نئے میثاق کی ضرورت
مسلم لیگ ن پہلی دفعہ شدید طوفان کی لپیٹ میں ہے۔ اس کے اراکین علیحدہ ہورہے ہیں
ادارے پرانے کھیل کا حصہ نہ بنیں۔ قومی سیاسی جماعتیں توڑنے سے وفاق کمزور ہوگا۔ 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنے سے وفاق کا شیرازہ بکھرنے کا خدشہ ہے۔ تمام ادارے آئین کے تحت کام کریں۔ یوم آئین کے موقع پر قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور سینیٹ کے سابق چیئرمین رضا ربانی کے یہ خیالات گزشتہ چند مہینوں سے ملک کے سیاسی نقشہ پر رونما ہونے والے واقعات کے نقصانات کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہیں۔مسلم لیگ ن سے بڑی تعداد میں رہنماؤں کے علیحدہ ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔سابق نگراں وزیراعظم بلخ شیر مزاری اچانک متحرک ہوگئے۔ کئی اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی مسلم لیگ ن سے علیحدہ ہوکر جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لیے قائم کیے گئے محاذ میں شامل ہوگئے۔
وسطی پنجاب سے کچھ اراکین کے مسلم لیگ سے علیحدہ ہونے کی خبریں آئیں۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے دو اقلیتی ارکان مسلم لیگ سے مستعفی ہوئے۔ ایک تحریک انصاف اور دوسرا پیپلز پارٹی میں شامل ہوا۔ ایم کیو ایم کے دونوں گروپوں کے منتخب اراکین کے استعفیٰ اور مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت کا عمل جاری ہے۔ سندھ اسمبلی میں پی ایس پی کے اراکین کی تعدا د بڑھ گئی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کی موجودگی میں پی ایس پی میں شامل ہونے والے اراکین کو نااہل قرار نہ دینے سے سیاسی تبدیلیوں کے پس پشت قوتوں کی مضبوطی کا اندازہ ہوتا ہے۔
ملک میں جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں سیاسی رہنماؤں کی دیگر جماعتوں کی طرف سفر کے واقعات اور سیاسی جماعتوں کے درمیان نئے اتحاد بنانے کا عمل زور پکڑتا ہے۔ جب 2002 کے انتخابات ہونے والے تھی کہ اچانک مذہبی جماعتیں متحدہ مجلس عمل میں متحد ہوگئیں۔ انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس سے چند دن قبل پیپلز پارٹی کے منتخب اراکین کا ایک گروپ راؤ سکندر کی قیادت میں متحدہ ہوا۔ شاہ جیونا کے سجادہ نشین فیصل صالح حیات بھی اس گروپ میں شامل ہوئے۔ یوں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ قائم ہوئی۔ چوہدری شجاعت حسین کی قیادت میں مسلم لیگ ق منظم ہوئی تھی اور مولانا فضل الرحمن کے ووٹ کی مدد سے ظفر اﷲ جمالی وزیر اعظم منتخب ہوگئے تھے۔ عمران خان جنہوں نے ریفرنڈم میں جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی تھی ، بعد میں وہ ناراض ہو کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اور ڈاکٹر طاہر القادری کے اتحادی بن گئے تھے۔
مگر 2008 میں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ فضاء میں تحلیل ہوگئی۔ مسلم لیگ ق کے بہت سے اراکین پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی طرف بڑھ گئے تھے۔ 2010 میں اچانک عمران خان کی حمایت میں سیاسی رہنماؤں نے تحریک انصاف میں شامل ہونا شروع کیا۔ اس سیاسی ہجرت سے سب سے زیادہ متاثر مسلم لیگ ق ہوئی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں واشنگ فیکٹری لگ گئی ہے جس سے دھل کر سیاسی رہنما تحریک انصاف کی طرف دوڑ لگا رہے ہیں۔ 2013 تک اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر پیپلز پارٹی ہوئی تھی جس کی پنجاب کی قیادت کا بیشتر حصہ تحریک انصاف کے ہجوم میں کھو گیا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ یہ سب کچھ پاشا صاحب کی کرامات تھیں۔ اب ایک نئی صورتحال رونما ہورہی ہے۔
