کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی، اس سزا پر عمل بھی ہوگیا
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی جانب سے ارکان پارلیمنٹ کی نااہلی کی مدت کے تعین کا فیصلہ ملکی سیاسی منظرنامے پر چھایا ہوا ہے ۔ عدالت عظمی نے 14 فروری کو محفوظ کیے گیے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کرتے ہوئے نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیا ہے، عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 62ون ایف امیدوار کی اہلیت جانچنے کے لیے ہے، اس میں نااہلی کی میعاد کا ذکر موجود نہیں تاہم عوام کو صادق اور امین قیادت ملنی چاہیے، جو عوامی نمایندہ صادق اور امین نہ ہو اسے آئین تاحیات نااہل قرار دیتا ہے۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس بنیاد پر کسی عوامی نمایندے کی نااہلیت کا فیصلہ کیا گیا ہے اگر اس فیصلے کے خلاف کوئی فیصلہ آجاتا ہے تو یہ نااہلیت غیر موثر ہوجائیگی۔ آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کی ضرورت اس وقت پیش آئی تھی، جب گزشتہ سال نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا تھا کہ ان کی نااہلی کی مدت کتنی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس کی مدت کا تعین کرنے کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
عدالتی فیصلے پر ن لیگ کے مخالفین فیصلے پر خوشی کے شادیانے بجارہے ہیں اور اسے تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے ملکی سیاست سے نواز شریف کا کردار ختم ہونے کا دعوی کر رہے ہیں۔ جب کہ نون لیگی قانونی ماہرین کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ تاحیات نااہلی سے بچنے کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے، بعض ماہرین کی رائے میں نواز شریف کے پاس نااہلی سے بچنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ اگر انھیں احتساب عدالت سے 2سال یا اس سے زائد عرصے کی سزا ہوجاتی ہے، تو آئین کی شق 63 ون ایچ کے تحت ان کی نااہلی کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ 5 سال ہوسکتا ہے، اس نکتے کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب کہ نواز شریف تا حیات نا اہلی کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کر سکتے ہیں اور پانچ رکنی بنچ سے بڑا بنچ تاحیات نااہلی کے فیصلے کو تبدیل کرسکتا ہے۔دیکھنا ہو گا کہ نون لیگ کیا راستہ اختیار کرتی ہے۔
نواز شریف نے فیصلے پر محتاط رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کارکنوں کو فی الحال صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے اور پارٹی قیادت کی کال کا انتظار کرنے کی ہدایت دینے پر اکتفا کیا ہے، مگر یہ بات واضح ہے کہ وہ اس فیصلے پر خاموش ہوکر نہیں بیٹھیں گے۔ پہلے وزارت عظمیٰ اور پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی صدارت سے الگ کر دیے جانے کے بعد تاحیات نااہلی کا عدالتی فیصلہ نواز شریف کے خلاف سنایا جانے والا تیسرا بڑا عدالتی فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کی مشکلات میں اضافہ تو ضرور ہوا ہے لیکن فیصلے کے بعد نواز شریف کو اپنا بیانیہ مزید زور شور سے عوام کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملے گا اور وہ کہہ سکیں گے کہ ایک مقبول عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما کو جب ووٹ کے ذریعے شکست نہیں دی جاسکی تو پھر عدالتوں کا سہارا لیا گیا۔
