آخر کیوں۔۔۔۔
سلیم احمد توغریبوں کے لیڈر تھے، ان کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ ان کی آواز کو کیوں دبا دیا گیا؟
BARBADOS:
آج چودہ اگست کا دن تھا۔ہرطرف سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ ہر چہرے پر خوشیاں رقصاں تھیں۔ سلیم احمد اس شہر کی مشہور اور ہر دل عزیز سماجی شخصیت تھے۔ وہ غریبوں کے ہم درد اور خیرخواہ تھے۔ انہیں اپنے ملک سے بہت محبت تھی۔ یہاں کے رہنے والے ہر انسان سے پیار تھا۔ وہ اپنے ملک اور یہاں کے لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک سماجی تنظیم بنالی تھی جس میں شامل تمام افراد ان کی طرح ہم دردی رکھتے تھے۔ یہ تنظیم غریب اور مستحق لوگوں کی فلاح وبہبود کی خدمات انجام دے رہی تھی۔
سلیم احمد آج چودہ اگست کے موقع پر ہونے والے ایک پروگرام میں مہمان خصوصی تھے۔
ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ سب اُن کا انتظار کررہے تھے۔ اتنے میں ان کے آنے کا اعلان کیا گیا۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ لوگ اُن کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے۔ سلیم احمد سفید لباس میں ملبوس، باوقار انداز میں چلتے ہوئے آئے اور ہاتھ کے اشارے سے سب کو بیٹھنے کے لیے کہا۔ پھر جب مائیک پر اعلان ہوا کہ وہ جشنِ آزادی کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کریں، تو انہوں نے مائیک پر آکر ایک نظر ہال میں لوگوں پر ڈالی اور پھر بولنا شروع کیا۔
''معزز حاضرین اور میرے عزیزدوستو، بزرگوں اور بچو! السّلام علیکم! مجھے آپ سب کو یہاں دیکھ کر بے حد خوشی ہورہی ہے۔آج اس خوشی کے موقع پر میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوںکہ پاکستان ہمارا ملک ہے۔ ہمیں اس سے پیار کرنا چاہیے، اس کی تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ آئیے! آج کے دن ہم عہد کریںکہ اس ملک کی خاطر ہم ۔۔۔۔''
ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ اچانک ہال میں فائرنگ کی آواز گونجی اور سلیم احمد نیچے آگرے۔ ان کا سفید لباس خون میں رنگ گیا اور وہ وہیں گرکر تڑپنے لگے۔موٹرسائیکل سوار فائرنگ کرکے فرار ہوچکے تھے۔ ہال میں بھگڈر مچی ہوئی تھی۔ لوگ خوف زدہ ہوکر باہر کی طرف بھاگ رہے تھے۔
عقیل جو ہال میں موجود تھا، اس نے بھی یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ سوچ رہا تھا، آخر ہمارے ملک میں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ لوگ کسی مُحِبّ ِوطن کو برداشت نہیں کرپاتے؟ کیوں اس کی زندگی کا چراغ گل کردیا جاتا ہے؟ کیا یہ یہاں کا اصول ہے کہ جو مُلک کے مفاد اور بہتری کے لیے کام کرتا ہے یا اس سے پیار کرتا ہے اور یہاں کے رہنے والے لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے، اسے خاموش کرادیا جاتا ہے۔
اس کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے؟ سلیم احمد توغریبوں کے لیڈر تھے، ان کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ ان کی آواز کو کیوں دبا دیا گیا؟ پولیس کے سائرن کی آواز سن کر وہاں موجود افراد جلدی جلدی باہر جانے لگے۔ شامل تفتیش ہونے کے ڈر سے عقیل نے بھی تیزی سے گھرکی طرف قدم بڑھادیے۔
دوسرے دن کے اخبارات میں سلیم احمد کے دن دِہاڑے قتل کی خبریں شہ سرخیوں کے ساتھ شایع ہوئیں۔ پورے شہر میں سوگ کا سماں تھا۔ ہر شخص اداس تھا، خاص طور پر وہ افراد جن کے لیے سلیم احمد نے کام کیے تھے۔ جب ان کا جنازہ اٹھا تو کہرام مچا ہوا تھا۔ ہر انسان اشک بار تھا۔ ہر کسی کے ذہن اور ہونٹوں پر یہی سوال تھا، آخر کیوں ایک مُحِبّ ِ وطن انسان کو بِلاوجہ قتل کردیا گیا؟ آخر کیوں...؟
آج چودہ اگست کا دن تھا۔ہرطرف سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے۔ ہر چہرے پر خوشیاں رقصاں تھیں۔ سلیم احمد اس شہر کی مشہور اور ہر دل عزیز سماجی شخصیت تھے۔ وہ غریبوں کے ہم درد اور خیرخواہ تھے۔ انہیں اپنے ملک سے بہت محبت تھی۔ یہاں کے رہنے والے ہر انسان سے پیار تھا۔ وہ اپنے ملک اور یہاں کے لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک سماجی تنظیم بنالی تھی جس میں شامل تمام افراد ان کی طرح ہم دردی رکھتے تھے۔ یہ تنظیم غریب اور مستحق لوگوں کی فلاح وبہبود کی خدمات انجام دے رہی تھی۔
سلیم احمد آج چودہ اگست کے موقع پر ہونے والے ایک پروگرام میں مہمان خصوصی تھے۔
ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ سب اُن کا انتظار کررہے تھے۔ اتنے میں ان کے آنے کا اعلان کیا گیا۔ پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ لوگ اُن کے استقبال کے لیے کھڑے ہوگئے۔ سلیم احمد سفید لباس میں ملبوس، باوقار انداز میں چلتے ہوئے آئے اور ہاتھ کے اشارے سے سب کو بیٹھنے کے لیے کہا۔ پھر جب مائیک پر اعلان ہوا کہ وہ جشنِ آزادی کے موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کریں، تو انہوں نے مائیک پر آکر ایک نظر ہال میں لوگوں پر ڈالی اور پھر بولنا شروع کیا۔
''معزز حاضرین اور میرے عزیزدوستو، بزرگوں اور بچو! السّلام علیکم! مجھے آپ سب کو یہاں دیکھ کر بے حد خوشی ہورہی ہے۔آج اس خوشی کے موقع پر میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوںکہ پاکستان ہمارا ملک ہے۔ ہمیں اس سے پیار کرنا چاہیے، اس کی تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ آئیے! آج کے دن ہم عہد کریںکہ اس ملک کی خاطر ہم ۔۔۔۔''
ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ اچانک ہال میں فائرنگ کی آواز گونجی اور سلیم احمد نیچے آگرے۔ ان کا سفید لباس خون میں رنگ گیا اور وہ وہیں گرکر تڑپنے لگے۔موٹرسائیکل سوار فائرنگ کرکے فرار ہوچکے تھے۔ ہال میں بھگڈر مچی ہوئی تھی۔ لوگ خوف زدہ ہوکر باہر کی طرف بھاگ رہے تھے۔
عقیل جو ہال میں موجود تھا، اس نے بھی یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ سوچ رہا تھا، آخر ہمارے ملک میں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ لوگ کسی مُحِبّ ِوطن کو برداشت نہیں کرپاتے؟ کیوں اس کی زندگی کا چراغ گل کردیا جاتا ہے؟ کیا یہ یہاں کا اصول ہے کہ جو مُلک کے مفاد اور بہتری کے لیے کام کرتا ہے یا اس سے پیار کرتا ہے اور یہاں کے رہنے والے لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے، اسے خاموش کرادیا جاتا ہے۔
اس کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے؟ سلیم احمد توغریبوں کے لیڈر تھے، ان کے لیے کچھ کرنا چاہتے تھے۔ ان کی آواز کو کیوں دبا دیا گیا؟ پولیس کے سائرن کی آواز سن کر وہاں موجود افراد جلدی جلدی باہر جانے لگے۔ شامل تفتیش ہونے کے ڈر سے عقیل نے بھی تیزی سے گھرکی طرف قدم بڑھادیے۔
دوسرے دن کے اخبارات میں سلیم احمد کے دن دِہاڑے قتل کی خبریں شہ سرخیوں کے ساتھ شایع ہوئیں۔ پورے شہر میں سوگ کا سماں تھا۔ ہر شخص اداس تھا، خاص طور پر وہ افراد جن کے لیے سلیم احمد نے کام کیے تھے۔ جب ان کا جنازہ اٹھا تو کہرام مچا ہوا تھا۔ ہر انسان اشک بار تھا۔ ہر کسی کے ذہن اور ہونٹوں پر یہی سوال تھا، آخر کیوں ایک مُحِبّ ِ وطن انسان کو بِلاوجہ قتل کردیا گیا؟ آخر کیوں...؟