بناکر فقیروں کا ہم بھیس۔۔۔۔۔دنیا کے امیر بھکاری
ذکر ایسے فقیروں کا جو بھاری نقدی اور قیمتی جائیدادوں کے مالک ہیں
KARACHI:
بھکاری، فقیر، گداگر، منگتا۔۔۔یہ سب الفاظ عام بول چال میں ایسے لوگوں کی پہچان ہیں جو دَر دَر جاکر پیسے یا کھانے کے لیے چیزیں مانگتے ہوں اور جن کی مالی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہو۔ دنیا بھر میں ہر ملک اور ہر معاشرے میں فقیروں کی کوئی کمی نہیں، ہر بازار، ہر گلی، ہر گاؤں میں فقیر ملتے ہیں۔ ترقی پذیر ملک ہوں یا ترقی یافتہ اقوام، فقیروں کی موجودگی ہر جگہ ایک حقیقت ہے۔
زبان، قوم، مذہب اور ملک کے فرق کے اعتبار سے فقیر مقامی عقیدے کو پیش نظر رکھتے اور اپنی بے چارگی اور مجبوریوں بیان کرتے ہوئے صدا لگاتے ہیں۔ جس طرح ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں اسی طرح ہر فقیر بھی فقیر نہیں ہوتا۔ غالب نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا کہ
؎ بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
دنیا بھر میں ایسے سیکڑوں ہزاروں لوگ پائے جاتے ہیں جنہیں ہر کوئی فقیر سمجھتا اور فقیر سمجھ کر اُنھیں بھیک دیتا رہا، لیکن جب حقیقت کھلی تو پتا چلا کہ وہ ''فقیر '' کتنے ہی امیروں سے بھی زیادہ امیر ہیں۔ اگرچہ وہ صدا لگاتے ہیں کہ ''دے دو بابا'' حالاں کہ انھیں کہنا چاہیے ''لے لو بابا۔''
کیا آپ یقین کریں گے کہ مختلف ممالک میں ایسے ''فقیر '' ہیں جن کے پاس لاکھوں روپے کا بینک بیلنس ہے، قیمتی فلیٹ اور مکانات ہیں اور اُن میں سے کچھ اپنی قیمتی جائیدادوں کے قریب ہی بیٹھ کر بھکاریوں کا روپ دھارکر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں۔
دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے فقیروں کا لبادہ اوڑھا ہُوا ہے یا اوڑھا ہُوا تھا لیکن ان کے پاس پیسہ، جائیداد ، بینک بیلنس ایک عام آدمی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
آئیے دنیا بھر کے ایسے ہی چند مال دار، دولت مند ''فقیروں'' کا احوال جانتے ہیں۔
٭پپوکُمار
حال ہی میں میڈیا پر بھارتی ریاست بہار کے شہر پٹنہ کے بھکاری '' پپو کمار'' کا چرچا ہُوا جو برسوں سے بھیک مانگ مانگ کر بہت امیر ہوچکا ہے۔ پپوکمار کا بینک اکاؤنٹ بھی ہے جس میں 5 لاکھ روپے موجود ہیں۔ وہ تقریباً ایک کروڑ 25 لاکھ روپے مالیت کی جائیداد کا بھی مالک ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ 33 سالہ پپو کمار لوگوں کو بھاری شرح سود پر قرضہ بھی دیتا ہے جس کا حجم تقریباً 10 لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے پاس اتنا پیسہ اور جائیداد ہے کہ اگر وہ نوکری نہ بھی کرنا چاہے تو بیٹھ کر کھاسکتا ہے لیکن وہ گداگری چھوڑنا نہیں چاہتا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پپو کمار کا بچپن سے شوق تھا کہ انجینئر بنوں لیکن ایک حادثے میں وہ جزوی طور پر مفلوج ہوگیا اور حادثے کے بعد اس کے والد بھی چل بسے، جس کے بعد حالات اتنے بگڑے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگیا، لیکن اُسے اب اس بات کا کوئی افسوس نہیں بلکہ وہ تو خوش ہے کہ اسے قسمت نے بھکاری بناکر قسمت بدلنے میں مدد دی۔
٭بھارت جین
49 سالہ بھارت جین ممبئی کے علاقے پریل کا رہنے والا ہے اور یہی علاقہ اُس کی کمائی کی جگہ بھی ہے۔ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھیلاتے آج بھارت جین کی جائیداد بھی کافی پھیل چکی ہے جس کی مالیت تقریباً 70 لاکھ روپے بتائی جاتی ہے۔ گھر کے علاوہ اُس نے ایک دکان بھی خریدی ہے جو ایک جوس سینٹر کو کرائے پر دے کر وہ 10ہزار روپے ماہانہ لے رہا ہے۔ بھارت جین اپنے پیشے (گداگری) سے بہت خوش اور مطمئن ہے اور کسی حال میں بھی اسے چھوڑنا نہیں چاہتا، کیوںکہ بہ قول اس کے بھیک مانگنے سے اسے عشق ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وہ ماہانہ 75ہزار روپے کمالیتا ہے۔
٭کرشناکمار جیت
مالدار فقیروں میں بھارت کا کرشنا کمار بھی کسی سے پیچھے نہیں، وہ روزانہ تقریباً 1500روپے کمالیتا ہے اور کبھی کبھی اس کی روزانہ کی آمدنی اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ممبئی میں اس کی بھاری مالیت کی حامل جائیداد ہے۔ کرشنا کمار کے تجارتی معاملات اس کا بھائی دیکھتا ہے۔ ہاتھ میں ڈنڈا لے کر ڈنڈے کے زور پر چل کر وہ خود کو معذور ظاہر کرکے لوگوں کی ہم دردیاں سمیٹنے اور ان کی جیبیں خالی کرنے کی بھرپور مشق کرتا ہے اور اس کی کوششیں رائیگاں بھی نہیں جاتیں۔
٭ سمبھاجی کیل
سمبھاجی کیل اپنے گھر کے 4 افراد کے ساتھ ممبئی میں فقیری کررہا ہے، یوں تو اُس کی روزانہ کی آمدنی ایک ہزار روپے ہے جو اس جیسے بھکاریوں کے لیے کچھ زیادہ نہیں لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ اُس کے پاس ایک فلیٹ اور 2مکانات ہیں جو اُس نے بھیک مانگ مانگ کر خریدے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سمبھاجی نے تقریباً 50ہزار روپے مختلف کاروبار میں لگائے ہوئے ہیں، اس سرمایہ کاری سے بھی اُسے ماہانہ آمدنی ہوتی ہے۔
٭ سرواتیا دیوی
پٹنہ سے تعلق رکھنے والی معمر بھارتی خاتون سرواتیا دیوی کی بھیک سے ہونے والی آمدنی اتنی ہے کہ وہ سالانہ 36 ہزار روپے انشورنش پریمیئم کی مد میں ادا کرتی ہے۔ سرواتیا نے پٹنہ میں ایک گھر بھی خرید رکھا ہے جب کہ مختلف دکانوں اور تاجروں کے پاس اُس نے کافی ساری رقم سرمایہ کاری کے لیے رکھوائی ہوئی ہے، وہاں سے بھی اُسے ہر مہینے اچھے خاصے پیسے مل جاتے ہیں لیکن پھر بھی وہ فقیرنی ہے۔
٭ ماسومالانا
جو لوگ ماسومالانا کی حقیقت نہیں جانتے وہ اُسے دیکھ کر یقین نہیں کرتے کہ یہ فقیر ہے۔ ممبئی کے علاقے لوکھنڈ والا میں ہاتھ پھیلا کر پیسے کمانے والا ماسومالانا اپنے رکشے میں بھیک مانگنے آتا ہے۔ وہ بھیک مانگنے کی اپنی مخصوص جگہ سے کچھ دُور رکشا روکتا ہے اور پھر بھکاری کے روپ میں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اور دن ڈھلے اپنے رکشے میں بیٹھ کر خوش خوش واپس گھر چلا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اُس کی جائیداد کی مالیت 30لاکھ روپے ہے جب کہ اُس نے اپنے دیگر ذرائع آمدن کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایا۔
٭کرسٹوفرٹرنر
برطانوی شہری کرسٹوفر اپنے کتے کے ساتھ لندن کی ایک سڑک کے کنارے بیٹھ کر بھیک مانگتا ہے۔ اُس کے پاس مختلف قسم کے بورڈ ہیں جن پر ''میری امداد کرو''، ''مجھ پر ترس کھاؤ '' اور ایسے دوسرے جملے لکھے ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لندن میں جہاں وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے، وہاں سے چند فرلانگ دُور اُس کا عالی شان فلیٹ ہے جو اس نے ''فنِ فقیری'' سے ہی خریدا ہے۔
٭تھامسن
ایک اور فقیر تھامسن ہے ۔ یہ برطانوی گداگر لندن کی سڑکوں اور گلیوں میں معذور ہونے کا ناٹک کرکے بھیک مانگتا دیکھا جاسکتا ہے لیکن اُس کی ذاتی جائیداد کی مالیت لاکھوں میں ہے۔ کچھ عرصے قبل لندن پولیس نے اسے گرفتار کرلیا اور اس پر بھیک مانگنے کی پابندی لگادی کیوںکہ وہ فقیر نہیں رہا تھا۔
ہمارے ملک میں بھی گداگری ایک پیشہ بن اور کاروبار بن چکی ہے۔ یہاں بھی کراچی سے کشمیر تک ہر چھوٹے بڑے شہر میں فقیروں کے نیٹ ورک کام کرتے نظر آتے ہیں جن کے سرپرست کروڑ پتی نہیں تو لکھ پتی ضرور ہوں گے، ان کی جائیدادیں بھی ہیں اور وہ اپنا کاروبار چلانے کے لیے مجرمانہ ذہنیت کے افسران کو بھتہ بھی دیتے ہیں۔
رمضان ہو یا عیدالفطر یا عیدالضحیٰ ، ہر تہوار کے موقع پر ملک بھر میں عام طور پر اور کراچی، لاہور جیسے بڑے شہروں میں خاص طور پر فقیروں کا ہجوم دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں فقیروں کو علاقے بھی بانٹے جاتے ہیں بلکہ گداگری کا نیٹ ورک چلانے والے اچھے علاقوں کا انتخاب کرکے انہیں خریدتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ آمدنی ہوسکے۔ ایسے فقیر صرف بھیک نہیں مانگتے بلکہ ان کی وجہ سے جرائم میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
ہر فقیر کا کام ایک ہے لیکن اس کی کہانی اور طریقہ گداگری الگ ہے ، کچھ واقعی امداد کے قابل ہوتے ہیں لیکن بہت سوں کی اداکاری اتنی حقیقت بھری ہوتی ہے کہ انسان خودبخود امداد پر مجبور ہوجاتا ہے۔ دردمند دل رکھنے والے لوگ پیشہ ور بھکاریوں کا اصل ہدف ہوتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے بھکاری ایک دن بھکاری نہیں رہتا بلکہ خود دینے کے قابل ہوجاتا ہے۔
بھکاری، فقیر، گداگر، منگتا۔۔۔یہ سب الفاظ عام بول چال میں ایسے لوگوں کی پہچان ہیں جو دَر دَر جاکر پیسے یا کھانے کے لیے چیزیں مانگتے ہوں اور جن کی مالی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہو۔ دنیا بھر میں ہر ملک اور ہر معاشرے میں فقیروں کی کوئی کمی نہیں، ہر بازار، ہر گلی، ہر گاؤں میں فقیر ملتے ہیں۔ ترقی پذیر ملک ہوں یا ترقی یافتہ اقوام، فقیروں کی موجودگی ہر جگہ ایک حقیقت ہے۔
زبان، قوم، مذہب اور ملک کے فرق کے اعتبار سے فقیر مقامی عقیدے کو پیش نظر رکھتے اور اپنی بے چارگی اور مجبوریوں بیان کرتے ہوئے صدا لگاتے ہیں۔ جس طرح ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں اسی طرح ہر فقیر بھی فقیر نہیں ہوتا۔ غالب نے شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے کہا تھا کہ
؎ بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
دنیا بھر میں ایسے سیکڑوں ہزاروں لوگ پائے جاتے ہیں جنہیں ہر کوئی فقیر سمجھتا اور فقیر سمجھ کر اُنھیں بھیک دیتا رہا، لیکن جب حقیقت کھلی تو پتا چلا کہ وہ ''فقیر '' کتنے ہی امیروں سے بھی زیادہ امیر ہیں۔ اگرچہ وہ صدا لگاتے ہیں کہ ''دے دو بابا'' حالاں کہ انھیں کہنا چاہیے ''لے لو بابا۔''
کیا آپ یقین کریں گے کہ مختلف ممالک میں ایسے ''فقیر '' ہیں جن کے پاس لاکھوں روپے کا بینک بیلنس ہے، قیمتی فلیٹ اور مکانات ہیں اور اُن میں سے کچھ اپنی قیمتی جائیدادوں کے قریب ہی بیٹھ کر بھکاریوں کا روپ دھارکر دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہیں۔
دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے فقیروں کا لبادہ اوڑھا ہُوا ہے یا اوڑھا ہُوا تھا لیکن ان کے پاس پیسہ، جائیداد ، بینک بیلنس ایک عام آدمی کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
آئیے دنیا بھر کے ایسے ہی چند مال دار، دولت مند ''فقیروں'' کا احوال جانتے ہیں۔
٭پپوکُمار
حال ہی میں میڈیا پر بھارتی ریاست بہار کے شہر پٹنہ کے بھکاری '' پپو کمار'' کا چرچا ہُوا جو برسوں سے بھیک مانگ مانگ کر بہت امیر ہوچکا ہے۔ پپوکمار کا بینک اکاؤنٹ بھی ہے جس میں 5 لاکھ روپے موجود ہیں۔ وہ تقریباً ایک کروڑ 25 لاکھ روپے مالیت کی جائیداد کا بھی مالک ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ 33 سالہ پپو کمار لوگوں کو بھاری شرح سود پر قرضہ بھی دیتا ہے جس کا حجم تقریباً 10 لاکھ روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اس کے پاس اتنا پیسہ اور جائیداد ہے کہ اگر وہ نوکری نہ بھی کرنا چاہے تو بیٹھ کر کھاسکتا ہے لیکن وہ گداگری چھوڑنا نہیں چاہتا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پپو کمار کا بچپن سے شوق تھا کہ انجینئر بنوں لیکن ایک حادثے میں وہ جزوی طور پر مفلوج ہوگیا اور حادثے کے بعد اس کے والد بھی چل بسے، جس کے بعد حالات اتنے بگڑے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوگیا، لیکن اُسے اب اس بات کا کوئی افسوس نہیں بلکہ وہ تو خوش ہے کہ اسے قسمت نے بھکاری بناکر قسمت بدلنے میں مدد دی۔
٭بھارت جین
49 سالہ بھارت جین ممبئی کے علاقے پریل کا رہنے والا ہے اور یہی علاقہ اُس کی کمائی کی جگہ بھی ہے۔ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھیلاتے آج بھارت جین کی جائیداد بھی کافی پھیل چکی ہے جس کی مالیت تقریباً 70 لاکھ روپے بتائی جاتی ہے۔ گھر کے علاوہ اُس نے ایک دکان بھی خریدی ہے جو ایک جوس سینٹر کو کرائے پر دے کر وہ 10ہزار روپے ماہانہ لے رہا ہے۔ بھارت جین اپنے پیشے (گداگری) سے بہت خوش اور مطمئن ہے اور کسی حال میں بھی اسے چھوڑنا نہیں چاہتا، کیوںکہ بہ قول اس کے بھیک مانگنے سے اسے عشق ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وہ ماہانہ 75ہزار روپے کمالیتا ہے۔
٭کرشناکمار جیت
مالدار فقیروں میں بھارت کا کرشنا کمار بھی کسی سے پیچھے نہیں، وہ روزانہ تقریباً 1500روپے کمالیتا ہے اور کبھی کبھی اس کی روزانہ کی آمدنی اس سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ ممبئی میں اس کی بھاری مالیت کی حامل جائیداد ہے۔ کرشنا کمار کے تجارتی معاملات اس کا بھائی دیکھتا ہے۔ ہاتھ میں ڈنڈا لے کر ڈنڈے کے زور پر چل کر وہ خود کو معذور ظاہر کرکے لوگوں کی ہم دردیاں سمیٹنے اور ان کی جیبیں خالی کرنے کی بھرپور مشق کرتا ہے اور اس کی کوششیں رائیگاں بھی نہیں جاتیں۔
٭ سمبھاجی کیل
سمبھاجی کیل اپنے گھر کے 4 افراد کے ساتھ ممبئی میں فقیری کررہا ہے، یوں تو اُس کی روزانہ کی آمدنی ایک ہزار روپے ہے جو اس جیسے بھکاریوں کے لیے کچھ زیادہ نہیں لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ اُس کے پاس ایک فلیٹ اور 2مکانات ہیں جو اُس نے بھیک مانگ مانگ کر خریدے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ سمبھاجی نے تقریباً 50ہزار روپے مختلف کاروبار میں لگائے ہوئے ہیں، اس سرمایہ کاری سے بھی اُسے ماہانہ آمدنی ہوتی ہے۔
٭ سرواتیا دیوی
پٹنہ سے تعلق رکھنے والی معمر بھارتی خاتون سرواتیا دیوی کی بھیک سے ہونے والی آمدنی اتنی ہے کہ وہ سالانہ 36 ہزار روپے انشورنش پریمیئم کی مد میں ادا کرتی ہے۔ سرواتیا نے پٹنہ میں ایک گھر بھی خرید رکھا ہے جب کہ مختلف دکانوں اور تاجروں کے پاس اُس نے کافی ساری رقم سرمایہ کاری کے لیے رکھوائی ہوئی ہے، وہاں سے بھی اُسے ہر مہینے اچھے خاصے پیسے مل جاتے ہیں لیکن پھر بھی وہ فقیرنی ہے۔
٭ ماسومالانا
جو لوگ ماسومالانا کی حقیقت نہیں جانتے وہ اُسے دیکھ کر یقین نہیں کرتے کہ یہ فقیر ہے۔ ممبئی کے علاقے لوکھنڈ والا میں ہاتھ پھیلا کر پیسے کمانے والا ماسومالانا اپنے رکشے میں بھیک مانگنے آتا ہے۔ وہ بھیک مانگنے کی اپنی مخصوص جگہ سے کچھ دُور رکشا روکتا ہے اور پھر بھکاری کے روپ میں لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے اور دن ڈھلے اپنے رکشے میں بیٹھ کر خوش خوش واپس گھر چلا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اُس کی جائیداد کی مالیت 30لاکھ روپے ہے جب کہ اُس نے اپنے دیگر ذرائع آمدن کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں بتایا۔
٭کرسٹوفرٹرنر
برطانوی شہری کرسٹوفر اپنے کتے کے ساتھ لندن کی ایک سڑک کے کنارے بیٹھ کر بھیک مانگتا ہے۔ اُس کے پاس مختلف قسم کے بورڈ ہیں جن پر ''میری امداد کرو''، ''مجھ پر ترس کھاؤ '' اور ایسے دوسرے جملے لکھے ہوتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لندن میں جہاں وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے، وہاں سے چند فرلانگ دُور اُس کا عالی شان فلیٹ ہے جو اس نے ''فنِ فقیری'' سے ہی خریدا ہے۔
٭تھامسن
ایک اور فقیر تھامسن ہے ۔ یہ برطانوی گداگر لندن کی سڑکوں اور گلیوں میں معذور ہونے کا ناٹک کرکے بھیک مانگتا دیکھا جاسکتا ہے لیکن اُس کی ذاتی جائیداد کی مالیت لاکھوں میں ہے۔ کچھ عرصے قبل لندن پولیس نے اسے گرفتار کرلیا اور اس پر بھیک مانگنے کی پابندی لگادی کیوںکہ وہ فقیر نہیں رہا تھا۔
ہمارے ملک میں بھی گداگری ایک پیشہ بن اور کاروبار بن چکی ہے۔ یہاں بھی کراچی سے کشمیر تک ہر چھوٹے بڑے شہر میں فقیروں کے نیٹ ورک کام کرتے نظر آتے ہیں جن کے سرپرست کروڑ پتی نہیں تو لکھ پتی ضرور ہوں گے، ان کی جائیدادیں بھی ہیں اور وہ اپنا کاروبار چلانے کے لیے مجرمانہ ذہنیت کے افسران کو بھتہ بھی دیتے ہیں۔
رمضان ہو یا عیدالفطر یا عیدالضحیٰ ، ہر تہوار کے موقع پر ملک بھر میں عام طور پر اور کراچی، لاہور جیسے بڑے شہروں میں خاص طور پر فقیروں کا ہجوم دیکھا جاسکتا ہے۔ یہاں فقیروں کو علاقے بھی بانٹے جاتے ہیں بلکہ گداگری کا نیٹ ورک چلانے والے اچھے علاقوں کا انتخاب کرکے انہیں خریدتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ آمدنی ہوسکے۔ ایسے فقیر صرف بھیک نہیں مانگتے بلکہ ان کی وجہ سے جرائم میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔
ہر فقیر کا کام ایک ہے لیکن اس کی کہانی اور طریقہ گداگری الگ ہے ، کچھ واقعی امداد کے قابل ہوتے ہیں لیکن بہت سوں کی اداکاری اتنی حقیقت بھری ہوتی ہے کہ انسان خودبخود امداد پر مجبور ہوجاتا ہے۔ دردمند دل رکھنے والے لوگ پیشہ ور بھکاریوں کا اصل ہدف ہوتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے بھکاری ایک دن بھکاری نہیں رہتا بلکہ خود دینے کے قابل ہوجاتا ہے۔