مسلم لیگ ن پہلی دفعہ شدید طوفان کی لپیٹ میں ہے۔ اس کے اراکین علیحدہ ہورہے ہیں مگر اب پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کی طرف دوڑ نہیں لگارہے ہیں۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن سے علیحدہ ہونے والے اراکین صوبائی اسمبلی نے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرلی۔ یہ سیاسی جماعت اچانک بلوچستان کی مؤثر قوت بن گئی۔ اس جماعت کے چار سینیٹر منتخب ہوگئے۔ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ ن کے حامیوں کو دوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میاں نواز شریف کے خلاف تاحیات نااہلی کے فیصلے کے بعد مسلم لیگیوں کی ایک بڑی تعداد میاں نواز شریف کو خدا حافظ کہہ دے گی۔ جب سینیٹ کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا تھا تو بعض اراکین نے شکایت کی تھی کہ انھیں نامعلوم افراد نے ٹیلیفون پر دھمکیاں دی ہیں۔
ان اراکین کی شکایت کے باوجود کسی خفیہ ایجنسی کے اہلکار سے پوچھ گچھ نہیں ہوئی، یوں معاملہ جو سینیٹ کے انتخابات تک محدود تھا اب عام انتخابات تک پھیل گیا۔ رضا ربانی نے قومی سیاسی جماعتوں کے ٹوٹنے سے وفاق کے کمزور ہونے کا ذکر کیا تھا۔ اب میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے فیصلہ کے بعد میاں رضا ربانی کی بات اس لیے بھی اہم ہوگئی ہے کہ مسلم لیگ اگر بکھر گئی تو مجموعی جمہوری نظام کمزور ہوگا۔ بلاول بھٹو زرداری کی یہ بات اہم ہے کہ سیاست دانوں کی قسمت کا فیصلہ عوام کو کرنا چاہیے۔ میاں نواز شریف نے اٹھارویں ترمیم کے وقت جنرل ضیاء الحق کی مسلط کردہ آئینی ترامیم کو ختم کرنے میں دلچسپی نہ لینے اور پاناما اسکینڈل کو پارلیمنٹ کے حوالے نہ کرکے بڑی غلطیاں کیں، مگر اب سوال مجموعی طور پر جمہوری نظام کا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سویلین کے لیے راہیں محدود کی جارہی ہیں۔ میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی پر جشن منانے کے بجائے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ شفاف انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں ہیں اور قومی جماعتوں کو بکھرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔
یہی وقت ہے کہ سیاست دان بصرت کا ثبوت دیں اور نیا میثاق تیار کریں، جیسا میثاق 2006 میں لندن میں بے نظیر بھٹواور میاں نواز شریف کے درمیان ہوا تھا۔ اس میثاق میں تمام سیاسی جماعتیں عہد کریں کہ وہ قومی سیاسی جماعتوں کی ٹوٹ پھوٹ کا حصہ نہیں بنیں گی اور آزاد امیدواروں کی حمایت سے گریز کریں گی اور نہ ہی نادیدہ قوتوں کے روڈ میپ پر دوڑ لگائیں گی۔ جمہوری نظام کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے رضا ربانی اور خورشید شاہ اپنی بصیرت افروز باتوں کو اپنی مرکزی قیادت کے سامنے رکھیں تاکہ جمہوری نظام مضبوطی اور تواتر کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔
وسطی پنجاب سے کچھ اراکین کے مسلم لیگ سے علیحدہ ہونے کی خبریں آئیں۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے دو اقلیتی ارکان مسلم لیگ سے مستعفی ہوئے۔ ایک تحریک انصاف اور دوسرا پیپلز پارٹی میں شامل ہوا۔ ایم کیو ایم کے دونوں گروپوں کے منتخب اراکین کے استعفیٰ اور مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت کا عمل جاری ہے۔ سندھ اسمبلی میں پی ایس پی کے اراکین کی تعدا د بڑھ گئی ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کی موجودگی میں پی ایس پی میں شامل ہونے والے اراکین کو نااہل قرار نہ دینے سے سیاسی تبدیلیوں کے پس پشت قوتوں کی مضبوطی کا اندازہ ہوتا ہے۔
ملک میں جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں سیاسی رہنماؤں کی دیگر جماعتوں کی طرف سفر کے واقعات اور سیاسی جماعتوں کے درمیان نئے اتحاد بنانے کا عمل زور پکڑتا ہے۔ جب 2002 کے انتخابات ہونے والے تھی کہ اچانک مذہبی جماعتیں متحدہ مجلس عمل میں متحد ہوگئیں۔ انتخابات کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس سے چند دن قبل پیپلز پارٹی کے منتخب اراکین کا ایک گروپ راؤ سکندر کی قیادت میں متحدہ ہوا۔ شاہ جیونا کے سجادہ نشین فیصل صالح حیات بھی اس گروپ میں شامل ہوئے۔ یوں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ قائم ہوئی۔ چوہدری شجاعت حسین کی قیادت میں مسلم لیگ ق منظم ہوئی تھی اور مولانا فضل الرحمن کے ووٹ کی مدد سے ظفر اﷲ جمالی وزیر اعظم منتخب ہوگئے تھے۔ عمران خان جنہوں نے ریفرنڈم میں جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی تھی ، بعد میں وہ ناراض ہو کر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اور ڈاکٹر طاہر القادری کے اتحادی بن گئے تھے۔
