اب کی بار۔۔۔۔
ہم چاہتے ہیںکہ اب کی بار چودہ اگست بھرپور طریقے سے منایا جائے تاکہ سب کو بتاسکیں ہم آج بھی ایک ہیں۔
عائشہ آپی! یہ کیا؟ آپ تو بس کھائے جارہی ہیں، کچھ سوچیں بھی۔ آمنہ نے اپنی بہن عائشہ سے کہا۔
اوہو بھئی! سوچنا دماغ سے ہے، منہ سے نہیں۔ اب میں سوچنے کے لیے کھانا تو نہیں چھوڑ سکتی ناں! عائشہ نے ناراضی سے کہا۔
جی، جی! بالکل۔۔۔۔ کھائے بغیر تو آپ سے کچھ ہوتا ہی نہیں ہے۔ کھائیں گی نہیں تو دماغ کیسے چلے گا جناب کا؟ بابر نے طنز کیا۔
اوہو! آپ لوگوں نے تو آپس میں ہی لڑنا شروع کردیا۔ ہم جس کام کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں پہلے وہ تو کرلیں۔ لائبہ بولی۔
عائشہ اور آمنہ بہنیں تھیں جب کہ لائبہ اور بابر ان کے کزنز جو چُھٹیاں گزارنے اپنی خالہ کے گھر آئے ہوئے تھے اور اب چودہ اگست منانے کی پلاننگ کررہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ چودہ اگست بھرپور طریقے سے منایا جائے۔
کیوں نا اس بارے میں ہم نانا ابو سے بات کریں؟ اچانک آمنہ نے کہا۔
سب نے تائیدی انداز میں سر ہلایا اور نانا ابو کے کمرے کی طرف چل دیے۔
نانا ابو نے جو سب بچوں کو ایک ساتھ آتا دیکھا تو فوراً بھانپ گئے کہ ضرور کوئی اہم بات ہے جو یہ سب اکٹھے ہیں ورنہ تو ان کی لڑائیاں ہی ختم نہیں ہوتیں۔ انہوں نے فوراً پوچھا۔
کیا بات ہے بچو! آپ سب ایک ساتھ۔۔۔۔؟ کوئی مسئلہ ہے کیا؟
نانا ابو! ہم چاہتے ہیںکہ اب کی بار چودہ اگست بھرپور طریقے سے منایا جائے تاکہ سب کو بتاسکیں ہم آج بھی ایک ہیں۔ عائشہ نے کہا۔
تو بیٹا! اس میں پریشانی والی کیا بات ہے؟ نانا ابو نے پوچھا۔
نانا ابو! ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ایسا کیا کریںکہ وطن کی خدمت بھی ہوسکے۔ لوگ سمجھتے ہیںکہ صرف جھنڈیاں لگاکر، تقریریں کرکے اور جلوس نکال کر ہمارا فرض پورا ہوگیا۔ حالاںکہ ایسا تو نہیں ہے۔ پہلے لوگ جھنڈیاں لگاکر اپنا شوق پورا کرلیتے ہیں پھر اُنہیں اپنے پائوں تلے روندتے ہیں۔ کسی کو خیال ہی نہیں ہوتا کہ یہ اس پاکستان کی جھنڈیاں ہیں جسے حاصل کرنے کے لیے ہمارے قائد نے اَن تھک محنت کی اور ہمارے بڑوں نے جانوں تک کی قربانیاں دیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیںکہ اپنے وطن کے لیے کچھ الگ کریں۔ بابر نے تفصیلی جواب دیا۔
مجھے خوشی ہوئی آپ لوگوں کے خیالات جان کر، واقعی بچے اپنا شوق پورا کرتے ہیں۔ شوق ہی شوق میں پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کرکیا رہے ہیں؟ بہت شوق سے خریدی گئی جھنڈیاں اگلے ہی دن نالیوں میں پڑی اپنی ناقدری پر ماتم کناں ہوتی ہیں۔ جس جھنڈے کو اپنے سر آنکھوں پر رکھنا چاہیے اسے کوڑے کَرکٹ کے ڈھیر پرگرا دیتے ہیں۔ نانا ابو افسردگی سے بولے پھر مزید کہا۔
بچو! میں آپ کو جھنڈیاں لگانے سے منع نہیں کررہا۔ بس اتنا چاہتا ہوںکہ کسی جھنڈی کو پائوں تلے نہ آنے دیں۔ اگر آپ کسی نالی یا کوڑے کے ڈھیر پر جھنڈی پڑی ہوئی دیکھیں، تو اسے اٹھا کر کسی اونچی جگہ پر رکھ دیں۔ اسی طرح سے ہم دشمنوں کو اُن کے مقاصد میں ناکام کرسکتے ہیں۔ بچو! خود بھی اس بات کا خیال رکھنا اور دوسروں کو بھی اس کی تاکید کرنا۔
جی نانا ابو! ہم وعدہ کرتے ہیںکہ ایسا ہی کریں گے اور اپنے سب دوستوں کو بھی بتائیں گے۔
سب نے ایک عزم سے کہا اور اپنے کمرے کی طرف چل دیے۔ کیوںکہ بات ان کی سمجھ میں آگئی تھی۔ تو ساتھیو! آپ بھی وعدہ کیجیے کہ اب کی بار ایسا ہی کریںگے۔ اپنی پیاری جھنڈیوں کو پیروں تلے نہیں آنے دیںگے۔