معاملہ سیاسی بصیرت کا
سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان پائے جانے والے تضادات کی وجہ سے مزید خرابی بسیار پیدا ہوئی ہے۔
گذشتہ جمعہ کو عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں محمد نواز شریف اور تحریک انصاف کے جہانگیر ترین آئین کی شق62(1)F کے تحت تمام ریاستی اداروں کی رکنیت کے لیے تاحیات نااہل قرار دیے گئے ہیں۔
میاں صاحب جو گذشتہ برس صادق اور امین نہ ہونے کے باعث عوامی نمایندگی کے اداروں کے لیے نااہل قرار دیے جانے کے بعد قومی اسمبلی کی رکنیت اور وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیے گئے تھے، پھر اپنی جماعت کی سربراہی اور اب سیاست کے لیے نااہل قرار دے دیے گئے ہیں۔
اس پوری صورتحال نے ملک کے سیاسی نظام کے حوالے سے ان گنت سوالات پیدا کردیے ہیں۔ معاملات اتنے سہل نہیں کہ ان پر ایک نشست میں کوئی فیصلہ کن بات ہوسکے۔ یہ پرت در پرت ایسے الجھے ہوئے معاملات و مسائل ہیں، جنہوں نے اس ملک کو بیک وقت کئی بحرانوں میں مبتلا کردیا ہے۔
اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ کرپشن اور بدعنوانی اس معاشرے کی رگ و پے میں سرطان کی طرح سرائیت کرچکی ہے۔ مگر یہ مرض صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ ریاست کا ہرادارہ اور اس کا ہر بڑا چھوٹا اہلکار اس مرض میں مبتلا ہے۔ معراج محمد خان مرحوم کے سب سے بڑے بھائی دکھی پریم نگری کہا کرتے تھے کہ اس ملک میں دیانت دار وہ ہے، جسے بے ایمانی کا موقع نہیں ملتا یا جو اس قدر بزدل و کم عقل ہے کہ بے ایمانی کرنے کی اہلیت و صلاحیت سے عاری ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں کرپشن کیوں ہے اور اس سے چھٹکارا کیوں ممکن نہیں؟ تو عرض ہے کہ کرپشن بری حکمرانی (Bad Governance) کے بطن سے جنم لیتی ہے۔ جو سیاسی عدم استحکام کے علاوہ میرٹ، شفافیت اور جوابدہی کے واضح میکنزم کی عدم موجودگی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔جب کہ سیاسی عدم استحکام کے بھی کئی کلیدی اسباب ہیں۔ اول، سیاسی جماعتوں میں سیاسی عزم و بصیرت کا فقدان۔دوئم، بیک وقت کئی متوازی نظام حکمرانی، جن میں کچھ دیدنی اور کچھ نادیدنی۔سوئم، ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد اور ورکنگ ریلیشن شپ کا موجود نہ ہونا۔ جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ عدم تعاون۔
پاکستان میں ایک روز بھی اچھی حکمرانی قائم نہیں ہوسکی۔ اس کی بنیادی وجہ ریاست کے منطقی جواز کے بارے میں مختلف حلقوں کی مختلف تشریحات و توجیہات ہیں۔ سیاست دانوں میں بھی ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے پائے جانے والے کنفیوژن نے معاملات کو مزید الجھایا ہے۔ البتہ ان کی اکثریت اس ملک کو ایک وفاقی پارلیمانی جمہوریہ سمجھتی ہے اور قائم رکھنا چاہتی ہے۔
اس کے برعکس منصوبہ ساز وحدانی ریاست بنانے کے خواہاں ہیں، تاکہ اقتدار و اختیار اور فیصلہ سازی پر ان کا کنٹرول قائم رہ سکے۔ متوشش حلقے ملک کو فلاحی جمہوری ریاست بنانے کے خواہاں ہیں، جب کہ طاقتور حلقے اسے سیکیورٹی اسٹیٹ کے طور پر چلانا چاہتے ہیں۔اس مقصد کے لیے وہ بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں کو استعمال بھی کرتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان پائے جانے والے تضادات کی وجہ سے مزید خرابی بسیار پیدا ہوئی ہے۔اس حوالے سے پروفیسر حمزہ علوی مرحوم لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان گوکہ مسلم لیگ کی اہم سیاسی شخصیت تھے ، جنھیں ملک کاپہلا چیف ایگزیکٹو مقررکیا گیا تھا۔ مگر ان کی حیثیت رابطہ افسر جتنی بھی نہیں تھی۔
تمام ریاستی امور سیکریٹری جنرل کے سیکریٹریٹ میں طے کیے جاتے تھے، جن کی منظوری گورنر جنرل سے لی جاتی تھی۔ یوں ملک کے وزیر اعظم یعنی پارلیمانی جمہوری نظام میں ریاست کے انتظامی سربراہ کی حیثیت روز اول سے شو کیس میں سجے مجسمے سے زیادہ کبھی نہیں رہی۔ لہٰذا جس متوازی حکومت کا سلسلہ پہلے روز کیا گیا، اس کا تسلسل آج تک جاری ہے۔
جب نظام حکمرانی بگڑتا ہے تو اس کے اثرات ہر ذیلی نظام پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ نظام عدل بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ نظام عدل میں جسٹس منیر نے جس جوڈیشیل ایکٹو ازم کی بنیاد رکھی، وہ کسی نہ کسی شکل میں آج تک جاری ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس دوران کچھ ایسے جج صاحبان بھی آئے، جنہوں نے عدل کی اسلامی اور عالمی روایات کو مقدم رکھنے کی خاطر نادیدہ قوتوں کے دباؤ کی پرواہ کیے بغیر آئین اور قانون کی درست تشریحات کی روشنی میں میرٹ پر فیصلے دینے کی کوشش کی۔ ان ججوں میں جسٹس حمودالرحمان، جسٹس دوراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم، جسٹس صفدرشاہ، جسٹس سعیدالزماں صدیقی، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس ناصر اسلم زاہد وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ لیکن ستر برسوں کے دوران ہمارا پورا عدالتی نظام زیادہ تر متوازی حکومتوں کے ہی زیر اثر رہاہے۔
جب ہم بری حکمرانی کی بات کرتے ہیں، تو اس میں غیر سیاسی قوتوں نے جو کردار ادا کیا وہ اپنی جگہ۔ مگر سیاستدانوں نے بھی سیاسی عزم و بصیرت کا مظاہرہ کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ مثلاً سیاستدانوں کی اکثریت یہ ضرور سمجھتی ہے کہ ملک کی اساس وفاقی پارلیمانی جمہوریت ہے۔ مگر جب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرانے کا وقت آیا، توانھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے بجائے نادیدہ قوتوں کی ڈفلی پر رقص کرنا قبول کیا۔ جب بھی پارلیمان وجود میں آئی، اسے بے توقیرکرنے میں خود ہی نمایاںکردار ادا کیا۔کیا وہ سیاستدان نہیں تھے؟
جنہوں نے ایوب خان کے اقتدارکو دوام بخشا۔ کیا جنرل یحییٰ کے اشارے پر عوامی لیگ کے خلاف سازشوں کا حصہ بننے والے سیاستدان نہیں تھے؟ کیا جنرل ضیا کی کابینہ میں اہم وزارتیں قبول کرنے اور اس کے غیر ذمے دارانہ اقدامات کوشرف قبولیت بخشنے والے سیاسی رہنما نہیں تھے؟ کیا پرویز مشرف کے اشارے پر ق لیگ اور پیٹریاٹ بنانے والے سیاستدان نہیں تھے؟
اسی طرح میاں نواز شریف جنھیں تین بار حکومت ملی اور قبل از وقت ختم ہونے کے تجربے سے گذرے۔کیا انھوں نے پارلیمان کو مضبوط بنانے اور سیاسی عمل کو غیر سیاسی قوتوں کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے کسی قسم کے کوئی ٹھوس اقدامات کیے؟اگر نہیں تواب روناکس بات کاہے؟ کیا پارلیمان کو اہمیت دی اور تمام فیصلے اس کے ذریعہ کرنے کو ترجیح دی؟
اگر نہیں تو پارلیمان کی بالادستی کے لیے اب واویلا کس لیے؟ جب اٹھارویں ترمیم کی تیاری کے وقت 62 اور 63کو نکالنے کی بات کی گئی، تو کس سیاسی بصیرت کے تحت اس کی مخالفت کی گئی؟ ان سوالات کا جواب بہر حال میاں صاحبان کو دینا پڑے گا۔
ان سب سے بڑھ کر ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام، نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنے سے گریز، مذہبی جنون پرست قوتوں کے خلاف تادیبی کاروائیاں کرنے کے بجائے ان سے گفت شنید کی کوشش کرنا اور کراچی آپریشن میں مینڈیٹ سے تجاوزکرنے پر متعلقہ اداروں سے پوچھ گچھ اور ان کی سرزنش کرنے کے بجائے الٹا ان کی حوصلہ افزائی کرنا ،کس لغت میں سیاسی عمل کہلائیں گے؟ پھر عرض ہے کہ اس ملک کی بقا صرف وفاقی پارلیمانی جمہوریت سے مشروط ہے۔ مگر یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ملک میں حکمرانی کے دوہرے نظام کا خاتمہ ہو۔
یہ خاتمہ سیاستدانوں کے سیاسی عزم و بصیرت، دوراندیشی اور باہمی اتفاق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یعنی جب سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کی بقا کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایسی قانون سازی اور اقدامات کرنا ہوں گے کہ نہ کوئی طالع آزما جمہوریت پر شب خون مار سکے اور نہ ملک میں کسی قسم کی کوئی متوازی حکومت موجود ہو۔ مگر یہ کام سیاسی عزم و بصیرت کے ساتھ صرف پارلیمان کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔
میاں صاحب جو گذشتہ برس صادق اور امین نہ ہونے کے باعث عوامی نمایندگی کے اداروں کے لیے نااہل قرار دیے جانے کے بعد قومی اسمبلی کی رکنیت اور وزارت عظمیٰ سے فارغ کردیے گئے تھے، پھر اپنی جماعت کی سربراہی اور اب سیاست کے لیے نااہل قرار دے دیے گئے ہیں۔
اس پوری صورتحال نے ملک کے سیاسی نظام کے حوالے سے ان گنت سوالات پیدا کردیے ہیں۔ معاملات اتنے سہل نہیں کہ ان پر ایک نشست میں کوئی فیصلہ کن بات ہوسکے۔ یہ پرت در پرت ایسے الجھے ہوئے معاملات و مسائل ہیں، جنہوں نے اس ملک کو بیک وقت کئی بحرانوں میں مبتلا کردیا ہے۔
اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ کرپشن اور بدعنوانی اس معاشرے کی رگ و پے میں سرطان کی طرح سرائیت کرچکی ہے۔ مگر یہ مرض صرف سیاستدانوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ ریاست کا ہرادارہ اور اس کا ہر بڑا چھوٹا اہلکار اس مرض میں مبتلا ہے۔ معراج محمد خان مرحوم کے سب سے بڑے بھائی دکھی پریم نگری کہا کرتے تھے کہ اس ملک میں دیانت دار وہ ہے، جسے بے ایمانی کا موقع نہیں ملتا یا جو اس قدر بزدل و کم عقل ہے کہ بے ایمانی کرنے کی اہلیت و صلاحیت سے عاری ہے۔
لوگ پوچھتے ہیں کہ پاکستان میں کرپشن کیوں ہے اور اس سے چھٹکارا کیوں ممکن نہیں؟ تو عرض ہے کہ کرپشن بری حکمرانی (Bad Governance) کے بطن سے جنم لیتی ہے۔ جو سیاسی عدم استحکام کے علاوہ میرٹ، شفافیت اور جوابدہی کے واضح میکنزم کی عدم موجودگی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔جب کہ سیاسی عدم استحکام کے بھی کئی کلیدی اسباب ہیں۔ اول، سیاسی جماعتوں میں سیاسی عزم و بصیرت کا فقدان۔دوئم، بیک وقت کئی متوازی نظام حکمرانی، جن میں کچھ دیدنی اور کچھ نادیدنی۔سوئم، ریاستی اداروں کے درمیان عدم اعتماد اور ورکنگ ریلیشن شپ کا موجود نہ ہونا۔ جس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ عدم تعاون۔
پاکستان میں ایک روز بھی اچھی حکمرانی قائم نہیں ہوسکی۔ اس کی بنیادی وجہ ریاست کے منطقی جواز کے بارے میں مختلف حلقوں کی مختلف تشریحات و توجیہات ہیں۔ سیاست دانوں میں بھی ریاست کے منطقی جواز کے حوالے سے پائے جانے والے کنفیوژن نے معاملات کو مزید الجھایا ہے۔ البتہ ان کی اکثریت اس ملک کو ایک وفاقی پارلیمانی جمہوریہ سمجھتی ہے اور قائم رکھنا چاہتی ہے۔
اس کے برعکس منصوبہ ساز وحدانی ریاست بنانے کے خواہاں ہیں، تاکہ اقتدار و اختیار اور فیصلہ سازی پر ان کا کنٹرول قائم رہ سکے۔ متوشش حلقے ملک کو فلاحی جمہوری ریاست بنانے کے خواہاں ہیں، جب کہ طاقتور حلقے اسے سیکیورٹی اسٹیٹ کے طور پر چلانا چاہتے ہیں۔اس مقصد کے لیے وہ بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں کو استعمال بھی کرتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے درمیان پائے جانے والے تضادات کی وجہ سے مزید خرابی بسیار پیدا ہوئی ہے۔اس حوالے سے پروفیسر حمزہ علوی مرحوم لکھتے ہیں کہ لیاقت علی خان گوکہ مسلم لیگ کی اہم سیاسی شخصیت تھے ، جنھیں ملک کاپہلا چیف ایگزیکٹو مقررکیا گیا تھا۔ مگر ان کی حیثیت رابطہ افسر جتنی بھی نہیں تھی۔
تمام ریاستی امور سیکریٹری جنرل کے سیکریٹریٹ میں طے کیے جاتے تھے، جن کی منظوری گورنر جنرل سے لی جاتی تھی۔ یوں ملک کے وزیر اعظم یعنی پارلیمانی جمہوری نظام میں ریاست کے انتظامی سربراہ کی حیثیت روز اول سے شو کیس میں سجے مجسمے سے زیادہ کبھی نہیں رہی۔ لہٰذا جس متوازی حکومت کا سلسلہ پہلے روز کیا گیا، اس کا تسلسل آج تک جاری ہے۔
جب نظام حکمرانی بگڑتا ہے تو اس کے اثرات ہر ذیلی نظام پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ نظام عدل بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔ نظام عدل میں جسٹس منیر نے جس جوڈیشیل ایکٹو ازم کی بنیاد رکھی، وہ کسی نہ کسی شکل میں آج تک جاری ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ اس دوران کچھ ایسے جج صاحبان بھی آئے، جنہوں نے عدل کی اسلامی اور عالمی روایات کو مقدم رکھنے کی خاطر نادیدہ قوتوں کے دباؤ کی پرواہ کیے بغیر آئین اور قانون کی درست تشریحات کی روشنی میں میرٹ پر فیصلے دینے کی کوشش کی۔ ان ججوں میں جسٹس حمودالرحمان، جسٹس دوراب پٹیل، جسٹس محمد حلیم، جسٹس صفدرشاہ، جسٹس سعیدالزماں صدیقی، جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس ناصر اسلم زاہد وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ لیکن ستر برسوں کے دوران ہمارا پورا عدالتی نظام زیادہ تر متوازی حکومتوں کے ہی زیر اثر رہاہے۔
جب ہم بری حکمرانی کی بات کرتے ہیں، تو اس میں غیر سیاسی قوتوں نے جو کردار ادا کیا وہ اپنی جگہ۔ مگر سیاستدانوں نے بھی سیاسی عزم و بصیرت کا مظاہرہ کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ مثلاً سیاستدانوں کی اکثریت یہ ضرور سمجھتی ہے کہ ملک کی اساس وفاقی پارلیمانی جمہوریت ہے۔ مگر جب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرانے کا وقت آیا، توانھوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے بجائے نادیدہ قوتوں کی ڈفلی پر رقص کرنا قبول کیا۔ جب بھی پارلیمان وجود میں آئی، اسے بے توقیرکرنے میں خود ہی نمایاںکردار ادا کیا۔کیا وہ سیاستدان نہیں تھے؟
جنہوں نے ایوب خان کے اقتدارکو دوام بخشا۔ کیا جنرل یحییٰ کے اشارے پر عوامی لیگ کے خلاف سازشوں کا حصہ بننے والے سیاستدان نہیں تھے؟ کیا جنرل ضیا کی کابینہ میں اہم وزارتیں قبول کرنے اور اس کے غیر ذمے دارانہ اقدامات کوشرف قبولیت بخشنے والے سیاسی رہنما نہیں تھے؟ کیا پرویز مشرف کے اشارے پر ق لیگ اور پیٹریاٹ بنانے والے سیاستدان نہیں تھے؟
اسی طرح میاں نواز شریف جنھیں تین بار حکومت ملی اور قبل از وقت ختم ہونے کے تجربے سے گذرے۔کیا انھوں نے پارلیمان کو مضبوط بنانے اور سیاسی عمل کو غیر سیاسی قوتوں کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے کسی قسم کے کوئی ٹھوس اقدامات کیے؟اگر نہیں تواب روناکس بات کاہے؟ کیا پارلیمان کو اہمیت دی اور تمام فیصلے اس کے ذریعہ کرنے کو ترجیح دی؟
اگر نہیں تو پارلیمان کی بالادستی کے لیے اب واویلا کس لیے؟ جب اٹھارویں ترمیم کی تیاری کے وقت 62 اور 63کو نکالنے کی بات کی گئی، تو کس سیاسی بصیرت کے تحت اس کی مخالفت کی گئی؟ ان سوالات کا جواب بہر حال میاں صاحبان کو دینا پڑے گا۔
ان سب سے بڑھ کر ملک میں فوجی عدالتوں کا قیام، نیشنل ایکشن پلان پر عمل کرنے سے گریز، مذہبی جنون پرست قوتوں کے خلاف تادیبی کاروائیاں کرنے کے بجائے ان سے گفت شنید کی کوشش کرنا اور کراچی آپریشن میں مینڈیٹ سے تجاوزکرنے پر متعلقہ اداروں سے پوچھ گچھ اور ان کی سرزنش کرنے کے بجائے الٹا ان کی حوصلہ افزائی کرنا ،کس لغت میں سیاسی عمل کہلائیں گے؟ پھر عرض ہے کہ اس ملک کی بقا صرف وفاقی پارلیمانی جمہوریت سے مشروط ہے۔ مگر یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ملک میں حکمرانی کے دوہرے نظام کا خاتمہ ہو۔
یہ خاتمہ سیاستدانوں کے سیاسی عزم و بصیرت، دوراندیشی اور باہمی اتفاق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یعنی جب سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کی بقا کے ایک نکاتی ایجنڈے پر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایسی قانون سازی اور اقدامات کرنا ہوں گے کہ نہ کوئی طالع آزما جمہوریت پر شب خون مار سکے اور نہ ملک میں کسی قسم کی کوئی متوازی حکومت موجود ہو۔ مگر یہ کام سیاسی عزم و بصیرت کے ساتھ صرف پارلیمان کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