کھیل پرانا کھلاڑی نئے
طریقہ ِ واردات بلکل ایک جیسا تھا۔ جیسا کل ہوا تھا ویسا ہی آج ہوا۔
اس بات پر حیرت مت کیجیے کہ اگر آج نواز شریف صاحب اور ان کی جماعت آج سینیٹ کے چئیرمین پر تنقید کر رہے ہیں۔ کوئی بعید نہیں کہ کل وہ کہہ رہے ہوں کہ اس سے بہتر آدمی کوئی نہیں ہے۔ یہ سیاست کے رنگ ہیں۔
آج کا دشمن کل بغل میں بیٹھ کر واہ واہ کر رہا ہو تا ہے۔ مجھے اس بارے میں کوئی تعجب نہیں ہوا تھا جب مسلم لیگ نے یہ کہا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی رضا ربانی کو لاتی ہے تو ہم اُسے ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔ مگر یہ ہی رضا ربانی تھے جسے پیپلز پارٹی نے جب ڈپٹی چئیرمین کے لیے کھڑا کیا تھا تو نواز شریف نے سخت مخالفت کی تھی۔یہ بھی بڑا ہی دلچسپ واقعہ ہے۔
2 مارچ 1994ء کو سینیٹ کا الیکشن ہوا۔ اس زمانے میں سینیٹ کا ایوان 87 ممبران پر مشتمل تھا ۔ اس الیکشن میں 19 نشستیں لینے کے بعد اب پیپلز پارٹی سینیٹ میں 40 نشستیں لے کر سب سے بڑی جماعت بن چکی تھی۔ بینظیر بھٹو کا دوسرا دور حکومت تھا۔ اور اس بات کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش ہوئی تھی کہ پیپلزپارٹی اور اُس کی حلیف جماعتیں ہر صورت میں اکثریت حاصل کر لیں۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔
ایک دوسرے پر شدید الزامات لگائے گئے۔ یہاں تک کہ کہا جاتا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں دس اراکین نے اپنے بیلٹ پیپر خالی چھوڑ دیے تھے۔ پیپلز پارٹی کو یہ شک تھا کہ ان کی حلیف جماعتوں کے لوگ ہیں جس کی وجہ سے پنجاب اسمبلی کی طے شدہ نشستیں حاصل نہیں ہو سکیں۔ لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی اکثریت تھی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح5 مزید ممبران حاصل کر کے سینیٹ میں اپنا چئیرمین لے آئینگے۔ مگر اُس زمانے میں ایک بار پھر بلوچستان کو حقوق دلانے کی بات ہوئی۔
اس بار جس طرح مسلم لیگ والے طنزیہ انداز میں کہتے ہیں کہ بلوچستان کو حق دلانے کے نام پر سیاسی چال کھیلی گئی ہے اور انھیں دور کیا گیا ہے ۔بالکل اسی طرح کی چال نواز شریف صاحب نے 1994ء میں کھیلی تھی۔ پیپلز پارٹی سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی تھی۔ اس کا راستہ روکنے کے لیے نواز شریف صاحب نے بلوچستان میں اکبر بگٹی کی پارٹی سے ہاتھ ملایا۔ فارمولا یہ طے ہوا کہ پیپلز پارٹی کو روکنے کے لیے تمام اپوزیشن ایک ہو جائے گی۔اور اس کے نتیجے میں بلوچستان کا حق محرومی دور کیا جائیگا اور ڈپٹی چئیرمین بلوچستان سے ہوگا۔
طریقہ ِ واردات بلکل ایک جیسا تھا۔ جیسا کل ہوا تھا ویسا ہی آج ہوا۔ فرق یہ ہے کہ پہلے بلوچستان کو حق دلانے کے نام پر نواز شریف نے پیپلز پارٹی کا راستہ روکا اور اب اکثریت کے باوجود نواز شریف کا راستہ رک گیا۔
جس طرح ابھی تمام چھوٹی بڑی اپوزیشن کی جماعتیں بلوچستان کو حق دلانے کے لیے ایک ہو گئی بلکل یہ ہی چال نواز شریف صاحب نے کھیلی تھی۔ تما م چھوٹی بڑی اپوزیشن جماعتوں کو ایک کیا گیا۔ MQM۔ANP جمہوری وطن پارٹی وغیرہ سب تھے۔ اور طے یہ ہوا کہ وسیم سجاد اپوزیشن کی طرف سے چئیرمین سینیٹ ہونگے۔ جیسے ابھی سراج الحق صاحب نے اپوزیشن کے امیدوار کا ساتھ دیا بلکل اسی طرح قاضی حسین صاحب نے بھی وسیم سجاد کی حمایت کر دی۔
بلوچستان کی محرومی کے لیے اس بار سنجرانی صاحب آئے تو مسلم لیگ نے کہا کہ یہ کہاں سے آگے۔ بالکل اسی طرح نواز شریف صاحب نے اکبر بگٹی کی پارٹی کے بلوچستان سے ایک رکن عبدالجبار کو ڈپٹی چئیرمین کے لیے منتخب کیا تو سب پوچھ رہے تھے کہ یہ کہا سے آگئے۔
پیپلز پارٹی نے بھی اپنا کارڈ کھیلا اور بلوچستان سے منظور گچکی کو چئیرمین کے لیے امیدوار مقرر کیا ۔منظور گچکی کا تعلق بلوچستان سے ہی تھا لیکن وہ اکبر بگٹی کی پارٹی سے پیپلز پارٹی کی طرف آئے تھے۔ ا ب آئیے ڈپٹی چئیرمین پر۔ بینظیر بھٹو نے ڈپٹی چئیرمین کے لیے رضا ربانی کا نام دیا۔ نواز شریف کو اُس وقت تک رضا ربانی کی وہ خصوصیات کا معلوم نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے شاید انھوں نے اُس وقت مخالفت کی تھی۔
اصولی طور پر پیپلز پارٹی اکثریت میں تھی۔ جیسے اس بار مسلم لیگ تعداد میں زیادہ تھی۔ پیپلز پارٹی ہار گئی۔ ان کی نشستیں 40 تھیں۔ لیکن ان کے چئیرمین کو 36 ووٹ ملے۔ اور اپوزیشن کے امیدوار وسیم سجاد کو 48 ووٹ ملے۔ پیپلز پارٹی نے اُسی طرح شور مچایا جس طرح ابھی مسلم لیگ مچا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے امیداور جو اب مسلم لیگ کے چہیتے ہیں۔رضا ربانی بھی ہار گئے۔ تاریخ نے خود کو دہرایا ہے۔ کھیل اُسی طرح ہوا ہے جیسے کہ پہلے تھا۔ فرق بس یہ ہے کہ ٹیموں کی پوزیشن بدل گئی ہے۔
جیسے آج MQMسے لے کر تحریک انصاف تک اور پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ تک سب یہ کہہ رہے ہیں کہ نوٹ چلے ہیں بلکل اسی طرح 1994ء کے ایلکشن میں ہوا تھا۔ بینظیر وزیر اعظم تھیں اور انھیں کہنا پڑا کہ ہمارے لوگوں نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ مگر ہم کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہونگے ۔ یہ ہی بات آج نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ ہم کسی کے ہاتھوں بلیک میل نہیں ہونگے۔ لوگ لاکھ کہتے رہے کہ یہ 90ء کا وقت نہیں ہے۔ مگر سیاست میں چالیں ساری وہ ہی پرانی ہیں۔ بس کبھی کھلاڑی بولنگ کراتا ہے اور کبھی بیٹنگ۔ اس لیے نہ تو سنجرانی کا انتخاب نیا ہے اور نہ ہی سینیٹ میں اکثریت ہوتے ہوئے بھی خود کو کمزور سمجھنے کا عمل نیا ہے۔ کہانی پرانی ہے کردار بدلتے رہتے ہیں۔
اسی طرح کی ایک پرانی کہانی کو پھر سے دہرایا جا رہا ہے۔ اب پھر کردار بدل گئے ہیں۔ چہرے نئے آگئے ہیں لیکن کھیل سارا پرانا ہے۔ بلوچستان میں کہانی کے کردار نبھانے والوں کا انتخاب ہو چکا ہے پنجاب کے لیے سارے کردار دیکھ لیے گئے ہیں۔ سندھ میں لوگوں کو چُن لیا گیا ہے۔ لیکن اس کے شروع ہونے میں تھوڑا سا وقت ہے۔یہ وقت کب ہو گا؟
سندھ میں ایک جدید اور پڑھی لکھی قیادت کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ چلتے پھرتے پرزے میرے کانوں میں کئی دنوں سے سرگوشی کر رہے ہیں کہ نیا خون اور نیا جوش چاہیے جو واقعی نیا پاکستان ہو۔ میں نے یہ بات سندھ کی سیاست اور اثر و رسوخ رکھنے والے ایک ''بڑے'' سے پوچھی۔ انھوں نے بھی بغیر کسی لگی لپٹی کہ کہا کہ ہمیں بھی نگراں حکومت کا انتظار ہے۔
اشاروں میں بات سمجھ جائیگا۔ حالیہ دنوں سندھ میں ایک نشست کے لیے الیکشن ہوا تھا۔ جس میں پیپلزپارٹی کے خلاف مسلم لیگ فنکشنل کا امیدوار تھا ۔ اس علاقے کی ایک بااثر شخصیت نے پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر مخالف امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ سندھ کی بااثر شخصیت نے مجھے بتایا کہ مخالف کی حمایت کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُس سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی۔ اُس کی زمین پر قبضہ کر لیا گیا۔ میرے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ ہم اپنے ایسے دوستوں کو مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے۔
لوگ اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ نگراں حکومت آ جائے۔ سندھ ہو یا پنجاب یا پھر بلوچستان یا پھر خیبرپختوانخوا۔ یہاں کے دیہی علاقوں میں پولیس، پٹواری اور مختار کار بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے وڈیرے ہو ں یا پھر برادری کے سربراہ اس وقت موجودہ حکومت سے ٹکرا نہیں سکتے۔
ورنہ ان سے سب کچھ چھین جاتا ہے۔ سندھ کی سیاست میں اہمیت رکھنے والے اس شخص نے مجھے کہا کہ آگے آگے دیکھئیے ہوتا ہے کیا۔ جیسے جیسے پنجاب میں مسلم لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی نگران سیٹ اپ کے قریب آئیگی توڑ پھوڑ کا عمل تیز ہو گا۔ کچھ نئے اتحاد بننے والے ہیں۔ سندھ واضح طور پر تین حصوں میں الگ الگ سیاسی مرکز بنے گا۔ پیپلز پارٹی بھی نگراں حکومت میں ایسے ہی لوگ چاہتی ہے جو اپنا رخ تبدیل نہ کر لیں۔
سندھ میں کئی لوگ لائن میں لگ چکے ہیں کہ وہ اس سیٹ اپ کا حصہ بن جائیں۔ کچھ تو اس امید میں ہیں کہ شاید نگران 2 ماہ کی بجائے 2 سال تک چل جائے۔ لیکن سندھ کی سب جماعتیں جولائی کے لیے خود کو تیار کر چکی ہے۔ دیکھنا یہ ہے موجودہ حکومت کا وقت ختم ہونے پر کون اس یقین سے مخالف گروپ میں جائیگا کہ اگلی بار پیپلز پارٹی نہیں آئیگی۔