خلاف تھے ۔
ایک سبب تووہ تجربات تھے، جن کا اُنھیں دوران قید تجربہ ہوا تھا اور دوسرا سبب یہ تاثر تھاکہ افتخار چوہدری ن لیگ کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور اس تاثرکو قوی کیا خود میاں صاحب نے ۔ جب وہ میمو گیٹ میں کالا کوٹ پہن کر عدالت پہنچے۔ جب اُن کی قیادت میں ن لیگ یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروانے کا کیس لے کر سپریم کورٹ گئی ۔ اِس دوران میاں صاحب اوراُن کی صاحبزادی گیلانی کو راہ راست پر آنے اور سپریم کورٹ کا حکم ماننے کی نصیحتیں کرتے رہے۔
26 اپریل 2012 کو گیلانی کی نااہلی کے بعد یک دم دباؤ بڑھا دیا گیا۔ ٹیکسلا سے احتجاجی مہم کا آغاز کرتے ہوئے 12 مئی 2012 کو میاں صاحب نے کہا ''یہ کیسا ممکن ہے کہ سپریم کورٹ حکم دے اور تم ماننے سے انکار کر دو، یہ انسانوں کی بستی ہے یا حیوانوں کی بستی، ہم اسے حیوانوں کی بستی نہیں بننے دیں گے۔''
الیکشن قریب آگئے۔ ن لیگ نے وفاداریاں بدلنے والوں کے لیے چھتری کی شکل اختیارکر لی۔ الیکشن جیت کر میاں صاحب اقتدار میں آئے اور وہ چیف جسٹس، جن کی بحالی کے لیے اُنھوں نے تاریخی مہم چلائی تھی،اُسے ایکسٹنشن دینے کے بجائے دسمبر 2013 میں ریٹائرمنٹ کے بعد گھر بھیج دیا گیا۔
تو کیا کھیل ختم ہوا ؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ کائنات مقام بازگشت ہے، ہر عمل کا یکساں ردعمل سامنے آتا ہے۔
تین بار وزیر اعظم بن کر عہدے سے محروم ہونے والے نواز شریف گزشتہ دنوں اپنی تیسری ٹرم میں تیسری بار نا اہل قرار پائے، اسی عدلیہ سے جس کی بحالی میں اُنھوں نے ''خصوصی کردار'' ادا کیا تھا۔ ان ہی ججز سے، جو کبھی ان کے معتبر تھے۔ گو اب وہ انھیں پی سی او ججز کہنے لگے ہیں۔
حالیہ سانحے سے نبرد آزما ہونے کے لیے وہ جس بیانیے کے ساتھ سامنے آئے ہیں، وہ مسلم لیگ ن کے ماضی اور میاں صاحب کی سیاست سے لگا تو نہیں کھاتا،البتہ اس پورے معاملے میں انھیں یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ وہ مریم نوازکو اپنی جانشین کے طور پر پیش کرنے اور اپنی اینٹی اسٹیبشلمنٹ شبیہ بنانے میں ایک حد تک کامیاب رہے۔البتہ خاطر جمع رکھیے، کسی جنگ کا امکان نہیں ۔اینٹی اسٹیبشلمنٹ شبیہ فقط شبیہ ہے، شخصیت نہیں ۔جب آپ کی اربوں کی جائیداد ہو ، تب آپ نقصان کا نہیں ، فائدہ کا سودا کرتے ہیں، تخریب نہیں، تعمیر کا کلیہ اپناتے ہیں، لڑتے نہیں، انتظار کرتے ہیں۔
کل آپ کی باری تھی، آج کسی اور کی باری ہے ۔ اُسے اپنے باری کا بونے دیں، کرم کے قانون سے کوئی مفر نہیں ۔ بونے والا جو جوئے گا، کل وہی کاٹے گا، جیسے آپ کاٹ رہے ہیں۔