قائد تجھے سلام

آخر کار قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت کے سامنے تمام باطل قوتوں کو جُھکنا پڑا


Shahrukh Sajid August 10, 2012
قائد اعظم۔ فوٹو: ایکسپریس

23 مارچ 1940 کو مسلم لیگ نے ایک قرارداد کے ذریعے مسلم ریاست کو اپنا نصب العین قراردیا تھا۔ سات سال کی عظیم قربانیوں کے بعد 27 رمضان المبارک، 14 اگست 1947 کو دنیا کے نقشے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شکل ایک نیا ملک معرض وجود میں آگیا۔

چوہدری رحمت علٰی ہماری مِلّی اور قومی تاریخ کی ایک عہدآفریں شخصیت تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے اس آزاد اور خودمختار ریاست کا نام تجویز کیا تھا۔ ان کی اس خدمت کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

آخر ایک آزاد اور خودمختار ملک کا مطالبہ سامنے کیوں آیا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کا استحصال کیا جارہا تھا۔ ان کے رسم ورواج اور عقائد پر طرح طرح پابندیاں عاید تھیں۔ بنیادی طور پر ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں تھیں جن کے رسم ورواج، رہن سہن اور ثقافت بالکل جدا تھیں۔ ہندو ذات پات کے اسیر تھے جب کہ اسلام میں ذات پات کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہاں تقویٰ کی فضیلت ہے۔ دسمبر 1933 میں جب قائداعظم انگلستان سے واپس ہندوستان آئے تو مسلم لیگ کی تنظیم نو اور اسے مضبوط بنانے کا عمل شروع ہوا۔

اکتوبر 1937 میں مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس لکھنٔو میں ہوا جس میں پنجاب کے وزیراعلیٰ سرسکندرحیات خان، بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی اے۔ کے۔ فضل الحق، آسام کے وزیراعلیٰ سرمحمد سعداﷲ نے شرکت کی۔ سب نے اپنی اپنی پارٹی کی طرف سے مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کیا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے مسلم لیگ کی تنظیم نو کے معاہدے پر دستخط کیے جسے ''سکندر اور جناح معاہدہ'' کہا جاتا ہے۔

8 مارچ 1944 کو قائداعظم محمد علی جناح نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا، جس دن پہلا غیرمسلم مشرف بہ اسلام ہوا تھا اسی دن برصغیر میں نئی قوم وجود میں آگئی تھی۔ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد کلمۂ توحید ہے، وطن یا نسل نہیں۔ قائداعظم کا یہ فرمان برصغیر میں دو قومی نظریے کے آغاز اور بنیاد کی کڑی سمجھا جاتا ہے۔1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں اور ہندوئوں نے مسلمانوں کے مِلّی تشخص کو ختم کرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ لیکن یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں۔

29 دسمبر 1930 کو الہٰ آباد میں مسلم لیگ کے 21 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا؛ انسانیت، قانون اور انصاف کا تقاضا ہے کہ کسی ملک میں رہنے والی ہر قوم کے لوگوں کو اپنی مِلّی روایات، تہذیب، عقائد اور تقاضوں کے مطابق پورے مواقع حاصل ہوں۔ یہ فرقہ واریت ہے نہ تعصب، بلکہ اعلیٰ ترین بین القومیت کی شرط ہے۔ کیوںکہ اس شرط کی تکمیل کے بغیر کسی آزاد ریاست کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا۔ لہٰذا، مسلمانوں کا ہندوستان کے اندر ایک آزاد مسلم ریاست کی تخلیق کا مطالبہ بالکل جائز ہے۔

آخر کار قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت کے سامنے تمام باطل قوتوں کو جُھکنا پڑا، اور 14 اگست 1947 کو آزاد وخودمختار ریاست، پاکستان دنیاکے نقشے پر نمودار ہوگئی۔ لیکن کیا ہم نے آزادی کا مقصد بھی حاصل کیا؟ ہم نے آزادی اس لیے حاصل کی تھی کہ ہم ایک آزاد وخودمختار زندگی گزار سکیں۔ تو کیا اب ایسا ہے؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ کیا ہم نے فرقہ واریت ختم کردی۔ ہم نے ملک سے رشوت اور بدعنوانی کا خاتمہ کردیا، اقربا پروری ختم کردی؟ نہیں۔۔۔۔ بالکل نہیں۔ ہم نے تو میرٹ کو پامال کیا، ملازمتیں من پسند لوگوں کو ملیں۔ چوری چکاری، رشوت ستانی کا دوردورہ ہے۔ ہم نے آزادی تو حاصل کرلی لیکن اُس کا استعمال نہ سیکھ سکے۔ کیا یہی وہ تعبیر ہے جس کا خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا؟

ساتھیو! آئیں سب سے پہلے ہم اپنی اصلاح کریں۔ ہمیں پاکستان کو ترقی کے عروج پر لے کر جانا ہے۔ اپنی آزادی اور خودمختاری کو بحال کرانا ہے۔ فرقہ واریت ختم کرکے ''ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے'' کا ثبوت دینا ہے۔ رشوت، بدعنوانی، اقربا پروری کا خاتمہ کرنا ہے۔ میرٹ کو پامال نہیں، اُس پر چلنا ہے۔ ہمیں اس ملک کو تمام برائیوں سے پاک کرنا ہے۔ انشاء اﷲ وہ وقت جلدی آئے گا جب میرے وطن میں چاروں طرف امن وآشتی کے پھول کھلیں گے۔ تب ہم سب کا قائد اپنی ابدی آرام گاہ میں کتنا خوش ہوگا۔ پاکستان! زندہ باد۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں