ایک وزارت ’’سویلین شہدا‘‘ کے لیے بھی
ہوتا یہ ہے کہ حکومت پانچ دس لاکھ روپے امداد دے کر ان شہداء سے مستقل طور پر جان چھڑا لیتی ہے
گزشتہ ہفتے جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی (جی ایچ کیو) میں تقسیم اعزازات کی تقریب ہوئی۔ تقریب میں عسکری حکام، غازیوں اور شہداء کے لواحقین نے شرکت کی۔ تقریب میں شہداء کے لواحقین اور غازیوں کو اعزازات دیے گئے۔ اس موقع پر 32 افسران کو ستارہ امتیاز ملٹری،2 افسران کو تمغہ جرأت اور 33 افسران اور جوانوں کو تمغہ بسالت سے نوازا گیا جب کہ چار افسروں اور جوانوں کو یو این میڈل دیا گیا۔ شہداء کے اعزازات ان کے لواحقین نے وصول کیے جب کہ اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا۔فضاء اس وقت سوگوار ہوجاتی جب شہداء کی ماں، باپ، بہن، بھائی یا لواحقین میں سے کوئی اعزاز وصول کرنے آتا اور جذبات پر قابو نہ رکھ پاتا۔ آنسو چھلک جاتے، ہونٹ بھینچ جاتے، رونا ضبط میں نہ رہتا، حاضرین جیب سے رومال نکال کراپنی آنکھیں صاف کر رہے ہوتے۔ یہ مناظر قابل دید اور قابل رشک تھے۔
کیوں کہ ہر معاشرے میں وطن پر قربان ہونے جیسے اعزاز کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ لیکن عین اسی وقت میرے ذہن پر ''سویلین شہدا'' کا سایہ منڈلانے لگا، ایسے لگا جیسے ہم سے کوئی بھول ہو رہی ہے، جیسے ہم سے کوئی غلطی سرزد ہورہی ہے۔ ہم پولیس شہداء کا دن مناتے ہیں، ہم فوجی شہدا ء کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں لیکن یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان شہداء کے ساتھ سویلین شہداء بھی ہوتے ہیں جنھیں یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔حالانکہ ملک بھر میں دہشتگرد واقعات میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی نسبت عام شہری دہشتگردی کا زیادہ نشانہ بنتے آئے ہیں۔ میں نے اس حوالے سے ایک محتاط رپورٹ بھی تیار کی جس کے مطابق 100چھوٹے بڑے دہشتگرد واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں تو ان میں سے 45 فیصد سیکیورٹی ادارے نشانہ بنتے ہیں جب کہ 55 فیصد حملوں میں سویلین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
صرف فاٹا میں 2017ء کے دوران 539افراد جاں بحق ہوئے جب کہ 668 زخمی ہوگئے جاں بحق ہونے والوں میں سیکیورٹی فورسز کے 128 افراد جب کہ138سویلین شامل ہیں اسی طرح سیکیورٹی فورسز کے 65 اہلکار جب کہ437 سویلین زخمی ہوگئے۔ اگر ہم ملک کے دوسرے حصوں کی بات کریں تو اس تناسب کا جھکاؤ عام شہریوں کی طرف ہوتا ہے۔ مثلاََ بارڈر ایریا میں اگر بھارت فائرنگ کر تا ہے تو 10 واقعات میں 70 فیصد سویلین جاں بحق ہوتے ہیں جب کہ سیکیورٹی اداروں کے شہداء کا تناسب 30 فیصد ہوتا ہے۔میں یہ ہر گز نہیں کہتا کہ سیکیورٹی اداروں کے شہداء کو اعزازات سے نوازا نہیں جانا چاہیے، بلکہ میرا مقصد ''سویلین'' شہداء کی طرف توجہ دلانا ہے، کہ حکومت کو چاہیے کہ اُن کے لواحقین کے بارے میں بھی سوچا جائے۔
ہوتا یہ ہے کہ حکومت پانچ دس لاکھ روپے امداد دے کر ان شہداء سے مستقل طور پر جان چھڑا لیتی ہے۔ اور کہتی ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، اس لیے اتنے پیسوں پر ہی اکتفاء کریں، اب ہمارے سویلین شہداء کے لواحقین بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے مترادف اتنے پیسوں پر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اتنے پیسوں میں تو غریب آدمی افسوس کرنے کے لیے آنے والوں کی ''آؤ بھگت'' میں ہی لگا دیتا ہے۔ اور پھر رشتے داروں کی للچائی ہوئی نظریں بھی امداد کی راہ تکنے لگ جاتی ہیں۔ آج پورا ملک ٹی وی پر بیٹھ کر نواز شریف کے ''مجھے کیوں نکالا'' کی تقریریں دن رات سن رہا ہے۔ پوری حکومت اس حوالے سے ''کام '' کر رہی ہے۔ مگر مجال ہے کہ ان خاندانوں پر کسی کی نظر نہیں پڑتی جو اس ریاست کی غفلت کی وجہ سے بے موت مارے گئے ہیں۔ بقول شاعر
یہ تمہاری تلخ نمائیاں کوئی اور سہہ کے دکھا تو دے
یہ جو ہم میں تم میں نبھا ہے میرے حوصلے کی بات ہے
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ان شہداء کے لیے صوبائی یا قومی سطح پر کسی وزارت کا اعلان کیا جائے۔جو سویلینز شہدا ء کا ریکارڈ مرتب کرے، ان کے بچوں کی حفاظت کرے، ان کی کفالت کا بندوبست کرے، انھیں معاشرے میں در بدر ٹھوکریں کھانے سے بچائے رکھے۔ سال 2001سے پہلے اس وزارت کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ پہلے پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے صرف کشمیر کا مسئلہ اور بھارت کا ہاتھ ہی تلاش کیا جاتا لیکن پھر ہماری کمزوریوں یا دشمن کی چالبازیوں سے ہمارے دشمن بڑھتے چلے گئے۔ 2001 سے پہلے پاکستان میں اوسطا 164 افراد سالانہ دہشتگردی کے ہاتھوں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔
یہ تعداد 2001کے بعد بڑھتی چلی گئی جو 2009میں یہ اوسط 3318 افراد سالانہ تک پہنچ گئی۔میری رائے میں ایک تو شہیدوں کو رجسٹرڈ کیا جائے، ان کے کوائف جمع کیے جائیں، انھیں ملازمتوں میں کوٹہ دیا جائے، انھیں عزت دی جائے، اور جرأت و بہادری کا نشان سمجھا جائے، وہ بچے اس معاشرے کے اہم شہری بن سکیں اور سب سے بڑھ ہمیں ان سویلین شہدا کا دن بھی منانا چاہیے جس میں اُن کی فیمیلیز کو بلا کر اُن کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ وہ معاشرے کا فخر بن سکیں!اورپھر قائد اعظم کا فرمان ہے کہ زندہ قومیں آزمائش کی گھڑی میں گھبرایا نہیں کرتیں، میرے خیال میں ہمیں ان شہداء کو زیادہ اعزازات سے نوازنا چاہیے جو محض حکومت کی غلط پالیسیوں، ہٹ دھرمیوں اور غفلت سے مارے جائیں۔
کیوں کہ ہر معاشرے میں وطن پر قربان ہونے جیسے اعزاز کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ لیکن عین اسی وقت میرے ذہن پر ''سویلین شہدا'' کا سایہ منڈلانے لگا، ایسے لگا جیسے ہم سے کوئی بھول ہو رہی ہے، جیسے ہم سے کوئی غلطی سرزد ہورہی ہے۔ ہم پولیس شہداء کا دن مناتے ہیں، ہم فوجی شہدا ء کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں لیکن یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ان شہداء کے ساتھ سویلین شہداء بھی ہوتے ہیں جنھیں یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔حالانکہ ملک بھر میں دہشتگرد واقعات میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی نسبت عام شہری دہشتگردی کا زیادہ نشانہ بنتے آئے ہیں۔ میں نے اس حوالے سے ایک محتاط رپورٹ بھی تیار کی جس کے مطابق 100چھوٹے بڑے دہشتگرد واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں تو ان میں سے 45 فیصد سیکیورٹی ادارے نشانہ بنتے ہیں جب کہ 55 فیصد حملوں میں سویلین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
صرف فاٹا میں 2017ء کے دوران 539افراد جاں بحق ہوئے جب کہ 668 زخمی ہوگئے جاں بحق ہونے والوں میں سیکیورٹی فورسز کے 128 افراد جب کہ138سویلین شامل ہیں اسی طرح سیکیورٹی فورسز کے 65 اہلکار جب کہ437 سویلین زخمی ہوگئے۔ اگر ہم ملک کے دوسرے حصوں کی بات کریں تو اس تناسب کا جھکاؤ عام شہریوں کی طرف ہوتا ہے۔ مثلاََ بارڈر ایریا میں اگر بھارت فائرنگ کر تا ہے تو 10 واقعات میں 70 فیصد سویلین جاں بحق ہوتے ہیں جب کہ سیکیورٹی اداروں کے شہداء کا تناسب 30 فیصد ہوتا ہے۔میں یہ ہر گز نہیں کہتا کہ سیکیورٹی اداروں کے شہداء کو اعزازات سے نوازا نہیں جانا چاہیے، بلکہ میرا مقصد ''سویلین'' شہداء کی طرف توجہ دلانا ہے، کہ حکومت کو چاہیے کہ اُن کے لواحقین کے بارے میں بھی سوچا جائے۔
ہوتا یہ ہے کہ حکومت پانچ دس لاکھ روپے امداد دے کر ان شہداء سے مستقل طور پر جان چھڑا لیتی ہے۔ اور کہتی ہے کہ ہم حالت جنگ میں ہیں، اس لیے اتنے پیسوں پر ہی اکتفاء کریں، اب ہمارے سویلین شہداء کے لواحقین بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی کے مترادف اتنے پیسوں پر ہی خوش ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اتنے پیسوں میں تو غریب آدمی افسوس کرنے کے لیے آنے والوں کی ''آؤ بھگت'' میں ہی لگا دیتا ہے۔ اور پھر رشتے داروں کی للچائی ہوئی نظریں بھی امداد کی راہ تکنے لگ جاتی ہیں۔ آج پورا ملک ٹی وی پر بیٹھ کر نواز شریف کے ''مجھے کیوں نکالا'' کی تقریریں دن رات سن رہا ہے۔ پوری حکومت اس حوالے سے ''کام '' کر رہی ہے۔ مگر مجال ہے کہ ان خاندانوں پر کسی کی نظر نہیں پڑتی جو اس ریاست کی غفلت کی وجہ سے بے موت مارے گئے ہیں۔ بقول شاعر
یہ تمہاری تلخ نمائیاں کوئی اور سہہ کے دکھا تو دے
یہ جو ہم میں تم میں نبھا ہے میرے حوصلے کی بات ہے
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ ان شہداء کے لیے صوبائی یا قومی سطح پر کسی وزارت کا اعلان کیا جائے۔جو سویلینز شہدا ء کا ریکارڈ مرتب کرے، ان کے بچوں کی حفاظت کرے، ان کی کفالت کا بندوبست کرے، انھیں معاشرے میں در بدر ٹھوکریں کھانے سے بچائے رکھے۔ سال 2001سے پہلے اس وزارت کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ پہلے پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے صرف کشمیر کا مسئلہ اور بھارت کا ہاتھ ہی تلاش کیا جاتا لیکن پھر ہماری کمزوریوں یا دشمن کی چالبازیوں سے ہمارے دشمن بڑھتے چلے گئے۔ 2001 سے پہلے پاکستان میں اوسطا 164 افراد سالانہ دہشتگردی کے ہاتھوں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔
یہ تعداد 2001کے بعد بڑھتی چلی گئی جو 2009میں یہ اوسط 3318 افراد سالانہ تک پہنچ گئی۔میری رائے میں ایک تو شہیدوں کو رجسٹرڈ کیا جائے، ان کے کوائف جمع کیے جائیں، انھیں ملازمتوں میں کوٹہ دیا جائے، انھیں عزت دی جائے، اور جرأت و بہادری کا نشان سمجھا جائے، وہ بچے اس معاشرے کے اہم شہری بن سکیں اور سب سے بڑھ ہمیں ان سویلین شہدا کا دن بھی منانا چاہیے جس میں اُن کی فیمیلیز کو بلا کر اُن کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ وہ معاشرے کا فخر بن سکیں!اورپھر قائد اعظم کا فرمان ہے کہ زندہ قومیں آزمائش کی گھڑی میں گھبرایا نہیں کرتیں، میرے خیال میں ہمیں ان شہداء کو زیادہ اعزازات سے نوازنا چاہیے جو محض حکومت کی غلط پالیسیوں، ہٹ دھرمیوں اور غفلت سے مارے جائیں۔