سچّا پاکستانی

احمد کی بات سے ڈاکٹر اسد خلیل کی آنکھیں بھر آئیں۔ انہوں نے اس کے جذبے کو سراہا۔

سچائی پاکستانی۔ فوٹو: ایکسپریس

حمد اور رامو امرتسر کے ایک محلے میں رہتے تھے۔ دونوں کی دوستی بہت مشہور تھی۔ ہر کوئی انہیں رشک سے دیکھتا تھا۔ رامو غریب خاندان جب کہ احمد بڑے زمین دار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ امیری اور غریبی کے اِس تفاوت کے باوجود اُن کی دوستی مثالی تھی۔

دونوں نے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ ابھی وہ کالج میں داخلہ لینے کا سوچ ہی رہے تھے کہ ہندوستان کی تقسیم کا اعلان ہوگیا۔ مسلمانوں کے لیے حالات اتنے خراب ہوگئے کہ رامو نے بھی احمد اور اس کے خاندان کو پناہ دینے سے انکار کردیا۔ احمد اپنی آنکھوں میں نئے سپنے سجائے پاکستان کی طرف روانہ ہوگیا۔ پانچ دن پیدل سفر کرنے کے بعد وہ تو پاکستان پہنچ گیا لیکن اس کا سارا خاندان راستے ہی میں قتل کردیا گیا۔

پاکستان پہنچ کر اس نے تنِ تنہا اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ اسے بھی دیگر مہاجرین کی طرح ایک مکان الاٹ ہوگیا۔ یہ ایک چھوٹا مگر خوب صورت طرزِتعمیر کا حامل مکان تھا جسے ایک ہندو ساہوکار نے اپنے لیے بنایا تھا۔
احمد روزانہ مزدوری کے لیے نکلتا اور اپنی گزراوقات کے لیے معقول رقم کما لیتا۔ گزرے ماضی کی یادیں آنسوئوں میں ڈھلنے لگیں لیکن اکثر اس کے زخم یہ سوچ کر پھر سے تازہ ہوجاتے کہ جس مقصد کے لیے پاکستان بنایا گیا وہ ابھی پورا نہیں ہوا۔

کبھی کبھی اسے اپنی قربانیاں بے کار نظر آتیں لیکن پھر جلد ہی وہ اس شیطانی خیال پر غلبہ پالیتا اور پاکستان کے مستقبل کے بارے میں پُرامید ہوجاتا۔ جب سے وطنِ عزیز ایٹمی قوت بنا تھا وہ خود کو بھی ناقابلِ تسخیر سمجھنے لگا تھا۔ اسے یقین تھا کہ نوجوان نسل ضرور قیام پاکستان کے حقیقی مقاصد کی تکمیل کرے گی۔

آج اس کے گھر میں تیسرا فاقہ تھا۔ منہگائی اور مخدوش ملکی حالات کی وجہ سے اس کے لیے مزدوری کا حصول بھی ناممکن ہوتا جارہا تھا۔ مہینے میں بس چند ہی دن مزدوری ملتی۔

اس کے ایک کمرے کی دیوار کافی خستہ ہوچکی تھی۔ اس نے سوچا کہ اسے گرا کر نئی دیوار تعمیر کرلی جائے۔ ایک دن وہ دیوارگرا رہا تھا کہ اس کی بنیادیں کھودتے ہوئے اس کا تیشہ ایک سخت چیز سے ٹکرایا۔ اس نے اپنے کام کو اگلے دن پر ٹال دیا۔ پھر کئی دن گزر گئے، وہ کام نہیں شروع کرپایا۔

دراصل وہ اپنی عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا تھا کہ جہاں ذرا سی بیماری بھی انسان کو ناکارہ بنانے لگتی ہے۔ اسے تو پھر ٹائیفائیڈ تھا۔ اس کی جیب خالی تھی۔ وہ اپنے دوستوں سے ملا، کچھ رقم مل گئی۔ کچھ دن گزرے پھر وہی پریشانی۔۔۔۔ کہ دوا کہاں سے لائے۔ روٹی تو خیر کوئی ترس کھاکر کھلا دیتا لیکن وقت پر دوا کا حصول اس کے لیے دردِسر بن گیا۔ خدا خدا کرکے وہ ٹائیفائیڈ کی گرفت سے نکلا تو ٹی بی نے آن گھیرا۔

احمد اب زیادہ پریشان رہنے لگا۔ ایک دوست نے اسے ٹی بی اسپتال میں کام کرنے والے ایک ملازم کے پاس رقعہ دے کر بھیجا لیکن وہاں جاکر معلوم ہوا کہ اسپتال میں ''بڑے صاحب'' کی سفارش کے بغیر داخلہ نہیں ملتا۔ ''کیا ہم نے پاکستان کے لیے قربانیاںکسی بڑے صاحب کی سفارش پر دی تھیں۔'' اس نے دل سوچا۔ آخر مایوس دل لیے واپس آگیا اور ایک مقامی کلینک سے علاج کرانے لگا۔ کلینک کے ڈاکٹر اسد خلیل ایک رحم دل انسان تھے۔ انہوں نے احمد کی کہانی سنی تو ان کی آنکھیں بھرآئیں۔

''احمد بابا! میں آپ کا علاج کروںگا۔''ڈاکٹر اسد خلیل بولے۔

''ڈاکٹر صاحب! اب تو میرے پاس علاج کے لیے پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے۔'' احمد بولا۔


''احمد بابا! گھبرائیے مت۔ میں آپ کا علاج مفت کروںگا۔ اور جب تک آپ ٹھیک نہ ہوجائیں، میرے گھر میں رہیں۔''

