سُر سِسکیوں میں ڈھل گئے اور چیخ اُٹھی ہے لے

’’بچے کو جوتے نہ ہونے کے باعث اسکول سے نکال دیا گیا


بلوچستان کے لوک گلوکار اُستاد بشیر بلوچ کا قصۂ درد، جو خود کو ملنے والے 100سے زاید اعزازات دے کر بدلے میں بس دو وقت کی روٹی چاہتے ہیں

ہم دہشت کے بارود میں کیوں جُھلس رہے ہیں۔۔۔وحشت ہمارے گلی کوچے کیوں سُرخ کر رہی ہے۔۔۔۔انتہاپسندی نے کیوں ہماری زمین کو جہنم بنا رکھا ہے۔۔۔جنسی بھیڑیے ہمارے بچوں کا ماس کیوں چبا رہے ہیں؟۔۔۔ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لیے کوئی تحقیقی مقالہ پڑھنے کی ضرورت نہیں، بلوچستان کے لوک گلوکار اُستاد بشیر بلوچ کا المیہ ان سارے سوالوں کا جواب دے رہا ہے۔ یہ ذاتی صدمہ پاکستان میں فن کی بے قدری کا نوحہ ہے۔

عشروں سُر بکھیرتے بشیربلوچ کی سسکیاں لفظوں میں ڈھل کر خبر بنیں تو ہر حساس دل اپنے لُہو میں نہا گیا۔ یہ فن کار معاشی بدحالی اور حکومت ومعاشرے کی بے اعتنائی سے گل گرفتہ ہوکر دو وقت کی روٹی کے عوض اپنے سو سے زاید اعزازات دینے کی صدا لگا رہا ہے۔ اُس کی یہ صدا حکومت اور معاشرے کے لیے ذلت کا ''اعزاز'' ہے، شرمندگی کا تمغہ ہے، آئیے ہاتھ بڑھا کر وصول کریں اور اپنے خالی سینوں پر سجائیں۔ ایک سچا فن کار اور خوددار انسان نہ بندوق اٹھا سکتا ہے نہ کاسۂ گدائی، بس اس کے پاس احتجاج کا یہی طریقہ تھا کہ خود کو ملنے والے اعزازات اہل اقتدار اور معاشرے کے منہہ پر دے مارے۔ وہ ملک جہاں کالے دھندے کرنے والے عزت پاتے ہیں۔

لوگوں کے خون سے زر کشید کرنے والے افتخار سے نوازے جاتے ہیں، لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے والوں کو آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے، وہاں دھرتی سے جُڑا کھرا گایک اپنی عزت نفس کا گلا گھونٹ کر روٹی کے لیے آواز لگانے پر مجبور ہوگیا ہے۔ اس سے پہلے کہ بشیر بلوچ کا درد سُناتی خبر ہیجان خیز خبروں کے شور میں گُم ہوجائے، ہم نے اس درد کو پورے صفحے پر پھیلا کر کوشش کی ہے کہ شاید کوئی اس کی سُن لے اور ملک اور سماج کی عزت بچ جائے۔

۔۔۔

کہتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے جسے اگر کوئی گہرائیوں میں اتر کر سنے تو یہ دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ پوری دُنیا میں موسیقی کا لگاؤ اپنی اپنی طرز کا ہے لیکن مشرقی موسیقی کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ یہ اُچھل کود کا نام نہیں، اس میں سُر ہے کلام ہے۔ اس موسیقی میں صوفیانہ طرز کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے جس میں بڑے بڑے صوفیائے کرام نے مالک کے ساتھ وابستگی اور دُنیا کے نشیب و فراز سے آگاہی دی ہے۔ اس موسیقی کو سب سے زیادہ لوک فن کاروں نے ترویج دی اور کلام کو اپنی لوک موسیقی میں ڈھال کر نہ صرف اس کلام کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار کیا بلکہ اسے عام لوگوں تک رسائی بھی دی۔ یہی وہ لوک فن کار ہیں جنہوں نے اپنی تہذیب و تمدن کو اپنے سُروں میں ڈھالا۔

پاک سرزمین کی دولت ایسے ہی فنکاروں کی مرہون منت ہے جنہوں نے نہ صرف صوفیائے کرام کی سرزمین پر پیدا ہونے کا حق ادا کیا بلکہ اپنے فن کے ذریعے وطن سے محبت اور لگن کو آشکار کیا۔ اس سرزمین نے سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوک فن کاروں کو جنم دیا، اس کی خس و خاشاک کو اپنی دھنوں میں بکھیر دیا۔ ایسے ہی ایک لوک فنکار بشیر بلوچ ہیں۔

ممتاز فوک فن کار بشیر بلوچ 1944ء میں سبی کے علاقے مٹھڑی میں پیدا ہوئے ان کے والد معروف زمیندار بہادر خان تھے۔17 سال تک وہیں پلے بڑھے، بچپن میں گلوکاری کا شوق پید ا ہوگیا تو میڈم نور جہاں، لتا، محمد رفیع کے گانوں کی پیروڈی کرنے لگے۔ کھلی فصاؤں اور ٹھنڈی چھاؤں والے علاقے میں سروں کو چھیڑنے کی عادت سی پڑ گئی۔ دس سال کی عمر میں یتیم ہونے والے بشیر بلوچ کو والد کی موت کا صدمہ برداشت نہ ہوسکا تو غمگین گانوں کو اپنے ذہن کا مسکن بنالیا۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا، پھر اہل خانہ کے ہمراہ کوئٹہ منتقل ہوگئے۔

بشیر بلوچ دو بھائی ہیں، بڑے بھائی کا نام امیر علی ہے جو حیدر آباد میں رہائش پذیر ہیں۔

''یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوںگے، افسوس ہم نہ ہوںگے'' ہروقت گنگناتے رہتے تھے معروف موسیقار عاشق حسین سمراٹ ان کے چچا تھے۔ یوں کہیے کہ ان کو گائیکی ورثے میں ملی۔ عاشق حسین سمراٹ نے ان کی بڑی پذیرائی کی جو بقول ان کے میڈم نورجہاں کے بھی استاد تھے۔ عاشق حسین سمراٹ کا مشہور گانا ''او جانے والے ٹھہر ذرا، رک جا'' بڑا مقبول ہورہا تھا۔ بشیر بلوچ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے چچا سے بہت کچھ سیکھا۔ کوئٹہ منتقل ہونے کے بعد استاد تاج محمد تاجل، محمد فیض کو اپنا استاد بنالیا۔ کوئٹہ کے معروف علاقے بروری کی ندی کو اپنا مسکن بنالیا۔ دن رات ندی کے کنارے اپنے استادوں کے دیے ہوئے سبق سے سروں کو باندھتا رہتا۔ طفیل نیازی کے ساتھ بھی بڑی رغبت پائی۔ شروع میں وہ لتا، میڈم نور جہاں، محمد رفیع، مہدی حسن کو کاپی کرتے تھے اور ملکی سطح پر سیکڑوں پروگراموں میں ان معروف گلوکاروں کی بڑے حوصلے کے ساتھ پیروڈی کی، جہاں ان کی بڑی حوصلہ افزائی ہوئی۔ اس کے بعد براہوئی لوک موسیقی، ''لعل نہ دانہ'' گا کر لوک موسیقی کو اپنالیا اور رفتہ رفتہ براہوئی زبان میں لوک موسیقی پر عبور حاصل کرلیا۔

یہ کہتے ہیں کہ پاکستان سے بہت زیادہ محبت ہے۔ 1965ء میں جہاں لوگ ملک کی سلامتی اور تحفظ کے لیے محو جہد تھے، وہیں میں نے بھی اپنا حصہ اس جنگ میں بھرپور انداز میں ڈالا۔ اس جنگ میں میرا نغمہ ''وطن اینو آزاداے'' یعنی میراوطن آزاد ہے بہت مشہور ہوا۔ 65 کی جنگ میں نہ صرف پاکستان بلکہ سب مسلمانوں کے لیے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے تحفہ تھی۔ اس جنگ میں ایک جذبہ تھا۔ جہاں میڈم نور جہاں نے ملی نغمے گاکر پاک فوج کے جوانوں کو عزم و ہمت کا لازوال درس دیا وہیں ہم جیسے فنکار بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔

یہ کہتے ہیں کہ1968ء میں فیلڈ مارشل ایوب خان کو براہوئی لوک گیت سنایا تو اُنہوں نے بھی حوصلہ افزائی کی ۔ میرے استاد میری بہت رہنمائی کیا کرتے تھے۔ اس دوران میں اچھا گانا گانے لگ گیا تھا۔ 1976ء میں ''میرا وطن دل کا چمن یہ انجمن'' بہت مشہور ہوا۔ یہ نغمہ پی آئی اے کی فلائٹس میں بھی چلتا تھا۔ اسی دوران میں نے چاروں صوبوں کے لیے ایک ملی نغمہ گا کر بہت داد و تحسین حاصل کی ''زیبا پاکستان ننا'' (پیارا پاکستان ہمارا)۔

دوران تربیت میں نے35 سال تک ریاضت کی اور اپنے اساتذہ کی خدمت کی تمام زندگی سُروں کو ڈھونڈتا رہا۔ اس دوران مجھے دو مرتبہ صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی بھی ملے۔ ایک تقریب میں محمد علی، زیبا اور میڈم نور جہاں ایوارڈ تقسیم کررہے تھے۔ میں نے لوک گانے گائے تو محمد علی مرحوم نے مجھے ایوارڈ دیا اور کہا کہ اتنے لوگوں کو دیکھ کر آپ گھبرائے کیوں نہیں۔ تو میں نے انہیں جواب دیا کہ جب میں گائیکی میں مصروف ہوتا ہوں تو کتنا بھی بڑا ہجوم ہو میرا لنک صرف اﷲ تعالیٰ کے ساتھ رہتا ہے۔



بشیر بلوچ کا کہنا ہے کہ مجھے سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام محمد یوسف اور گورنر گل محمد جوگیزئی کی جانب سے بھی ایوارڈ دیئے گئے خیبر پختونخوا سے کتاب اور سند دی گئی۔ اب تک سیکڑوں ایوارڈز حاصل کرچکا ہوں۔ 132 ایوارڈز میری زندگی کا اثاثہ ہیں۔ میں کبھی بڑے ہالوں میں گاتا تو کبھی ریڑھیوں پر بھی گالیتا تھا۔ سندھی ٹوپی پہنتا تھا۔ ٹی وی کے لیے پگڑی ثقافت کو اُجاگر کرنے کے لیے پہنتا تھا۔ بلوچستان کی سابق صوبائی وزیر مس پری گل آغا نے مجھے ایوارڈ دیئے۔ 1955ء میں جب ریڈیو پر گانا شروع کیا تو ایک گانے کے5 روپے ملتے تھے ۔ سیلون پر چلنے والے ریڈیو کی خبریں اور گانے سننے کے لیے لوگوں کی قطاریں لگی رہتی تھیں۔ گانے کا پانچ روپے معاوضہ بھی مجھے اے کلاس گائیکی کا ملاتا تھا کیوںکہ میں نے ریڈیو والوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اے کلاس دی جائے، بی کلاس میں نہیں گاؤں گا۔

بشیر بلوچ اپنے ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جب وہ وزیراعظم تھے ایک مرتبہ مجھے کہا کہ تمہیں ''ہوجمالو'' آتا ہے۔ میں نے ہاں میں جواب دیا تو اُنہوں نے کہا کہ گاؤ تو میں نے ''ہو جمالو'' گایا۔ بھٹو مرحوم نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی اور300 روپے دیئے جو آج کے دور میں تین لاکھ کے برابر ہیں۔ چکلالہ ٹی وی کے ابتدائی دنوں میں مجھے گانے کے135 روپے دیئے جاتے تھے۔

70 سالہ بشیر بلوچ ایک مرتبہ پھر اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں کھو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس وقت ایس پی زمان نے مجھے کہا تھا کہ گانا سناؤ۔ میں نے انکار کردیا تھا۔ ان کے دوست نے بھی اصرار کیا تو میں نے18 سال کی عمر میں انہیں مکمل گانا سنادیا ''تیری دنیا سے دل بھرگیا، جیسے جادو کوئی کرگیا، زندگی دینے والے سن'' تو انہوں نے خوش ہو کر مجھے دو روپئے دیئے۔ تو میں 8 آنے کا نصف کلو بکرے کا گوشت گھر لے گیا۔ گھر والوں نے پوچھا کہ پیسے کہاں سے آئے تو میں نے ساری کہانی سنا ڈالی۔