عدالتی فیصلہ اپنی جگہ پر لیکن بسا اوقات تاریخ کا فیصلہ مختلف ہوتا ہے، ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے سیاسی شخصیات کے خلاف دیے جانے والے اس طرح کے عدالتی فیصلے اپنی اصل روح کے مطابق برقرار نہیں رہ سکے۔ بظاہر سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایسا لگ رہا ہے کہ نواز شریف کی سیاست ختم ہوچکی ہے اور شاید اب وہ دوبارہ پارلیمنٹ میں واپس نہ آسکیں ، لیکن ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب عدالتی فیصلے تبدیل ہوئے یا پھر وہ اپنی اصل روح کے مطابق نافذ نہیں ہوسکے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔
ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی، اس سزا پر عمل بھی ہوگیا، لیکن ذوالفقار بھٹو چونکہ ایک سیاسی لیڈر اور عوامی شخصیت تھے اس لیے ان کی پارٹی نے فیصلے کو عدالتی قتل سے تعبیر کیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کا بیانیہ مقبول ہوتا گیا اور آج پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین حتی کہ خود ن لیگ جو شروع سے پیپلز پارٹی کی حریف رہی ہے وہ بھی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہتی ہے، اور اب تو پی پی کے سیاسی مخالفین کی جانب سے بھی بھٹو کے لیے شہید کا لفظ استعمال کیا جانے لگا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو تا حیات نا اہلی کے فیصلے کو بھی عوامی تائید و حمایت ملنا ممکن دکھائی نہیںدے رہا ، نواز شریف کے خلاف چلنے والے کیسز سے قطع نظر وہ اب بھی ایک مقبول سیاسی رہنما ہیں، اگر ان کے مخالفین موجود ہیں تو حامی بھی بہت ہیں۔ عدالتی فیصلے کے تحت وقتی طور پر تو نواز شریف 2سے 3ماہ بعد ہونیوالے آیندہ الیکشن نہیں لڑسکیں گے لیکن رد عمل کے طور پر جب وہ خود کو مظلوم بناکر عوام کے سامنے اپنا موقف پیش کرینگے تو لامحالہ ان کا بیانیہ عوام میںمقبولیت حاصل کریگا۔
مسلم لیگ کا موقف یہی ہے کہ نادیدہ قوتیں نواز شریف کو اپنی شرائط کے مطابق چلانا چاہتی ہیں جس سے انکار کی پاداش میں عدالت کے کاندھے پر بندوق رکھ کر نواز شریف کے ساتھ یہ سب کیا جارہا ہے۔ جلد یا بدیر نواز شریف جب اپنے بیانیہ کو عوام میں لے کر جائیں گے تو ان کے ساتھ مظلومیت کا پہلو بھی وابستہ ہوگا اور وہ یہی کہیں گے کہ جب ووٹ کے ذریعے مجھے شکست نہیں دی جاسکی تو پھر اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، جس کے نتیجے میںعوام میں فیصلے کی حیثیت متنازع ہوجائیگی اور نواز شریف کے لیے ہمدردی کے جذبات ابھریں گے۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں اس بات کے اشارے دن بدن واضح ہوتے جا رہے ہیں کہ غیر سیاسی قوتیں ملک کے انتظام و انصرام پر قابو پانے اور اپنی مرضی و منشاء چلانے کے لیے در پردہ کام کررہی ہیں ۔ سینیٹ الیکشن میں اکثریت کے باوجود ن لیگ کے چیئرمین کا منتخب نہ ہونا، بلوچستان میں نئی جماعت کا قیام، جنوبی پنجاب سے اتنی بڑی تعداد میں ن لیگی اراکین کا پارٹی سے منحرف ہونا، ایم کیو ایم کی شکست و ریخت کا عمل رکنے کے بجائے مزید گہرا ہونا ، نواز شریف پر سیاست کے دروازے بند کرنا اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ پس پردہ غیر سیاسی قوتیںاپنا عمل دخل بڑھا رہی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ شعر بالکل صادق آتا ہے کہ
چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں
جیسے جیسے عام انتخابات کا وقت نزدیک آرہا ہے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ فیصلہ ساز کیا کرنے جارہے ہیں۔ نا دیدہ قوتوں کی جانب سے جو '' انجینئرنگ ''کی جارہی ہے بظاہر تو وہ کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے لیکن ملک و قوم کے لیے اس انجینئرنگ کے دور رس نتائج اچھے نہیں نکلیں گے، اگر انجینئرنگ کرنی ہی ہے تو پھر اچھے کاموں کے لیے کرنی چاہیے، ایسا سسٹم بنایا جائے جس کے تحت سیاستدانوں سمیت کوئی بھی چھوٹا یا بڑا افسرکرپشن نہ کرسکے، ملک میں بلدیاتی ادارے دیگر ممالک کی طرح آزاد و خودمختیار بنائے جائیں۔بڑے صوبوں کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم کیا جائے۔ تعلیم اور صحت عامہ کو باقی تمام امور پر ترجیح دی جائے تو ایسی انجینئرنگ کی ہر کوئی حمایت کرے گا۔ مخصوص جماعت سے تعلق رکھنے والوں پر سختی ہو اور دوسروں پر نظر التفات ڈالی جائے تو پھر سوالات تو اٹھیں گے۔
یہ بات درست ہے کہ غیر سیاسی قوتوں کا راستہ ہموار کرنے میں خود سیاستدانوں کا بھی ہاتھ رہا ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کا تعین نہ کرنا بلاشبہ پارلیمنٹ کی غلطی ہے۔ سیاستدانوں نے انتخابی اکھاڑے میں ووٹ کی طاقت سے مخالف کو سرنگوں کرنے کے بجائے عدالتی فورم کا انتخاب کیوں کیا؟ ن لیگ کو بھی سوچنا چاہیے کہ آخر انھوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کی قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی میں پاناما لیکس کا ایشو طے کرتے وقت ذمے داری کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟ جہاں اپوزیشن نے سپریم کورٹ جاکر منتخب ایوان کا وزن کم کیا، وہیں حکمران جماعت بھی اس جرم سے بری الزمہ نہیں۔ جب تک سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کی روایت ترک نہیں کریں گے تب تک معاملات یونہی چلتے رہیں گے ۔ اداروںکو سیاسی معاملات سے دور رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سیاستدان پہلے اپنا قبلہ خود درست کریں اور ایک دوسرے کے خلاف سہولت کار کا کردار ادا نہ کریں۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس بنیاد پر کسی عوامی نمایندے کی نااہلیت کا فیصلہ کیا گیا ہے اگر اس فیصلے کے خلاف کوئی فیصلہ آجاتا ہے تو یہ نااہلیت غیر موثر ہوجائیگی۔ آئین کی شق 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کی ضرورت اس وقت پیش آئی تھی، جب گزشتہ سال نواز شریف اور جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا تھا کہ ان کی نااہلی کی مدت کتنی ہے، جس کے بعد سپریم کورٹ نے اس کی مدت کا تعین کرنے کے لیے 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
عدالتی فیصلے پر ن لیگ کے مخالفین فیصلے پر خوشی کے شادیانے بجارہے ہیں اور اسے تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے ملکی سیاست سے نواز شریف کا کردار ختم ہونے کا دعوی کر رہے ہیں۔ جب کہ نون لیگی قانونی ماہرین کو ٹاسک دیا گیا ہے کہ تاحیات نااہلی سے بچنے کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے، بعض ماہرین کی رائے میں نواز شریف کے پاس نااہلی سے بچنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ اگر انھیں احتساب عدالت سے 2سال یا اس سے زائد عرصے کی سزا ہوجاتی ہے، تو آئین کی شق 63 ون ایچ کے تحت ان کی نااہلی کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ 5 سال ہوسکتا ہے، اس نکتے کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے جب کہ نواز شریف تا حیات نا اہلی کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کر سکتے ہیں اور پانچ رکنی بنچ سے بڑا بنچ تاحیات نااہلی کے فیصلے کو تبدیل کرسکتا ہے۔دیکھنا ہو گا کہ نون لیگ کیا راستہ اختیار کرتی ہے۔
نواز شریف نے فیصلے پر محتاط رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کارکنوں کو فی الحال صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے اور پارٹی قیادت کی کال کا انتظار کرنے کی ہدایت دینے پر اکتفا کیا ہے، مگر یہ بات واضح ہے کہ وہ اس فیصلے پر خاموش ہوکر نہیں بیٹھیں گے۔ پہلے وزارت عظمیٰ اور پھر پاکستان مسلم لیگ ن کی صدارت سے الگ کر دیے جانے کے بعد تاحیات نااہلی کا عدالتی فیصلہ نواز شریف کے خلاف سنایا جانے والا تیسرا بڑا عدالتی فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے مسلم لیگ (ن) کی مشکلات میں اضافہ تو ضرور ہوا ہے لیکن فیصلے کے بعد نواز شریف کو اپنا بیانیہ مزید زور شور سے عوام کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملے گا اور وہ کہہ سکیں گے کہ ایک مقبول عوامی پارٹی کے مرکزی رہنما کو جب ووٹ کے ذریعے شکست نہیں دی جاسکی تو پھر عدالتوں کا سہارا لیا گیا۔
عدالتی فیصلہ اپنی جگہ پر لیکن بسا اوقات تاریخ کا فیصلہ مختلف ہوتا ہے، ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے سیاسی شخصیات کے خلاف دیے جانے والے اس طرح کے عدالتی فیصلے اپنی اصل روح کے مطابق برقرار نہیں رہ سکے۔ بظاہر سپریم کورٹ کے فیصلے سے ایسا لگ رہا ہے کہ نواز شریف کی سیاست ختم ہوچکی ہے اور شاید اب وہ دوبارہ پارلیمنٹ میں واپس نہ آسکیں ، لیکن ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب عدالتی فیصلے تبدیل ہوئے یا پھر وہ اپنی اصل روح کے مطابق نافذ نہیں ہوسکے۔ اس کی سب سے بڑی مثال ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔
ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی، اس سزا پر عمل بھی ہوگیا، لیکن ذوالفقار بھٹو چونکہ ایک سیاسی لیڈر اور عوامی شخصیت تھے اس لیے ان کی پارٹی نے فیصلے کو عدالتی قتل سے تعبیر کیا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کا بیانیہ مقبول ہوتا گیا اور آج پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین حتی کہ خود ن لیگ جو شروع سے پیپلز پارٹی کی حریف رہی ہے وہ بھی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل کہتی ہے، اور اب تو پی پی کے سیاسی مخالفین کی جانب سے بھی بھٹو کے لیے شہید کا لفظ استعمال کیا جانے لگا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو تا حیات نا اہلی کے فیصلے کو بھی عوامی تائید و حمایت ملنا ممکن دکھائی نہیںدے رہا ، نواز شریف کے خلاف چلنے والے کیسز سے قطع نظر وہ اب بھی ایک مقبول سیاسی رہنما ہیں، اگر ان کے مخالفین موجود ہیں تو حامی بھی بہت ہیں۔ عدالتی فیصلے کے تحت وقتی طور پر تو نواز شریف 2سے 3ماہ بعد ہونیوالے آیندہ الیکشن نہیں لڑسکیں گے لیکن رد عمل کے طور پر جب وہ خود کو مظلوم بناکر عوام کے سامنے اپنا موقف پیش کرینگے تو لامحالہ ان کا بیانیہ عوام میںمقبولیت حاصل کریگا۔
مسلم لیگ کا موقف یہی ہے کہ نادیدہ قوتیں نواز شریف کو اپنی شرائط کے مطابق چلانا چاہتی ہیں جس سے انکار کی پاداش میں عدالت کے کاندھے پر بندوق رکھ کر نواز شریف کے ساتھ یہ سب کیا جارہا ہے۔ جلد یا بدیر نواز شریف جب اپنے بیانیہ کو عوام میں لے کر جائیں گے تو ان کے ساتھ مظلومیت کا پہلو بھی وابستہ ہوگا اور وہ یہی کہیں گے کہ جب ووٹ کے ذریعے مجھے شکست نہیں دی جاسکی تو پھر اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے، جس کے نتیجے میںعوام میں فیصلے کی حیثیت متنازع ہوجائیگی اور نواز شریف کے لیے ہمدردی کے جذبات ابھریں گے۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں اس بات کے اشارے دن بدن واضح ہوتے جا رہے ہیں کہ غیر سیاسی قوتیں ملک کے انتظام و انصرام پر قابو پانے اور اپنی مرضی و منشاء چلانے کے لیے در پردہ کام کررہی ہیں ۔ سینیٹ الیکشن میں اکثریت کے باوجود ن لیگ کے چیئرمین کا منتخب نہ ہونا، بلوچستان میں نئی جماعت کا قیام، جنوبی پنجاب سے اتنی بڑی تعداد میں ن لیگی اراکین کا پارٹی سے منحرف ہونا، ایم کیو ایم کی شکست و ریخت کا عمل رکنے کے بجائے مزید گہرا ہونا ، نواز شریف پر سیاست کے دروازے بند کرنا اس بات کے واضح اشارے ہیں کہ پس پردہ غیر سیاسی قوتیںاپنا عمل دخل بڑھا رہی ہیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ شعر بالکل صادق آتا ہے کہ
چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں
جیسے جیسے عام انتخابات کا وقت نزدیک آرہا ہے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ فیصلہ ساز کیا کرنے جارہے ہیں۔ نا دیدہ قوتوں کی جانب سے جو '' انجینئرنگ ''کی جارہی ہے بظاہر تو وہ کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے لیکن ملک و قوم کے لیے اس انجینئرنگ کے دور رس نتائج اچھے نہیں نکلیں گے، اگر انجینئرنگ کرنی ہی ہے تو پھر اچھے کاموں کے لیے کرنی چاہیے، ایسا سسٹم بنایا جائے جس کے تحت سیاستدانوں سمیت کوئی بھی چھوٹا یا بڑا افسرکرپشن نہ کرسکے، ملک میں بلدیاتی ادارے دیگر ممالک کی طرح آزاد و خودمختیار بنائے جائیں۔بڑے صوبوں کو انتظامی بنیادوں پر تقسیم کیا جائے۔ تعلیم اور صحت عامہ کو باقی تمام امور پر ترجیح دی جائے تو ایسی انجینئرنگ کی ہر کوئی حمایت کرے گا۔ مخصوص جماعت سے تعلق رکھنے والوں پر سختی ہو اور دوسروں پر نظر التفات ڈالی جائے تو پھر سوالات تو اٹھیں گے۔
یہ بات درست ہے کہ غیر سیاسی قوتوں کا راستہ ہموار کرنے میں خود سیاستدانوں کا بھی ہاتھ رہا ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کا تعین نہ کرنا بلاشبہ پارلیمنٹ کی غلطی ہے۔ سیاستدانوں نے انتخابی اکھاڑے میں ووٹ کی طاقت سے مخالف کو سرنگوں کرنے کے بجائے عدالتی فورم کا انتخاب کیوں کیا؟ ن لیگ کو بھی سوچنا چاہیے کہ آخر انھوں نے اسپیکر قومی اسمبلی کی قائم کردہ پارلیمانی کمیٹی میں پاناما لیکس کا ایشو طے کرتے وقت ذمے داری کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا؟ جہاں اپوزیشن نے سپریم کورٹ جاکر منتخب ایوان کا وزن کم کیا، وہیں حکمران جماعت بھی اس جرم سے بری الزمہ نہیں۔ جب تک سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کی روایت ترک نہیں کریں گے تب تک معاملات یونہی چلتے رہیں گے ۔ اداروںکو سیاسی معاملات سے دور رکھنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سیاستدان پہلے اپنا قبلہ خود درست کریں اور ایک دوسرے کے خلاف سہولت کار کا کردار ادا نہ کریں۔