فیصلہ عوام کا
اکثریت جو لوگ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں وہ صرف اور صرف اقتدار حاصل کرنے کی ہوس میں مبتلا ہوتے ہیں۔
KARACHI:
الیکشن نزدیک ہیں، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کے بارے میں پیش گوئیاں، تجزیے اور تبصر ے جاری ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی اپنے اپنے داؤ پیچ لڑا رہی ہے، اندرون خانہ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پروان چڑھ رہے ہیں۔ ایک عجیب گہماگہمی طاری ہے، کوئی مظلومیت کی تصویر بنا بیٹھا ہے، تو کسی نے کسی کو للکارنا شروع کردیا ہے، تو کوئی جوڑ توڑ میں لگا ہوا ہے۔
پھر وہی چہرے جنھوں نے پانچ سال مکمل ہونے کے باوجود عوام کے لیے کچھ نہ کیا وہ پھر نئے وعدوں کا جال لے کر آگئے ہیں۔ شکاری بھی وہی، پرندے بھی وہ ہی ہیں، اب دیکھیں کون سا شکاری کتنے پرندے شکارکرتا ہے۔ ہمارے لیے تو صرف اچھی بات یہ ہو کہ الیکشن آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں۔
بقول ساہیوال سے تعلق رکھنے والے سلیم انصاری ایڈووکیٹ جنھوں نے الیکشن کے موضوع پر بات کرتے ہوئے حضرت علی کا قول دہرایا کہ مومن ایک سوراخ سے بار بار ڈسا نہیں جاتا۔ اسی لیے آپ کا کہنا ہے کہ ووٹ کی اہمیت کو جاننے اور ماننے اور اس بات کا شعور پھیلانے کی ضرورت ہے۔
بات تو سچ ہے مگر اس میں کچھ رسوائی اس طرح سے ہے کہ عوام کو اپنی طاقت کا اندازہ ہی نہیں۔ سرداروں، قبیلوں، برادریوں کے اس دور میں جس کا حکم مل جاتا ہے، ٹھپہ بھی وہیں لگ جاتا ہے، انھیں کوئی سروکار نہیں کہ کس پارٹی کا منشورکیا ہے، کس پارٹی کو ہم کتنی بار آزما چکے ہیں، بس ہم تو اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں، جہاں حکم مل گیا، چلا گیا۔
اکثریت جو لوگ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں وہ صرف اور صرف اقتدار حاصل کرنے کی ہوس میں مبتلا ہوتے ہیں، سماجی خدمت اور عوامی بھلائی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، اس لیے وہ یہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے جائز ناجائز حربے استعمال کرتے ہیں۔
اپنے سیاسی اور حکومتی اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا کر عوام کو وہ تصویر دکھائی جاتی ہے، جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا، کیونکہ جب یہ ہی اقتدار ان کے ہاتھوں میں آجاتا ہے تو پھر تو کون ہم کون والا محاورہ حقیقت بن جاتا ہے کہ یہ لوگ پارلیمنٹ میں پہنچ کر عوامی بھلائی اور ملک کی ترقی کے منصوبے بنانے کے بجائے ایسی قراردادیں اور منصوبوں کو کامیاب بناتے ہیں۔
جس کے ذریعے ان کی دولت میں اضافہ ہو، عوام جائیں بھاڑ میں۔ اپنے ہاں کام کرنے والوں کو فالتو چھٹی نہ دینے والے، ان کی تنخواہ میں سے کٹوتیاں کرنے والے خود پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں آنا گوارا نہیں کرتے، مگر تنخواہوں اور حاضری الاؤنسوں پر اپنا جدی پشتی حق سمجھ کر وصول کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ اس کے حصول کے لیے جھوٹی حاضری لگانے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم سے لے کر اس کی خواہش رکھنے والے عمران خان تک بتا دیں کہ وہ کتنی بار پارلیمنٹ میں تشریف لائے اور اس جگہ کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا۔ کوئی قانون سازی ایسی ہوئی جوکہ غریب کے منہ میں نوالہ ڈالنے میں حصے دار بنی ہو؟
اب یہ عوام کے سوچنے کا وقت ہے کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر اپنے حق رائے دہی کو استعمال کریں، آزمائے ہوئے لوگوں کو آزمانا توبڑی حماقت ہے، کیونکہ ووٹ دینا بھی ایک اہم شرعی فریضہ ہے، ایک ایک ووٹ قیمتی ہے۔ قرآن پاک کی رو سے ووٹ کی تین بڑی شرعی حقیقتیں ہیں، شہادت، صداقت اور تیسری وکالت، یعنی ووٹ کے ذریعے ہم گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اس بات کا اہل ہے کہ ووٹ کی ذمے داری اٹھا سکے۔
اگر جان بوجھ کر ایسی غلطی کی جائے تو شرعاً یہ جرم ہے، کیونکہ نااہل شخص کواس مقام تک پہنچانے میں اس ووٹ کا ہی بڑا کردار ہوتا ہے، ایک ایک ووٹ مل کر اس تعداد تک پہنچتے ہیں، جہاں ہما ان لوگوں کے سر پر بیٹھتا ہے، اسی لیے ووٹ کی عزت اور بحالی کے لیے ضروری ہے کہ چناؤ کرتے وقت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا جائے۔ جو اہلیت پر پورا نہیں اترتے خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے منشور سماجی اور خارجی امور سے خالی ہوں، ایسے لوگوں کو ملک کا امین بنانے میں اپنا کردار ادا نہ کریں۔
مفتی تقی عثمانی نے ایک اجتماع جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے بالکل درست فرمایا ہے کہ ہر محب وطن پاکستانی پر بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ملکی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کی سالمیت و استحکام اور بہتر مستقبل کے لیے ووٹ کی اس مقدس امانت کا درست استعمال کرے، ذات برادری، قوم، قبیلے، سرداروں، وڈیروں کی تفریق سے بالاتر ہوکر ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالے۔ جان بوجھ کر نااہل امیدواروں کو ووٹ دینا اخلاقی اور شرعی جرم ہے۔
جو لوگ ملک کے درپردہ مجرم ہوں، اپنی دولت جو کہ پاکستان سے کمائی ہو، ان کو ساتوں براعظموں میں چھپا کر رکھا ہو، ملک کے دشمن جن کے دوست ہوں، اپنے ہی ریاستی اداروں کو جو حقیر جانتے ہوں، ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر ہم بھی ان تمام برائیوں میں شریک ہوجاتے ہیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم
الیکشن نزدیک ہیں، اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کے بارے میں پیش گوئیاں، تجزیے اور تبصر ے جاری ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی اپنے اپنے داؤ پیچ لڑا رہی ہے، اندرون خانہ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پروان چڑھ رہے ہیں۔ ایک عجیب گہماگہمی طاری ہے، کوئی مظلومیت کی تصویر بنا بیٹھا ہے، تو کسی نے کسی کو للکارنا شروع کردیا ہے، تو کوئی جوڑ توڑ میں لگا ہوا ہے۔
پھر وہی چہرے جنھوں نے پانچ سال مکمل ہونے کے باوجود عوام کے لیے کچھ نہ کیا وہ پھر نئے وعدوں کا جال لے کر آگئے ہیں۔ شکاری بھی وہی، پرندے بھی وہ ہی ہیں، اب دیکھیں کون سا شکاری کتنے پرندے شکارکرتا ہے۔ ہمارے لیے تو صرف اچھی بات یہ ہو کہ الیکشن آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوں۔
بقول ساہیوال سے تعلق رکھنے والے سلیم انصاری ایڈووکیٹ جنھوں نے الیکشن کے موضوع پر بات کرتے ہوئے حضرت علی کا قول دہرایا کہ مومن ایک سوراخ سے بار بار ڈسا نہیں جاتا۔ اسی لیے آپ کا کہنا ہے کہ ووٹ کی اہمیت کو جاننے اور ماننے اور اس بات کا شعور پھیلانے کی ضرورت ہے۔
بات تو سچ ہے مگر اس میں کچھ رسوائی اس طرح سے ہے کہ عوام کو اپنی طاقت کا اندازہ ہی نہیں۔ سرداروں، قبیلوں، برادریوں کے اس دور میں جس کا حکم مل جاتا ہے، ٹھپہ بھی وہیں لگ جاتا ہے، انھیں کوئی سروکار نہیں کہ کس پارٹی کا منشورکیا ہے، کس پارٹی کو ہم کتنی بار آزما چکے ہیں، بس ہم تو اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں، جہاں حکم مل گیا، چلا گیا۔
اکثریت جو لوگ الیکشن میں حصہ لیتے ہیں وہ صرف اور صرف اقتدار حاصل کرنے کی ہوس میں مبتلا ہوتے ہیں، سماجی خدمت اور عوامی بھلائی سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا، اس لیے وہ یہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے جائز ناجائز حربے استعمال کرتے ہیں۔
اپنے سیاسی اور حکومتی اثر و رسوخ کا فائدہ اٹھا کر عوام کو وہ تصویر دکھائی جاتی ہے، جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا، کیونکہ جب یہ ہی اقتدار ان کے ہاتھوں میں آجاتا ہے تو پھر تو کون ہم کون والا محاورہ حقیقت بن جاتا ہے کہ یہ لوگ پارلیمنٹ میں پہنچ کر عوامی بھلائی اور ملک کی ترقی کے منصوبے بنانے کے بجائے ایسی قراردادیں اور منصوبوں کو کامیاب بناتے ہیں۔
جس کے ذریعے ان کی دولت میں اضافہ ہو، عوام جائیں بھاڑ میں۔ اپنے ہاں کام کرنے والوں کو فالتو چھٹی نہ دینے والے، ان کی تنخواہ میں سے کٹوتیاں کرنے والے خود پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں آنا گوارا نہیں کرتے، مگر تنخواہوں اور حاضری الاؤنسوں پر اپنا جدی پشتی حق سمجھ کر وصول کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ اس کے حصول کے لیے جھوٹی حاضری لگانے کو بھی جائز سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم سے لے کر اس کی خواہش رکھنے والے عمران خان تک بتا دیں کہ وہ کتنی بار پارلیمنٹ میں تشریف لائے اور اس جگہ کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا۔ کوئی قانون سازی ایسی ہوئی جوکہ غریب کے منہ میں نوالہ ڈالنے میں حصے دار بنی ہو؟
اب یہ عوام کے سوچنے کا وقت ہے کہ وہ بہت سوچ سمجھ کر اپنے حق رائے دہی کو استعمال کریں، آزمائے ہوئے لوگوں کو آزمانا توبڑی حماقت ہے، کیونکہ ووٹ دینا بھی ایک اہم شرعی فریضہ ہے، ایک ایک ووٹ قیمتی ہے۔ قرآن پاک کی رو سے ووٹ کی تین بڑی شرعی حقیقتیں ہیں، شہادت، صداقت اور تیسری وکالت، یعنی ووٹ کے ذریعے ہم گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اس بات کا اہل ہے کہ ووٹ کی ذمے داری اٹھا سکے۔
اگر جان بوجھ کر ایسی غلطی کی جائے تو شرعاً یہ جرم ہے، کیونکہ نااہل شخص کواس مقام تک پہنچانے میں اس ووٹ کا ہی بڑا کردار ہوتا ہے، ایک ایک ووٹ مل کر اس تعداد تک پہنچتے ہیں، جہاں ہما ان لوگوں کے سر پر بیٹھتا ہے، اسی لیے ووٹ کی عزت اور بحالی کے لیے ضروری ہے کہ چناؤ کرتے وقت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا جائے۔ جو اہلیت پر پورا نہیں اترتے خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، ان کے منشور سماجی اور خارجی امور سے خالی ہوں، ایسے لوگوں کو ملک کا امین بنانے میں اپنا کردار ادا نہ کریں۔
مفتی تقی عثمانی نے ایک اجتماع جمعہ سے خطاب کرتے ہوئے بالکل درست فرمایا ہے کہ ہر محب وطن پاکستانی پر بھاری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ وہ ملکی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کی سالمیت و استحکام اور بہتر مستقبل کے لیے ووٹ کی اس مقدس امانت کا درست استعمال کرے، ذات برادری، قوم، قبیلے، سرداروں، وڈیروں کی تفریق سے بالاتر ہوکر ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالے۔ جان بوجھ کر نااہل امیدواروں کو ووٹ دینا اخلاقی اور شرعی جرم ہے۔
جو لوگ ملک کے درپردہ مجرم ہوں، اپنی دولت جو کہ پاکستان سے کمائی ہو، ان کو ساتوں براعظموں میں چھپا کر رکھا ہو، ملک کے دشمن جن کے دوست ہوں، اپنے ہی ریاستی اداروں کو جو حقیر جانتے ہوں، ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر ہم بھی ان تمام برائیوں میں شریک ہوجاتے ہیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم