’’کتابوں کی دنیاسلامت رہے‘‘
یہ میلہ دیکھنے جوبھی آیا وہ کچھ نہ کچھ پلّے باندھ کر لایا اورواپسی پر ڈھیر ساری کتابیں لے گیا۔
DUBAI:
کئی بار لکھ چکاہوں کہ جہالت اور جمود کے اندھیروں کے خاتمے کے لیے قلم اور کتاب کا نور پھیلانا ہوگاجَہاں افراد کا قلم اور کتاب سے رشتہ مضبوط ہوگااس معاشرے میں اعتدال،برداشت اور رواداری کے گلستان کھِلیں گے، کتاب سے دوستی اور ناطہ ٹوٹے گاتو تشددّ،عدم برداشت اور جہالت کے اندھیروں کا راج ہوگا۔
اسلام آباد میں ہر سال منعقد ہونے والے کتاب میلے نے بلا شبہ وفاقی دارلحکومت کے معاشرتی حسن میں بہت اضافہ کیا ہے،کہا جاتا تھا کہ اسلام آباد کا کوئی کلچر نہیں ہے مگر چارروزہ کتاب میلے نے اسلام آباد کونہ صرف ایک ثقافتی شناخت دی ہے بلکہ اس سے دارلحکومت کی معاشرتی، ثقافتی اور ادبی زندگی میں ایک تابناک روایت کا اضافہ ہوا ہے۔محترم عرفان صدیقی اور ڈاکٹر انعام الحق جاویداس پر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کی کوششوں سے ہر سال علم و آگہی کا یہ خوبصورت میلہ سجتا ہے اور ہر سال اس میں نئے رنگ بھرے جاتے ہیں۔راقم ان چار دنوں میں جب بھی پاک چائنا سینٹرمیلہ دیکھنے گیا، اس کے سحر میں کھو گیا ۔ہر بار یہی جی چاہتا کہ علم کے متلاشیوں کے درمیان گھومتارہوں۔یہ بھی سن رکھا تھاکہ پلّے نئیں دھیلاتے کردی میلہ میلہ۔ مگر یہ میلہ دیکھنے جوبھی آیا وہ کچھ نہ کچھ پلّے باندھ کر لایا اورواپسی پر ڈھیر ساری کتابیں لے گیا۔
کتاب میلے کے کئی خوشنما پہلو تھے،نیشنل بک فاؤنڈیشن کے منتظمین ملک بھر سے معروف ادیبو ں، شاعروںاور اہلِ قلم خواتین وحضرات کو مدعو کر تے ہیں، ان کے قیام وطعام کا معقول اور مناسب بندوبست کرتے ہیں اوران کی عزتّ افزا ئی کے لیے دارالحکومت کی سڑکیں ان کی تصویروں سے سجا دیتے ہیں،کچھ تو پہچانے بھی نہ گئے کہ انھوں نے ربع صدی قبل کی تصویر لگوائی تھی۔کچھ نئے اور پرانے مصنفّین کو کتابو ںکا سفیر(Book Ambassador) بنایا جا تا ہے، اس کے لیے سینٹر کے مختلف کا نفرنس ہا لوں میں تقریبات منعقد ہو تی ہیںجہاں مصنفّین اپنی تخلیقات سامعین کے سامنے پیش کرتے ہیں،کچھ داد وصول کر تے ہیں اور کچھ کو بیداد خاموشی کا سامنا کر نا پڑتا ہے،بیسیوں پروگرام ایک ساتھ چل رہے ہوتے ہیں،بچوّں کے لیے بے شمار ادبی اور تخلیقی سرگرمیوں کا اہتمام کیاجاتا ہے ۔
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کتابو ں کے سو سے زیادہ اسٹال لگتے ہیں،جہاں سے کتابیں خریدنے کے لیے ہزاروں افراد آتے ہیں، فیملیز ، نوجوان طلباوطالبات ،خواتین اور اسکولوں کے بچے گروپوں اور گروہوں کی صورت میں آجا رہے ہوتے ہیں، ایک گہماگہمی ہوتی ہے ہرطرف علم کی کرنیںپھوٹ رہی ہوتی ہیں اوریہ بک فرینڈلی ماحول کتاب دوستوں کے جذبوں کی تب وتاب سے جگمگارہا ہوتاہے۔
اِس بارنیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الحق جاویدنے مجھے بھی دو تقریبات کے لیے پابند کردیا۔ایک علامہّ اقبال ؒکے حوالے سے نوجوانوں کے ساتھ مکالمہ تھا۔لاہور سے ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی صاحب تو تشریف نہ لا سکے ،اس لیے برادرم خورشید ندیم اور راقم نے نوجوانوں کو موجودہ حالات کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے فکر اقبال ؒسے رہنمائی حاصل کرنے ،کے بارے میں آگاہ کرنے کی کوشش کی ۔
ایک روز مجھے حاظرین کے سامنے اپنی تصنیف میں سے کچھ پیش کرنا تھا۔آجکل کے حاظرین عموماًمزاحیہ تحریروں اور اشعار کو زیادہ پسند کرتے ہیں ۔پچھے سال میں نے اپنی پہلی کتاب ''دوٹوک باتیں''میں سے ایک مزاحیہ مضمون سنایاتھاجس پر حاضرین مسلسل قہقہوں اور تالیوں سے ردِّعمل کا اظہار کرتے رہے،مگر اس بارخیال آیا کہ کشمیر میں بھارتی درندگی کے واقعات سے ماحول بدل گیا ہے، صرف ایک روز پہلے سترہ کشمیری نوجوان خاک وخون میں تڑپا دیے گئے،کتاب میلے کے شرکاء نے بھی کشمیر ی بھائیوں اور بہنو ں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے بازؤوں پر کا لی پٹیاں باندھ رکھی تھیں فضاء سوگوار تھی اس لیے میں نے اپنی نئی کتاب 'دوٹوک ،میں سے "حرف کی حرمت "جیسے سنجیدہ موضوع کاانتخاب کیا ،حرف کے تقدّس پر چند لائنیں پڑھیں تو سامعین نے کھل کر ا پنی پسندیدگی کا اظہارکیا ۔
اُسی نشست میں جناب محمود شام،اور عکسی مفتی جیسے ادیبوں اور جناب تابش الوری اور عباس تابش جیسے نامور شاعروں نے بھی اپنی تخلیقات پیش کیں ۔ایک دو شاعرات نے بھی کلام سنایا، ایک خاتون شاعرہ کی غزل سن کر میرے ساتھ بیٹھے ہوئے حضرات نے متفقہ فیصلہ سنایا کہ بڑے عرصے بعد کوئی ایسی شاعرہ نظر آئی ہیںجنکی شکل اور شاعری دونوں قابلِ قبول ہیں۔عباس تابش کی غزل کا ایک مصرع ابھی تک نہیں بھولا۔تیری جاگیر سے بُوآتی ہے غدّاری کی۔
میلے میں گھومتے ہو ئے کسی کا ریڈور میں محترم افتخار عارف سے ملاقات ہوجاتی اور کہیں پروفیسر فتح محمد ملک مل جاتے۔ کہیں جناب عطاالحق قاسمی نظر آجاتے توکہیں اصغر ندیم سیّد ،کہیںتابش الوی اورکہیں خالد مسعود، ایوّبی دور میںپنجاب اسمبلی کے در ودیوارتابش الوری صاحب کی پرجوش اور مدلل تقاریر سے گونجا کرتے تھے۔ انھیں مل کر بہت جی خوش ہوا اور فوراًذہن میں مصرع گونجا ابھی اگلی شرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں ۔میلے کے پہلے روز گراؤنڈ فلور پر سیڑھیوں کے ساتھ ہی سب سے پہلے ماوراء پبلیکیشنز کے اسٹال پر نظر پڑی وہیں ماوراء کے کر تا دھرتا اور معروف شاعرجناب خالد شریف مل گئے اور بتانے لگے کہ ہم نے میلے کا افتاح "دوٹوک باتیں ''(میری پہلی کتاب) بیچ کر کیا ہے۔دوسرے روزپھر ملاقات ہوئی توبتانے لگے کہ "دوٹوک باتیں "ہاتھوں ہاتھ نکل گئی ہے،میں نے کہا مزید منگوالیں تو بتانے لگے کہ اس کے نَو ایڈیشن ختم ہو گئے ہیں اوراب دسواں ایڈیشن چھپ رہا ہے ،مگر اِس میلے میں مزید کتابیں فراہم نہیں ہو سکیں گی۔
فرسٹ فلور پر اسٹالوں کا جمعہ بازار لگاہواتھا۔سنگِ میل پبلیکیشنز ،جہلم والے بک کارنر ،پنڈی واے رومیل ہاؤس لاہور کے اسلامک پبلیکیشنز،علم وعرفان ، علم ودانش، کراچی کے فرید پبلشرز ،ھیرو بکس اور دیگر اسٹالوں پر خواتین و حضرات کے ٹھٹھ لگے رہے ۔سنگِ میل والوں نے بتایا کہ "دو ٹوک ''(میری دوسری کتاب) کی تمام کاپیاںبک گئی ہیں۔ اور یہ کہ چار مہینوں میں 'دوٹوک 'کے دوایڈیشن ختم ہو گئے ہیں ۔ اسٹال پر کھڑے کھڑے بھی کئی خریداروں نے کتاب پر دستخط کرائے ۔میلے میں گھومتے ہوئے فوٹو اور سیلفی سیشن بھی چلتا رہا ، کئی خواتین و حضرات اسامہ احمد شہید ( سابق ڈپٹی کمشنر چترال) کی والدہ محترمہ کی خونِ جگر سے لکھی ہوئی کتاب '' اے میرے اسامہ '' کے بارے میں پوچھتے رہے مگر وہ بھی بہت کم دستیاب تھیں۔کتاب میلے کا نغمہ' کتابوں کی دنیا سلامت رہے' مسلسل گو بختا اور کانوں میں رس گھولتارہا۔
ایک روز پاک چائناسینٹر سے باہر نکلا تو سڑک پرایک صاحب پر نظر پڑی جو ہاتھ میں کتابوں کا بنڈل اٹھائے سڑک کے کنارے پیدل جارہے تھے۔میںنے گاڑی روک کر انھیں ساتھ بٹھالیا۔تعارف پر معلوم ہواکہ ایک سرکاری محکمے سے گریڈاُنیس میں ریٹائرہوئے تھے،کتابوں کا اعلیٰ ذو ق رکھتے ہیں ،کتابوں کا تعارف ہوا تو معلوم کہ ایک دو معروف انگریزاور امریکی مورخین اور ادیبوں کی کتابیں خرید کرلے جارہے ہیں،ایک کتاب دکھاتے ہوئے بڑی خوشی سے بتانے لگے کہ 'یہ کتاب مجھے بک اسٹور سے آٹھ سو روپے میں ملتی مگر یہاں چار سوروپے میں مل گئی ہے۔انہو ں نے میرے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا "میںبھی لکھاری ہوں اور اخبار میں کا لم لکھتاہوں۔اس پر کہنے لگے ملک کے مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا کریں ،لوگ نہ جانے کیوں مایوس نظر آتے ہیں حالانکہ زندگی میںکتنا احسن ہے اور ہمارے ملک میں کتنی خوبصورتیاں ہیں ، لوگوں کو کسی صورت مایوس نہیں ہونا چائیے۔
میں نے انھیں میٹرو کے اڈیّ پر اتارتے ہوئے عقیدت سے مصافحے کے لیے دونوں ہاتھ بڑھادیے۔ ایک باعلم مگر بے وسیلہ شخص (جو ذاتی کا ر نہیں رکھ سکتا اور پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتاہے ) کو اُسکے رب نے اطمینان اور قناعت کی دولت سے مالا مال کررکھاہے ۔اور ُاس کے علم نے اس کے دل و دماغ اور سوچوں کو رجائیت ،اعتدال اور Positivity کی روشنی سے منور کر دیا ہے،مجھے وہ بہت بڑے انسان لگے ،رخصت کرتے ہو ئے میںانھیں رشک کی نظر وں سے دیکھتارہا۔
آخر میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید اور ان کی ٹیم سے یہ کہنا ہے کہ اسلام آباد کی طرح کتاب میلے کا انعقاد تمام صوبائی دارالحکومتوں اور کچھ بڑے شہروں میں بھی شروع کریں۔ 'منتظمین اس کام کو روٹین کی کا روائی'سمجھ کر بے دلی سے ہرگز انجام نہ دیں۔ بلکہ ہر بار اسی جوش و جذبے سے کا م کر یں جیسے وہ پہلی بار کر رہے ہیں ۔کتاب میلے کا مقصد صرف اور صرف علم کا فروغ ہونا چائیے۔اس کی قابلِ تحسین سرگرمیوں کوکسی بھی صورت میں کمرشلائیز نہیں ہو نا چاہیے، اس تہوار کے ساتھ کسی فرد یا ادارے کے ما لی مفاد وابستہ نہیں ہونے چاہئیں،علاوہ ازیںبک فیئرکے دوران پاک چائینہ سنیٹر کا کرایہ وفاقی حکومت اداکیا کرے اور پبلیشرز کو بہت معمولی کرائے پر اسٹال فراہم کیے جائیں تاکہ وہ کتابیں مزید سستے داموں فروخت کیا کریں ۔
٭٭٭٭
بھارتی درندوںنے کشمیر کی ننھی کلی آصفہ بانو کو جس حیوانیّت اور درندگی کا نشانہ بنایا اُس پر پاکستان کی ہر سیاسی اور مذہبی پارٹی کو جس طرح بھرپور آواز اٹھانا چائیے تھی،عملی طور پر اس کا عشرِعشیر ِ بھی نظر نہیں آیا جو انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے۔تمام پارٹیوں اورسیاسی قیادت کو سیاست بازی اورذاتی مفاد کی جنگ وجدل چھوڑکر پوری قوم کواکھٹا کرکے مظلوم خاندان اور مظلوم کشمیریو ں کے ساتھ کھڑاہو نا چائیے،اور پوری دنیا کو بھارتی بربریّت سے آگاہ کرنے میں بھرپور کردار اداکرناچائیے۔
نوٹ؛ تاحیات نااہلی کے فیصلے پر اس لیے دکھ ہوا ہے کہ پیپلزپارٹی کے دورکے اٹارنی جنرل کے بقول ،اس کا شمار بھی انتہائی متنازعہ فیصلوں میں ہوگا۔اس سے شہریوں کے دلوں میں اپنی عدلیہ کے بارے میں بدگمانی کے کا نٹے اُگیں گے ۔اور عدلیہ کی ساکھ متاثرہو گی جوکسی لحاظ سے بھی خوش آیند نہیں ہے۔