مگر 2008 میں پیپلز پارٹی پیٹریاٹ فضاء میں تحلیل ہوگئی۔ مسلم لیگ ق کے بہت سے اراکین پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی طرف بڑھ گئے تھے۔ 2010 میں اچانک عمران خان کی حمایت میں سیاسی رہنماؤں نے تحریک انصاف میں شامل ہونا شروع کیا۔ اس سیاسی ہجرت سے سب سے زیادہ متاثر مسلم لیگ ق ہوئی تھی۔ چوہدری پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں واشنگ فیکٹری لگ گئی ہے جس سے دھل کر سیاسی رہنما تحریک انصاف کی طرف دوڑ لگا رہے ہیں۔ 2013 تک اس صورتحال سے سب سے زیادہ متاثر پیپلز پارٹی ہوئی تھی جس کی پنجاب کی قیادت کا بیشتر حصہ تحریک انصاف کے ہجوم میں کھو گیا تھا۔ کہا جاتا تھا کہ یہ سب کچھ پاشا صاحب کی کرامات تھیں۔ اب ایک نئی صورتحال رونما ہورہی ہے۔
مسلم لیگ ن پہلی دفعہ شدید طوفان کی لپیٹ میں ہے۔ اس کے اراکین علیحدہ ہورہے ہیں مگر اب پیپلز پارٹی یا تحریک انصاف کی طرف دوڑ نہیں لگارہے ہیں۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ن سے علیحدہ ہونے والے اراکین صوبائی اسمبلی نے ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرلی۔ یہ سیاسی جماعت اچانک بلوچستان کی مؤثر قوت بن گئی۔ اس جماعت کے چار سینیٹر منتخب ہوگئے۔ پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ ن کے حامیوں کو دوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میاں نواز شریف کے خلاف تاحیات نااہلی کے فیصلے کے بعد مسلم لیگیوں کی ایک بڑی تعداد میاں نواز شریف کو خدا حافظ کہہ دے گی۔ جب سینیٹ کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا تھا تو بعض اراکین نے شکایت کی تھی کہ انھیں نامعلوم افراد نے ٹیلیفون پر دھمکیاں دی ہیں۔
ان اراکین کی شکایت کے باوجود کسی خفیہ ایجنسی کے اہلکار سے پوچھ گچھ نہیں ہوئی، یوں معاملہ جو سینیٹ کے انتخابات تک محدود تھا اب عام انتخابات تک پھیل گیا۔ رضا ربانی نے قومی سیاسی جماعتوں کے ٹوٹنے سے وفاق کے کمزور ہونے کا ذکر کیا تھا۔ اب میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے فیصلہ کے بعد میاں رضا ربانی کی بات اس لیے بھی اہم ہوگئی ہے کہ مسلم لیگ اگر بکھر گئی تو مجموعی جمہوری نظام کمزور ہوگا۔ بلاول بھٹو زرداری کی یہ بات اہم ہے کہ سیاست دانوں کی قسمت کا فیصلہ عوام کو کرنا چاہیے۔ میاں نواز شریف نے اٹھارویں ترمیم کے وقت جنرل ضیاء الحق کی مسلط کردہ آئینی ترامیم کو ختم کرنے میں دلچسپی نہ لینے اور پاناما اسکینڈل کو پارلیمنٹ کے حوالے نہ کرکے بڑی غلطیاں کیں، مگر اب سوال مجموعی طور پر جمہوری نظام کا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سویلین کے لیے راہیں محدود کی جارہی ہیں۔ میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی پر جشن منانے کے بجائے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ شفاف انتخابات کی راہ میں رکاوٹیں ہیں اور قومی جماعتوں کو بکھرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔
یہی وقت ہے کہ سیاست دان بصرت کا ثبوت دیں اور نیا میثاق تیار کریں، جیسا میثاق 2006 میں لندن میں بے نظیر بھٹواور میاں نواز شریف کے درمیان ہوا تھا۔ اس میثاق میں تمام سیاسی جماعتیں عہد کریں کہ وہ قومی سیاسی جماعتوں کی ٹوٹ پھوٹ کا حصہ نہیں بنیں گی اور آزاد امیدواروں کی حمایت سے گریز کریں گی اور نہ ہی نادیدہ قوتوں کے روڈ میپ پر دوڑ لگائیں گی۔ جمہوری نظام کے لیے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے رضا ربانی اور خورشید شاہ اپنی بصیرت افروز باتوں کو اپنی مرکزی قیادت کے سامنے رکھیں تاکہ جمہوری نظام مضبوطی اور تواتر کے ساتھ آگے بڑھ سکے۔