ڈاکٹر اسد خلیل کی یہ بات سن کر احمد کے دل سے بے اختیار نکلا؛ ''پاکستان! زندہ باد!'' اُس نے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا؛ ''بیٹا! تم پاکستان کا مستقبل ہو اور میں پاکستان کے مستقبل سے پُرامید ہوں۔''

دن گزرتے گئے اور احمد پوری طرح صحت مند ہوگیا۔ اب وہ اپنے گھر واپس جانا چاہتا تھا لیکن ڈاکٹر اسد خلیل کے بچے اس سے اتنے مانوس ہوچکے تھے کہ انہوں نے یہ سن کر رونا شروع کردیا کہ احمد بابا جارہے ہیں۔

''بابا! ہم آپ کو نہیں جانے دیںگے۔ بابا! آپ پاکستان ہیں اور ہم پاکستان کو کیسے اپنے گھر سے جانے دیں؟'' ڈاکٹر اسد خلیل کے بڑے بیٹے کی یہ بات سن کر احمد کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

''بیٹا! مجھے اپنے گھر کے ایک کمرے کی دیوار بنانی ہے۔ لیکن آپ سے ملنے آتا رہوں گا۔'' آخر احمد بابا کی ضد کے سامنے سب نے ہتھیار ڈال دیے۔ ڈاکٹر اسد خلیل نے احمد بابا کو دیوار کی تعمیر کے لیے کچھ پیسے دیے اور کہا کہ جب بھی کوئی ضرورت پڑے تو میرے پاس آجانا۔

احمد بابا نے گھر پہنچتے ہی تیشہ پکڑا اور دیوار کی بنیاد دوبارہ کھودنی شروع کردی۔ بار بار ان کا تیشہ ایک سخت چیز سے ٹکراتا رہا۔ کچھ کھدائی کے بعد ان کی آنکھیں مارے حیرت کے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ سونے کی ٹکیوں اور زیورات سے بھری دو دیگیں اوپر تلے رکھی تھیں۔ اس نے جلدی سے اُن دیگوں پر مٹی ڈال دی اور اِدھراُدھر چور نظروں سے دیکھنے لگا۔ ''کسی نے مجھے دیکھ نہ لیا ہو؟'' اس نے خودکلامی کی پھر جلد ہی سنبھل گیا۔ وہ ساری رات اس جگہ کے پاس چارپائی ڈال کر لیٹا رہا۔

نیند اس کی آنکھوں سے روٹھ چکی تھی۔ وہ سنہرے مستقبل کے خواب دیکھنے لگا۔ کبھی اس کے ذہن میں آتا کہ کسی بڑے شہر چلا جائے اور وہاں عالی شان کوٹھی تعمیرکرکے رہے۔ کبھی سوچتا کہ کوئی بڑا کاروبار کرلے تاکہ اس کی غربت کے دن ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں۔ حسین خیالوں کی اِس آمدورفت نے اسے رات بھر سونے نہیں دیا۔ صبح اٹھتے ہی اس نے سوچا کہ اتنا زیادہ سونا کہاں چھپائوں؟ پھر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ اس نے ایک چھوٹے کمرے کے نیچے ایک تہہ خانہ بنانے کا سوچا جس میں یہ دونوں دیگیں رکھ دی جائیں اور بوقت ضرورت سونا نکالا جاتا رہے۔

احمد نے اگلے ہی دن اپنے اس منصوبے کے مطابق کام کا آغاز کردیا۔ وہ بڑے خفیہ انداز میں تہہ خانے کے لیے کھدائی کر رہا تھا کہ کسی کو کوئی شک نہ گزرے۔ آخر تہہ خانہ مکمل ہوگیا۔ وہ رات ہونے کا انتظار کرنے لگا تاکہ سونے سے بھری دونوں دیگوںکو تہہ خانے میں منتقل کیا جاسکے۔

آسمان پر تارے جگمگانے لگے، وہ دیگوںکو تہہ خانے میں رکھنے کے لیے اُٹھا کہ یکایک ایک خیال بجلی کی طرح اس کے قلب وذہن پر کوندا؛ ''یہ سونا تو پاکستان کی ملکیت ہے۔ توکیا مَیں اس میں خیانت کرنے جارہا ہوں؟ یہ سوچتے ہی اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ماں کی سرکٹی لاش، بھائی کا خون میں نہایا ہوا وجود، بہنوں کی کٹی شہ رگیں اور اپنوں کے اَن گنت لاشے اس کی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگے۔ وہ زاروقطار رونے لگا۔ ''نہیں، پاکستان کے لیے قربانیاں اس لیے نہیں دی گئیں کہ میں اس کی ملکیت اور خزانے میں خیانت کروں۔'' یہ خیال آتے ہی اس نے سارا سونا حکومت کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا۔

وہ صبح سویرے ڈاکٹر اسد خلیل کے پاس پہنچا اور انہیں ساری صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا۔ ''ڈاکٹر صاحب! میں یہ سونا تعمیرِپاکستان کے لیے حکومت کے حوالے کررہا ہوں۔''

احمد کی بات سے ڈاکٹر اسد خلیل کی آنکھیں بھر آئیں۔ انہوں نے اس کے جذبے کو سراہا۔

دوسرے دن اخبارات اس شہ سرخی کے ساتھ شایع ہوئے؛ ''ایک سچّے پاکستانی احمد بابا نے اربوں ڈالر کا سونا حکومت کے حوالے کردیا۔'' اخبارات نے اداریے لکھے کہ احمد بابا کا تعمیرِ پاکستان کا خواب ضرور پورا ہوگا۔ حکومت وقت نے چودہ اگست کے موقع پر احمد بابا کو تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا۔
Load Next Story