یہ کہتے ہیں کہ میں نے تعلیم حاصل نہیں کی صرف سر، تال کی تعلیم حاصل کی ہے۔ پنجابی، سندھی، فارسی ، پشتو، مارواڑی اور ہندکو زبانوں پر عبور حاصل ہے۔1977ء میں ابو ظبی میں پاکستانی سفیر نے مجھے بلوایا۔ یہ23 مارچ کو پاکستان ڈے کا پروگرام تھا۔ وہاں میں نے ملی نغمے گائے اور مجھے وہاں بڑی پذیرائی ملی۔ سات ایشیائی ممالک انڈیا، نیپال، بھوٹان، سری لنکا، چین میں سُروں کو بکھیرا۔ آج حال ہوا یہ ہے کہ آپ کے سامنے گاڑی والے نے روک کر مجھے500 روپے دیئے۔1977ء میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، تربت، گوادر میں پروگرام کئے اور داد سمیٹی۔

یہ کہتے ہیں اُس دور میں میں نے کئی یتیم بچوں کی پرورش کی کیوںکہ میں خود دس سال کی عمر میں یتیم ہوگیا تھا۔ حضورؐ بھی یتیم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ یتیم کی قدر و منزلت میں جانتا تھا۔ مجھے لوگ کہتے تھے کہ غمگین گانا گایا کرو تو میں یہ گانا گاتا تھا''اتنے بڑے جہاں میں کوئی نہیں ہمارا''۔

بشیر بلوچ کہتے ہیں کہ میں نے بڑے بڑے دور دیکھے ہیں۔ دوسرے فن کار آگے بڑھنے کا موقع نہیں دیتے تھے ایک پروگرام میں محمد علی اور زیبا بھی بیٹھے تھے۔ مجھے یقین نہیں تھا کہ مجھے بھی ایوارڈ ملے گا۔ محمد علی زیبا نے کہا کہ کل دیکھیں گے کہ آپ کو کیسے ایوارڈ نہیں ملتا۔ اگلے روز جب ایوارڈ تقسیم کرنے کی تقریب منعقد ہوئی تو بلوچستان سے ایوارڈ کے لیے میرا نام پکارا گیا اور مجھے ایوارڈ مل گیا۔ جاوید اقبال نے مجھے سلور جوبلی ایوارڈ دیا۔ میرے پاس اتنے ایوارڈ ہیں کہ میرے مداح میرے گھر سے ایوارڈ اُٹھا کر لے جاتے ہیں اور اپنے گھروں میں سجاتے ہیں۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے مجھ سے چاروں صوبوں کے ملی نغمے کی فرمائش کی تو میں نے چاروں صوبوں کی ثقافت کو ملی نغمے میں اُجاگر کردیا جس پر اُنہوں نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں اور مجھے داد دی۔ اب وہ اس دُنیا میں نہیں ہیں۔ اُنہوں نے میرے لیے پیپلز پارٹی سلور جوبلی ایوارڈ کا اعلان کیا تھا لیکن وہ نہیں ملا۔ جب میں نے بے نظیر بھٹو کے سامنے پہلی مرتبہ پرفارم کیا تو بلاول ان کی گود میں تھا ۔ یہ کہتے ہیں کہ میں نے جس کے سامنے گایا وہ میرا ہوگیا۔ آج کل تو کیسٹوں کے فن کار ہیں یہ تو نقل بھی نہیں کرسکتے لیکن انہیں مراعات سے نوازا جارہا ہے۔

ایک پروگرام میں جب میں نے پرفارم کیا تو میڈم نور جہاں اُٹھ کر آئیں اور کہا کہ بشیر آپ نے کہاں سے ایسا گانا سیکھ لیا ہے۔ میں نے کہا کہ اپنے استادوں سے رہنمائی حاصل کی ہے۔ میں نے اپنے چچا عاشق حسین سمراٹ سے سیکھا ہے۔ ان ہی الفاظ کے ساتھ پھر بشیر بلوچ نے سُر کا جادو بکھیرا

''او جانے والے رے ٹھہرو ذرا رک جاؤ، لوٹ آؤ''

یہ کہتے ہیں کہ میں نے بہت محنت کی۔ کوئٹہ کے علاقے بروری کی ندی کنارے جہاں بقول لوگوں کے جنات ہوتے تھے اور رات کو لوگ وہاں سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے، تین سال تک درخت کے سائے تلے بیٹھ کر ریاض کیا۔ سابق گورنر بلوچستان نواب غوث بخش رئیسانی نے مجھے نصیحت کی تھی کہ براہوئی زبان کو کبھی نہیں چھوڑنا۔ ان کے گھر میں ایک تقریب میں میں نے ایک ملی نغمہ پیش کیا جس پر اُنہوں نے مجھے ایک سو روپے کا نوٹ دیا (بلیو رنگ کا) اور ساتھ تاکید کی کہ مذہب، رنگ و نسل اور تعصب سے بالاتر ہو کر ہمیشہ ملک کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا، یہی وجہ ہے کہ میں ہر قسم کے تعصب سے بالاتر ہوں اور یہی نصیحت میری والدہ کی بھی تھی۔ میری والدہ کو بھی وطن عزیز سے والہانہ لگاؤ تھا۔ میری والدہ 85 سال کی عمر میں فوت ہوگئیں۔ جب بھی اسٹیج پر پرفارم کرتا ہوں تو والدہ کی نصیحتیں یاد آجاتی ہیں۔ اس موقع پر بشیر بلوچ آبدیدہ ہوگئے۔ یہ کہتے ہیں کہ مرحوم نواب محمد اکبر خان بگٹی بھی مجھے بے حد پسند کرتے تھے۔ اُنہوں نے جب جمہوری وطن پارٹی کی بنیاد رکھی تو مجھے کہا کہ پارٹی کے لیے کوئی نغمہ گاؤں۔ میں نے ان کی پارٹی کے لیے نغمہ گایا۔ اس دور میں اُنہوں نے مجھے60 ہزار روپے بھجوائے۔

میں تو سب کا فن کار ہوں۔ میں انقلابی گانے نہیں گاتا، صرف پاکستان کے لیے گاتا ہوں۔ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔ ہمیں آپس کی رنجشیں بھلادینی چاہییں اور وطن کے تحفظ کے لیے متحد ہوجانا چاہیے۔

یہ کہتے ہیں کہ ایک تقریب کے دوران میں نے براہوئی میوزک ''لعل نا دانا'' گایا تو اس موقع پر چیف آف جھالاوان نواب دودا خان بھی موجود تھے جنہوں نے اس دور میں مجھے263 روپے دیئے۔ بشیر بلوچ کا کہنا ہے کہ لوک موسیقی ورثے کو اُجاگر کرتی ہے۔ لوک موسیقی میں صوفیانہ کلام کو بڑی اہمیت حاصل ہے جس میں صوفیائے کرام اﷲ تعالیٰ سے رجوع کا ایک بہتر موقع فراہم کرتے ہیں۔ اگر کوئی دل کی گہرائی سے صوفیائے کرام کے کلام سے لگاؤ رکھے تو اس کی تاریں کہیں اور جُڑ جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوک موسیقی میں عارفانہ کلام کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس موسیقی سے ایک لگاؤ ہے جو دلوں کو تازگی بخشتا ہے۔ اس لئے سب کہتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے۔

بشیر بلوچ کا کہنا ہے کہ انہوں نے70 سالہ زندگی میں بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں، بھیڑ بکریاں چَرائی ہیں، پیسوں کا انبار بھی دیکھا، مختلف ممالک میں بھی پرفارم کیا جہاں سے پذیرائی سمیٹی اور لوگ احتراماً میرے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوا کرتے تھے۔ مجھے موسیقی سے اس حد تک لگاؤ ہے کہ میں نے اپنے آگے کسی کو ٹھہرنے نہیں دیا۔

بشیر بلوچ نے پہلی شادی24 سال کی عمر میں کی۔ اہل خانہ کی رضامندی سے۔ پہلی شادی سے ان کے تین بچے پیدا ہوئے، جن میں دو بچے فوت ہوگئے اور ایک بیٹی کی شادی کردی۔ دوسری شادی20 سال قبل صحبت پور بلوچستان کی بیوہ خاتون کے ساتھ کی جس سے میری تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ میں نے اس کے پہلے بچے کو بھی پالا پوسا جو پاک فوج میں ہے اور گھر کے خرچ کے لیے کچھ بھجوادیتا ہے۔ میری موجودہ شادی سے دو بیٹوں کی عمریں12 اور10 سال کے درمیان ہیں جو سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں ۔ دونوں بچیاں بھی اسکول میں پڑھتی ہیں۔ چند روز قبل بچے کے جوتے نہ ہونے کی وجہ سے اسے اسکول سے نکال دیا گیا تھا، پھر ایک دردمند نے جوتے خرید کر دیئے۔

یہ کہتے ہیں کہ 70 سالہ موسیقی سے لگاؤ کا صلہ مجھے آج یہ ملا کہ میں کس مپرسی کی زندگی گزاررہا ہوں۔ بچوں کے اسکول کے اخراجات گھر کے دوسرے معاملات چلانا میرے لئے مشکل ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بچوں کی صرف ایک یونیفارم ہے۔ رات کو دھوتے ہیں تو صبح پہن کر اسکول جاتے ہیں۔ سر چھپانے کے لیے میرے پاس گھر نہیں تھا۔ کوئٹہ کے نواحی علاقے دیبہ میں ایک سابق صوبائی وزیر علی مدد جتک نے بنا کر دیا تو سر چھپانے کو جگہ ملی۔ ایک ہی کمرے میں سب لوگ گزر بسر کرنے لگے۔ کچھ عرصہ قبل انتہائی تنگ دستی کی حالت میں جب میں نے اپنے ایوارڈز فروخت کرنا چاہے تو اس وقت کے چیف سیکرٹری سیف اﷲ چٹھہ نے میری مالی معاونت کی، جس سے گھر میں دو کمرے اور بنادیئے۔ اب ہم اس گھر میں رہ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق چیف سیکرٹری سے ملاقات میں میں نے انہیں علامہ اقبال کا کلام سنایا تو وہ مجھے داد دیئے بغیر نہ رہ سکے اور مجھے50 ہزار روپے دیئے جس سے گھر کا دال دلیا منگایا۔

بشیر بلوچ کا کہنا تھا کہ یہاں فن کاروں کی کوئی قدر نہیں ہے۔ زندگی کا طویل عرصہ لوک موسیقی کو فروغ دینے کے بعد اب پچھتارہا ہوں۔ دکھ ہوتا ہے جب میں کہیں جاتا ہوں تو لوگ میرا مذاق اُڑاتے ہیں۔ جس ٹی وی اسٹیشن کو میں نے اپنی گائیکی سے روح بخشی آج میرا وہاں سننے والا کوئی نہیں۔ طبیعت کی ناسازی کے باوجود گھنٹوں حکام بالا کے کمروں کے باہر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے ایوارڈ کا کیا فائدہ جن کے ہوتے ہوئے بھیک مانگوں میں کوئی بڑا مطالبہ نہیں کرتا، عزت سے وقت گزارنے کے لیے حکومت میرے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر کرے، جیسا کہ دوسرے صوبوں میں فن کاروں کو دیا جاتا ہے۔ سندھ، پنجاب اور کے پی کے میں فن کاروں کو 20 سے 30 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے، جب کہ ہمارے صوبے میں تقریب منعقد کرکے پیسے ہڑپ کرلیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں فن کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی، جبکہ چار روز قبل امریکا سے ایک مہربان کا فون آیا جنہوں نے مجھ سے کہا کہ بشیر گانا سناؤ۔ میں خوشی سے پھولے نہیں سمایا اور میرا حوصلہ بلند ہوا۔ دو سال تک پروجیکٹ ڈائریکٹر امتیاز مجھے15 ہزار روپے ماہانہ بھجواتے تھے۔ اب ان کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ صوبے کے لیے میری خدمات کے اعتراف میں معزز جج ظہور شاہوانی میرے گھر گندم بھجواتے ہیں، جب کہ ان کا بھائی نثار بچوں کے تعلیمی اخراجات میں ہاتھ بٹاتا ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ جس فن کو میں نے اپنی وراثت سمجھا آج دکھی دل سے کہتا ہوں کہ میری بھول تھی اور چاہتے ہوئے بھی میں اپنے بچوں کو موسیقی کی طرف نہیں لاؤں گا۔

بشیر بلوچ کہتے ہیں کہ جہاں لتا، رفیع، میڈم نور جہاں میرے پسندیدہ گلوکار ہیں وہیں معروف گلوکارہ مہہ جبیں قزلباش جو اس وقت چھوٹی عمر کی تھیں میری بڑی مداح تھیں۔ اپنی جوانی کے حوالے سے کہتے ہیں، اس میں بڑے قصے اور کہانیاں ہیں لیکن میں جس طرح1965ء کی جنگ میں ملک کی سلامتی کے لیے پرعزم تھا ملک کے لیے آج بھی وہی جذبہ ہے کیوںکہ پاکستان ایک گل دستے کی مانند ہے جہاں سبھی لوگ ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں